فروری کے اواخر میں سائنس دانوں کی طرف سے پیشگی ا نتباہ کے باوجود، ہندوستانی حکومت نے مارچ کے آخر تک کو وڈ 19 کے پھیلاؤ کی نگرانی اور ٹیسٹنگ کے لئے کوئی حکمت عملی مرتب نہیں کی تھی۔
نئی دہلی: آرٹیکل 14 نے سائنس دانوں کے پریزنٹیشن اور ان کی اندرونی میٹنگ سے جڑے دستاویز کا تجزیہ کیا ہے، جس سے یہ منکشف ہوتا ہے کہ سرکار نے ان کے (سائنس دانوں)ذریعے د یے گئے انتباہ کو نظر انداز کیا اور کووڈ-19 وبا سے نمٹنے کے لئے تیاری شروع کرنے میں تا خیر کی۔
اگر آپ ایکشن لیتے ہیں، تو سب کچھ ٹھیک ہی رہتا ہے۔
ایمس میں شعبہ ادویات کے صدر نوین وگ نے، 29 مارچ 2020 کو یہ بات کووڈ -19 کے ٹاسک فورس (حکومت کے ذریعے تشکیل دیا گیا ٹاسک فورس، جس میں صحت عامہ کے ماہرین شامل ہیں) کے دیگر ممبرا ن سے کہی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ؛
کافی وقت سے ہم باتیں کر رہے ہیں۔ لیکن زمین پر کچھ ہو نہیں رہا ہے۔ نہیں۔ ہمیں سچ بتانا ہی ہوگا۔
اگر ہم ممبئی، پونے، دلی یا بنگلور کے لوگوں کو یہ نہیں بتا سکتے ہیں کہ ان کے شہروں میں کیا ہو رہا ہے، تو پورے 700 اضلاع کو کیسے بتا ئیں گے؟
ٹاسک فورس کے ایک دوسرے ممبر نے یہ بات اسی میٹنگ میں کہی۔
جب نریندر مودی نے 24 مارچ 2020 کو ملک بھر میں لاک ڈاؤن کا اعلان کیا تھا، تو اس کے چار دنوں کے بعد صحت عامہ کے ماہرین پر مشتمل حکومت کے ٹاسک فورس نے دہلی کے ایمس میں ایک بیٹھک کی تھی۔اس میٹنگ میں آئی سی ایم آر ( جسے کووڈ 19 سے نمٹنے کی ذمہ داری دی گئی ہے)کے شعبہ وبائی امراض کے صدر رمن گنگا کھیڑ کر بھی شامل تھے۔
اس میٹنگ کے دستاویز کے تجزیہ سے پتہ چلتا ہے کہ بغیرکسی منصوبہ کے لاک ڈاؤن نافذ کرنے کے بعد بھی، اس وقت تک سرکار کے پاس کورونا وائرس سے متا ثرہ افراد کے لئے ٹیسٹنگ پروٹو کال تک تیار نہیں تھے۔ ایسا لگتا ہے اس میٹنگ میں کنفیوژن بنا رہا اور ماہرین اس بات پر اپنی ناراضگی کا اظہار کر رہے تھے کہ ان کے ذریعے دی گئی پیشگی صلاح کے باوجود سرکار نے کوئی ایکشن نہیں لیا تھا۔
ریکارڈ سے یہ بھی منکشف ہوتا ہے کہ جب سرکار لاک ڈاؤن نافذ کر رہی تھی، تب اس نے اپنے سائنس دانوں کی سفارشات کو نظر انداز کیا۔ فروری 2020 میں سائنس دانوں نے اپنے ریسرچ کے ذریعے، موجودہ سخت لاک ڈاؤن کے بجا ئے،سماج اور سول سوسائٹی کی لیڈر شپ میں سیلف کو رنٹائن اور سیلف ما نیٹرنگ جیسے طریقہ کار کو اپنا نے کا مشورہ دیا تھا۔
ریسرچ نے یہ آگاہ کیا تھا کہ ہندوستان میں مہارماری بری طرح پھیل سکتی ہے۔ اس نے یہ بھی بتا دیا تھا کہ سرکار کے ذریعے اس وقت تک اٹھائے گئے اقدام ناکا فی تھے۔ یہ بھی مشورہ دیا گیا تھا کہ ٹیسٹ کرنے کی رفتار کو تیز کیا جائے۔ لو گوں کو کورنٹائن میں رکھنے کے لئے بڑے پیمانے پر انتظامات کئے جائیں۔ ملکی سطح پر اسے مانیٹر کرنے کے لئے میکا نزم تیار کیے جائیں۔ ہاسپیٹل کے عملہ کے لئے حفا ظتی انتظامات کو یقینی بنا یا جائے۔
اس تحقیق میں شامل سائنس دانوں میں سے کئی کو حکومت نے بعد میں اپنے ٹاسک فورس (کووڈ -19 سے نمٹنے کے لئے ) میں شامل کیا۔ایک مہینہ سے زیادہ کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی سائنس دانوں کی تحقیق اور سفارشات پر کسی نے بھی کان نہیں دھرا۔ بغیر کسی سائنسی حکمت عملی کے، سرکار نے صرف چار گھنٹے کی نوٹس پر ملک بھر میں لاک ڈاؤن نافذ کر دیا۔ نتیجتاً غریبوں اور مزدوروں کے لئے کھانے پینے کے لالے پڑ گئے۔
اپریل کے پہلے ہفتے میں (جیسا کہ اس مضمون کے پہلے حصے میں انکشاف کیا گیا ہے)سرکار کے مشیر اعلیٰ (طبی معاملوں کے)ونود کے پال ( ممبر، نیتی آیوگ)نے یہ کہا تھا کہ لاک ڈاؤن کا بہترین استعمال یہ ہے کہ اس دو رانیہ میں ایک سائنٹفک پلان تیار کر لیا جائے۔
اس پلان میں جو چیزیں شامل تھیں وہ ہیں؛
بڑے پیمانے پر لوگوں کو کورنٹائن کیا جائے، غریبوں کو ان کے گھر تک کھانا/راشن پہنچا یا جائے، متاثرہ افراد/گروہوں کا تیزی سے پتہ لگا یا جائے، ہر ضلع میں کووڈ-19 کے پھیلاؤ پر نظر رکھی جائے، اور مہاماری کے عروج سے نمٹنے کے لئے ہسپتالوں میں آئی سی یو اور بیڈ کے زیادہ سے زیادہ انتظامات کیے جائیں۔
پال کا کہنا تھا کہ سرکار کو اس کی تیار ی کے لئے ایک اور ہفتے کی ضرورت ہے۔
دستاویز سے یہ بھی منکشف ہو تا ہے کہ پال کے ذریعے سجھا یا گیا ایکشن پلان نیا نہیں تھا۔ ان کی سفارشات، سرکاری سائنس دانوں کے ذریعے فروری میں کئے گئے تحقیق پرمشتمل تھیں۔ سائنس دانوں نے یہ کہا تھا کہ اگر کووڈ -19 کے علامات والے ہر دو افراد میں سے ایک کو مرض کی تصدیق ہونے کے 48 گھنٹے کے اندر اندر کورنٹائن کر لیا جا ئے، تو اس مرض کے پھیلاؤ میں 62 فیصد کی کمی آئے گی۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ جب ملک میں یہ مہاماری اپنے عروج پر ہوگی اور اس وقت جو متاثرہ افراد کی تعداد ہوگی، اس میں اس لائحہ عمل کے اپنانے سے کمی واقع ہوگی۔
حکومت نے اپنے ہی سائنس دانوں کے مشورے پر عمل کرنے (وہ بھی جزوی طور پر) میں ایک مہینے سے زیادہ کا وقت لگا دیا۔
آرٹیکل 14 نے وزارت صحت اور آئی سی ایم آر کے رد عمل کے لئے، انہیں سوالات لکھ بھیجے ہیں۔ انہیں ریمائنڈر اور پیغامات بھی بھیجے گئے ہیں۔ مگر کسی کا کوئی جواب نہیں آیا ۔ اگر ہمیں، ان کا کوئی جواب ملتا ہے، تو اس مضمون کو اپڈیٹ کر دیا جائے گا۔
فروری: تحقیق اور انتباہ
جنوری تک (ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ذریعے دنیا کو آگاہ کرنے کے بعد اور ہندوستان میں 30 جنوری کو پہلے معاملہ کی شناخت ہونے کے بعد) دوسرے ادرے میں کام کررہے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر، آئی سی ایم آر کے سائنس دانوں نے اس بات پر تحقیق شروع کر دی تھی کہ ہندوستان اس مہاماری کا مقابلہ کیسے کر سکتا ہے۔
فروری کے آخری ہفتہ تک، انہوں نے دو پیپر تیار کر لیے تھے۔ یہ دونوں پیپرز انڈین جرنل آف میڈیکل ریسرچ (جو آئی سی ایم آر کے ڈا ئریکٹر جنرل بلرام بھارگوا کی ادارت میں شائع ہو تا ہے)میں چھپے۔ یہ دونوں پیپرز حکومت کو دستیاب تھے۔
پہلا پیپر تھا،دی 2019 نوویل کورونا وائرس ڈیزیز (کووڈ-19 پین ڈیمک): اے ریویو آف دی کرنٹ ایوی ڈینس، اس کے مصنفین ہیں؛حکومت کے ‘ڈپارٹمنٹ آف ہیلتھ ریسرچ’ سے منسلک پرنب چٹرجی، انوپ اگروال اور سوروپ سرکار۔ مولا نا آزاد میڈیکل کالج کی نازیہ نیگی۔ ٹرانس لیشنل ہیلتھ سائنس اینڈ ٹکنالوجی انسٹی ٹیوٹ کے بھا با توش داس، ڈبلیو ایچ او کے سایا ناتھ بنرجی اور آئی سی ایم آرسے منسلک نیویدیتا گپتا اور رمن آر گنگا کھیڑ کر۔
چین کی طرح کے لاک ڈاؤن سے متنبہ کر تے ہوئے، اس پیپر میں یہ کہا گیا کہ: “ایڈ منسٹریشن کی مدد سے زور زبر دستی کرنے کے بجائے، سماج اور سول سوسائٹی کی لیڈر شپ میں کو رنٹائن کرنے اور نگرانی رکھنے کی مہم چلا نا، کووڈ -19 جیسے لمبے عرصے تک چلنے والی وبا پر قا بو پانے کے لئے زیادہ کار گر اور قا بل عمل ہوگا۔”
دوسرا پیپرتھاپرو ڈینٹ پبلک ہیلتھ انٹر وینشن اسٹریٹجیز ٹو کنٹرول دی کورونا وائرس ڈیزیز 2019 ٹرانس میشن ان انڈیا: اے میتھ میٹیکل ماڈل-بیسڈ اپرو چ۔ اس کے مصنفین ہیں: سندیپ منڈل، انوپ اگروال، امرتیہ چودھری اور سو روپ سرکار ( ڈپارٹمنٹ آف ہیلتھ ریسرچ)۔ ترون بھٹناگر، منوج مر ہیکر اور رمن آر گنگا کھیڑ کر( آئی سی ایم آر)، نیما لن ارینامیناپاتھی ( امپیریل کالج، لندن)۔
دوسرے پیپر میں، دہلی، کولکاتا، ممبئی اور بنگلور میں کورونا کے ممکنہ پھیلاؤ کی میپنگ کی گئی ہے۔ دوسرا پیپر یہ کہتاہے کہ اگر بچاؤ کی کوئی ترکیب نہ کریں، توصرف دہلی میں جب انفیکشن اپنے عروج پر ہوگا تو متاثرہ افراد کی تعداد 15 لاکھ ہو جائے گی۔ سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ ٹیسٹ میں پا زیٹو پائے گئے ہر دو افراد میں سے اگر ایک فرد کو علامت دکھنے کے تین دنوں کے اندر ہی کو رنٹائن کر دیا جائے، تو کورونا انفیکشن کے کل معاملے 62 فیصد تک کم ہو جائیں گے۔
ان میں سے ایک یا دونوں پپیر سے وابستہ آئی سی ایم آر کے پانچ سائنس دان (سرکار، گنگا کھیڑکر گپتا، مر ہیکر اور بھٹناگر) 21 افراد پر مشتمل نیشنل ٹاسک فورس برائے کووڈ -19 کے ممبران ہیں۔ سرکار آئی سی ایم آر کے چیئر مین ہیں، جبکہ گنگا کھیڑکر نیشنل ٹاسک فورس کے ممبر سکریٹری بھی ہیں اور حکومت کے لئے سائنسی امور کے سر براہ مشیر میں سے ایک ہیں۔ کو رونا مہاماری کے حوالے سے سرکار کی روزانہ کی پریس بریفنگ (نئی دہلی ) میں وہ حاضر ہوتے ہیں۔
جن تحقیق کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے، ان کے مصنفین میں سے ایک نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ہمیں یہ بتا یا ہے کہ ملکی پیمانے پر لاک ڈاؤن اور کورنٹائن یا سوشل آئی سو لیشن ایک چیز نہیں ہیں۔ “ہندوستانی حالات میں اس طرح کا لاک ڈاؤن صرف ان لوگوں کو ایک دوسرے سے الگ کرنے میں کار گر ہو سکتا ہے، جو امیر ہیں اور کم گھنی آبادی والے علاقے میں مقیم ہیں۔ ایسا کرنے سے ایک حد تک صرف ویسے لوگ انفیکشن سے بچ سکتے ہیں۔ “
وہ مزید کہتے ہیں؛ لیکن غریبوں کے لئے، جن کے لئے گھر گھر جاکر اسکریننگ کا کوئی انتظام نہیں ہے یا ان میں سے پازیٹو پائے جانے والوں کے لئے کو رنٹائن کرنے کی کوئی ترکیب کیے بغیر، الٹا یہ ہو گا کہ اس کمیونٹی/سماج کے اندر وائرس کا پھیلاؤ بڑھ جا ئے گا۔ غریب لوگ شہروں کی گھنی آ بادی والے علاقوں میں، نہا یت کم جگہوں میں رہتے ہیں۔ وہ لوگ پبلک ٹوائلٹ کا استعمال کر تے ہیں۔ لاک ڈاؤن کی واجہ سے کووڈ -19 کے مشتبہ افراد بھی ہفتوں تک ، ایک دوسرے کے ساتھ ان کے استعمال کے لئے مجبور ہیں۔ آپ تصور کریں، اگر کووڈ -19 کا ایک مشتبہ مریض سینکڑوں افراد کے ساتھ کمیونٹی ٹوائلٹ کا استعمال کرتا ہے، تو ظاہر ہے وہ وائرس کے پھیلاؤ میں مددگارثابت ہو رہاہے، اور یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہی وہ ہاسپٹل تک نہیں پہنچ پا رہا ہے۔ “
سرکارنے فروری میں کی گئی تحقیق کے ان نتائج پر کوئی توجہ نہیں دی۔
مارچ: ٹاسک فورس اور لاک ڈاؤن
18 مارچ کو سرکا ر نے 21 ممبران (سائنس دان اورصحت عامہ کے ماہرین) پرمشتمل کووڈ -19 ٹاسک فورس کی تشکیل دی، جس کے سربراہ نیتی آیوگ کے ممبر ونود کے پال ہیں۔
ابھی ٹا سک فورس صلا ح و مشورہ کر ہی رہا تھا، مگر دوسری طرف، 24 ما رچ کو، وزیر اعظم نے 21 روز کے لئے لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا۔
چار دنوں کے بعد، ٹاسک فورس کی میٹنگ دوبارہ ہوئی۔
اس دوران ایمس میں شعبہ ادویات کے صدر وگ نے اس بات پر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا کہ کووڈ-19 سے لڑنے کی مہم سائنسی طور پر تسلیم شدہ نہیں ہے۔ ” میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مہا ماری سے نمٹنے کے لئے ٹاسک فورس کا کیا رول رہا ہے؟ میں نہیں جانتا ہوں–ہم نے کیا کیا ہے؟ ہمیں یہ سوچنا پڑےگا۔ لہذا ہمیں یہ بتا ئیے کہ ہم نے کیا کیا ہے؟”
گنگا کھیڑ کر ( ٹاسک فورس کے ممبر سکریٹری ) نے جواب دیا؛یہ اچھا سوال ہے۔ لیکن یہ آپ مجھ سے نہ پوچھیں۔ چیئر (صدر) میں نہیں ہوں۔ ( ٹاسک فورس کے صدر نیتی آیوگ کے ممبر ونود کے پال ہیں۔ ان کے کوچیئر ہیں مرکزی ہیلتھ سکریٹری پریتی سودان اور آئی سی ایم آر کے ڈائریکٹر جنرل بھارگوا، لیکن ان تینوں چیئرز (صدور) میں سے کسی نے بھی اس میٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔) میں بھی سوال ہی اٹھا رہا ہوں۔
میٹنگ میں، وبائی امراض کے ایک ماہر نے پو چھا ؛فی ا لحال مسئلہ یہ ہےکہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے لوگ ہاسپٹل نہیں آ رہے ہیں۔ ہم لوگ سانس کی تکلیفوں والے معاملے کی نگرانی کر رہے ہیں۔ لیکن ہاسپٹل میں آنے والے لوگوں کی تعداد کافی کم ہے۔ لہذا ہمیں کرنا یہ ہو گا کہ ہم لوگوں کے گھروں تک جائیں۔ بس دیکھنا یہ ہے کہ اسے کیسے کرنا ہے۔ آئی ڈی پی ایس ( انٹی گریٹیڈ ڈیزیز سر ویلانس پرو گرام) یہ کرےگا یا ضلع انتظامیہ یہ کام اپنے ذمہ لے گی۔ یہ صاف کرنے کی ضرورت ہے۔
ان کے رد عمل کا یہ مطلب تھا کہ مارچ کے اواخر تک، سرکار کووڈ -19 کے علامات والے افراد کی نگرانی کے لئے کچھ خاص نہیں کر رہی تھی۔لاک ڈاؤن نے ایسا کرنا اور مشکل ہی کر دیا تھا۔ یہ بھی واضح نہیں تھا کہ نگرانی کا دائرہ اور کیسے بڑھا یا جائے گا۔
میٹنگ میں کچھ دوسرے ماہرین بھی موجود تھے جنہوں نے ان باتوں سے اتفاق کیا اور کہا کہ مشتبہ افراد کی شناخت کرنا مزید مشکل ہو گیا ہے، کیو نکہ انفلو ئنزا جیسی علامات والے مریض اس لاک ڈاؤن میں ظاہر ہے ہاسپٹل نہیں آئیں گے۔
آئی سی ایم آر کے ایک سینئر سائنس دان ( وبائی امراض کے ماہر) نے نام نہ بتانے کی شرط پر آرٹیکل 14 سے یہ کہا کہ ابھی تک اس بات پر بحث نہیں ہوئی ہے کہ ہما ری ٹیسٹ کرنے کی حکمت عملی کیا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ملکی پیمانے پرسائنٹفک ٹیسٹینگ اسٹریٹجی کے حوالے سے آنے والے دنوں میں فیصلہ لیا جائے گا۔
ماہرین کے بیچ اس بات پر بھی لمبی بحث ہوئی کہ “کیس ڈیفینیشن” کو بھی طے کر لیا جائے، جس سے کسی مرض کی تشخیص اور نگرانی کی جاتی ہے۔ اسی کی مدد سے بڑے پیمانے پر نگرانی کی جاتی ہے۔ بحث اس بات پر بھی ہوئی کہ نگرانی کون کرےگا، جس کا مطلب یہ ہے کہ نگرانی کے لئے گھر گھر جا نا پڑےگا، اس کے لئے انتظار نہیں کیا جا سکتا کہ لاک ڈاؤن کے دو ران علامات دکھنے والے مریض خود ہاسپٹل آئیں گے۔
میٹنگ میں، کمیٹی کے ایک دیگر ممبر نے کہا؛جب سے لاک ڈاؤن ہوا ہے، ہم صرف یہی کہہ رہ رہے ہیں۔ ٹھیک ہے، لوگ ہاسپٹل نہیں جائیں گے، لیکن ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ وزارت منصوبہ بنا رہی ہے–کئی اسٹیٹ نے اپلی کیشن بیسڈ سیلف رپورٹنگ شروع کر دی ہے۔ “
گنگا کھیڑ کر نے میٹنگ میں یہ بات بتائی کہ ٹیسٹ کرنے کے لئے ابھی تک کوئی پرو ٹو کال نہیں تیار کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس مسئلہ پر آئی سی ایم آر کے ڈا ئریکٹر جنرل اور دیگر ریسرچرز سے بات چیت کریں گے۔
اپریل: پال نے فروری والے ریسرچ کا دوبارہ تذکرہ کیا
اپریل کے پہلے ہفتے میں، نیتی آیوگ کے ممبر پال نے سرکار کو پھر وہی مشورہ دیا، جو سائنس دانوں نے فروری میں ہی اپنے تحقیق کے ذریعے بتایا تھا۔ یعنی بڑے پیمانے پر نگرانی اور ٹیسٹنگ کی جائے۔اور علامات دکھنے والے مشتبہ افراد کو فوراً کو رنٹائن کیا جائے۔
پال نے یہ کہا کہ کمیونیی بیسڈ ٹیسٹنگ اور نگرانی عمل میں لائی جائے۔ سائنس دانوں نے بھی یہی کہا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ لاک ڈاؤن کے بجا ئے علاما ت دکھنے والے اشخاص کو جلدی سے پہلے کو رنٹائن کر دیا جائے۔
پال نے یہ نہیں کہا کہ لاک ڈاؤن کو واپس لے لیا جائے۔ مگر انہوں نے یہ ضرور کہا کہ آئی سی ایم آر نے لاک ڈاؤن کے کمیوں کی نشاندہی کی ہے۔ انہوں نے یہ بھی سفا رش کی کہ سرکار لاک ڈاؤن کا استعمال اپنی تیاری کے لئے کرے اور گھر گھر جا کرنگرانی کرنے کا منصوبہ بنائے۔
انہوں نے کہا کہ تیزی سے ٹیسٹنگ اور نگرانی کرنے سے یہ ہو گا کہ علامات والے افراد کو کو رنٹا ئن کر لیا جا ئے گا۔
6 اپریل کو، ٹاسک فورس نے دو ریسرچ گروپ تشکیل دی؛ جنہیں یہ کہا گیا کہ وہ نگرانی کو بڑھانے کے حوالے سے ترجیحات کی نشاندہی کریں۔ 14 اپریل کو سرکار نے لاک ڈاؤن کو 3 مئی تک کے لئے بڑھا دیا۔ مگر نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ 14 اپریل تک بھی سرکار کے پاس، گھر گھر جاکر نگرانی کرنے اور ٹیسٹنگ (جس میں ہندوستان ، پوری دینا میں سب سے پیچھے ہے) کی رفتار میں اضافہ کرنے کے حوالے سے کوئی تیاری نہیں تھی۔
اس مضمون کا پہلا حصہ یہاں ملاحظہ کیجیے۔
(انگریزی سے ترجمہ،سید کاشف)