آئندہ 15 اپریل سے ٹرینوں کی خدمات بحال کر نے کا کوئی منصوبہ نہیں: وزارت ریل

آئندہ 15 اپریل سے ٹرین کی آمد ورفت شروع کرنے کی خبروں کو غلط بتاتے ہوئے وزارت ریل نے کہا ہے کہ میڈیا ایسے وقت میں غیر مصدقہ خبروں کو شائع کرنے سے بچے، کیونکہ اس سے عوام کے ذہن میں غیر ضروری بھرم پیدا ہوتا ہے۔

آئندہ  15 اپریل سے ٹرین کی آمد ورفت  شروع کرنے کی خبروں کو غلط بتاتے ہوئے وزارت ریل نے کہا ہے کہ میڈیا ایسے وقت  میں غیر مصدقہ خبروں کو شائع کرنے سے بچے، کیونکہ اس سے عوام  کے ذہن میں غیر ضروری بھرم پیدا ہوتا ہے۔

(فوٹو: پی ٹی آئی)

(فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: وزارت  ریل نے 15 اپریل سے مسافروں کے لیے  ٹرینوں کی خدمات  بحال کرنے سے متعلق  سبھی رپورٹس  کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ فی الحال ایسا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔وزارت  نے اس بارے میں ایک وضاحت  جاری کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ٹرین خدمات  شروع کرنے کو لےکر ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں لیا گیا ہے۔

وزارت  کی جانب  سے کہا گیا ہے، ‘گزشتہ دو دنوں سے میڈیا میں کچھ خبریں دیکھنے کو ملیں، جس میں بتایا گیا کہ ریل خدمات  کو لےکر کئی پروٹوکال جاری کئے گئے ہیں۔ ان خبروں میں یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ ایک طے شدہ تاریخ سے مسافروں کے لیے  ٹرینوں کی خدمات  بحال ہو رہی ہیں۔’

وزارت ریل نے کہا، ‘یہ میڈیا کے دھیان میں لایا جا رہا ہے کہ اس بارے  میں ابھی حتمی  فیصلہ نہیں لیا گیا ہے اور اس طرح کے معاملوں میں غیر مصدقہ پورٹنگ اس طرح کے وقت  میں عوام کے ذہن میں غیر ضروری  بھرم پیدا کرتی ہے، جس سے بچنا چاہیے۔ میڈیا سے اپیل  ہے اور صلاح دی جاتی ہے کہ وہ اس طرح کی غیر مصدقہ  خبروں کو شائع نہ کریں، جس سے شکوک  شبہات  پیدا ہو۔’

وزارت ریل نے کہا، ‘لاک ڈاؤن کے بعد ریل خدمات  کو لےکر ریلوے سبھی اسٹیک ہولڈرس  کو دھیان میں رکھتے ہوئے فیصلہ لےگا اور جب بھی اس پر کوئی فیصلہ لیا جائےگا، سبھی متعلقہ فریق کو اس کی جانکاری دی جائےگی۔’وزارت ریلوے نے کسی بھی طرح کی فرضی اور گمراہ کن  خبروں سے دور رہنے اور اس پر یقین  نہیں کرنے کی بھی اپیل کی ہے۔

واضح  ہو کہ میڈیا میں آئی کچھ خبروں میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ریلوے نے ایک پروٹوکال تیار کیا ہے، جس کے تحت مسافروں  کو سفر سے کئی گھنٹے پہلے اسٹیشن پہنچنا ہوگا تاکہ تھرمل اسکریننگ جیسی کارروائی کو پورا کیا جا سکے۔بتا دیں کہ وزیر اعظم  نریندر مودی کے ذریعے24 مارچ کو ملک بھر میں لاک ڈاؤن نافذ کرنے کے بعد ریلوے نے بھی مسافروں  کے تحفظ  کو دھیان میں رکھتے ہوئے 21 دنوں کے لیے ٹرین خدمات  رد کر دی تھیں۔

اس دوران صرف مال  ٹرینوں کے چلتے رہنے دینے کی منظوری دی گئی ہے۔

Next Article

اتراکھنڈ میں فرقہ وارانہ پولرائزیشن کی سیاست

عوام کی توجہ ہٹانے اور ووٹ حاصل کرنے کے لیےاتراکھنڈ کو فرقہ وارانہ پولرائزیشن کے ذریعے سماجی تصادم کی ایک نئی تجربہ گاہ میں تبدیل کیا جا رہا ہے ۔ ایک حساس ہمالیائی ریاست کے طور پر اس کی شناخت مٹائی جا رہی ہے۔

حال ہی میں اتراکھنڈ میں بی جے پی کی ڈبل انجن سرکارنے ان لوگوں کو مضطرب کر دیا ہے، جو ریاست میں سماجی تصادم اور نسلی تعصب میں اضافہ کے امکان سے تشویش میں مبتلا ہیں۔ اتراکھنڈ میں مقامی بنام بیرونی جنون اور عوامی عدم اطمینان کے واقعات میں اضافہ کامشاہدہ کیا جا رہا ہے۔ بی جے پی حکومت کے تین سال کا جشن منانے کے لیے کروڑوں کے بجٹ کو وزیر اعلیٰ کے چہرے کو چمکانےکی  فضول خرچی میں بہایا جا رہا ہے۔ بے روزگاری،نقل مکانی، روایتی کاشتکاری کے خاتمے، گھوٹالوں اور بدعنوانی کے چرچے عام ہیں۔

ریاست کے تین اضلاع میں مغل ناموں والے پندرہ مقامات کے نام تبدیل کر دیے گئے ۔ اس میں دہرادون کا ایک قدیم علاقہ میانوالا بھی شامل ہے۔ یہ گاؤں راجپوت میاں کی نسلوں  کا آبائی گاؤں ہے۔ آج بھی یہاں کے راجپوت اپنے ناموں میں  میاں لگاتے ہیں۔ چونکہ یہ نام مسلمانوں  سے ملتا جلتا ہے، اس لیے جہالت کے اندھیروں میں بھٹکتی حکومت کو نام بدلنے پر شدید عوامی غصہ کا سامنا  کرنا پڑ رہاہے۔

مسائل کا  حل نہیں

ڈھائی دہائی قبل ریاست کے الگ ریاست بننے کے بعد بننے والی حکومتوں کی ناکامیوں کی وجہ سے یہاں سے نقل مکانی میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ سابق وزیر اعلی ترویندر سنگھ نے اتراکھنڈ کے چار میدانی علاقوں میں غیر قانونی کان کنی کے ریکیٹ پر اپنی پارٹی کی حکومت اور وزیر اعلیٰ دھامی پر حملہ کرتے ہوئے ریاستی بی جے پی اور حکومت میں اندرونی کشمکش کو مزید تیز کر دیا۔ ترویندر فی الحال ہریدوار لوک سبھا سیٹ سے ایم پی ہیں۔

اسے پشکر سنگھ دھامی کو ہٹانے کی مہم سے جوڑ کر دیکھا جا رہا ہے۔ تاہم، سابق کابینہ وزیر اور ٹہری کے بی جے پی ایم ایل اے کشور اپادھیائے نے کہا کہ غیر قانونی کان کنی ایک لاعلاج بیماری ہے۔ ان کا مشورہ ہے کہ صاف ستھرے ہونے کا دعویٰ کرنے والے تمام سابق وزرائے اعلیٰ کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے۔

اتراکھنڈ میں امن و امان کی خراب صورتحال اور حکومت اور مجرموں کے درمیان گٹھ جوڑ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 18 ستمبر 2022 کو رشی کیش کے قریب 19 سالہ انکیتا بھنڈاری کے قتل کا الزام بی جے پی اور آر ایس ایس کے ایک طاقتور رہنما ونود آریہ کے بیٹے پلکیت پر لگایا گیا تھا ۔ انکیتا کے اہل خانہ کا الزام ہے کہ وزیر اعلیٰ دھامی سی بی آئی انکوائری اس لیے  نہیں  ہونےدے رہے ہیں کیونکہ اس قتل کے پیچھے ریاستی بی جے پی کے ایک عہدیدار کا ہاتھ ہے۔

اتراکھنڈ میں بھی ہماچل کی طرز پر سخت زمینی قوانین کے لیے ایک طویل عرصے سے تحریک چل رہی ہے۔ لیکن 2018 میں نریندر مودی حکومت نے دہلی سے ریاست پر زمین کا ایسا قانون مسلط کر دیا، جس نے یہاں کے نازک پہاڑوں کو بیش قیمتی زمینوں کی خرید و فروخت کی منڈی میں تبدیل کر دیا۔

ریاستی اور مرکزی حکومت کی غلط پالیسیوں، زراعت، جنگل، زمین، سرکاری وسائل اور معاشی سرگرمیوں پر بیرونی ریاستوں سے آنے والے لوگوں نے پورے پہاڑ کو کامرشیل ہب  بنا دیا ہے۔ بی جے پی سخت زمینی قوانین اور اصل تحریک کو کچلنے کے لیےحربے اپنا رہی ہے۔ دو مقامی سیاسی کارکنوں، آشوتوش نیگی اور آشیش نیگی کو بھی جیل میں ڈال دیا گیا۔

سماجی نفرت کو فروغ دینا

بی جے پی اور سنگھ پریوار سے وابستہ درجنوں تنظیمیں ریاست کے کچھ حصوں میں آباد مسلم کمیونٹی کو نشانہ بنانے کے لیے سرگرم ہیں۔ گزشتہ کئی دنوں سے ریاستی حکومت کے وزراء اور کئی عہدیدار مقامی باشندوں اور باہر کے لوگوں کے درمیان دشمنی بڑھا رہے ہیں۔

ریاست کی تشکیل کے بعد پہلی بار ریاست کے سینئر کابینہ وزیر پریم چند اگروال کی طرف سے اسمبلی کے اندر مقامی پہاڑی باشندوں کے خلاف توہین آمیز الفاظ استعمال کرنے کے بعد ریاست بھر میں ایک تحریک پھیل گئی اور پھر انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ لوگ ان سے اس لیے بھی ناراض ہیں کیونکہ انہوں نے انکیتا بھنڈاری قتل کیس کو چھپانے اور اس قتل میں بی جے پی کے وی آئی پی  کے مبینہ کردار کے بارے میں سچائی کو چھپانے کے بارے میں بیانات دیے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ دھامی حکومت ایک وزیر کے استعفیٰ سے بھی محفوظ نہیں ہے۔ دھامی پارٹی ہائی کمان کو وضاحت دینے کے لیے دہلی دوڑ لگاتے  رہتے ہیں۔

یو سی سی ریاست کو کیسے بدلے گا؟

اس سال کے شروع ہوتے ہی حکومت نے ریاستی اسمبلی کا خصوصی اجلاس بلایا اور یکساں سول کوڈ (یو سی سی) کو اکثریت کے زور پر پاس کرایا۔ یو سی سی کے بارے میں نہ تو اپوزیشن کو کچھ بتایا گیا اور نہ ہی عام لوگوں کو معلوم ہے کہ اس کے نفاذ کے بعد عوام کی تقدیر کیسے بدلنے والی ہے۔

سپریم کورٹ کے سینئر وکیل کپل سبل کا کہنا ہے کہ اتراکھنڈ میں بی جے پی کا یہ منصوبہ ملک کے آئین میں مداخلت ہے۔ ایسا قانون بنانے کا اختیار صرف ملک کی پارلیامنٹ کو ہے۔ یہ شق ہندوستان کے آئین کے آرٹیکل 44 کو غیر مؤثر بنانے کی کوشش ہے۔ کسی بھی ریاستی حکومت کو ان اختیارات میں ترمیم کرنے کی اجازت دینا جو صرف ملک کی پارلیامنٹ کو حاصل ہیں غیر قانونی اور آئین کے خلاف ہے۔

قابل ذکر ہے کہ دو سال قبل ملک کے وزیر داخلہ امت شاہ نے اتراکھنڈ میں یو سی سی بنانے کے حوالے سے کہا تھا کہ اس کے بعد آہستہ آہستہ ملک کی تمام ریاستیں اتراکھنڈ جیسا قانون بنائیں گی اور اس کے بعد پارلیامنٹ قانون پاس کرے گی۔ لیکن ایک ریاست کس طرح مرکزی قانون کو صرف اپنی ریاست میں نافذ کر سکتی ہے اور من مانی طور پر ایک نظیر بنا سکتی ہے؟

دراصل عوام کی توجہ ہٹانے اور ووٹ حاصل کرنے کے لیے اتراکھنڈ کو فرقہ وارانہ پولرائزیشن کے ذریعے سماجی تصادم کی نئی تجربہ گاہ بنایا جا رہا ہے۔ اس طرح ایک حساس ہمالیائی ریاست کے طور پر اس کی شناخت مٹائی جا رہی ہے۔

(اوما کانت لکھیڑا سینئر صحافی ہیں۔)

Next Article

سعودی عرب نے ہندوستانیوں کے لیے پرائیویٹ حج کوٹے میں 80 فیصد کٹوتی کی، عمر-محبوبہ بولے – مرکز مداخلت کرے

سعودی عرب نے ہندوستان کے پرائیویٹ حج کوٹے میں 80 فیصد  کی کٹوتی کردی ہے۔ جس کے بعد پی ڈی پی سربراہ مفتی نے وزارت خارجہ سے اپیل کی ہے کہ وہ اس معاملے کو سعودی عرب کی حکومت کے ساتھ اٹھائے۔ وہیں، عمر عبداللہ نے وزیر خارجہ سے تمام متاثرہ عازمین حج کے مفادمیں کوئی حل نکالنے کی اپیل کی ہے۔

نئی دہلی: جموں و کشمیر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی سربراہ محبوبہ مفتی نے مرکزی وزارت خارجہ سے اپیل کی ہے کہ وہ ہندوستانی عازمین کے نجی حج کوٹے میں 80 فیصد کٹوتی کے معاملے  میں فوراً مداخلت کرتے ہوئےاسے سعودی عرب کی حکومت کے ساتھ اٹھائے  ۔

اتوار (13 اپریل) کو ایکس پر ایک پوسٹ میں  مفتی نے کہا، ‘سعودی عرب سے پریشان کن خبر آرہی ہے۔ رپورٹس سے پتہ چلا ہے کہ ہندوستان کے پرائیویٹ حج کوٹے میں اچانک 80 فیصد کی کٹوتی کردی گئی ہے۔’

مفتی نے کہا کہ اچانک لیے گئے اس فیصلے نے’ملک بھر کے عازمین اور ٹور آپریٹرز کے لیے شدید پریشانی پیدا کر دی ہے۔’

دریں اثنا، جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ اور ان کی پارٹی نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ نے بھی وزیر خارجہ ایس جئے شنکر سے ملاقات کی اور اپیل کی کہ وہ سعودی عرب کے ساتھ بات چیت کریں  اور تمام متاثرہ عازمین کے مفاد میں کوئی حل تلاش کریں۔

اس سال حج 4 جون سے 9 جون کے درمیان ہونے کا امکان ہے، جوچاند پرمنحصر کرتاہے۔ یہ اسلامی کیلنڈر کے آخری مہینے ذی الحجہ کے آغاز کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس دوران  ہزاروں عازمین مکہ اور مدینہ کی سالانہ زیارت کے لیے سعودی عرب جاتے ہیں۔ اس کا اختتام عید الاضحیٰ کے تہوار ساتھ ہوتا ہے۔

لائیو منٹ  کی رپورٹ کے مطابق ، ہندوستانی عازمین کے لیے حج کا اہتمام یا تو حج کمیٹی آف انڈیا (ایچ سی او ایل) کے ذریعے کیا جاتا ہے، جو اقلیتی امور کی وزارت کے انتظامی کنٹرول کے تحت ایک قانونی تنظیم ہے ، یا نجی ٹور آپریٹرز کے ذریعے، جسے حج گروپ آرگنائزرزبھی کہا جاتا ہے۔

اس سال جنوری میں، ہندوستان نے سعودی عرب کے ساتھ حج معاہدے پر دستخط کیا تھا، جس میں 175025 ہندوستانی عازمین کے کوٹے کی تصدیق کی گئی تھی۔

مرکزی وزیر قانون کرن رجیجو نے جنوری میں ایکس  پر ایک پوسٹ میں کہا تھا، ‘سال 2025 کے لیے حج معاہدے پر سعودی عرب کے حج اور عمرہ کے وزیر توفیق بن فوزان الربیعہ کے ساتھ دستخط کیے گئے ۔ حج 2025 کے لیے ہندوستان سے 175025 عازمین کے کوٹہ کو حتمی شکل دی گئی۔ ہم اپنے تمام عازمین حج کو بہترین ممکنہ خدمات فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ ‘

مرکزی حکومت کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق، سال 2024 میں تقریباً 140000 ہندوستانی عازمین حج کے لیے گئے تھے۔

معلوم ہو کہ اس اچانک معطلی سے ہندوستان کے ان عازمین پر کوئی اثر نہیں پڑے گا جو صرف حج کے لیے سعودی عرب جارہے ہیں اور جن کے پاس حج ویزا ہے۔ اس سے دوسرے ویزا ہولڈرز متاثر ہوں گے جو حج میں شامل ہونے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ یہ مبینہ طور پر زیادہ ہجوم سے بچنے اور لوگوں کو مناسب رجسٹریشن کے بغیر حج کرنے سے روکنے کے لیے کیا گیا ہے۔

Next Article

نریندر مودی کی سیاست میں وقف بل ایک نیا باب، لیکن یہ حکمت عملی کب تک چلے گی؟

نریندر مودی نے اپوزیشن کو ایک خطرناک جال میں الجھائے رکھنے اور انہیں بی جے پی کے خلاف متحدہ محاذ کے راستے سے دور رہنے کومجبور کر دیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی کب تک لوگوں کو حقیقی مسائل سے دور رکھنے میں کامیاب رہیں گے؟

پارلیامنٹ میں متنازعہ وقف ایکٹ کی منظوری کے سنگین سیاسی نتائج ہو سکتے ہیں۔ وقف ایکٹ یقینی طور پر ان کوششوں کے سلسلے میں تازہ ترین مثال ہے، جس کے ذریعے وزیر اعظم نریندر مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی ہندوستان کے سیاسی منظر نامے پر اپنا اثر و رسوخ ڈالنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک ایسے وقت میں مودی کی طاقت کا مظاہرہ ہے جب وہ اپنے  سب سے کمزور دور اقتدار کے نظر آ سکتے تھے۔

جب سے 2024 کے لوک سبھا انتخابات کے دوران گراوٹ کا مشاہدہ کیا گیااور وہ اپنے اتحادیوں پر منحصر ہو گئے ، تب سے انہوں نے خود کو ناقابل تسخیر کے طور پر پیش کرنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑا ہے۔

بی جے پی اور نریندر مودی کو انڈیا الائنس سے دھچکا لگا، جب اپوزیشن جماعتوں نے متحد ہو کر پارٹی کو مسلسل تیسرے الیکشن میں اکثریت حاصل کرنے سے روک دیا۔ سب نے محسوس کیا کہ مودی کو عاجزی کا ذائقہ مل گیاہے، اس لیے ان کے لیے یہ ظاہر کرنا اور بھی اہم ہو گیا کہ نتیش کمار اور این چندر بابو نائیڈو جیسے اتحادیوں پر بڑھتے ہوئے انحصار کے باوجود وہ پوری طرح سے کنٹرول میں ہیں۔

وقف ترمیمی ایکٹ شاید مودی کے 11 سالہ دور حکومت میں پہلا بل تھا جس پر پارلیامنٹ میں بڑے پیمانے پر بحث ہوئی۔یہ پچھلے بلوں کی طرح  لوک سبھا میں بی جے پی کی عددی  طاقت  یعنی سفاکیت کی وجہ سے  بغیر کسی بحث کے منظور نہیں کیا گیا، جیسا کہ آرٹیکل 370 کی منسوخی، یا تین طلاق کو جرم قرار دینا، یا اس طرح کے بہت سے دوسرے قوانین کے  منظور ہونے کے دوران دیکھا گیا تھا۔

وقف بل بی جے پی کے طویل مدتی ہندوتوا پروجیکٹ کو فروغ دینے کے طور پر ابھرا۔ یہ بل مسلمانوں کے خلاف تھا، لیکن بی جے پی نے اسے مسلم کمیونٹی کے لیے ایک ترقی پسند قانون کے طور پر پیش کیا۔ ستم ظریفی دیکھیں، بی جے پی نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ مسلم کمیونٹی کے لیے ایک اصلاحی قانون ہے، لیکن ایک بھی مسلم ایم پی اس کے حق میں نہیں تھا۔ بی جے پی کے واحد مسلم ایم پی غلام علی نے اس معاملے پر بات کی، لیکن بل کے دفاع میں ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ اس کے بجائے انہوں نے کانگریس پر حملہ کرنے کے لیے اس موقع کا انتخاب کیا۔

یہ قانون مودی کے لیے یہ ظاہر کرنے کا ایک موقع بھی تھا کہ پارلیامنٹ میں ان کی تعداد کم ہونے کے باوجود ان کے پاس بڑے فیصلے لینے کی سیاسی طاقت ہے۔ وہ اپنے سیکولر اتحادیوں جیسے جنتا دل (متحدہ)، تیلگو دیشم پارٹی، لوک جن شکتی پارٹی اور یہاں تک کہ کسی حد تک بیجو جنتا دل جیسی غیر جانبدار پارٹیوں کو بھی اپنی پارٹی کے حق میں ووٹ دینے کے لیے آمادہ کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔

وقف بل دراصل اپوزیشن کو یہ بتانے کا مودی کا طریقہ تھا کہ وہ پارلیامنٹ کے اندر اور باہر، دونوں ہی جگہ  سب سے زیادہ طاقتور ہیں۔ مودی کی طاقت کا مظاہرہ ایسے وقت میں ہوا جب ان کی مقبولیت میں کمی آرہی ہے۔ ہندوستانی معیشت کمزور ہو رہی ہے اور ٹرمپ کے تباہ کن ٹیرف سے عالمی اقتصادی نظام پٹری سے اتر رہا ہے۔

غور کریں کہ مودی مردم شماری کرانے یا خواتین کے ریزرویشن بل کو نافذ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ دراوڑ پارٹیوں نے بی جے پی کے زعفرانی منصوبے کے خلاف اپنی مخالفت تیز کر دی ہے اور عدالتوں نے مرکزی حکومت کے آمرانہ اقدامات پر سوال اٹھانا شروع کر دیے ہیں۔ سپریم کورٹ نے حال ہی میں تمل ناڈو کے گورنر پر تمل ناڈو حکومت کے بلوں کو ‘غیر قانونی طور پر’ روکنے پر اپنا فیصلہ سنایا ہے۔

دوسری طرف بی جے پی اپنے انتخابی وعدوں کو پورا کرنے کی جدوجہد کر رہی ہے۔ کیا کسی کو مہاراشٹر میں بی جے پی کے لڑکی بہن یوجنا کے بھتے یاد ہیں؟ وزیراعظم نہیں چاہتے کہ لوگ ان مسائل پر بات کریں۔ اس لیے انہوں نے ہندوتوا کی جارحیت اور باہو بلی راشٹر واد کے پرانے مرکب کا سہارا لیا ہے۔

یہ نہ صرف گمراہ کرنے کی حکمت علی  ہے بلکہ ہندوستان کے ادارہ جاتی ڈھانچے پر ان کے کنٹرول کا اشارہ دینے کی مشق بھی ہے۔ اس کے بنیادی حصے میں ایک پیغام ہے جسے دنیا بھر کے تقریباً ہر آمرانہ رہنما نے استعمال کیا ہے؛ ٹی آئی این اے ، ٹینا یعنی  دیئر از نو الٹرنیٹ فیکٹر، کہ  کوئی متبادل نہیں ہے۔’

یقیناً انہیں منتشر مخالف قوتوں سے مدد ملی ہے۔ مودی کی مخالفت کے لیے بنایا گیا ‘انڈیا’ بلاک بکھر گیاہے اور اس کے رہنما ایک دوسرے کے خلاف بولتے نظر آتے ہیں۔ جولائی 2024 کے بعد ‘انڈیا’ بلاک کے سرکردہ رہنماؤں کی ایک بھی میٹنگ نہیں ہوئی ہے۔ اپوزیشن خیمےمیں واحد استثنیٰ ڈی ایم کے ہو سکتا ہے، جس نے اپنی ریاست میں بی جے پی کو کنارے کر رکھا ہے۔ وقف بل پر بحث کے دوران مشترکہ احتجاج کرنے کے لیے ‘انڈیا’ بلاک طویل عرصے کے بعد اکٹھا ہوا، لیکن ان کے پاس کوئی طویل مدتی منصوبہ نہیں ہے۔ اس لیے نریندر مودی اپوزیشن کو ایک خطرناک جال میں الجھائے  رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔

لیکن سوال یہ ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی کب تک لوگوں کو اصل مسائل سے دور رکھنے میں کامیاب ہوں گے؟ بدلتا ہوا عالمی نظام یقینی طور پر ان کے حق میں جاتانظرنہیں آ رہا ہے۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔ )

Next Article

ایک پستول، دو جرم: یوپی پولیس کا ’فرضی انکاؤنٹر‘ عدالت میں بے نقاب

کانپور پولیس کے ایک مبینہ’انکاؤنٹر’میں دو افراد کے پیروں  میں گولی مارنے کے تقریباً پانچ سال بعد مقامی عدالت نے پایا کہ جو ہتھیار پولیس نے ان سے برآمد کرنے کا دعویٰ کیا تھا، وہ پولیس کے مال خانے  سےہی لیا گیا تھا۔ عدالت نے پولیس کی گواہی میں کئی تضادات پائے، سی سی ٹی وی فوٹیج بھی پیش نہیں کیا گیا۔

نئی دہلی: اتر پردیش میں یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت کے آنے کے بعد سے ‘پولیس انکاؤنٹر’ کے معاملے اکثر سرخیوں میں رہتے ہیں۔

سال 2020 کی  ایک رات پولیس کی گشتی ٹیم ایک موٹر سائیکل کو روکتی ہے۔ موٹر سائیکل پر دو لوگ سوار ہیں۔ پولیس انہیں رکنے کا اشارہ دینے کے لیے ٹارچ کا استعمال کرتی ہے۔ لیکن موٹر سائیکل نہیں رکتی اور تیزی سے آگے بڑھ جاتی ہے۔ پولیس ان کا پیچھا کرتی ہے۔ جب وہ خودکو گھراہوا  پاتے ہیں تو وہ  بائیک چھوڑ کر پیدل بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں۔

پولیس نے انہیں سریندر کرنے کو کہتی ہے، لیکن وہ  دیسی کٹوں  سے پولیس پر گولی چلا دیتے ہیں۔ پولیس بال بال بچ جاتی ہے اور اپنے دفاع میں دونوں کو ان کی ٹانگوں میں گولی مار دیتی ہے۔ پولیس نے ان سے دیسی کٹے اور چوری کا سامان برآمد کرتی ہے۔ ملزمان کے خلاف پولیس پر جان لیوا حملے  کا مقدمہ درج کر کے انہیں جیل بھیج دیا جاتا ہے۔

لیکن اس بار کہانی ٹک نہیں پائی ۔ یہ ثابت ہوگیا کہ یہ انکاؤنٹر فرضی تھا۔

کانپور پولیس کے مبینہ’انکاؤنٹر’ میں دو افراد کو ٹانگوں میں گولی مارنے کے تقریباً پانچ سال بعد مقامی عدالت نے پایا ہے کہ جو غیر قانونی ہتھیار پولیس نے ان سے برآمد کرنے کا دعویٰ کیا تھا وہ دراصل پولیس مال خانے (شواہد کو رکھنے کی جگہ) سے نکالا گیا تھا۔ یہ ہتھیار 2007 کے ایک معاملے کا تھا۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ہی ہتھیار کو 13 سال کے وقفے سے دو الگ الگ معاملوں میں ثبوت کے طور پر پیش کیا گیا۔

گزشتہ یکم اپریل کو عدالت نے کانپور کے  کندن سنگھ اور امت سنگھ کو تمام الزامات سے بری کر دیا۔ عدالت نے تسلیم کیا کہ پولیس نے ان  سے اسلحہ برآمد کرنے کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا۔ امت کو پہلے ہی ضمانت مل چکی تھی، لیکن کندن 2020 سے جیل میں تھے۔

ایڈیشنل سیشن جج ونئے سنگھ نے کہا کہ جس طریقے سے 2007 کے ایک کیس سے منسلک ایک غیر قانونی پستول (جس کا حل 2018 میں ہوا تھا) کو کندن اور امت نے کے پاس سے برآمد دکھایا گیا، اس نے پورے معاملے کو ‘مشکوک’ بنا دیا۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس نے انہیں جھوٹا پھنسایا۔ عدالت نے کہا کہ اس معاملے میں ملوث پولیس انسپکٹر اور پوری پولیس ٹیم کے خلاف ‘تفصیلی اور اعلیٰ سطحی تفتیش’ ضروری ہے۔

جسٹس سنگھ نے کانپور پولیس کمشنر کو حکم دیا کہ وہ خود یا کسی اہل افسر کے ذریعے پورے معاملے کی تفصیلی تحقیقات کرائیں اور تین ماہ کے اندر رپورٹ عدالت میں پیش کریں۔ اگر تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے کہ پولیس نے انکاؤنٹر کا جھوٹا مقدمہ درج کرنے کے لیے مال خانے سے غیر قانونی طور پر اسلحہ نکالا تھا تو متعلقہ افسر اور ان کی ٹیم کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے گی۔

پولیس کہانی: انکاؤنٹر کیسے ہوا؟

قابل ذکر ہے کہ 21 اکتوبر 2020 کی رات کو پولیس انسپکٹر گیان سنگھ کی قیادت میں ایک پولیس ٹیم گشت پر تھی۔ وہ مریم پور تراہے پر گاڑیوں کی چیکنگ کر رہے تھے۔ اس دوران انہوں نے کاکادیو علاقہ سے آنے والی ایک بائیک کو روکا۔ موٹر سائیکل پر دو لوگ سوار تھے۔ پولیس نے انہیں  رکنے کا اشارہ کیا لیکن وہ موٹر سائیکل لے کر مریم پور ہسپتال کی طرف بڑھ گئے۔

مشکوک سرگرمی دیکھ کر پولیس نے فوری طور پر اپنی جیپ میں ان کا پیچھا کیا۔ وہ دونوں کاکادیو کی طرف بھاگے۔ پولیس نے انہیں لاؤڈ اسپیکر پر رکنے کو کہا، لیکن وہ آگے بڑھتے رہے اور ارما پور کی طرف مڑ گئے۔ پولیس نے ارما پور پولیس اسٹیشن کو اطلاع دی۔ وہیں انسپکٹر اجیت کمار ورما کی قیادت میں ایک پولیس ٹیم نے بائیک سواروں کو روکنے کی کوشش کی، لیکن وہ ارما پور اسٹیٹ کی طرف بھاگ گئے۔

تقریباً 500 میٹر تک دوڑنے کے بعد، جب وہ کیندریہ ودیالیہ کراسنگ کے قریب گھر گئے، تو انہوں نے موٹر سائیکل چھوڑ دی ۔ پولیس نے انہیں سرینڈر کرنے کو کہا۔ لیکن انہوں  نے اپنی پستول نکالی اور پولیس پر دو گولیاں چلائیں۔ اتفاق  سے پولیس والے بچ گئے۔

پولیس نے انہیں دوبارہ سرینڈر کرنے کو کہا، لیکن انہوں نے اپنی پستول دوبارہ لوڈ کرنا شروع کر دیں۔ مجبوری  میں انسپکٹر سنگھ نے اپنی سروس پستول سے دو گولیاں ان  کے پاؤں پر چلائیں۔ وہ گر پڑے اور درد سے کراہنے لگا۔ ان کی دائیں ٹانگ پر گھٹنے کے نیچے سے خون بہہ رہا تھا۔ پولیس نے گاڑی سے کپڑا نکال کر ان  کے زخموں پر پٹی باندھ دی۔

ان کی شناخت کندن اور امت کے طور پر ہوئی ہے۔ پولیس نے امت کی جیب سے سونے کی دو چین اور 1000 روپے (100 روپے کے دس نوٹ) برآمد کیے۔ اس کے دائیں ہاتھ میں 315 بور کا دیسی کٹا تھا جس میں ایک زندہ کارتوس اور ایک خالی کارتوس پاس ہی پڑا تھا۔ کندن کے قریب سے سونے کی ایک چین  اور چین کا ایک حصہ ملا۔ اس کے ہاتھ میں 315 بور کا دیسی کٹا تھا، جس میں ایک زندہ کارتوس تھا۔

غیر قانونی اسلحہ اور دیگر اشیاء کو سیل بند پلاسٹک باکس  میں رکھا گیا۔ کندن اور امت کو 11:20 بجے حراست میں لیا گیا۔ پولیس نے ایف آئی آر میں لکھا ہے کہ اس گرفتاری میں قومی انسانی حقوق کمیشن اور ہائی کورٹ کے احکامات کی تعمیل کی گئی۔

دونوں کے خلاف اقدام قتل اور غیر قانونی اسلحہ رکھنے کے تین مقدمات درج کیے گئے۔ پولیس نے دعویٰ کیا کہ ان کے پاس سے برآمد ہونے والی سونے کی چین چوری اور چھیننے کی واردات کا حصہ تھی۔ یہ معاملہ 2022 میں ٹرائل پر گیا، جس میں استغاثہ نے 10 گواہ پیش کیے۔ سب پولیس والے تھے۔ کوئی آزاد گواہ نہیں تھا۔

پولیس کی کہانی میں خامیاں

عدالت نے پولیس کی کہانی میں بہت سی خامیاں پائیں۔

پہلی، پولیس نے اپنی گواہی میں یہ نہیں بتایا کہ وہ متعلقہ تھانے سے کب اور کہاں کے لیے روانہ ہوئے تھے۔ ریکوری میمو میں اس کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ سات پولیس اہلکاروں کی گواہی کی جانچ کرنے کے بعد، عدالت نے کہا کہ ان میں سے کسی نے بھی رات کی ڈیوٹی کے دوران اپنی روانگی کا وقت یا ڈسپیچ رپورٹ نمبر نہیں بتایا۔

دوسری ، عدالت نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ پولیس نے آزاد گواہوں کو شامل کرنے کے لیے ‘معقول کوشش’ نہیں کی۔ جبکہ کیندریہ ودیالیہ کے سیکورٹی گارڈ موقع کے قریب ہی تھے اور اساتذہ کی رہائش گاہیں بھی قریب ہی تھیں۔ پولیس نے ان عوامی گواہوں کے نام اور پتے بھی ظاہر نہیں کیے جنہوں نے مبینہ طور پر گواہی دینے سے انکار کر دیا تھا۔

تیسری، ملزمان کے وکلاء نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ عجیب بات ہے کہ پولیس کے مطابق دو افراد نے انہیں قتل کرنے کی نیت سے فائرنگ کی، لیکن کوئی پولیس اہلکار زخمی نہیں ہوا اور نہ ہی ان کی گاڑیوں کو کوئی نقصان پہنچا۔

کیس میں شکایت کنندہ انسپکٹر سنگھ نے گواہی دی کہ کندن اور امت نے پولیس پر فائرنگ کی تھی۔ سنگھ کے مطابق، ان میں سے ایک نے ان پر اور دوسرے نے انسپکٹر ورما کی پیٹھ پر گولی چلائی۔ عدالت نے اس بیان کو ناقابل اعتبار قرار دیا۔ عدالت نے کہا کہ یہ بیان ‘عام اور فطری صورتحال’ کے خلاف ہے جو کہ اگر پولیس ملزمان کو چاروں طرف سے گھیر لیتی تو پیدا ہوتی۔

عدالت نے یہ بھی کہا کہ جب پولیس نے مشتبہ افراد کو گھیرے میں لیا تو پولیس کا سامنا مجرموں سے ہونا چاہیے تھا نہ کہ پیٹھ ان کی طرف ہونی  چاہیے تھی۔ استغاثہ اس بات کی وضاحت نہیں کر سکا کہ انسپکٹر ورما اپنی پیٹھ  ملزم کی طرف  کیوں  کرکے کھڑے  تھے۔

جج سنگھ نے کہا، ‘اگر وہ  اپنی پیٹھ ملزمین  کی طرف کرکے کھڑے تھے، تو اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پولیس والوں کو ان سے کوئی خطرہ نہیں تھا۔ اس کے علاوہ کوئی اور اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔’

چوتھی، عدالت نے دو پولیس انسپکٹروں کے بیانات میں بھی تضاد پایا، جنہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے ملزمان کو پستول استعمال کرتے ہوئے دیکھا ہے۔

پانچویں، عدالت نے یہ بھی پایا کہ جس جگہ یہ واقعہ پیش آیا وہاں سی سی ٹی وی کیمرے نصب تھے، لیکن استغاثہ نے ریکارڈ پر کوئی سی سی ٹی وی فوٹیج پیش نہیں کیا۔ عدالت نے کہا کہ اس فوٹیج سے صاف ظاہر ہو سکتا تھا کہ پولیس ٹیم ملزم کا پیچھا کر رہی تھی یا نہیں۔

چھٹی اور سب سے اہم بات یہ تھی کہ پولیس نے 21 اکتوبر 2020 کو ملزمین سے جس پستول کو برآمد کرنے کا دعویٰ کیا،  وہ  پہلے ہی ‘1 سی ایم ایم کے این آر 13.05.2014’ کے طور پر نشان زد کی جا چکی تھی۔ یہ پستول 2007 کے آرمس ایکٹ کیس میں ضبط کی گئی تھی جس میں ملزم رشبھ سریواستو کو 25 ستمبر 2018 کو مقامی عدالت نے بری کر دیا تھا۔

قواعد کے مطابق، جب کوئی غیر قانونی اسلحہ برآمد ہو تا ہے  اور اس پر مقدمہ ختم ہو جاتا ہے تو اسے تلف کر دیا جانا چاہیے۔ جسٹس سنگھ نے کہا، ‘کسی بھی حالت میں 2020 میں ملزم سے یہ غیر قانونی ہتھیار برآمد ہونا ممکن نہیں تھا۔’

جج نے کہا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پولیس انسپکٹر سنگھ نے یہ پستول مال خانے سے یا کسی اور ذریعے سے حاصل کیا تھا اور ملزم کو جھوٹا پھنسانے کے لیے اسے ریکوری کے طور پر دکھایا تھا۔ پولیس اس بات کی بھی وضاحت نہیں کر سکی کہ پہلے سے پولیس کے قبضے میں موجود پستول ملزمان تک کیسے پہنچی۔

عدالت نے کہا، ‘ایسے میں استغاثہ کی یہ کہانی کہ ملزمان نے پولیس پر جان سے مارنے کے ارادے سے حملہ کیا تھا، پوری طرح سے جھوٹی ثابت ہوتی ہے۔ اس مقدمے میں استغاثہ کی کہانی قابل اعتبار نہیں ہے اور استغاثہ کی جانب سے پیش کردہ گواہوں کی گواہی بھی سے بھی کوئی بھروسہ  پیدا نہیں ہوتا۔’

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔ )

Next Article

ممبئی 26/11 دہشت گردانہ حملے کے ملزم تہور رانا کی ہندوستان حوالگی، این آئی اے نے گرفتار کیا

این آئی اے نے رانا کو 2008 کے حملوں کا ‘کلیدی سازشی’ اور ‘ماسٹر مائنڈ’ بتایا ہے۔ اس حملے میں 166 افراد مارے گئے تھے۔

نئی دہلی: 2008 کے ممبئی دہشت گردانہ حملوں کی سازش کا ملزم تہور راناجمعرات (10 اپریل) کی شام دہلی پہنچا، جس کے فوراً بعد  قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) کے اہلکاروں نے اسے باضابطہ طور پر گرفتار کر لیا۔

رپورٹ کے مطابق، رانا کو ہندوستان میں مقدمے کا سامنا کرنے کے لیے امریکہ سے حوالگی کیا گیا ہے۔ اسے لاس اینجلس سے ایک فلائٹ میں نیشنل سیکورٹی گارڈ اور این آئی اے کے اہلکار کے ذریعے دہلی لایا گیا۔ این آئی اے نے را ناکو 2008 کے حملوں کے پیچھے ‘کلیدی سازشی’ اور ‘ماسٹر مائنڈ’ بتایا ہے۔ اس حملے میں 166 افراد مارے گئے تھے۔

معلوم ہو کہ پاکستانی نژاد کینیڈین شہری تہور رانا کی ہندوستان کو حوالگی امریکی عدلیہ کی جانب سے کئی راؤنڈ کی اپیلیں مسترد ہونے کے بعد ممکن ہوئی۔ ان تمام اپیلوں میں عدالت نے حوالگی کو برقرار رکھا تھا۔

رانا کے دہلی پہنچتے ہی دہلی کے ہوائی اڈے پر گرفتاری کا اعلان کرتے ہوئے این آئی اے نے ایک پریس ریلیز میں کہا کہ رانا کی حوالگی ‘دہشت گردی میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی ہندوستان کی کوششوں میں ایک بڑا قدم ہے، چاہے وہ دنیا کے کسی بھی حصے میں بھاگ گئے ہوں۔’

این آئی اے نے کہا کہ رانا پر امریکی شہری ڈیوڈ ہیڈلی اور لشکر طیبہ (ایل ای ٹی)اور حرکت الجہاد اسلامی دہشت گرد گروپوں کے کارندوں کے ساتھ 2008 کے حملوں کو انجام دینے کی سازش  کا الزام ہے۔

غور طلب ہے کہ ہندوستان کے حوالے کیے جانے سے کئی سال قبل 2011 میں رانا کو ایک امریکی عدالت نے لشکر طیبہ کو مدد فراہم کرنے کے جرم میں سزا سنائی تھی، حالانکہ اسے ممبئی حملوں میں مدد فراہم کرنے کی سازش کے الزام سے بری کر دیا گیا تھا۔

رانا کو ڈنمارک میں دہشت گردی کی سازش میں مدد فراہم کرنے کا بھی مجرم قرار دیا گیا تھا۔

امریکہ میں رانا کے مقدمے سے پتہ چلاکہ 2008 سے پہلے کے سالوں میں اس نے شکاگو میں واقع اپنی امیگریشن فرم کی ممبئی برانچ کھولنے میں مدد کی تھی، جسے اس کے بچپن کے دوست ہیڈلی نے لشکر طیبہ کی جانب سے حملوں کے لیے جگہوں کا پتہ لگانےکے لیے استعمال کیا تھا۔ رانا نے ہندوستانی ویزا حاصل کرنے میں بھی  ہیڈلی کی مدد کی تھی۔

ہیڈلی کو دیگر چیزوں کے علاوہ ہندوستان میں عوامی مقامات پر بم دھماکے کرنے کی سازش، ہندوستان اور ڈنمارک میں لوگوں کو قتل کرنے  اور انہیں معذور بنانے کی سازش، ہندوستان اور ڈنمارک میں دہشت گردی کی مدد اور لشکر طیبہ کی مدد کرنے کی سازش کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔ اسے وفاقی جیل میں 35 سال اور رانا کو 14 سال قید کی سزا سنائی گئی۔

تاہم، رانا کے برعکس، ہیڈلی امریکہ میں ہی ہے کیونکہ اس نے استغاثہ کے ساتھ ایک عرضی معاہدے پر دستخط کیے تھے، جس میں حوالگی کی ایک شق شامل تھی۔

واضح ہو کہ مئی 2023 میں کیلیفورنیا کی امریکی ضلع عدالت نے رانا کی ہندوستان حوالگی کی منظوری دی تھی، جس کے بعد امریکی سپریم کورٹ سمیت دیگر عدالتوں نے رانا کو ریلیف دینے سے انکار کر دیا تھا۔ہندوستان حوالگی کے دوران وہ عدالتی حراست میں تھا۔

پاکستان نے دوری بنائی

رانا کی حوالگی پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اسلام آباد نے رانا سے خود کو الگ کرتے ہوئے کہا کہ وہ پاکستانی شہری نہیں ہے۔

پی ٹی آئی نے دفتر خارجہ کے ترجمان شفقت علی خان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ،’وہ کینیڈا کا شہری ہے اور ہمارے ریکارڈ کے مطابق، اس نے دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے اپنے پاکستانی دستاویزات کی تجدید نہیں کرائی ہے۔’

رواں برس فروری میں وزیر اعظم نریندر مودی کے دورہ واشنگٹن کے دوران جاری کیے گئے مشترکہ بیان میں اس بات کی تصدیق کی گئی تھی کہ رانا کی ہندوستان حوالگی کی منظوری دے دی گئی ہے، جسے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے بھی قبول کر لیا تھا۔

وہائٹ ہاؤس نے ٹرمپ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ‘… جیسا کہ آپ نے کہا، ہم ایک بہت پرتشدد شخص کو ہندوستان کے حوالے کر رہے ہیں… میرا مطلب ہے، مجھے نہیں معلوم کہ اسے ابھی تک سزا سنائی گئی ہے یا نہیں، لیکن ما ن لیں کہ وہ بہت متشدد شخص ہے- ہم اسے فوری طور پر ہندوستان کے حوالے کر رہے ہیں۔’

جب رانا امریکہ میں اپنی سزا کاٹ رہا تھا، ہندوستان نے دو طرفہ معاہدے کے تحت حوالگی کی درخواست دائر کی  تھی اور جون 2020 میں اس کی ہمدردانہ رہائی کے ایک دن بعد واشنگٹن نے حوالگی کے مقاصد کے لیے اس کی عارضی گرفتاری کی شکایت درج کرائی تھی۔’

ہندوستان میں سابق امریکی سفیر ایرک گارسیٹی، جنہوں نے جو بائیڈن انتظامیہ کے تحت خدمات انجام دیں تھیں، نے گزشتہ سال دی ٹائمز آف انڈیا کو بتایا کہ دونوں فریقوں نے رانا کی حوالگی کے لیے ایک سخت معاملہ  بنایا ہے ۔