حراست میں لیے گئے دونوں انجینئر رشتے میں بھائی ہیں۔ قومی تحقیقاتی ایجنسی نے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 41 اے کے تحت لازمی گرفتاری کا نوٹس دیے بغیر انہیں حراست میں لیا ہے۔
بلاسٹ سے ٹھیک پہلے بنگلورو کا رامیشورم کیفے۔ (تصویر بہ شکریہ: X/@PranavMatraaPPS)
ممبئی: منگل (21 مئی) کی صبح 5 بجے، قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) کی نو افراد پر مشتمل ایک ٹیم، مقامی ہبلی پولیس کی مدد سے، 34 سالہ انجینئر شعیب احمد مرزا کے گھر پہنچی۔ ٹیم نے اگلے سات گھنٹوں تک چھاپہ مار کر ایک لیپ ٹاپ اور دو موبائل فون ضبط کر لیے۔ دوپہر کے قریب، شعیب اور ان کے بڑے بھائی اعجاز، دونوں بنگلورو میں ایک پرائیویٹ آئی ٹی فرم میں کام کرتے ہیں، سے کچھ کپڑے پیک کرنے کو کہا۔ ان کے والد، جو این آئی اے کے چھاپے کے دوران گھر پر تھے، کو مطلع کیا گیا کہ ان دونوں کو بنگلورو لے جایا جائے گا۔
تاہم، این آئی اے نے بھائیوں کو گرفتاری کا نوٹس نہیں دیا، جیسا کہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 41 اے کے تحت لازمی ہے۔
اس کے بجائے، انہیں سی آر پی سی کی دفعہ 160 کے تحت نوٹس دیے گئے، جو صرف پولیس کو گواہوں کی موجودگی کی ضرورت کا اختیار دیتا ہے۔ گواہی کے نوٹس میں کیس نمبر ’01/2024/این آئی اے/بی ایل آر’ کا ذکر ہے، جو رامیشورم کیفے بلاسٹ معاملے سے متعلق ہے۔
یہ واقعہ ایک مارچ کو بنگلورو میں پیش آیا تھا، جس میں 20 سے زیادہ لوگ زخمی ہوگئے تھے۔ 12 اپریل کو این آئی اے نے دو گرفتاریاں– مصورحسین شازیب اور عبدالمتین طحہٰ- مغربی بنگال کے کولکاتہ میں ان کے مبینہ ٹھکانوں سے کی تھیں۔ بنیادی طور پرشیو موگا ضلع کے تیرتھ ہلی کے رہنے والے دونوں افرادکو معاملے کا ماسٹر مائنڈ بتایا گیا تھا۔
منگل کو دن بھر نیوز چینلوں نے مختلف ریاستوں میں کئی چھاپوں کی اطلاع دی۔ رات 8 بجے این آئی اے نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ انہوں نے چار ریاستوں – کرناٹک، تمل ناڈو، آندھرا پردیش اور تلنگانہ میں 11 مختلف مقامات پر چھاپے ماری کی ۔
پریس نوٹ میں کہا گیا ہے کہ ‘مشتبہ افراد’ سے ‘الکٹرانک ڈیوائسز اور دستاویز’ ضبط کیے گئے ہیں۔ تاہم، چھاپے شروع ہونے کے 15 گھنٹے بعد جاری کیے گئے پریس نوٹ میں رامیشورم دھماکہ کیس میں کسی نئی گرفتاری کا ذکر نہیں کیا گیا۔
تو کیا شعیب اور اعجاز کو غیر قانونی طور پر حراست میں لیا گیا؟
واقعات کی ترتیب، ان کے اہل خانہ کی طرف سے شیئر کی گئی تفصیلات اور ان دونوں کو جاری کیے گئے نوٹس کو دیکھ کر ایسا ہی لگتا ہے کہ انہیں واقعی غیر قانونی طور پر حراست میں لیا گیا ہے۔
گزشتہ 21 مئی کو صبح سویرے بھائیوں کو دو الگ الگ نوٹس دیے گئے۔ یکساں مواد والے نوٹس میں کہا گیا ہے؛ ‘آپ کو پوچھ گچھ کے لیے 21.05.2024 کو شام 5 بجے بنگلورو کے این آئی اے دفتر میں حاضر ہونے کی ہدایت دی جاتی ہے۔’
ہبلی (جہاں شعیب اور اعجاز رہتے ہیں) اور بنگلورو کے درمیان فاصلہ 420 کلومیٹر سے زیادہ ہے، سڑک کے ذریعے سفر کرنے میں سات گھنٹے سے زیادہ وقت لگتا ہے۔ اگر یہ دونوں اپنے طور پر بنگلور جاتے تو بھی وقت پر پہنچنا عملی طور پر ناممکن تھا۔
این آئی اے نے قانونی ضابطے کی خلاف ورزی کی ہے جن پر تفتیش یا گرفتاری کے دوران عمل کیا جانا چاہیے۔
واضح ہو کہ سپریم کورٹ نے بارہا قانون کے مطابق عمل کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ گزشتہ ہفتے سینئر صحافی اور نیوز پورٹل نیوز کلک کے ایڈیٹر پربیر پرکایستھ کو ضمانت دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ تفتیشی ایجنسی کو نہ صرف ‘گرفتاری کی وجوہات’ بلکہ ‘گرفتاری کی بنیاد’ بھی تحریری طور پر بتانی ہوں گی۔ ‘ این آئی اے نے شعیب اور اعجاز کو ان میں سےکچھ نہیں دیا۔
گرفتاری وارنٹ کی عدم موجودگی اور شام کو این آئی اے کی جانب سے جاری کیے گئے پریس نوٹ کی وجہ سے مرزا خاندان شدید تناؤ میں ہے۔
شعیب کی اہلیہ لزینہ، جو تین ماہ کی حاملہ ہیں، نے بتایا کہ خاندان سارا دن یہ جاننے کے لیے انتظار کرتا رہا کہ بھائیوں کہاں لے جایا گیا ہے۔ انہوں نے پوچھا، ‘اگر انہیں گرفتار نہیں کیا گیا ہے اور صرف گواہ کے طور پر ان کی ضرورت تھی، تو این آئی اے انہیں اس طرح کیوں لے گئی؟’
گزشتہ 13 اپریل کو این آئی اے کے ذریعے مغربی بنگال میں گرفتاری کے ایک دن بعد شعیب کو پوچھ گچھ کے لیے بلایا گیا تھا۔ تب انہوں نے دی وائر کو بتایا تھا کہ انہیں گھنٹوں کی پوچھ گچھ کے بعد جانے دیا گیا تھا۔
یہ پہلا موقع نہیں جب مرزا خاندان کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ 2012 میں، جب شعیب صرف 22 سال کے تھے اور کمپیوٹر ایپلی کیشن میں ماسٹر کی ڈگری مکمل کی ہی تھی، تب بھی انہیں لشکر طیبہ ماڈیول میں ان کے مبینہ رول کے لیے گرفتار کر لیا گیا تھا۔
ان پر دائیں بازو کے کالم نگار اور میسور سے بھارتیہ جنتا پارٹی کے سابق رکن پارلیامنٹ پرتاپ سمہا کو مارنے کی منصوبہ بندی کرنے کا الزام تھا۔ اس وقت 25 سالہ اعجاز، جو ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن (ڈی آر ڈی او) میں جونیئر ریسرچ فیلو کے طور پر کام کر رہے تھے، کو بھی گرفتار کیا گیا تھا۔
پانچ سال بعد 12 دیگر افراد کے ساتھ شعیب نے جرم قبول کر لیا تھا، جبکہ اعجاز کو 6 ماہ کے اندر کیس سے بری کر دیا گیا تھا۔ انہیں غلط طریقے سے پھنسایا گیا تھا، لیکن اس واقعے کی وجہ سے انہیں ڈی آر ڈی او میں بطور سائنسدان اپنی نوکری گنوانی پڑی تھی۔
فی الحال، اعجاز بنگلورو میں ایک آئی ٹی کمپنی کے لیے کام کرتے ہیں اور 2020 میں کووڈ19 کے پھیلنے کے بعد سے گھر سے کام کر رہے ہیں۔
سال 2017 میں اپنی رہائی کے بعد شعیب نے ایک آئی ٹی کمپنی میں نوکری شروع کی، اور ‘اتحاد نیوز ہبلی’ کے نام سے یوٹیوب نیوز چینل بھی شروع کیا۔ چینل کے تقریباً 6000 سبسکرائبرز ہیں اور 600 سے زیادہ ویڈیوز ڈالے گئے ہیں۔
شعیب اقبال زکاتی کی زندگی سے متاثر تھے۔ زکاتی پہلے بھی جیل میں تھے، جو اب بیلگام میں ایک معروف صحافی بن گئے ہیں۔
این آئی اے نے 2012 کے کیس میں شعیب کے ساتھ قصوروار ٹھہرائے گئے تین اور لوگوں کے گھروں کے ساتھ ساتھ آندھرا پردیش کے اننت پور میں ایک آئی ٹی انجینئر کے گھر پر بھی چھاپہ مارا۔ اطلاعات کے مطابق، این آئی اے حکام کی ایک اور ٹیم اسی وقت اننت پوربھی پہنچی اور رائے درگ شہر میں ایک ریٹائرڈ ٹیچر عبدل کے گھر پر چھاپہ مارا اور ان کے 33 سالہ بیٹے کو حراست میں لے لیا، جو بنگلورو میں ایک سافٹ ویئر کمپنی میں انجینئر ہیں۔ سہیل پچھلے تین ماہ سے گھر سے کام کر رہے تھے۔
دی وائر اس بات کی تصدیق نہیں کر پا یا ہے کہ سہیل کو باضابطہ طور پر گرفتار کیا گیا ہے یا نہیں۔ این آئی اے کے جاری کردہ پریس بیان میں بھی ان کی گرفتاری کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
پرانے ریکارڈ والے تین افراد میں ہبلی کے رہائشی عبدالحکیم جمعدار اور کوئمبٹور کے دو ڈاکٹر ظفر اقبال شولاپور اور نعیم صدیقی —شامل ہیں۔
این آئی اے نے سی آر پی سی کی دفعہ 160 کے تحت جمعدار، شولا پور اور صدیقی کو نوٹس جاری کیا اور انہیں 23 مئی کو بنگلورو میں این آئی اے کے دفتر میں حاضر ہونے کو کہا۔
(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔ )