سری نگر تھانے میں ہوئے دھماکے میں نو افراد ہلاک، ٹیرر ماڈیول کی جانچ سے جڑا معاملہ

04:04 PM Nov 15, 2025 | جہانگیر علی

جمعہ کی رات سری نگر کے نوگام پولیس اسٹیشن میں ہوئے دھماکے میں ایک ایس آئی اے افسر، تین ایف ایس ایل ماہرین، محکمہ محصولات کے دو اہلکار، دو پولیس فوٹوگرافر اور ایک درزی سمیت نو افراد ہلاک ہوگئے، جبکہ دو درجن سے زیادہ لوگ زخمی ہوگئے۔ بتایا گیا ہے کہ یہ دھماکہ فرید آباد ‘ٹیرر ماڈیول’ کیس میں برآمد ہوئے دھماکہ خیزمواد کو پیش کرنے کی تیاریوں کے دوران ہوا۔

پندرہ نومبر 2025 کو سری نگر کے نوگام پولیس اسٹیشن میں جمعہ کی رات ہوئے دھماکے میں ہلاک ہونے والے درزی محمد شفیع پارے کی موت پر سوگوار اہل خانہ ۔ (تصویر: عمر فاروق)

سری نگر: دی وائر کو موصولہ جانکاری کے مطابق،جمعہ (14 نومبر) کو جب جموں و کشمیر پولیس کی ریاستی تحقیقاتی ایجنسی (ایس آئی اے)کے تفتیش کاروں کا ایک گروپ، جموں و کشمیر ریونیو ڈپارٹمنٹ کے اہلکار اور ایک درزی کے نوگام  پولیس اسٹیشن میں فرید آباد ‘ٹیرر ماڈیول’ کیس میں ہوئی برآمدگی کی نمائش کی تیار کر رہے تھے، وہاں زبردست دھماکہ ہوا۔

جموں و کشمیر کے پولیس ڈائریکٹر جنرل نلن پربھات نے سنیچر کی صبح سری نگر میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ دھماکہ ‘حادثاتی’ تھا اور اس بات پر زور دیا کہ نوگام پولیس اسٹیشن میں ہوئے دھماکے کی وجہ کے بارے میں ‘ کوئی بھی اور قیاس آرائیاں’ غیر ضروری ہیں۔

ڈی جی پی نے کہا کہ اس ہفتے کے شروع میں فرید آباد سے برآمد کیا گیا 2,900 کلو گرام دھماکہ خیز مواد اور دیگر مواد کو ‘ نوگام تھانے کے کھلے علاقے میں محفوظ طریقے سے منتقل کیا گیا اور رکھا گیا تھا۔’

جموں و کشمیر کے پولیس ڈائریکٹر جنرل نلن پربھات 15 نومبر 2025 کو سری نگر کے نوگام پولیس اسٹیشن میں ہوئے دھماکے کے حوالے سے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

انہوں نے کہا،’ضابطہ کےتحت برآمدگی کے نمونے کو آگے کی جانچ کے لیے بھیجا جانا تھا۔ برآمدگی کی مقدار زیادہ ہونے کی وجہ سے یہ عمل جمعرات سے جاری تھا۔برآمدگی کی غیر مستحکم اور حساس نوعیت کے پیش نظر، ایف ایس ایل ٹیم کی طرف سے نمونے لینے کا عمل اور ہینڈلنگ  کوانتہائی احتیاط سے انجام دیا جا رہا تھا۔ تاہم، بدقسمتی سے ایک حادثہ ہوگیا۔’

پربھات نےبتایا کہ اس دھماکے میں ایک ایس آئی اے افسر، تین ایف ایس ایل ماہرین، ریونیو ڈپارٹمنٹ کے دو اہلکار، دو پولیس فوٹوگرافر اور ایک درزی سمیت نو لوگ مارے گئے، جبکہ دو درجن سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے۔

ڈی جی پی نے میڈیا بریفنگ کے دوران صحافیوں کے سوالات کا جواب نہیں دیا۔

مہلوک ایس آئی اے افسر کی شناخت اسرار الحق کے طور پر ہوئی ہے، جنہوں نے گزشتہ رات اپنی سری نگر کی رہائش گاہ پر اہلیہ سے کہا تھا کہ وہ اپنا کام ختم کرنے کے بعد 10 منٹ میں واپس آجائیں گے۔ پربھات نے کہا کہ دھماکے سے پولیس اسٹیشن کی عمارت کو ‘شدید نقصان’ پہنچا ہے۔

ڈی جی پی نے کہا، ‘جموں و کشمیر پولیس غم کی اس گھڑی میں مرنے والوں کے اہل خانہ کے ساتھ ہے۔’

ایک ذرائع نے بتایا کہ نوگام پولیس اسٹیشن کے اسٹیشن ہاؤس آفیسر کی جان بال بال بچ گئی کیونکہ وہ دھماکے سے کچھ لمحے پہلے تقریباً 11.20 بجے اس علاقے سے باہر چلے گئے تھے جہاں تفتیش کار نمائش کی تیاری کر رہے تھے۔

ایک ذرائع نے بتایا کہ مرنے والوں میں ایک شہری محمد شفیع پارے بھی شامل ہیں، جو درزی کا کام کیا کرتےتھے۔ وہ وہاں اس لیے تھے کہ مواد کومجسٹریٹ کے سامنے پیش کیے جانے کے بعد سلائی کرکے پیک کردیں۔مگر ایسا ہونے سے پہلے ہی سب کچھ آگ کی لپیٹ میں آ گیا، جس سے افراتفری پھیل گئی۔

جمعہ کی رات ہوئے دھماکے میں مارے گئےدرزی محمد شفیع پارے کے گھر پر جمع رشتہ دار ۔ (تصویر: دی وائر)

جموں و کشمیر پولیس کی ایک ٹیم نے فرید آباد پولیس کے ساتھ مل کر اس ہفتے کے شروع میں جیش محمد اور انصار غزوات الہند کے ذریعے مبینہ طور پر چلائے جانے والے ‘بین ریاستی اور بین الاقوامی’ ٹیررماڈیول’ کے مشتبہ ٹھکانے سے تقریباً 2,900 کلو گرام دھماکہ خیز مواد، آلات، کیمیکل اور بیٹریاں برآمد کی تھیں۔

بعد میں یہ معاملہ جموں و کشمیر پولیس کے انسداد دہشت گردی یونٹ اسی آئی اے کو سونپ دیا گیا۔ برآمد اشیاء، جو مبینہ طور پر’ٹیرر ماڈیول’ کے ارکان نے بالٹیوں اور بریف کیس میں رکھی گئی تھیں، اس ہفتے کے شروع میں سری نگر لائی گئی تھیں۔

نوگام اور آس پاس کے علاقوں کے کچھ رہائشیوں نے بتایا کہ وہ ایک زور دار دھماکے سے بیدار ہوئے، جس کی آواز سری نگر اور جنوبی کشمیر کے پلوامہ ضلع کے اکثر علاقوں میں سنی گئی۔

ایک اہلکار نے بتایا کہ دھماکے میں تھانے کو بری طرح نقصان پہنچا، جبکہ احاطے میں کھڑی کئی گاڑیوں میں بھی آگ لگ گئی۔

دھماکے کی جگہ پر بنائے گئے کچھ ویڈیوز میں نظر آ رہا ہے کہ امدادی کارکن زخمیوں کو پولیس اسٹیشن کو لگنے والی آگ سے بچانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

نوگام کے ایک مقامی رہائشی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دی وائر سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پہلے زور دار دھماکے سے علاقے میں کئی رہائشی مکانات کو نقصان پہنچا، اس کے بعد کئی کم شدت کے دھماکے ہوئے۔

مانا جا رہا ہے کہ کم شدت کے دھماکوں نے امدادی کارکنوں کو زخمیوں کو نکالنے میں رکاوٹ ڈالی، جنہیں بعد میں سری نگر کے ایس ایم ایچ ایس اسپتال اور نوگام کے اُجالا سائگنس اسپتال لے جایا گیا۔

مذکورہ افسر نے کہا،’ان میں سے کچھ کی حالت نازک ہے۔’ پولیس افسران اور فرانزک ماہرین کی ایک ٹیم نے سری نگر میں دھماکے کی جگہ کی گھیرابندی کر دی ہے۔

جموں – کشمیر کا ایک پولیس افسر نوگام پولیس اسٹیشن کے داخلی دروازے کے قریب ایک خاتون کو روکتے ہوئے، جہاں جمعہ کی رات ایک زبردست دھماکہ ہوا تھا۔ (تصویر: عمر فاروق)

فرید آباد ‘ٹیرر ماڈیول’ معاملے میں اب تک دو کشمیری ڈاکٹروں – ڈاکٹر مزمل شکیل اور ڈاکٹر عادل احمد راٹھور، بالترتیب ہریانہ اور اتر پردیش سے — کو گرفتار کیا گیا ہے، جبکہ دبئی کا ایک اور ڈاکٹر مفرور ہے۔ اس معاملے میں لکھنؤ کی ایک خاتون ڈاکٹر کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔

گزشتہ10 نومبر کو ‘ٹیرر ماڈیول’ کا پردہ فاش ہونے کے چند گھنٹے بعد لال قلعہ کے آس پاس پرانی دہلی کے پرہجوم علاقے میں ایک میٹرو اسٹیشن کے قریب ایک زبردست دھماکہ ہوا، جس میں کم از کم 13 افراد ہلاک اور دو درجن سے زائد زخمی ہوئے۔

اس ہفتے کے شروع میں ہوئی کابینہ کی میٹنگ کے بعد مرکز نے کہا تھا کہ اس دھماکے کو دہشت گردانہ واقعہ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

حکام کے مطابق، یہ دھماکہ ایک ہنڈئی کار میں ہوا تھا،جسے مبینہ طور پر فرید آباد کی الفلاح یونیورسٹی میں کام کرنے والے کشمیری ڈاکٹر عمر نبی چلا رہے تھے، جن کے بارے میں ماناجاتا ہے کہ وہ فرید آباد ٹیررماڈیول کا حصہ ہیں۔

تاہم، حکام نے لال قلعہ دھماکے کے بعد سے لاپتہ نبی کا ابھی تک فرید آباد کیس سے کوئی تعلق نہیں بتایا ہے۔

میڈیا  میں نامعلوم اہلکاروں کے حوالے سے آئی خبروں کے مطابق،لال قلعہ دھماکے میں ملوث کار کے ڈی این اے کے نمونے نبی کی والدہ سے مماثل ہیں، تاہم اس کی بھی سرکاری طور پر تصدیق نہیں ہو ئی ہے۔

اس سے قبل نوگام کی ایک مقامی مسجد کے امام اور دہشت گردوں کے ایک مشتبہ سرگرم کارکن کے ساتھ ساتھ تین نوجوانوں کو بھی اس معاملے میں گرفتار کیا گیا تھا۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔