جب1981 میں فرانسیسی ثقافتی مرکز ‘الائنس فرانسیز’ احمد آباد میں شروع ہوا تھاتب نریندر مودی نے اس کی رکنیت لی تھی اور آٹھ سال تک اس سے وابستہ رہے۔
نریندر مودی فرانسیسی صدرامانوئل میکروں کے ساتھ۔ (فوٹو بہ شکریہ: پی آئی بی)
وزیر اعظم نریندر مودی نے پیرس میں کہا کہ جب 1981 میں الائنس فرانسیز(اے ایف)، احمد آباد شروع ہوا تھا، تو وہ اس کے پہلے رکن تھے۔ تاہم ،دسمبر 1981 میں جورسیدانہیں جاری کی گئی تھی، اس میں ممبرشپ نمبر آٹھ درج کیا گیا تھا اور ممبرشپ نمبر اے–011 تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ ان سے پہلے بھی کچھ لوگ ضرور رہے ہوں گے۔ لیکن بیان بازی میں اتنا اوپر نیچے تو چلتاہے۔
اے ایف ،احمد آباد کے 73سالہ بانی ڈائریکٹرایشیل فوہلرکہتے ہیں،’یقینی طور پر نریندر بھائی پہلے دن ہی ممبر بنے تھے۔ اس وقت میں نہیں جانتا تھا کہ وہ سیاست میں ہیں، حالانکہ انہوں نے اپنے پتے میں ہیڈگیوار بھون لکھا تھا، جواحمد آباد میں آر ایس ایس کا ہیڈکوارٹر ہے۔ ان کے ممبرشپ کارڈ پر میری بیوی شانتیل کے دستخط ہیں۔’
ایشیل فوہلر اور نریندر مودی ایک ہی وقت کے لوگ ہیں اور ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ 1989 میں فوہلر دہلی میں فرانسیسی سفارت خانے چلے گئے تھے اور اب ممبئی میں رہتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں،’ہمارے 1000 سے زیادہ ممبر تھے، لیکن نریندر بھائی ان چند لوگوں میں سے تھے جن سے میرا تعلق تھا۔ میں ہر ثقافتی تقریب میں دروازے پر کھڑاہوکر آنے والوں کا استقبال کرتا تھا اور مجھے یاد ہے کہ نریندر بھائی باقاعدگی سے آتے تھے۔ وہ ایک بار میرے دفتر آئے تھےاور لائبریری سے فوٹو گرافی کی ایک مہنگی کافی ٹیبل بک لینے کی اجازت مانگی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ بعد میں، جب مشہور فرانسیسی فوٹوگرافر اینری کارتیئے بریساں احمد آباد آئے تھےتو میں نے نریندر بھائی کو ان سے ملاقات کے لیے بلایا تھا۔’
مودی آٹھ سال تک اے ایف، احمد آباد کے رکن رہے اور پیرس میں ان کی تقریر سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے دل میں اس کی خوشگواریادیں ہیں۔ اے ایف، احمد آباد کے صدر پون بیکری کو پہلی بار 2013 میں اس تعلق کے بارے میں پتہ چلا تھا۔ تب مودی گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے۔ انہوں نے بتایا،’میں انہیں ہمارے ایک کنسرٹ میں مدعو کرنے کے لیے گیا تھا اور انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ کبھی اے ایف کے باقاعدہ رکن رہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ وہ لائبریری کا کافی استعمال کیاکرتے تھے۔’
سی ایم مودی اس کنسرٹ میں شامل نہیں ہوئے اور اے ایف، احمد آباد نے بھی اپنی طرف سے کبھی اس تعلق کاکوئی فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی۔ (تاہم، جب مودی وزیر اعظم بنے تو اس نے ان کا اصل رکنیت کارڈ اور رسید ڈھونڈ کر انہیں اس کی ایک کاپی بھیجی تھی۔)
وائبس آف انڈیا نے اے ایف، احمد آباد کےڈائریکٹرامانوئل بوتیو سے اس بارے میں پوچھا کہ مودی نے اپنی تقریر میں اے ایف، احمد آباد کا ذکر کیا، جس کےجواب میں انہوں نے کہا،’ظاہر ہے کہ مجھے بہت اچھا لگا۔ ہم جانتے تھے کہ وزیراعظم ہمارے ممبر رہے ہیں، لیکن ہم نے کبھی اس بات کو مشتہر نہیں کیا۔ ہم ایک ثقافتی ادارہ ہیں اور ہمیں سیاست میں پڑنے کی اجازت نہیں ہے۔
احمد آباد کے کچھ معزز لوگوں نے اے ایف، احمد آباد کوقائم کیا تھا اور یہ گجرات میں شروع ہونے والا پہلا بین الاقوامی ثقافتی مرکز تھا، اور شاید31 سالہ مودی کے دل میں اس کے لیے جگہ رہی ہوگی۔ اس کی پہلی صدر مرنالنی سارا بھائی تھیں، جن کے بعد بی وی دوشی نے یہ ذمہ داری سنبھالی۔ بعد کے صدور میں سے ایک نام مشہور فوٹوگرافر پرمانند دلواڑی کابھی تھا، جن کا کہنا ہےکہ،’میں بھی اے ایف کے ابتدائی دنوں سے ہی اس کاممبر رہا ہوں، لیکن مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں وہاں کبھی مودی جی سےملا۔ اس وقت وہ کوئی نامی گرامی شخص نہیں ہوا کرتے تھے۔
یہ سچ ہے کہ 80 کی دہائی کے اوائل میں کسی کوبھی اندازہ نہیں رہا ہوگا کہ نوجوان مودی ایک دن وزیر اعظم بنیں گے۔ایشیل فوہلر کہتے ہیں،’وہ ان دنوں اپنے آپ میں ہی رہاکرتے تھے۔ وہ بہت ہوشیار تھے۔’
(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)