بہار: کیا شراب بندی غریبوں کے لیے نوٹ بندی سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوئی؟

شراب بندی نافذ ہونے کے قریب تین سال بعد آج عام نظریہ بن گیا ہے کہ غریبوں کے نام پر لیا گیا یہ فیصلہ موٹے طور پر نہ صرف ناکام ہے بلکہ یہ ایک غریب مخالف فیصلہ ہے۔ The post بہار: کیا شراب بندی غریبوں کے لیے نوٹ بندی سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوئی؟ appeared first on The Wire - Urdu.

شراب بندی نافذ ہونے کے قریب تین سال بعد آج عام نظریہ بن گیا ہے کہ غریبوں کے نام پر لیا گیا یہ فیصلہ موٹے طور پر نہ صرف ناکام ہے بلکہ یہ ایک غریب مخالف فیصلہ ہے۔

مستان مانجھی کو شراب پینے کے الزام میں 5 سال کی سزا ہوئی ہے۔ ان کے پاس کورٹ کچہری کے لئے پیسہ نہیں تھا، اس لیے قرض لینا پڑا۔ (فوٹو : امیش کمار رائے)

مستان مانجھی کو شراب پینے کے الزام میں 5 سال کی سزا ہوئی ہے۔ ان کے پاس کورٹ کچہری کے لئے پیسہ نہیں تھا، اس لیے قرض لینا پڑا۔ (فوٹو : امیش کمار رائے)

بہار میں مکمل شراب بندی  نافذ ہوئے قریب تین سال ہو چکے ہیں۔  اس دوران ۔نتیش کمار بےشمار مواقع پر، ہر ممکن منچ سے یہ دوہراتے رہے ہیں کہ جو شراب بندی  نافذ کر دی گئی تھی وہ غریب لوگوں کے لئے، حاشیے پر رہنے والے لوگوں کی بھلائی کے لئے نافذ کی گئی تھی اور اس کا سب سے زیادہ فائدہ بھی اسی طبقے کو ہوا ہے۔

بہار میں شراب بندی  کو  لےکر  ابتدا میں  ملاجلا  رد عمل تھا۔  مگر شراب بندی نافذ ہونے کے قریب تین سال بعد آج عام نظریہ بن گیا ہے کہ غریبوں کے نام پر لیا گیا یہ فیصلہ موٹے طور پر نہ صرف ناکام ہے بلکہ یہ ایک غریب مخالف فیصلہ ثابت ہو رہا ہے۔  شراب بندی  میں سب سے زیادہ غریب ہی پریشان ہو رہے ہیں۔  غور طلب ہے کہ اس قانون کے تحت جن کو سب سے پہلے سزا سنائی گئی وہ جہان آباد ضلع میں صوبے کے سب سے کمزور طبقے مسہر سماج سے آنے والے دو غریب تھے۔  گزشتہ سال مئی کے آخر میں مستان مانجھی اور پینٹر مانجھی کو مبینہ طور پر نشے کی حالت میں گرفتار کیا گیا تھا۔

اپوزیشن  لگاتار اس ناکامی کو سامنے رکھ رہا ہے۔  غور طلب ہے کہ سابق وزیراعلی جیتن رام مانجھی نے اس سال فروری کے آخر میں حکمراں  اتحاد سے الگ ہوتے ہوئے شراب بندی  کے تحت ہوئی گرفتاریوں کو اپنے فیصلے کی ایک بڑی وجہ بتایا تھا۔  حزب مخالف کا یہ بھی الزام ہے کہ شراب بندی  کے بعد بہار پولیس کا دھیان جرائم کنٹرول سے زیادہ شراب ضبطی پر ہے اور اس سبب بہار میں جرائم کنٹرول سے باہر اور غریب پریشان ہو رہے ہیں۔  میڈیا رپورٹس ایسے الزامات کی تصدیق کر رہی ہیں۔  ۔نتیش کمار نے بھی 23 جولائی کو ایوان میں یہ مانا تھا کہ اس قانون کا غلط استعمال ہو رہا ہے۔

حالانکہ 23 جولائی کو نتیش کمار نے ایوان میں کچھ اعداد و شمار رکھے لیکن یہ نہیں بتایا کہ اب تک اس قانون سے کون سا طبقہ کیوں اور کتنا پریشان ہوتا رہا ہے۔  جبکہ مئی مہینے کے آخر میں انگریزی اخبار انڈین ایکسپریس نے سرکاری اعداد و شمار کے حوالے سے ہی اپنی ایک رپورٹ میں یہ بتایا تھا کہ شراب بندی  قانون سے غریب اور محروم طبقے ہی سب سے زیادہ پریشان ہو رہے ہیں۔  تب اخبار نے پٹنہ، گیا اور موتیہاری سرکل کے تین مرکزی جیلوں، 10 ضلع جیلوں اور نو ضمنی جیلوں کے اعداد و شمار کا تجزیہ کیا تھا۔  صوبے میں کل آٹھ جیل سرکلس ہیں اور ان تین سرکلس میں ہی شراب بندی  کے دو سالوں، اپریل، 2016 سے مارچ، 2018 کے درمیان ہوئی تقریباً1.22 لاکھ گرفتاریوں میں سے تقریباً 67 فیصد گرفتاریاں ہوئی تھیں۔

رپورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق صوبے میں ایس سی کی آبادی 16 فیصد ہے، جبکہ شراب بندی  قانون کے تحت ہوئی کل گرفتاریوں میں27.1 فیصد لوگ ایس سی کے ہی ہیں۔ ایس ٹی کی گرفتاری کے اعداد و شمار تو حیران کرنے والے تھے جن کی آبادی بہار میں محض 1.3 فیصد ہے۔ گرفتاری میں ایس ٹی کا فیصد اپنی آبادی کا قریب پانچ گنایعنی 6.8 فیصد تھا۔بہار کے ہر چار شہریوں میں سے ایک او بی سی(قریب25 فیصد آبادی) ہے، لیکن شراب بندی  کے تحت جیل میں بند ہر تیسرا آدمی(گرفتاری کا 34.4 فیصد) اس طبقے سے آتا ہے۔ان اعداد و شمار کے مطابق کمزور طبقے میں صرف ای بی سی کی گرفتاری ہی ان کی آبادی کے مقابلے متناسب طور پر کم ہوئی تھی۔  صوبے میں ای بی سی آبادی 26  فیصد کے آس پاس ہے اور گرفتاری تب 19.2  فیصد تھی۔

مانا جاتا ہے کہ اس زمینی حالت کی وجہ سے ہی اس سال 23 جولائی کو نتیش کمار حکومت کے ذریعے بہار میں مکمل شراب بندی  کے لئے نافذ قانون میں ترمیم سے متعلق بل لایا گیا۔اس بل کو ایوان میں رکھتے ہوئے نتیش کمار نے یہ مانا تھا کہ؛

 اس قانون کا غلط استعمال ہو رہا ہے۔  ایوان میں انہوں نے کہا، لوگوں کی فطرت  ہوتی ہے کہ اگر حق ملتا ہے تو ہم اس کا غلط استعمال کریں۔اس کا استعمال دولت کمانے میں کرتے ہیں۔  ایسی حالت میں سرکاری نظام میں بھی ایسے لوگ ہو سکتے ہیں۔  اور ایسے لوگ بھی ہو سکتے ہیں جو لوگوں کو پریشان کریں۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ سماجی کارکنان اور گرفتار لوگوں کے حوالے سے یہ بات بھی کہتی ہے کہ حکومت بڑے مافیا پر کارروائی نہیں کر رہی ہے۔  26 نومبر کو منعقد ہونے والے نشہ مکتی دیوس کے موقع پرنتیش کمار نے بھی عوامی طو رپر اعلیٰ افسروں سے پوچھا بھی کہ غیر قانونی شراب کی دھرپکڑ میں صرف ڈرائیور یا کھلاسی ہی پکڑے جا رہے ہیں یا کاروباری اور ان کی مدد کرنے والے سرکاری افسر بھی؟

فوٹو: فیس بک

فوٹو: فیس بک

بہار میں نافذ مکمل شراب بندی  کا بھی حال بھی بہت کچھ نوٹ بندی جیسا ہی ہے۔  جس طرح نوٹ بندی کے بعد پانچ سو اور ہزار کے 99.3  فیصد نوٹ بینکوں میں لوٹ آئے اسی طرح انگریزی اخبار ہندوستان ٹائمس نے 19 جولائی کو شائع اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا کہ شراب بندی  کے بعد بھی بہار میں شراب  پہلے جتنا ہی خرچ ہو رہی ہے۔

اخبار کے مطابق بہار میں شراب بندی  کے اعلان سے پہلے کے پانچ سال یعنی2011سے12 سے 2015سے16 کے دوران ان چار ریاستوں(بہار، مغربی بنگال، جھارکھنڈ اور اتر پردیش)کے کل ریاستی مصنوعات  آمدنی میں بہار کی ریاستی مصنوعات کی آمدنی کی حصےداری 15.6 فیصد تھی۔  چونکہ شراب بندی  کے بعد بہار کا ریونیوزیرو رہ گیا اس لئے ان چار ریاستوں کی کل ریونیو 2015سے17 میں Absolute Term میں گر گیا۔  حالانکہ، اگلے دو سالوں میں بہت تیزی سے یہ منفی تبدیلی الٹ گئی اور ان ریاستوں کے ریونیو میں زبردست تیزی دیکھی گئی۔

اخبار کہتا ہے کہ جن دو مالی سالوں کے دوران بہار میں ریونیو زیرو رہ گیا ہے اس درمیان ان تین پڑوسی ریاستوں میں اس  میں تیز اضافہ درج ہوا ہے۔  دراصل 2017سے18 اور 2018سے19 میں ان تین ریاستوں کے ریونیومیں سالانہ اضافہ 2001سے02 کے بعد سے سب سے زیادہ رہا ہے۔  ان اعداد و شمار کی بنیاد پر صرف دو ہی نتیجے نکالے جا سکتے ہیں-پہلا یہ کہ 2016سے17 کے بعد بہار کی پڑوسی ریاستوں میں شراب کے خرچ میں الگ اضافہ ہوا ہے یا دوسرا، ان ریاستوں سے بہار میں شراب کی بھاری اسمگلنگ ہو رہی ہے۔  کہنے کی ضرورت نہیں کہ تمام حقائق دوسرے نتیجہ کی تصدیق کرتے ہیں۔اخبار بھی اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ بہار میں غیر قانونی طور پر شراب بیچے جانے کی رپورٹس کےثبوت بتاتے ہیں کہ بہار میں پڑوسی ریاستوں سے شراب کی دھڑلےسے اسمگلنگ ہو رہی ہے۔  ہندوستان ٹائمس کی رپورٹ میں پنجاب، ہریانہ اور پڑوسی ملک نیپال سے آ رہی شراب کی کھیپ کا ذکر نہیں ہے جبکہ یہ حقیقت ہے کہ ان تینوں جگہوں سے شراب کی بڑی کھیپ اکثر بہار پہنچتی رہتی ہے۔تقریباً ہر دن صوبے کے کئی حصوں سے غیر قانونی شراب پکڑے جانے کی خبر آتی ہے۔

اگر شراب کی  بھاری اسمگلنگ کی یہ بات سچ ہے، تو اس کا مطلب یہ بھی ہوگا کہ شراب بندی  سے نہ صرف بہار کو  آمدنی کا نقصان ہوا ہے بلکہ سب سے بڑی بات کہ صوبے میں شراب کا خرچ بدستور جاری ہے جو کہ ریاستی حکومت کے ان دعووں کو خارج کرتا ہے کہ  ریونیو میں  نقصان کی وجہ سے ہونے والا سماجی فائدہ کہیں بڑا ہے اور شراب کے خرچ پر خرچ ہونے والے پیسے کو لوگ اب کھان پان، علاج، رہن سہن جیسی زندگی کو بہتر بنانے والے دیگر مقاصد پر خرچ‌کر رہے ہیں۔

شراب بندی  کے اثر کی تشخیص کے لئے بہار حکومت کے ذریعے ڈی ایم آئی اور پٹنہ واقع ایشیائی ڈیولپمنٹ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ سے مطالعہ کروایا گیا۔اے ڈی آر آئی نے شراب بندی  کے چھے مہینے بعد ہی مطالعہ کیا تھا۔  اس میں سال 2016 کے اپریل سے ستمبر کے درمیان کے اعداد و شمار کی اسی مدت کے سال 2015 کے اعداد و شمار سے موازنہ کیا گیا۔اس مطالعے کے مطابق شراب بندی  کے بعد فی مہینہ 440 کروڑ روپےکے حساب سے سالانہ 5280 کروڑ روپےکی بچت ہوئی۔  19 فیصد فیملیوں نے اثاثہ حاصل کیا۔ الگ الگ جرائم میں 10 سے 66 فیصد تک کی کمی آئی (حالانکہ خواتین کے خلاف جرائم میں یہ کمی صرف 2.3 فیصد ہے۔  )خواتین کے خلاف گھریلو تشدد، مارپیٹ، گالی گلوج اور ظلم و ستم میں قابل ذکر کمی ہوئی۔ دودھ مصنوعات سمیت دیگر اشیائےخوردنی کی فروخت میں اچھال آیا۔ مطالعے کے مطابق اس کے علاوہ، گھریلو سامانوں کی خرید، تفریحی خرچ وغیرہ کے اضافہ میں بھی شراب بندی  کے اثر کو دیکھا جا سکتا ہے۔  اور سب سے بڑی بات یہ کہ مطالعہ کہتا ہے کہ سماج میں خواتین کی حیثیت اور ذمہ داری میں اضافہ ہوا ہے۔


یہ بھی پڑھیںنتیش کمار کی شراب بندی کا نشہ غریبوں کو بھاری پڑ رہا ہے


حالانکہ جان کار ان مثبت تبدیلیوں پر یہ کہتے ہوئے سوال اٹھاتے ہیں کہ یہ اعداد و شمار بہت چھوٹی مدت کے لئے گئے ہیں اور اس میں یہ مان‌کر چلا گیا ہے شراب کی فراہمی بالکل ختم کر دی گئی ہے۔  دوسرے، زندگی کی سطح اور طرز میں جو بھی تھوڑی بہت تبدیلی آئی ہیں ان کو سیدھے شراب بندی  سے جوڑ دیا گیا ہے، دیگر اقتصادی سماجی عوامل پر خیال تک نہیں کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ، کوئی غیر جانبدارانہ سرکاری یا غیر سرکاری قومی یا بین الاقوامی ایجنسی کے مطالعہ نہیں آئے ہیں جو بہار حکومت کے ان دعووں کی تصدیق کرتے ہوں۔

بہار میں شراب بندی  کے بعد شراب کا جو غیر قانونی دھندا پنپا ہے وہ  بھاری منافع دینے والا کاروبار بن گیا ہے۔اسی لئے اس میں تمام چھوٹےبڑے مجرم پاکیٹ مار سے  لےکر  سپاڑی کلر تک اور تمام طرح کے دھندھےباز شامل ہو گئے ہیں۔  بہار کا یہ تجربہ اور گجرات اور امریکہ سمیت دنیا بھر‌کے استعمال اس کی تصدیق کرتے ہیں کہ جہاں جہاں مکمل شراب بندی  نافذ کی گئی ہے وہ وقت کے ساتھ ناکام ثابت ہوئی ہے۔  شراب بندی  کے بعد مجرم پولیس انتظامیہ کے ذریعے شراب کا غیر قانونی دھندا کا ایک مضبوط نیٹ ورک تیار ہو جاتا ہے اور یہ ضروری طور پر عوام مخالف ہوتا ہے۔

پیشہ ور مجرموں کو دوسرے جرم کے مقابلےمیں یہ دھندا کہیں زیادہ محفوظ لگتا ہے۔  بہار میں پولیس انتظامیہ اور شراب مافیا کے ناپاک سازش کی مثال اکثر سامنے آتے رہتے ہیں۔اس دھندے میں ایس پی سطح تک کے حکام کی ملی بھگت کی براہ راست مثال سامنے آئے ہیں۔ساتھ ہی ایک اور تشویشناک بات یہ سامنے آ رہی ہے کہ بڑے پیمانے پر بچوں اور نوجوانوں کا استعمال شراب اسمگلنگ کے لئے کیا جا رہا ہے۔  اس میں منسلک بچے اور نوجوان بھی عام طور پر کمزور طبقے سے ہی ہیں۔  ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ طرح طرح کی دیسی اور غیر ملکی شراب آسانی سے بنائی جا رہی ہے اور کئی بار یہ زہرلی شراب کے طور پر سامنے آتی ہے۔

پینٹر مانجھی ٹھیلا چلاکر گزارا کرتے ہیں۔ ان کو اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ پان کھانے کے لئے گھر سے نکلے تھے۔ ان کو سوربیچ‌کر اور قرض لےکر مقدمہ لڑنا پڑا۔ (فوٹو : امیش کمار رائے)

پینٹر مانجھی ٹھیلا چلاکر گزارا کرتے ہیں۔ ان کو اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ پان کھانے کے لئے گھر سے نکلے تھے۔ ان کو سوربیچ‌کر اور قرض لےکر مقدمہ لڑنا پڑا۔ (فوٹو : امیش کمار رائے)

وہیں تاڑی اور دیسی شراب کے دھندے سے زیادہ تر غریب اور پچھڑے طبقے کے لوگ جڑے ہوئے تھے، جن کی آمدنی اور روزگار کا یہی واحد ذریعہ تھا۔  شہر سے  لےکر  دیہی سطح تک ہزاروں لوگ براہ راست اور بلاواسطہ طور پر دیسی غیر ملکی شراب کے روزگار سے جڑے ہوئے تھے۔  لیکن شراب بندی  کو نافذ کرتے وقت حکومت شراب کے پیشے سے جڑی بڑی آبادی کے روزگار اور بازآباداری سے متعلق پہلوؤں پر کافی دھیان دینے میں ناکام رہی۔  حکومت نے ان کو روزگار کا بہتر اختیار دئے بنا ہی ان کے ذریعہ معاش کو تباہ کر دیا۔  اس نظریہ سے بھی شراب بندی  کا فیصلہ غریب مخالف لگتا ہے اور مانا جاتا ہے کہ اس سبب بھی اس پیشے سے جڑی آبادی کا ایک حصہ، نوجوان اور دیگر لوگ ذریعہ معاش کے لئے شراب کے غیر قانونی کاروبار میں شامل ہو گئے ہیں۔

بہار میں شراب بندی  کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ ہے کہ یہ ایک سہل پسند نظریہ پر مبنی ہے جس میں تمام پینے والوں کو مجرم مان لیا گیا۔  شرابی اور پینے والوں میں فرق نہیں کیا گیا اور جرم، تشدد سمیت تمام برائیوں کے لئے شراب کو ذمہ دار مانا لیا گیا۔  لیکن یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ شراب بندی  کا ایک اہم طریقہ شراب کی دستیابی کم کرنا رہا ہے۔عالمی سطح پر، شراب  کی برائیوں  سے بچنے کے لئے فراہمی کم کرنے پر دھیان مرکوز کیا جاتا ہے۔  شراب پینے والوں کو سزا دینا عام طور پر پہلی ترجیح نہیں ہوتی ہے۔  لیکن حکومت نے نہ تو پہلے ایسا کچھ کیا اور نہ ہی عنقریب مستقبل میں اس کا ایسا کوئی ارادہ ہی لگتا ہے۔

ایسے میں سماج کو شراب بندی  کے لئے پوری طرح تیار کرنا اور اس کے لئے مسلسل مہم چلانا سب سے بہتر طریقہ دکھائی دیتا ہے کیونکہ بہار ہی نہیں دنیا کے کسی بھی حصے میں شراب بندی  اس سبب بھی پوری طرح کامیاب نہیں ہے کیونکہ لوگ اور سماج تیار نہیں ہے۔  ساتھ ہی یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ شراب بندی  ایک سماجی اصلاحی مہم ہے کوئی انتظامی فیصلہ یا سیاسی ایجنڈا نہیں اور سماجی اصلاح صرف بیداری کے ذریعے کی جا سکتی ہے، قانون کے دباؤ سے نہیں۔

بہار حکومت نے شراب بندی  نافذ کرنے سے پہلے بیداری بڑھانے کے لئے کئی طرح کی کوششیں کی تھیں۔  بڑے پیمانے پر دیوار پر لکھا گیا، نکڑ ناٹک، گیتوں کے ذریعے پیغام دیا گیا۔  ایک کروڑ سے زیادہ لوگوں سے ان کے گھر میں، اپنے بچوں کے سامنے شراب نہیں پینے کے حق  میں دستخط کروائے گئے۔یہاں تک کہ پولیس تھانے سے  لےکر  ودھان پریشد تک میں ممبروں نے شراب بندی  کے لئے حلف لئے۔ گزشتہ دنوں نشہ مکتی دیوس پر بھی نتیش کمار نے کہا کہ عام لوگوں کو شراب بندی  کی اچھائی سمجھانے کے لئے مہم بھی چلائیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ نتیش کمار نے بیتے دنوں جو کہا ہے ان کی حکومت شراب بندی  کے لئے پھر سے ویسا ہی سماجی مہم چلانے کے لئے اپنی توانائی اور وسائل لگائے۔

اس کے علاوہ، حکومت کو چاہیے کہ تمام پربلاک میں نشہ مکتی مرکز قائم  کرے تاکہ شراب کے عادی لوگوں کی بازآبادکاری کی جائے۔ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ حکومت ایمانداری سے پولیس انتظامیہ اور شراب مافیا کے نیٹ ورک کو تباہ کرے۔  قابل ذکر ہے کہ بہار میں اکثر ایسے ہی نیٹ ورک سیاسی اقتدار کی طاقت ہوا کرتی ہے۔

اس بیچ ایک اچھی بات یہ ہوئی ہے کہ حکومت نے روایتی طور پر شراب کے دھندے سے جڑے لوگوں کو روزگار کے اختیار دینے کی سمت میں پہل کی ہے۔  ایسی ہی ایک اہم اسکیم ہے Satat Jivikoparjan Yojana۔یہ اسکیم خصوصاً دیسی شراب اور تاڑی کی پیداوار اور فروخت سے جڑے غریب فیملیوں کے لئے شروع کی گئی ہے۔  اس اسکیم کے تحت کاروبار گروہ کے ذریعے نشان زد ہرایک فیملی کو روزی روٹی کے لئے اثاثہ خریدنے کے لئے اوسطاً 60 ہزار سے 1 لاکھ تک تعاون کی رقم دستیاب کرائی جائے‌گی۔  اس اسکیم کو ایمانداری سے زمین پر اتارے جانے کی ضرورت ہے۔  دوسری طرف بہار حکومت نے تاڑی سے تاڑی پیداوار کی اچھی پہل شروع کی تھی لیکن تاڑی کے کاروبار سے جڑے روایتی لوگوں کو شاید ہی اب تک اس سے کوئی فائدہ ہوا ہے۔اس پہل کو بھی تاڑی کاروبار سے جڑی بڑی آبادی کے لئے فائدےمند بنانے کی ضرورت ہے۔

The post بہار: کیا شراب بندی غریبوں کے لیے نوٹ بندی سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوئی؟ appeared first on The Wire - Urdu.

Next Article

پارلیامنٹ میں آدھی رات کے بعد بھی بحث، وقف ترمیمی بل راجیہ سبھا سے پاس

راجیہ سبھا نے وقف ترمیمی بل 2025 کو بحث کے بعد منظور کر لیا، اپوزیشن نے اسے مسلم مخالف اور اقلیتوں کے حقوق پر حملہ قرار دیا۔ بی جے پی نے اسے شفافیت میں اضافہ کرنے والا بتایا۔ ڈی ایم کے نے بل کے خلاف سپریم کورٹ جانے کا اعلان کیا ہے۔

نئی دہلی: راجیہ سبھا میں وقف ترمیمی بل 2025 کو پاس کرانے کے لیے مسلسل دوسرے دن پارلیامنٹ آدھی رات کے بعد بھی چلی۔ یہ بل 4 اپریل کی رات 2:35 پر منظور کیا گیا، جس کے حق میں 128 اور مخالفت میں 95 ووٹ پڑے۔ لوک سبھا میں یہ 3 اپریل کو رات کے 2 بجے حق میں 288 اور مخالفت میں 232 ووٹوں کے ساتھ پاس ہوا تھا۔

اپوزیشن کی مخالفت

جمعرات (3 اپریل) کو حزب اختلاف کے کئی ارکان پارلیامنٹ نے کالے کپڑے پہن کر بل کے خلاف احتجاج کیا۔ تاہم، بی جے پی کے اتحادیوں- تیلگو دیشم پارٹی (ٹی ڈی پی) اور جنتا دل (یونائیٹڈ) (جے ڈی یو) نے  راجیہ سبھا میں بھی بل کی حمایت کی۔ دوسری طرف بیجو جنتا دل (بی جے ڈی) اور وائی ایس آر کانگریس (وائی ایس آر سی پی) نے احتجاج  توکیا، لیکن اپنے ارکان پارلیامنٹ کو ووٹ ڈالنے کے لیے آزاد چھوڑ دیا۔

بل پر زوردار بحث

لوک سبھا میں بحث بغیر کسی رکاوٹ کے چلی، لیکن راجیہ سبھا میں حکمراں پارٹی اور اپوزیشن کے درمیان گرما گرم بحث ہوئی۔ حزب اختلاف کے اراکین پارلیامنٹ نے اس بل کو ‘مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانے کی سازش’، ‘اقلیتوں کے حقوق پر حملہ’ اور ‘زمینوں پر قبضے کا منصوبہ’ قرار دیا۔ وہیں، حکمراں پارٹی نے کہا کہ یہ بل وقف املاک کے انتظام میں شفافیت لانے کے لیے لایا گیا ہے۔

مرکزی وزیر کرن رجیجو کا بیان

اقلیتی امور کے وزیر کرن رجیجو نے کہا کہ اس بل کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ صرف وقف املاک کے انتظام سے متعلق ہے۔ انہوں نے کہا، ‘یہ کہنا غلط ہے کہ مسلمانوں کا نقصان ہوگا۔ یہ بل غیر آئینی یا غیر قانونی نہیں ہے۔’

کانگریس نے فرقہ وارانہ پولرائزیشن کا الزام لگایا

کانگریس کے رکن پارلیامنٹ سید نصیر حسین نے کہا کہ بی جے پی نے 1995 کے وقف ایکٹ اور 2013 میں کی گئی ترامیم کی حمایت کی تھی، لیکن اب اچانک اس کو ‘عوام مخالف’ بتاکر ترمیم کیوں کی جا رہی ہے؟ انہوں نے الزام لگایا کہ ‘بی جے پی 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں 400 سیٹوں کا دعویٰ کر رہی تھی، لیکن وہ صرف 240 سیٹوں پر رہ گئی۔ اب یہ بل لا کر وہ اپنا ووٹ بینک واپس حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

اپوزیشن ارکان کا سوال- یہ ترمیم کیوں؟

حزب اختلاف کے سینئر رکن پارلیامنٹ کپل سبل نے سوال کیا کہ اس بل میں صرف مسلمانوں کو ہی وقف املاک کو عطیہ کرنے کی اجازت کیوں دی گئی ہے۔ ‘اگر میرے پاس جائیداد ہے اور میں اسے خیرات میں دینا چاہتا ہوں تو آپ کون ہوتے ہیں مجھے روکنے والے؟’

حکمراں پارٹی نے اس پر اعتراض کیا جب سبل نے یہ بھی کہا کہ ‘ملک میں 8 لاکھ ایکڑ وقف جائیدادیں ہیں، جبکہ صرف چار جنوبی ریاستوں (تمل ناڈو، آندھرا پردیش، تلنگانہ اور کرناٹک) میں ہندو مذہبی جائیدادوں کا رقبہ 10 لاکھ ایکڑ ہے۔’

‘حکومت اقلیتوں کی سماجی و اقتصادی حالت بہتر بنانے میں ناکام رہی ہے’

کانگریس لیڈر ملیکارجن کھڑگے نے کہا کہ اقلیتی امور کی وزارت کے بجٹ میں کٹوتی کی گئی ہے اور اقلیتوں کی تعلیم اور معاشی طور پر بااختیار بنانے کے لیے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔

انہوں نے کہا، ‘آپ مدرسوں کی تعلیم، مفت کوچنگ، مولانا آزاد اسکالرشپ جیسی اسکیموں کو بند کر رہے ہیں اور پھر بھی کہہ رہے ہیں کہ آپ اقلیتوں کے مفاد میں کام کر رہے ہیں؟’

‘کیا گھروں اور مساجد میں سی سی ٹی وی لگائے جائیں گے؟’

کانگریس کے رکن پارلیامنٹ سید نصیر حسین نے اس بل کی اس شق کی مخالفت کی جس میں وقف املاک کو عطیہ کرنے والے شخص کے لیے کم از کم پانچ سال تک اسلام کا پیروکار ہونا لازمی قرار دیا گیا ہے۔

انہوں نے طنزیہ انداز میں پوچھا کہ اب یہ کیسے ثابت ہو گا کہ میں مسلمان ہوں؟ کیا مجھے ٹوپی پہننی ہوگی، داڑھی رکھنی ہے؟ کیا میرے گھر اور مساجد میں سی سی ٹی وی لگائے جائیں گے؟’

‘کیا یہ بل بلڈوزر سیاست کو قانونی شکل دینے کی کوشش ہے؟’

راجیہ سبھا میں اس بل پر بحث کے دوران آر جے ڈی کے رکن پارلیامنٹ منوج جھا نے کہا کہ اگر اس بل کے ذریعے غیر مسلموں کو شامل کیا جا رہا ہے تو سیکولرازم کے اس جذبے کو دوسرے مذاہب تک بھی پھیلایا جانا چاہیے۔

انہوں نے پوچھا، ‘اگر آپ واقعی سیکولرازم کے اس جذبے کو پورے ملک میں پھیلاتے ہیں اور ہر مذہبی ادارے میں دوسرے مذاہب کو شامل کرتے ہیں – چاہے وہ سکھ، مسلم یا عیسائی ہوں  – تو میں آپ کی تعریف کروں گا۔ یا آپ نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ تمام تجربہ صرف مسلمانوں کے ذریعے ہی ہو گا؟’

انہوں نے مزید الزام لگایا کہ یہ بل ‘بلڈوزر سیاست کو قانونی شکل دینے’ کی کوشش بھی ہو سکتا ہے۔

انہوں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ‘کیا یہ بل بلڈوزر کے لیے قانونی ڈھال بنا رہا ہے؟ یہ  بات ایک شہری کے طور پر مجھے ڈراتی ہے۔ شہروں میں مسلمان گھیٹو میں رہنے پر مجبور ہیں، اگر وہ گاؤں میں جاتے ہیں  تو انہیں  درانداز کہاجاتا ہے۔ ان کی تنظیموں کو شک کے دائرے میں رکھا جاتا ہے اور انہیں سازشی قرار دیا جاتا ہے۔ لوگوں کو الگ تھلگ کرنے کے لیے ڈاگ-وہسل  کی سیاست کا استعمال کرناٹھیک نہیں ہے۔’

حکومت کا جواب

مرکزی وزیر کرن رجیجو نے وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ سینٹرل وقف کونسل اور ریاستی وقف بورڈ میں غیر مسلموں کی تعداد محدود رکھی گئی ہے اور ان کی مداخلت صرف تجاویز تک محدود رہے گی۔

انہوں نے واضح کیا کہ ‘کسی بھی مذہبی معاملے میں مداخلت نہیں کی جائے گی۔ سینٹرل وقف کونسل کے کل 22 ارکان ہوں گے جن میں سے صرف چار غیر مسلم ہوں گے۔ وہ صرف اپنی رائے دے سکتے ہیں، لیکن وہ اکثریت میں نہیں ہوں گے۔’

‘ بل کارپوریٹس کو وقف املاک فروخت کرنے کا منصوبہ’

کانگریس کے ایم پی عمران پرتاپ گڑھی نے کہا، ‘آپ نے اس بل کا نام ‘امید’ رکھا ہے لیکن ملک کی ایک بڑی آبادی اب مایوس ہے کیونکہ آپ ان کی زمینیں لوٹ کر کارپوریٹس کو بیچنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔’

اپوزیشن نے وقف املاک کو بدنام کیا: بی جے پی ایم پی

عآپ کے رکن پارلیامنٹ سنجے سنگھ نے حکومت پر حملہ کرتے ہوئے کہا کہ جو حکومت مسلمانوں کو بااختیار بنانے کی بات کر رہی ہے، اس کی اپنی پارٹی کے پاس لوک سبھا میں ایک بھی مسلم رکن نہیں ہے اور راجیہ سبھا میں صرف ایک ہے۔

انہوں نے طنزیہ انداز میں کہا کہ حکومت کہہ رہی ہے کہ ہم مسلمانوں کی بھلائی کے لیے یہ قانون لا رہے ہیں، لیکن آپ کی پارٹی میں ایک بھی مسلم ایم پی نہیں ہے، صرف ایک غلام علی ہیں۔ آپ نے مختار عباس نقوی اور شاہنواز حسین کی سیاست ہی ختم کر دی۔ کیا آپ واقعی مسلمانوں کی بھلائی کر رہے ہیں؟’

بی جے پی کے اکلوتے مسلم ایم پی،غلام علی، جوجموں و کشمیر سے نامزد رکن ہیں،نے آدھی رات کے قریب بل پر بحث میں حصہ لیا اور کانگریس پر وقف ایکٹ میں ایسی دفعات شامل کرنے کا الزام لگایا جس سے مسلمانوں کو بدنام کیا گیا اور تجاوزات کی حوصلہ افزائی ہوئی۔

کانگریس پر حملہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘آپ نے وقف ایکٹ میں ایسی دفعات شامل کیں جن سے مسلمانوں کو بدنام کرنے کی سازش  ہوئی۔’

ترامیم کے خلاف عدالت جائے گی ڈی ایم کے

جمعرات (3 مارچ) کو اسٹالن سیاہ بیج پہنے  اسمبلی پہنچے  اور لوک سبھا میں بل کی منظوری کے خلاف احتجاج کیا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ تمل ناڈو حکومت اس بل کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرے گی۔

اسٹالن نے ایوان میں کہا ،  ‘ یہ ایکٹ مذہبی ہم آہنگی کو متاثر کرتا ہے ۔ اس بات کو اجاگر کرنے کے لیے ہم آج اسمبلی میں سیاہ بیج لگا کر شرکت کر رہے ہیں ۔ ‘

انہوں نے مزید کہا، ‘اس متنازعہ ترمیم کے خلاف ڈی ایم کے کی جانب سے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی جائے گی ۔ تمل ناڈو اس مرکزی قانون کے خلاف لڑے گا کیونکہ یہ وقف بورڈ کی خود مختاری کو مجروح کرتا ہے اور اقلیتی مسلم کمیونٹی کے لیے خطرہ ہے ۔’

ڈی ایم کے کا پارلیامنٹ میں احتجاج

راجیہ سبھا میں ڈی ایم کے ایم پی تروچی شیوا نے بھی حکومت پر حملہ کیا اور الزام لگایا کہ بی جے پی کی قیادت والی این ڈی اے حکومت جان بوجھ کر مسلم کمیونٹی کو نشانہ بنا رہی ہے۔

‘ایک مخصوص کمیونٹی کوکیوں نشانہ بنایاجا رہا ہے؟ حکومت کی منشابدنیتی پر مبنی اورقابل مذمت۔وہ ‘سب کاساتھ ، سب کاوشواس ‘ کی بات کرتے ہیں لیکن مسلمانوں کےبارے میں ان کی پالیسی امتیازی سلوک اورحاشیے پر دھکیلنے کی ہے۔یہ آئین کےخلاف ہے۔

اسٹالن کا وزیر اعظم مودی کو خط

جب لوک سبھا میں اس بل پر بحث ہو رہی تھی،اسی دوران  سی ایم  اسٹالن نے وزیر اعظم نریندر مودی کو خط بھیج کر وقف ترمیمی بل کی مخالفت کی ۔

انھوں نے لکھا، ‘ ہندوستانی آئین ہر شہری کو اپنے مذہب کی پیروی کا حق دیتا ہے اور اس حق کی حفاظت کرنا منتخب حکومتوں کا فرض ہے ۔ لیکن مجوزہ ترمیم اقلیتوں کو دیے گئے آئینی تحفظات کو نظر انداز کرتی ہے ۔اس سے مسلم کمیونٹی کے مفادات کو شدید نقصان پہنچے گا۔’

تمل ناڈو اسمبلی میں بل کے خلاف تحریک

اسٹالن نے 27 مارچ کو تمل ناڈو اسمبلی میں ایک قرارداد منظور کی ، جس میں اس بل کو ملک اور مسلم کمیونٹی کی مذہبی ہم آہنگی کے لیے نقصان دہ قرار دیا۔

Next Article

مسجد، قبرستان اور یتیم خانہ پر سیاست: وقف کا مستقبل کیا ہے؟

وقف ترمیمی بل کو پارلیامنٹ کی  منظوری مل گئی  ہے، لیکن اپوزیشن جماعتوں اور مسلم کمیونٹی کے نمائندوں کے سوال اب بھی باقی ہیں۔ اس بل پر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر ایس کیو آر الیاس اور سینئر صحافی عمر راشد کے ساتھ تبادلہ خیال کر رہی ہیں میناکشی تیواری۔

Next Article

روزہ یا پیسے کا جھگڑا: رمضان میں ’تبدیلی مذہب‘ کے الزام میں یوپی کی مسلم خاتون گرفتار

اتر پردیش کے جھانسی میں رمضان کے دوران ایک 40 سالہ مسلم خاتون کونابالغ ہندو لڑکی کا’مذہب تبدیل’ کروانےکے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ لیکن خاتون کا کہنا ہے کہ پڑوسی ہندو خاندان  نے ان سے لیا گیا قرض واپس کرنے سے بچنے کے لیے ‘فرضی کہانی’ بنائی ہے۔

نئی دہلی: ملک بھر میں رمضان کا مقدس مہینہ عام طور پر پرامن طور پر گزرا اور حال ہی میں عید الفطر منائی گئی۔ لیکن اتر پردیش کے جھانسی کے ایک محلے میں مبینہ طور پر روزہ رکھنے کا معاملہ ایک مجرمانہ معاملے کا موضوع بن گیا ہے۔

الزام ہے کہ پڑوس کی ایک مسلم خاتون نے مبینہ طور پر ایک نابالغ ہندو لڑکی کو اسلام قبول کرنے کے لیے بہلایا۔ اس معاملے میں 40 سالہ مسلم خاتون شہناز کو گرفتار کیا گیا ہے۔

دی وائر کی جانب سے دیکھے گئے دستاویزوں کے مطابق، اس خاتون نے بعد میں ایک مقامی عدالت میں دعویٰ کیا کہ تبدیلی مذہب  کا پورا معاملہ ایک مالی تنازعہ کی وجہ سے بنایا گیا ہے ۔

کیاہے معاملہ؟

جھانسی میں ایک ایف آئی آر 13 مارچ کو درج کی گئی،  جب ایک ہندو شخص نے الزام لگایاکہ اس کی 16 سالہ بیٹی کو اس کے پڑوس کی دو مسلم خواتین نے رمضان کے دوران روزہ رکھنے کے لیےبہلایا،  تاکہ اسے اسلام قبول کرنے کے لیے آمادہ کیا جا سکے۔

باپ نے کہا،’انہوں نے میری بیٹی کو بہلا پھسلا کریہ یقین دلایا کہ اگر وہ روزہ رکھے گی تو اس کے گھر میں برکت آئے گی۔ وہ امیر ہو جائے گی اور وہ اسے مناسب مدد فراہم کریں گے۔’

ہم اس شخص کی شناخت ظاہر نہیں کر رہے ہیں کیونکہ اس سے ان  کی نابالغ بیٹی کی پرائیویسی متاثر ہو سکتی ہے۔

لڑکی کے والد کا الزام ہے کہ ان کی بیٹی نے تین چار روزے رکھے اور نماز بھی پڑھی۔

شکایت کنندہ کے مطابق،  13 مارچ کوکلیدی ملزم شہناز زبردستی ان کے گھر میں داخل ہوئی اور ایک کمرے کو اندر سے بند کر کے پھانسی لگا کر خودکشی کرنے کی کوشش کی۔ یہ کمرہ شکایت کنندہ کے بھائی کا تھا۔ جب ہندو خاندان نے پولیس کو بلانے کے لیے 112 پر کال کی تو خاتون وہاں سے بھاگ گئی، لیکن جانے سے پہلے  ان کے خلاف جھوٹا مقدمہ درج کرنے کی دھمکی دی۔ اسی دوران کچھ ہندو دائیں بازو کے کارکن بھی وہاں پہنچ گئے اور انہوں نے مسلم خواتین پر جبری تبدیلی مذہب کا الزام لگایا۔

اس کے بعد، شہناز اور کشناما نامی دو خواتین کے خلاف اتر پردیش کے غیر قانونی تبدیلی مذہب کی روک تھام کے قانون 2021 کی دفعہ 3 اور 5 (1) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ تحقیقات کے دوران پولیس نے بھارتیہ نیائے سنہتا (بی این ایس) کی دیگر دفعات بھی شامل کیں، جن میں جان سے مارنے کی دھمکی، املاک کو تباہ کرنے کی دھمکی اور  جان بوجھ کر توہین کرنا تاکہ امن و امان کا مسئلہ پیدا ہو، شامل ہے۔

شہناز کا کیا کہنا ہے؟

شہناز نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔ مقامی عدالت میں دائر اپنی ضمانت کی درخواست میں انہوں  نے کہا کہ ہندو خاندان نے انہیں پھنسانے کے لیے ‘فرضی کہانی’ بنائی ہے کیونکہ وہ ان سے لیے گئے قرض کی ادائیگی سے بچنا چاہتے تھے۔

شہناز کے مطابق، کچھ عرصہ قبل جب ہندو شخص بیمار ہوا تو اس کی اہلیہ نے شہناز سے 50 ہزار روپے ادھار لیے اور 10 دن میں واپس کرنے کا وعدہ کیا۔ لیکن رقم واپس نہ ہونے پر شہناز کئی بار ان  کے گھر گئی اور رقم واپس مانگی۔ انہوں  نے کہا، ‘ان  کی بیوی نے ہمیشہ کوئی نہ کوئی بہانہ بنا دیتی تھی۔’

شہناز نے الزام لگایا کہ 13 مارچ کو صبح 10 بجے جب وہ ان کے گھر پیسے مانگنے گئی تو پڑوس کا بھائی، جو اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ اسی گھر میں رہتا تھا، نے اسے ایک کمرے میں بند کر دیا اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی۔

‘میں نے زور سے چلایا تو پڑوسی جمع ہو گئے۔’ انہوں نے کہا۔

شہناز نے الزام لگایا کہ لڑکی کے والد نے دائیں بازو کی تنظیموں کے لوگوں کو بلایا، جنہوں نے پولیس کو بلایا اور انہیں بچانے کے لیے جھوٹی کہانی بنا دی ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پولیس نے ان کی شکایت درج کرنے سے انکار کر دیا۔

انہوں نے واضح طور پر اس بات کی تردید کی کہ انہوں  نے نابالغ لڑکی کو اسلام قبول کرنے کو کہا یا اسے روزے رکھنے اور نماز پڑھنے پر مجبور کیا۔ انہوں نے یہ بھی دلیل دی کہ لڑکی کے گھر میں اس کے والدین، بہن بھائی اور چچا اور چچی سمیت کئی لوگ رہتے ۔ ‘اگر لڑکی نے واقعی روزہ رکھا ہوتا تو اس کے گھر والوں کو ضرور معلوم ہوتا۔’ انہوں نے کہا۔

روزے کے عمل میں آدمی کو سورج نکلنے سے پہلے کھانا کھانا پڑتا ہے اور پھر سارا دن روزہ رکھنے کے بعد غروب آفتاب کے وقت افطار کرنا پڑتا ہے۔ شہناز نے کہا،’اگر لڑکی ایک بھی  روزہ  رکھتی تو گھر والوں کو ضرور پتہ چل جاتا’۔

شہناز کی درخواست ضمانت مسترد

گزشتہ 26 مارچ کو جھانسی کے ایڈیشنل سیشن جج وجئے کمار ورما نے شہناز کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی۔ عدالت نے کہا کہ شہناز متاثرہ کی پڑوسی ہیں  اور وہ گواہوں یا شواہد پر اثر انداز ہو سکتی ہیں۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔ )

Next Article

وقف ترمیمی بل: اہم تبدیلیاں، تنازعات اور ہندوستانی مسلمانوں پر اس کے اثرات

مرکزی وزیر کرن رجیجو نے جمعرات کو راجیہ سبھا میں وقف بل  پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ بل وقف بورڈ کو مضبوط بنانے کے ساتھ  خواتین، بچوں اور پسماندہ طبقات کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے ارادےسے بنایا گیا ہے۔ بدھ کی رات دیر گئے لوک سبھا میں بل کے حق میں 288 اور مخالفت میں 232 ووٹ پڑے تھے۔

نئی دہلی: مرکزی حکومت نے اپوزیشن کے تمام اعتراضات اور احتجاج کے باوجود لوک سبھا میں وقف ترمیمی بل 2024 منظور کر ا لیا ہے۔ بل کی منظوری میں 12 گھنٹے سے زیادہ کا وقت لگا۔

بزنس ایڈوائزری کمیٹی نے بل پر بحث کے لیے آٹھ گھنٹے کا وقت مختص کیا تھا، لیکن حکمران اور اپوزیشن دونوں جماعتوں کے گرما گرم دلائل کی وجہ سے بحث طول پکڑ گئی۔ بحث بدھ (2 اپریل) کی دوپہر 12 بجے شروع ہوئی اور جمعرات (3 اپریل) کو 12:06 بجے ووٹنگ کے لیے پیش کیا گیا۔

ووٹنگ کے ذریعے بل کو پاس ہونے میں رات 2 کے  بج گئے۔ بل کے حق میں 288 اور مخالفت میں 232 ووٹ پڑے۔ اس بل کی حمایت بی جے پی کے اتحادیوں، ٹی ڈی پی، جے ڈی (یو) اور ایل جے پی نے کی۔ جہاں حکومت نے ان ترامیم کو شفافیت بڑھانے، بدانتظامی کو روکنے اور وقف املاک کے بہتر نظم و ضبط کے لیے ضروری قرار دیا ہے۔ جبکہ اپوزیشن جماعتوں کا ماننا ہے کہ یہ مسلم کمیونٹی کی مذہبی خود مختاری میں مداخلت ہے۔

حکومت  کاکیا کہنا ہے؟

گزشتہ 2 اپریل کو پارلیامانی امور اور اقلیتی امور کے مرکزی وزیر کرن رجیجو نے متنازعہ وقف (ترمیمی) بل 2024 لوک سبھا میں پیش کیا اور حکومت کی جانب سے بحث کا آغاز کیا۔ اپنے خطاب کے دوران، رجیجو نے بل کی مخالفت کرنے والے اپوزیشن پر سخت حملہ کیا اور بتایا کہ تجویز کردہ ترامیم کو لاگو کرنا کیوں ضروری ہے۔

رجیجو نے یہ کہتے ہوئے شروعات کی ، ‘ہم نے بل میں مشترکہ پارلیامانی کمیٹی (جے پی سی) کی طرف سے دی گئی کئی تجاویز کو قبول کیا ہے اور ایک اہم ترمیم پیش کی ہے۔ اس سے ‘امید’ ملے گی کہ ایک نئی صبح آنے والی ہے۔ اس وجہ سےنئے ایکٹ کوامید (یونیفائیڈ وقف مینجمنٹ، امپاورمنٹ، ایفیشنسی، اینڈ ڈیولپمنٹ ایکٹ) کا نام بھی دیا گیا ہے۔’

انہوں نے دعویٰ کیا کہ مسلم کمیونٹی ان ترامیم کا خیر مقدم کر رہی ہے، ‘مسلم برادری کھلے دل سے اس بل کا خیر مقدم کر رہی ہے۔ یہاں کچھ لوگ اس کی مخالفت ضرور کر رہے ہیں، لیکن میں انہیں اپنے گھر بلانا چاہتا ہوں تاکہ وہ خود دیکھ سکیں کہ مسلم وفد مجھ سے مل رہے ہیں اور اس بل کی حمایت کر رہا ہے۔ اس سے ان کی سوچ بدل جائے گی۔ انہیں اندازہ نہیں ہے کہ اس بل کو مسلم کمیونٹی میں کتنی پذیرائی مل رہی ہے۔’

رجیجو نے مزید کہا، ‘ہم نے شیعہ، سنی، پسماندہ مسلمانوں، خواتین اور غیر مسلم ماہرین کو وقف بورڈ میں شامل کرنے کی اجازت دی ہے… اس میں دو غیر مسلم  ہوسکتے ہیں، اور اس میں دو خواتین بھی ہونی چاہیے۔ اب تک وقف بورڈ میں خواتین کہاں تھیں؟’

انہوں نے دعویٰ کیا کہ حکومت کانگریس کی غلطی کو ٹھیک کررہی ہے۔ رجیجو نے کہا، ‘2013 میں، ایک اہتمام  کیا گیا تھا کہ کوئی بھی شخص، کسی بھی مذہب کا، وقف بنا سکتا ہے۔ اس سے اصل ایکٹ کمزور ہو گیا۔ پھر یہ اہتمام  لایا گیاکہ شیعہ وقف بورڈ میں صرف شیعہ ہوں گے اور سنی وقف بورڈ میں صرف سنی ہوں گے۔ ایک اور شق لائی گئی کہ وقف بورڈ کسی بھی قانون سے بالاتر ہوگا۔ یہ کیسے قابل قبول ہے؟’

انہوں نے کہا کہ حکومت کسی مذہبی سرگرمی میں مداخلت نہیں کر رہی ہے۔ یہ صرف جائیدادوں کے انتظام کا معاملہ ہے، ‘یو پی اے حکومت کی جانب سے وقف ایکٹ میں کی گئی ترامیم نے اسے دوسرے قوانین پر ترجیح دی تھی، اس لیے نئی  ترامیم ضروری تھیں۔’

اس دوران رجیجو نے مارچ 2014 میں اس وقت کی یو پی اے حکومت کےذریعے  دہلی کی 123 بڑی جائیدادوں کو وقف بورڈ کے حوالے کرنے کے فیصلے کا ذکر کیا۔ رجیجو نے یہاں تک کہا کہ اگر ان کی حکومت یہ ترمیمی بل پیش نہیں کرتی تو جس عمارت میں ہم بیٹھے ہیں اس پر بھی وقف کا دعویٰ کیا جا سکتا تھا۔

انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق، مارچ 2014 میں عام انتخابات کے ضابطہ اخلاق کے نافذ ہونے سے ایک رات قبل 123 جائیدادیں وقف بورڈ کو سونپ دی گئی تھیں۔ ان میں سے زیادہ تر جائیدادیں دہلی کے اہم علاقوں میں واقع ہیں، جیسے: کناٹ پلیس، متھرا روڈ، لودھی روڈ، مان سنگھ روڈ، پنڈارا روڈ، اشوک روڈ، جن پتھ، پارلیامنٹ ہاؤس علاقہ، قرول باغ ، صدر بازار،دریا گنج، جنگ پورہ۔

سال 2014 میں این ڈی اے حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد مرکزی حکومت نے ان جائیدادوں کا جائزہ لینے کے لیے ایک رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی۔ بعد میں، ایک دو رکنی پینل تشکیل دیا گیا، جس نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ دہلی وقف بورڈ کا ان جائیدادوں پر کوئی حق نہیں ہے۔

سال 2023 میں مرکزی حکومت نے ان 123 جائیدادوں کو دوبارہ اپنے اختیار میں لے لیا، جس کے بعد دہلی وقف بورڈ نے اس فیصلے کے خلاف دہلی ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ یہ معاملہ فی الحال عدالت میں زیر سماعت ہے۔

مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے بھی رجیجو کی بات کو دوہراتے ہوئے کہا کہ یو پی اے حکومت نے 2013 میں لوک سبھا انتخابات سے قبل وقف ایکٹ کو ‘اپیزمنٹ’ کے لیے تبدیل کر دیا تھا۔ اگر 2013 میں یہ تبدیلی نہ کی جاتی تو آج اس بل کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔

شاہ نے پوچھا ، ‘1913 سے 2013 تک، وقف بورڈ کے پاس کل 18 لاکھ ایکڑ زمین تھی۔ 2013 سے 2025 کے درمیان جب نیا قانون نافذ ہوا تو وقف املاک میں 21 لاکھ ایکڑ اراضی شامل کی گئی۔ لیز پر دی گئی جائیدادیں پہلے 20000 تھیں لیکن 2025 میں یہ تعداد صفر ہو گئی… یہ جائیدادیں کہاں گئیں؟ کیا انہیں فروخت کیا گیا؟ کس کی اجازت سے؟’

‘وہ (اپوزیشن) کہہ رہے ہیں کہ اس پر توجہ نہ دیں… یہ پیسہ ملک کے غریب مسلمانوں کا ہے، نہ کہ کسی امیر دلالوں کے لیے۔ اس کو بند کرنا ہوگا… اور ان کے دلال یہاں بیٹھے ہیں، وہ اونچی آواز میں بات کررہے ہیں… وہ (اپوزیشن) سمجھتے ہیں کہ اس بل کی مخالفت کرکے وہ مسلمانوں کی ہمدردیاں حاصل کریں گے اور اپنا ووٹ بینک مضبوط کریں گے۔ لیکن انہیں کچھ حاصل نہیں ہوگا۔’ شاہ نے کہا۔

انہوں نے دہرایا، ‘حکومت وقف میں مداخلت نہیں کرنا چاہتی۔’ بی جے پی قائدین نے اپوزیشن پر اقلیتوں کے اپیزمنٹ، آئین کے خلاف جانے اور وقف املاک کے نام پر بڑے پیمانے پر بدعنوانی کو فروغ دینے کا الزام لگایا۔

سرکار کےدعوے پر اپوزیشن نے کیا کہا؟

کانگریس ایم پی گورو گگوئی نے کانگریس کی طرف سے کمان سنبھالی ۔ انہوں نے حکومت پر الزام لگایا کہ وہ وقف (ترمیمی) بل 2024 کا استعمال آئین کو کمزور کرنے، اقلیتی برادریوں کو بدنام کرنے، ہندوستانی سماج کو تقسیم کرنے اور اقلیتوں کو ان کے حقوق سے محروم کرنے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔

بحث کے دوران سب سے سخت احتجاج اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسد الدین اویسی نے درج کرایا اور انہوں نے ترامیم کو ‘مسلمانوں کے عقیدے اور مذہبی روایات پر حملہ’ قرار دیا۔ انہوں نے علامتی طور پر بل کو پھاڑ دیااور اپنے قدم کا موازنہ مہاتما گاندھی کی غیر منصفانہ قوانین کے خلاف مزاحمت سے کیا۔

بحث کے دوران اویسی نے کہا، ‘یہ وقف ترمیمی بل مسلمانوں کے عقیدے اور عبادت کے طریقے پر حملہ ہے۔’ انہوں نے دلیل دی کہ یہ قانون مسلم کمیونٹی کے حقوق کو مجروح کرتا ہے۔

اویسی نے آرٹیکل 14 (جو تمام شہریوں کو قانون کے سامنے برابری کا حق دیتا ہے) کا حوالہ دیا۔ انہوں نے کہا، ‘مسلمانوں کو وقف املاک پر پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا جبکہ تجاوزات کرنے والا راتوں رات مالک بن جائے گا۔ اس کامینجمنٹ کوئی غیر مسلم کرے گا – یہ آرٹیکل 14 کی خلاف ورزی ہے۔’

اس بل کی ضرورت پر سوال اٹھاتے ہوئے انہوں نے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کی طرف سے کرائی گئی یقین دہانیوں کی یاد دلائی۔ امت شاہ نے کہا تھا کہ وقف بورڈ اور کونسل مسلمانوں کی مذہبی روایات میں مداخلت نہیں کرے گی۔ اگر یہ سچ ہے تو پھر یہ قانون لانے کی کیا ضرورت تھی؟’ اویسی نے کہا۔

حیدرآباد کے رکن پارلیامنٹ اویسی نے الزام لگایا کہ یہ بل مسلمانوں کو وقف املاک کے انتظامی کنٹرول سے محروم کرتا ہے۔ انہوں نے دلیل دی، ‘ہندو، سکھ، جین اور بدھ برادریوں کو ان کے مذہبی اداروں کو چلانے کا حق دیا گیا ہے۔ پھر مسلمانوں سے یہ حق کیوں چھینا جا رہا ہے؟ یہ آرٹیکل 26 کی سنگین خلاف ورزی ہے۔’

بحث کے دوران اویسی نے مرکزی وزیر کرن رجیجو سے اس بل میں ‘پریکٹسنگ مسلم’ کی تعریف پر سوال کیا۔ ‘کیا داڑھی رکھنا اس کی شرائط میں سے ایک ہوگا، یا پھر اسے آپ کی  طرح کلین شیو ہونا چاہیے؟’ انہوں  نے طنزیہ انداز میں پوچھا۔

بی جے پی حکومت پر مسلمانوں کو حاشیہ پر دھکیلنے کا الزام لگاتے ہوئے اویسی نے کہا، ‘یہ بل مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانے کے لیے لایا گیا ہے۔’

غیر منصفانہ قوانین کے خلاف مہاتما گاندھی کی مزاحمت کا موازنہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا، ‘جب گاندھی جی کو ایک ایسے قانون کا سامنا کرنا پڑا جسے وہ قبول نہیں کر سکتے تھے، تو انھوں نے کہا تھا، ‘میں اس قانون کو نہیں مانتا اور اسے پھاڑ دیتا ہوں۔’ ٹھیک اسی طرح میں اس قانون کو بھی پھاڑ رہا ہوں۔’

اس کے بعد انہوں نے احتجاجاً اسٹیپل والے صفحات کو الگ کر دیا۔ اویسی نے الزام لگایا کہ ‘یہ غیر آئینی ہے۔ بی جے پی مندر اور مسجد کے نام پر سماج میں دشمنی پھیلانا چاہتی ہے۔’

کیا بدل جائے گا؟

ان مباحث کو جاننے کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دونوں ایوانوں میں ترامیم کی منظوری کے بعد کیا تبدیلی آئے گی ؟

ہندوستان میں وقف نظام نے تاریخی طور پر مذہبی، تعلیمی اور سماجی بہبود کے اداروں کی حمایت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ موجودہ قانون کے تحت، وقف ایک خیراتی بندوبستی ہے جس میں جائیداد مذہبی یا فلاحی مقاصد کے لیے عطیہ کی جاتی ہے، جس کی ملکیت ہمیشہ کے لیے اللہ کے سپرد ہوتی ہے، اور اس کی آمدنی مساجد، مدارس، یتیم خانوں اور دیگر فلاحی اقدامات کے لیے استعمال ہوتی ہے۔

قابل ذکر ہے کہ 1995 کے وقف ایکٹ اور اس کی 2013 کی ترمیم نے ان جائیدادوں کو چلانے کے لیے قانونی ڈھانچہ تشکیل دیا اور ریاستی وقف بورڈ قائم کیے، جو ان کی نگرانی کے ذمہ دار ہیں۔ تاہم، مرکزی حکومت کا کہنا ہے کہ وسیع پیمانے پر بدانتظامی، فراڈ اراضی کے دعووں اور قانونی تنازعات کی وجہ سے انتظامیہ میں وضاحت اور جوابدہی لانے کے لیے وقف ایکٹ میں ترمیم کرنے کی ضرورت ہے۔

نئی ترامیم سے سب سے بڑی تبدیلی یہ ہوگی کہ اب ہر کوئی وقف کو جائیداد عطیہ نہیں کر سکے گا۔ جائیداد عطیہ کرنے والوں کے لیے اہلیت کے سخت معیار ہوں گے۔اب تک جو  قانون لاگو ہے اس کے تحت، کوئی بھی شخص، بلا لحاظ مذہب، وقف مقاصد کے لیے جائیداد عطیہ کر سکتا ہے۔ تاہم، نئی ترامیم اس حق کو صرف ان لوگوں تک محدود کرتی ہیں جو کم از کم پانچ سال سے اسلام پر عمل کر رہے ہوں۔

ترمیم شدہ بل کے مطابق، جائیداد دینے والے شخص کو یہ ثابت کرنا ہو گا کہ وہ کم از کم پانچ سال سے اسلام کا پیروکار ہے۔ حکومت کے مطابق، یہ اہتمام  من مانی یا دھوکہ دہی سے وقف دینے والے  کو روکنے کے لیے ضروری ہے۔ تاہم، ناقدین کا خیال ہے کہ یہ شق ایک غیر ضروری مذہبی امتحان عائد کرتی ہے اور وقف میں حصہ ڈالنے کے خواہشمند افراد پر غیر ضروری پابندیاں عائد کرتی ہے۔

اس کے علاوہ، ترمیم شدہ بل وقف املاک کی شناخت اور انتظام پر حکومتی نگرانی کو بھی بڑھاتا ہے۔ فی الحال، وقف سروے وقف سروے کمشنروں کے ذریعے کیا جاتا ہے، جو وقف اراضی کے ریکارڈ کو برقرار رکھنے کے ذمہ دار ہیں۔ ترمیم شدہ قانون کے تحت ضلع کلکٹر کو ایسی جائیدادوں کا سروے کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ مزید یہ کہ اگر وقف کا دعویٰ سرکاری اراضی سے متعلق ہے تو ترمیم میں تجویز کیا گیا ہے کہ کلکٹر کے عہدے سے اوپر کا ایک افسر اس دعوے کی تحقیقات کرے گا اور ریاستی حکومت کو رپورٹ پیش کرے گا۔

ترمیم شدہ بل کے سب سے متنازعہ پہلوؤں میں سے ایک وقف بورڈ میں غیر مسلم ممبران کو شامل کرنے کی شرط ہے۔ نئے بل کے تحت، سینٹرل وقف کونسل اور ریاستی وقف بورڈ میں کم از کم دو غیر مسلم ارکان کا ہونا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ وقف بورڈ کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر کے لیے مسلمان ہونے کی شرط کو بھی ختم کر دیا گیا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ وقف انتظامیہ کو مزید جامع اور شفاف بنانے کے لیے یہ قدم اٹھایا گیا ہے۔ تاہم، مسلم مذہبی تنظیموں نے اس شق پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وقف اسلامی قانون کے تحت ایک مذہبی وقف ہے، اور اس کے انتظام میں غیر مسلموں کو شامل نہیں کیا جانا چاہیے۔

اس ترمیم میں وقف املاک کو وقف کرنے سے پہلے خواتین کے وراثتی حقوق کے تحفظ کے لیے ایک نئی شق بھی شامل کی گئی ہے۔ بل میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ خاندانی وقف بنانے سے پہلے وقف کرنے والے شخص کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ تمام قانونی ورثاء بالخصوص خواتین کو جائیداد میں ان کا صحیح حصہ مل گیا ہے۔

اس کے علاوہ بل اس کو بھی لازمی بناتاہے کہ تمام متولی (وقف جائیدادوں کے منتظمین) چھ ماہ کے اندر مرکزی حکومت کے پورٹل پر جائیداد کی تفصیلات درج کریں۔ اس کے علاوہ، وقف ادارے جن کی سالانہ آمدنی ایک لاکھ روپے سے زیادہ ہے، اب انہیں ریاست کے مقرر کردہ آڈیٹرز سے لازمی طور پر آڈٹ کرانا ہوگا۔

Next Article

الہ آباد: سپریم کورٹ نے غیر قانونی طور پرتوڑے گئے مکانات کے مالکان کو دس-دس لاکھ روپےکا معاوضہ دینے کو کہا

ملک کی سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے کہ پریاگ راج ڈیولپمنٹ اتھارٹی، ان چھ لوگوں کو 10-10 لاکھ روپے کا معاوضہ ادا کرے گی، جن کے گھر2021 میں غیر قانونی طور پر توڑے گئے تھے۔عدالت کا کہنا ہے کہ یہ واحد راستہ ہے، جس سے حکام ہمیشہ مناسب قانونی عمل کی پیروی کرنا یاد رکھیں گے۔

نئی دہلی: 1 اپریل کو ایک سخت فیصلے میں سپریم کورٹ نے الہ آباد، اتر پردیش کی پریاگ راج ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پی ڈی اے) کو حکم دیا کہ وہ  ان چھ لوگوں کو دس دس  لاکھ روپے کا معاوضہ ادا کرے ،جن کے مکانات غیر قانونی طور پر گرائے گئے تھے۔

یہ فیصلہ ایسے وقت میں آیا ہے جب اتر پردیش میں یوگی آدتیہ ناتھ حکومت ‘بلڈوزر جسٹس’ کا دفاع کر رہی ہے، جس میں عام طور پر مسلم کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے ملزمین کی جائیدادوں کو منہدم کیا جا رہا ہے۔

دی وائر نے پہلےرپورٹ کیا تھا  کہ توڑے گئے مکانات میں سے ایک  مکان ریٹائرڈ اردو پروفیسر علی احمد فاطمی کا تھا۔ یہ کارروائی  ان کے لیے معاشی اور سماجی طور پر تباہ کن ثابت ہوا۔ انہوں  نے دی وائر کو بتایا،’میں اسے (مکان) دیکھنے کا حوصلہ بھی نہیں کر سکا۔’

پی ڈی اے نے ان کی بیٹی نائلہ فاطمی کے گھر کو بھی مسمار کر دیا تھا، اس کے ساتھ ہی وکیل ذوالفقار حیدر اور دیگر دو افراد کی جائیدادوں کو منہدم کر دیا تھا۔

لائیو لاء کے مطابق ، جسٹس ابھئے ایس اوکا اور اجول بھوئیاں کی بنچ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ یہ کارروائی قانونی عمل کی خلاف ورزی تھی۔

سپریم کورٹ نے اور کیا کہا؟

آئین کا آرٹیکل 21 شہریوں کی زندگی اورشخصی آزادی کا تحفظ کرتا ہے اور یہ من مانے ڈھنگ سے ذریعہ معاش سے محروم کرنے سے کو روکتا ہے۔

عدالت نے کہا، ‘انتظامیہ اور خاص طور پر ڈویولپمنٹ اتھارٹی کو یاد رکھنا چاہیے کہ رہائش کا حق بھی آرٹیکل 21 کا ایک اہم حصہ ہے… چونکہ یہ غیر قانونی توڑ پھوڑآرٹیکل 21 کے تحت درخواست گزاروں کے حقوق کی خلاف ورزی ہے، اس لیے ہم پی ڈی اے کو متاثرین  کو 10 لاکھ روپے کا معاوضہ ادا کرنے کا حکم دیتے ہیں۔’

جسٹس اوکا نے کہا، ‘ان معاملوں نے ہمارے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اپیل کنندگان کے گھروں کو زبردستی اور غیر قانونی طور پر مسمار کیا گیا… رہائش کا حق ہوتا ہے، قانونی عمل نام کی  بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔’

قابل ذکر ہے کہ دی وائر کی رپورٹ میں ذکر کیا گیا تھا کہ فاطمی کو کبھی یہ سمجھ نہیں پائیں  کہ ان کا گھر کیوں گرایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ انتظامیہ کے پاس ان کے خلاف کوئی وجہ نہیں ہے، ‘ہم ہاؤس ٹیکس اور پانی کا بل باقاعدگی سے ادا کرتے تھے۔’

سپریم کورٹ نے اس سے قبل 13 نومبر 2023 کو بھی فیصلہ سنایا تھا کہ ‘کسی شخص کے گھر کو بغیر کسی قانونی کارروائی کے صرف اس لیے گرانا مکمل طور پر غیر آئینی ہے کہ وہ ملزم یا مجرم قرار دیا گیا ہے۔’

نوٹس چسپاں کرنا کافی نہیں

عدالت نے اس بات پر بھی برہمی کا اظہار کیا کہ افسران نے صرف گھروں پر نوٹس چسپاں کیا، جبکہ انہیں ذاتی طور پر یا ڈاک کے ذریعے نوٹس دینا چاہیے تھا۔ جسٹس اوکا نے کہا، ‘نوٹس چسپاں کرنے کا یہ رواج بند ہونا چاہیے۔ اس کی وجہ سے لوگوں نے اپنے گھروں سے محروم ہوگئے۔’

عدالت نے اس عمل میں سنگین خامیوں کو بھی نوٹ کیا۔وجہ  بتاؤ نوٹس 18 دسمبر 2020 کو اتر پردیش ٹاؤن پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ ایکٹ کی دفعہ 27 کے تحت جاری کیا گیا تھا۔ اسی دن نوٹس بھی چسپاں کر دیے گئے۔ مسمار کرنے کا حکم 8 جنوری 2021 کو جاری کیا گیا تھا، لیکن اسے رجسٹرڈ ڈاک کے ذریعے نہیں بھیجا گیا۔

ڈاک 1 مارچ 2021 کو بھیجی گئی اور 6 مارچ 2021 کو موصول ہوئی۔ متاثرہ افراد کو اپیل کرنے یا جواب دینے کا کوئی موقع فراہم کیے بغیر، اگلے ہی دن مکانات مسمار کر دیے گئے۔

افسران کو سبق سکھانے کا طریقہ-معاوضہ

عدالت نے کہا، ‘ہم اس پورے عمل (گھر کو مسمار کرنے) کو غیر قانونی سمجھتے ہیں۔ متاثرین  کودس دس لاکھ روپے کا معاوضہ دیا جائے گا۔ اس اتھارٹی کے لیے یہ یاد رکھنے کا واحد طریقہ ہے کہ قانونی عمل کی پیروی کرنا ضروری ہے۔’

اس فیصلے سے واضح  ہے کہ قانون پر عمل کیے بغیر مکان گرانا نہ صرف غیر آئینی ہے بلکہ شہریوں کے بنیادی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے۔ سپریم کورٹ کے اس حکم کو ‘بلڈوزر جسٹس’ کے خلاف ایک بڑی وارننگ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔