الور ضلع کے کشن گڑھ باس تھانہ حلقہ کے بگھیری کھرد گاؤں میں گزشتہ اتوار کی صبح محمد صغیر کو مبینہ گئورکشکوں نے بےرحمی سے پیٹا۔ شدیدطور پر زخمی صغیر ضلع ہاسپٹل کے آئی سی یو میں زندگی اور موت سے لڑ رہے ہیں۔
پہلو خان اور اکبر خان کے قتل سے بدنام ہوئے راجستھان کا الور ضلع ماب لنچنگ کی وجہ سے ایک بار پھر شرمسار ہے۔ اتوار یعنی 30 دسمبر کی صبح قریب چار بجے ضلع کے مرزاپور گاؤں کے محمد صغیر مبینہ گئورکشکوں کے ہتھے چڑھ گیا۔ گئوتسکری کے شک میں بھیڑ نے اس کو پیٹ پیٹکر ادھ مرا کر دیا۔شدیدطور پر زخمی صغیر فی الحال الور کےضلع ہاسپٹل کے آئی سی یو میں زندگی اور موت کے درمیان جھول رہا ہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق صغیر کے جسم پر کئی چوٹیں ہیں۔ مارپیٹ کی وجہ سے وہ صدمے میں ہیں، جس سے اس کا بلڈ پریشر بہت کم ہو گیا ہے۔ صغیر کے ساتھ اس کا دوست مشتاق بھی تھا، لیکن وہ جان بچاکر بھاگنے میں کامیاب رہا۔
معاملے کی جانکاری دیتے ہوئے کشن گڑھ باس کے کارگزار تھانہ انچارج راجیش شرما کہتے ہیں، اتوار کی صبح تھانے کو الور کنٹرول روم سے اطلاع ملی کہ علاقے کے گاؤں بگھیری کھرد میں گاؤں والوں نے ایک گئوتسکر کو پکڑ رکھا ہے۔پولیس موقع پر پہنچی تو گاؤں والوں نے مرزاپور باشندہ محمد صغیر کو پکڑا ہوا تھا۔جسم پر چوٹوں کے نشان دیکھکر پولیس اس کو کشن گڑھ باس کے پرائمری کمیونٹی ہیلتھ سینٹر لے گئی۔یہاں کے ڈاکٹر نے اس کو الور ریفر کر دیا۔’
راجیش شرما آگے کہتے ہیں،صغیر نے پولیس کو بتایا کہ اس کے ساتھ مشتاق بھی تھا، لیکن وہ مارپیٹ کی بھنک لگتے ہی بھاگ گیا۔موقع سے ایک پک اپ وین برآمد ہوئی ہے، جس میں چار گائے اور دو بیل تھے۔ان کی حالت بھی بدتر تھی۔پولیس نے ان کو علاقے میں قائم گھاٹابمبورا کی شری کرشن گئوشالہ میں بھیج دیا ہے۔باقی حقائق کی تفصیل جانچکے بعد سامنے آئےگی۔’
وہیں،گاؤں والوں کے مطابق اتوار کی صبح صغیر اور ایک کار ڈرائیور کے درمیان سائیڈ دینے کو لےکر تنازعہ ہوا تھا۔ دونوں کے درمیان بحث کے دوران کار ڈرائیور کی نظر پک اپ میں بھرے گئوونش پر پڑی۔ اس کے بارے میں پوچھ تاچھ کرنے پر وہ پک اپ کو کچے راستے پر اتارکر بھگانے لگے، لیکن کچھ دور چلنے کے بعد ہی یہ مٹی میں دھنس گئی۔
پک اپ کے رکتے ہی مشتاق وہاں سے بھاگ گیا، لیکن صغیر کو کار میں سوار لوگوں نے پکڑ لیا اور مارپیٹ شروع کر دی۔ کچھ دیر میں موقع پر گاؤں والوں کی بھیڑ جمع ہو گئی، جس میں سے زیادہ تر نے صغیر پر ہاتھ صاف کیا۔ حالانکہ گاؤں کے ہی کچھ لوگوں نے بھیڑ کو صغیر کے ساتھ مارپیٹ کرنے سے روکا اور ان میں سے ایک آدمی نے پولیس کو معاملے کی اطلاع دی۔
اکبر خان کے معاملے میں لاپروائی کے الزام سے جوجھ رہی پولیس نے اطلاع کو سنجیدگی سے لیا۔ کنٹرول روم سے اطلاع ملنے پر کشن گڑھ باس تھانے کی پولیس فوراً موقع پر پہنچی اور صغیر کو کشن گڑھ باس کے ہیلتھ سینٹر لےکر گئی۔یہاں موجود ڈاکٹر نے صغیر کو الور کےضلع ہاسپٹل ریفر کیا جس کے بعد پولیس ان کو وہاں لےکر گئی۔
غور طلب ہے کہ اکبر خان کے معاملے کی تفتیش میں سامنے آیا تھا کہ شدیدطور پر زخمی ہونے کے باوجود پولیس اکبر کو فوراً ہاسپٹل لےکر نہیں گئی۔ پولیس اہلکاروں نے قبول کیا کہ انہوں نے اکبر کا علاج کروانے کی بجائے گایوں کو گئوشالہ لے جانے کو ترجیح دی۔الور کےضلع ہاسپٹل میں موجود صغیر کے ایک رشتہ دار کہتے ہیں، ہمارے لئے پالنے کے لئے جانور لانا مسئلہ بن گیا ہے۔یا تو گئورکشکوں کو پیسے دو یا ان سے مار کھاؤ۔پیسے کم ہوتے ہیں اسی لئے تو دودھ نہیں دینے والی گایوں کو خریدکر لاتے ہیں۔پولیس کو گئورکشا کے نام پر وصولی کرنے والے گروہ کا خاتمہ کرنا چاہیے۔’
وہیں، مبینہ گئورکشکوں کی حمایت کرتے رہے بی جے پی کے سابق ایم ایل اے گیان دیو آہوجہ صغیر کے ساتھ ہوئی مارپیٹ کو صحیح مانتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں،صغیر ایک گئوتسکر ہے۔اس کے خلاف گایوں کی اسمگلنگ کے دو مقدمہ پہلے سے درج ہیں۔اتوار کو وہ اور اس کا دوست گایوں کو کاٹنے کے لئے لے جا رہے تھے۔ایسے لوگوں کے ساتھ مارپیٹ نہیں کریں تو کیا کریں۔’
آہوجہ آگے کہتے ہیں، میں قانون ہاتھ میں لینے کی وکالت نہیں کرتا، لیکن جس گائے کو پورا ہندو سماج ماتا مانتا ہے اس کو اپنی آنکھوں کے سامنے کٹنے کے لئے جانے نہیں دے سکتے۔گئوتسکر عادتاً مجرم ہوتے ہیں۔خطرناک ہتھیار اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔پولیس پر بھی فائرنگ کر دیتے ہیں۔ایسے مجرموں کو قابو میں کرنے کے لئے تھوڑی سی پٹائی کیسے غلط ہے؟ ‘
کشن گڑھ باس تھانے کے انچارج راجیش شرما صغیر پر گئوتسکری کے دو مقدمہ درج ہونے کی تصدیق کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں،صغیر پر گئوتسکری کے دو مقدمہ درج ہیں۔دونوں میں چالان پیش ہو چکا ہے۔اتوار کے واقعہ کے بعد اس پر گئوتسکری کا ایک معاملہ اور درج کیا گیا ہے۔اس کے ساتھ مارپیٹ کرنے والے 5 سے 7 نامعلوم لوگوں کے خلاف مارپیٹ کا معاملہ بھی درج کیا گیا ہے۔’
الور میں اس طرح کے مختلف واقعات میں اضافہ کی وجہ سمجھاتے ہوئے راجستھان پتریکا کے الور ایڈیشن کے مقامی مدیر ہیرین جوشی کہتے ہیں، میوات علاقے میں کئی غیر قانونی بوچڑ خانہ ہیں۔ان کے ناظم دو ہزار میں بکنے والی گائے کو بیس ہزار روپے تک میں خریدتے ہیں۔پیسے کے لالچ میں کئی لوگ یہ کام کر رہے ہیں۔کئی لوگ بوڑھی گایوں کو خرید کر سپلائی کرتے ہیں تو کئی آوارہ گایوں کو پکڑکے لے جاتے ہیں۔’
علاقے میں گئورکشا کے نام پر ماب لنچنگ کے بڑھتے واقعات پر ہیرین جوشی کہتے ہیں،گئواسمگلر کو روکنے کی آڑ میں علاقے میں کئی وصولی گروہ پنپ گئے ہیں۔یہ لوگ منظم طور پر اس کو چلاتے ہیں۔انہوں نے کئی گئواسمگلر سے سانٹھ گانٹھ کر رکھی ہے۔جو ان کو پیسے نہیں دیتے ہیں، ان کے ساتھ یہ مارپیٹ کرتے ہیں۔پچھلے کچھ وقت میں اس طرح کے کئی واقعات سامنے آ چکے ہیں۔’
فکر کی بات یہ ہے کہ پولیس کو ان سب کی جانکاری ہے، لیکن نہ تو گئواسمگلنگ کم ہو رہی ہے اور نہ ہی گئورکشا کے نام پر غنڈہ گردی تھم رہی ہے۔ یہ حالت تب ہے جب پولیس کے پاس اس طرح کے واقعات کو روکنے کے لئے الگ سے قانون ہے۔غور طلب ہے کہ اپریل،2017 میں پہلو خان کے قتل کے بعد اس وقت کی وسندھرا حکومت نے الور اور بھرت پور ضلع میں گئواسمگلنگ روکنے کے لئے کئی نئی پولیس چوکیاں کھولی تھیں۔ ان کا کام صرف غیر قانونی گئوونش کی آمد ورفت پر کارروائی کرنا ہے۔ اس کے باوجود گئواسمگلنگ اور مبینہ گئورکشکوں کی غنڈہ گردی کے معاملے سامنے آتے رہتے ہیں۔
(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں۔)
The post راجستھان: حکومت بدلنے کے باوجود ماب لنچنگ کا سلسلہ جاری appeared first on The Wire - Urdu.