سماجی انصاف اور تفویض اختیارات کے وزیر وریندر کمار نے راجیہ سبھا کو بتایا کہ گزشتہ تین سالوں کے دوران سیور اور سیپٹک ٹینکوں کی صفائی کے دوران حادثات کی وجہ سے 161 افراد کی موت ہوئی ہے۔ دریں اثنا صفائی ملازمین کی تنظیم ’صفائی کرمچاری آندولن‘کے سربراہ بیجواڑہ ولسن نے کہا کہ حکومت کی طرف سے ہاتھ سے غلاظت صا ف کرنے والوں کو مسترد کرنا کوئی نئی بات نہیں۔
علامتی تصویر، فوٹو: پی ٹی آئی
نئی دہلی: حکومت نے بدھ کو پارلیامنٹ میں کہا کہ ہاتھ سے غلاظت کی صفائی (مینول اسکیوینجنگ) کی وجہ سے کسی شخص کی موت کی کوئی رپورٹ نہیں ہے، لیکن پچھلے تین سالوں کے دوران سیور اور سیپٹک ٹینکوں کی صفائی کے دوران حادثات کی وجہ سے 161 لوگوں کی موت ہوئی ہے۔
سماجی انصاف اور تفویض اختیارات کےوزیر وریندر کمار نے راجیہ سبھا کو ضمنی سوالات کے جواب میں یہ جانکاری دی۔ انہوں نے کہا کہ موصولہ رپورٹس کے مطابق فی الحال کوئی بھی شخص ہاتھ سے غلاظت صاف کرنے کا کام نہیں کر رہا ہے۔
راجیہ سبھا میں بی جے پی کے رکن اسمبلی مہیش پوددار نے جاننا چاہا تھاکہ پچھلے تین سالوں میں غلاظت صاف کرنے والے کتنے لوگوں کی موت ہوئی ہے۔ وزیر نے اپنے تحریری جواب میں کہا، ہاتھ سے غلاظت صاف کرنے کی وجہ سے اموات کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ تاہم گزشتہ تین سالوں کے دوران سیور اور سیپٹک ٹینکوں کی خطرناک صفائی کے دوران حادثات کی وجہ سے 161 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 1993 سے 31 مارچ 2022 تک سیپٹک ٹینک کی صفائی کے دوران 791 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس سلسلے میں متعلقہ قانون کے تحت 536 ایف آئی آر درج کی گئی ہیں اور 703 متاثرین کے لواحقین کو مناسب معاوضہ دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ 136متاثرین کو جزوی ادائیگی کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایسے لوگوں کی شناخت کے لیے 2013 اور 2018 میں دو سروے کیے گئے تھےاور 58098 ایسے لوگوں کی نشاندہی کی گئی تھی۔
ہندوستان ٹائمز کے مطابق، کمار نے کہا کہ مینول اسکیوینجنگ بحالی اسکیم(ایس آر ایم ایس) کے تحت تمام شناخت شدہ اور اہل 58098 ہاتھ سے غلاظت صاف کرنے والوں کےبینک کھاتوں میں براہ راست 40000 روپے کی ایک مشت امدادی رقم جمع کرائی گئی تھی۔ صفائی کرنے والوں کی سب سے زیادہ تعداد اتر پردیش سے سامنے آئی ہے۔
مرکزی وزیر نے کہا کہ وزارت نے 2020 میں ایک موبائل ایپ سوچھتا ابھیان بھی شروع کیا تھاتاکہ ان سے وابستہ گندے ٹوائلٹ اور ہاتھ سے غلاظت کی صفائی کرنے والوں ، اگر کوئی ہو، پرڈیٹا حاصل کیا جا سکے۔
انہوں نے کہا، تاہم، ابھی تک ایک بھی ہاتھ سے غلاظت صاف کرنے والے یا گندے ٹوائلٹ کی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔
انہوں نے ہاتھ سے غلاظت کی صفائی کرنے والوں کی بحالی کے لیے حکومت کی جانب سےاٹھائے گئے اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اب مشینوں سے صفائی پر زور دیا جا رہا ہے اور اس سلسلے میں ملازمین کو تربیت بھی دی جا رہی ہے۔
صفائی ملازمین کے لیے کام کرنے والی تنظیم، ‘صفائی کرمچاری آندولن کے سربراہ بیجواڑہ ولسن نے کہا کہ حکومت کی جانب سے ہاتھ سے غلاظت کی صفائی کرنے والوں کو مسترد کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے اور حکومت اس طرح کے جھوٹے بیانات نہیں دے سکتی۔
انہوں نے کہا، یو پی، مدھیہ پردیش، بہار اور جموں و کشمیر میں سوکھے ٹوائلٹ کی صفائی کا رواج بہت زیادہ ہے۔ ہمارے پاس اس کے ثبوت ہیں اور جب ہم یہ ثبوت دیتے ہیں تو حکومت پولیس کے ساتھ ساتھ ان صفائی ملازمین کو بھی دہشت زدہ کر دیتی ہے۔ میرے پاس ریکارڈ موجود ہیں کہ افسران کس طرح ان سے بات کر رہے ہیں، اس لیے ہو سکتا ہے کہ لوگ ایسے حالات میں کھل کر بیان نہ دیں۔
انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی سے ہاتھ سے غلاظت ڈھونے اور سیور اور سیپٹک ٹینکوں کی صفائی میں لگے لوگوں کے لیے ایک پیکج لانے کی بھی گزارش کی۔
غور طلب ہے کہ اس سے قبل گزشتہ سال دسمبر میں مرکزی حکومت نے پارلیامنٹ کو مطلع کیا تھا کہ ملک میں 58098 ہاتھ سے غلاظت کی صفائی کرنے والے ہیں اور ان میں سے 42594 کا تعلق شیڈیول کاسٹ سے ہے۔
حکومت نے کہا تھا کہ ملک کے ان شناخت شدہ43797 لوگوں میں سے 42594 شیڈیول کاسٹ سے ہیں، جبکہ 421 ایس ٹی سے ہیں۔ کل 431 لوگ دیگر پسماندہ طبقات سے ہیں، جب کہ 351 دیگر زمرے سے ہیں۔
اس سے قبل فروری 2021 میں مرکزی حکومت نے بتایا تھا کہ ملک میں ہاتھ سے غلاظت کی صفائی کرنے والے(مینول اسکیوینجنگ) 66692 افراد کی شناخت کی گئی ہے۔ ان میں سے 37379 لوگ اتر پردیش کے ہیں۔
معلوم ہو کہ ملک میں پہلی بار 1993 میں ہاتھ سے غلاظت کی صفائی پر پابندی لگائی گئی تھی۔ اس کے بعد 2013 میں ایک قانون بنا کر اس پر مکمل پابندی لگا دی گئی۔حالاں کہ آج بھی معاشرے میں غلاظت ڈھونے کی روایت موجود ہے۔
مینول اسکیوینجنگ ایکٹ 2013 کے تحت کسی بھی شخص کو سیو میں بھیجنا مکمل طور پر ممنوع ہے۔ اگر کسی بھی عجیب و غریب صورت حال میں صفائی کرنے والے کو سیور کے اندر بھیجا جائے تو اس کے لیے 27 طرح کے اصولوں پر عمل کرنا ہوگا۔ تاہم ان اصولوں کی مسلسل خلاف ورزی کی وجہ سے آئے دن سیور کی صفائی کے دوران مزدوروں کی موت ہو جاتی ہے۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)