محمد سجاد کی کتاب ہندوستانی مسلمان: مسائل و امکانات؛نہ صرف موضوعاتی تنوع کا احساس کراتی ہے بلکہ یہ باور کراتی ہے کہ معاصر سیاسی اور معاشرتی مسائل پر بھی تنقیدی دقت نظری اور تجزیاتی ژرف نگاہی کے ساتھ لکھا جا سکتا ہے۔
علامہ اقبال نے طرزِ کہن پر اڑنے اور آئین نوسے ڈرنے کو قوموں کے حق میں زہر ہلاہل قرار دیا ہے مگر افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اقبال کی تلقین پر کم ہی عمل کیا اور جب بھی مستقبل سازی کا ذکر کیا گیا تو ماضی کو مرکز نگاہ بنایا گیا۔ ‘ہندوستانی مسلمانوں کا مستقبل’ایک ایسا موضوع ہے جس پر گزشتہ ڈیڑھ سو سال سے اظہار خیال کیا جارہا ہے اور’مسلمان کیا کریں’کے جواب کی بہتات نے مسلمانوں کو انتشار میں مبتلا کردیا ہے اور اس گھٹاٹوپ اندھیرے میں روشنی کی نہ تو کوئی کرن نظر آتی ہے اور نہ ہی کوئی ایسی حکمت عملی مرتب کرنے کا سراغ ملتا ہے جس سے آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جا سکے۔مسلمانوں کی مشکلات کے جذباتی اور ہیجان انگیز بیان سے اردو اخبارات کے صفحات گراں بار نظر آتے ہیں مگر ان مسائل کے معروضی تجزیے اور ان کے ممکنہ اور قابل قبول حل کی نشاندہی کرنے والے مضامین بہت کم چھپتے ہیں۔
جواں سال مؤرخ اور معروف سیاسی تجزیہ نگار پروفیسر محمد سجاد اس صورت حال سے بجا طور پر کبیدہ خاطر نظر آتے ہیں اور انہوں نے اس موضوع کے وسیع تر تعلیمی، معاشرتی، اقتصادی اور سیاسی مضمرات سے مسلمانوں کو واقف کرانے کے لئے کئی فکر انگیز اور استدلالی مضامین مثلاً’ہندوستانی مسلمانوں کے گزشتہ 50 سال اور نئی صدی میں سمت کی تلاش، ہندوستان میں مسلم نمائندگی کا مسئلہ، ہندوستان کا سیاسی پس منظر اور مسلمانوں کے حصول اختیارات کا سوال، یو پی مذہبی عمارات بل اور یہاں کے مسلمان، مسلم رہنمائی کا تنقیدی جائزہ، بہار کے مسلمانوں میں جدید تعلیمی و سیاسی بیداری، بہار کی مسلم سیاست ، جمہوری سیاست، سوشل جسٹس اور مسلمانان بہار، مسلمانان بہار کے تئیں لالو اور رابڑی عہد حکومت کا رویہ اور مسلم سیاست انقلاب کی طرف گامزن’ تحریر کیے جو ملک کے مقتدر جرائد اور اخبارات میں شائع ہوئے اور اب یہ مضامین پروفیسر محمد سجاد کی تازہ ترین کتاب ‘ہندوستانی مسلمان: مسائل اور امکانات’میں شائع ہوئے ہیں جو حال ہی میں براؤن بُکس نے شائع کی ہے۔
مسلمانوں کے مسائل کا حل ملی اتحاد میں ڈھونڈا جاتا ہے اور معاشرتی اور اقتصادی امور کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی ہے۔ مسائل کا غیر جذباتی انداز میں محاسبہ کرتے ہوئے پروفیسر سجاد نے لکھا ہے کہ مسلمان عموماً مذہبی یا نیم مذہبی تحریکوں میں پورے جوش و خروش سے حصہ لیتے ہیں اورملک گیر سطح پر چلنے والی مقبول تحریکوں مثلاً زرعی اصلاحات، عورتوں کی آزادی، دلتوں کی فلاح و بہبود، تعلیم اور صحت اور پنچایت راج تحریک سے بے اعتنائی برتتے ہیں۔اس سے مسلمانوں میں شعوری طور پر الگ تھلگ رہنے کی روش (Isolation Syndrome) نے رواج پا لیا۔ مسلمان سرکاری ملازمتوں میں ریزرویشن کا مطالبہ تو کرتے ہیں مگر خانقاہوں اور اوقاف کی جائیداد، آمدنی و اخراجات اور اس کے نظم و نسق اور ان اداروں میں جمہوری طرز عمل کو بروئے کار لانے اور شفافیت اور جواب دہی کے اصولوں کی پاسداری پر کوئی دھیان نہیں دیتے ہیں۔
ہر مسئلہ کے لیے حکومت کو موردِ الزام ٹھہرانے کی جذباتی روش پروفیسر سجاد کو خوش نہیں آتی اور ان کی یہ رائے حق بجانب محسوس ہوتی ہے کہ اگر مذکورہ اداروں سے بدعنوانی کے مختلف طریقوں کو ختم کرنے کی تحریک چلائی جائے تو ان کے وسائل سے تعلیمی ادارے اور اسپتال بہت اچھے طریقے سے چلائے جا سکتے ہیں اور مسلمانوں کی بدحالی کا بڑے پیمانے پر ازالہ کیا جاسکتا ہے۔ ہندوستان میں مطلقہ عورتوں کی حرمت اور انہیں معاشرہ میں باعزت زندگی گزارنے کی سعی کرنے والا کوئی ادارہ یا تنظیم نہیں ہے اور نہ ہی مسلم پرسنل لا بورڈ عورتوں کو بااختیار بنانے کے سوال کو موضوع گفتگو بنا رہا ہے۔ مسلمانوں کو خود اپنی اصلاح کرنے سے کون روکتا ہے جبکہ بیشتر اسلامی ملکوں ایسا کیا جا چکا ہے۔ مصنف کا یہ سوال خاصی اہمیت کا حامل ہے۔
محمد سجاد کے نزدیک مسلمانوں کی اجتماعی اور قرار واقعی فلاح و بہبود کو محض ملی اتحاد اور مذہبی جذباتیت سے یقینی نہیں بنایا جا سکتا ہے۔احتجاج جمہوریت کا جزو جلیل ہے تاہم مسائل محض احتجاج اور اشتعال انگیزی سے حل نہیں کیے جا سکتے۔ مصنف احتجاج کو فی نفسہٖ فعل عبث قرار نہیں دیتے بلکہ اس کے دائرہ کار کو متعین کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے اپنے مضمون ‘ہندوستان میں مسلم نمائندگی کا المیہ’میں مسلمانوں کو یہ مشورہ دیا ہے کہ وہ اولاً اپنی ترجیحات طے کر لیں کہ کون سے مسائل زیادہ اہم ہیں اور کون کم اہمیت کے حامل ہیں۔ پھر ان مسائل کو احتجاج کا محور بنایا جائے جن سے دیگر افراد خاص طور پر پسماندہ طبقے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔
مسائل میں ابتدائی تعلیم کو لازمی بنانے، قانون اور انتظامیہ کی بہتری، ذرائع نقل و حمل کا بہتر نظم و نسق، سرکاری بینکوں سے قرض کی فراہمی، رعایتی شرح پر اناج فراہم کرانے والی سرکاری دکانوں میں بدعنوانی شامل ہیں۔ اس فہرست کے درست ہونے میں کلام نہیں مگر یہ مسائل محض اقلیتوں اور پسماندہ طبقہ تک محدود نہیں ہیں، یہ سارے ہندوستانیوں کے مسائل ہیں۔ مصنف کا نقطہ نظر ہے کہ ذرائع ابلاغ اور ٹی وی چینل مسلمانوں کے مسائل سے واقف نہیں ہیں جبکہ اردو اخبارات کا دائرہ بہت محدود ہے۔
ہندوستان میں دائیں بازو کی جماعتوں کا فروغ اورفاشزم کی بڑھتی ہوئی طاقت سے نبرد آزما ہونے کے ضمن میں محمد سجاد کا مشورہ ہے کہ تمام سیکولر عوامی انقلابی طاقتیں متحد ہوکر مزدور اور کسان تحریک، دبے کچلے عوام کی ثقافتی تحریک، دلت آندولن، انسانی حقوق کی تحریک اور تانیثی تحریک کا ساتھ دیں۔ اس رائے کے صائب ہونے سے انکار نہیں مگر یوں بھی ہے کہ علم کاری اور بازار اساس معاشرہ نے ان تحریکوں کو بڑی حد تک بے اثر کر دیا ہے ۔ اب ملک گیر پیمانے پر ہڑتال کا تصور ہی محال ہو گیا ہے۔
قومی تشخص محض حب الوطنی اورقومیت اور ثقافتی و لسانی وحدت سے عبارت نہیں ہے اور مصنف ے نزدیک سب سے زیادہ قابل قبول صورت یہ ہے کہ نیشنل آئڈنٹِٹی کی تعریف اس نہج پرمتعین کی جائے کہ ریاست، سرمایہ اور اقتدار میں سبھی کو مناسب حصہ ملے یعنی نیشنل یونٹ اور سیاسی یونٹ میں پوری مفاہمت ہو، دونوں کے مابین کوئی خلیج حائل نہ ہو۔
41 مضامین پر مشتمل یہ کتاب نہ صرف موضوعاتی تنوع کا احساس کراتی ہے بلکہ یہ باور کراتی ہے کہ معاصر سیاسی اور معاشرتی مسائل پر بھی تنقیدی دقت نظری اور تجزیاتی ژرف نگاہی کے ساتھ لکھا جا سکتا ہے۔چار ابواب میں منقسم اس کتاب کا پہلا حصہ مسلمانوں کے مختلف مسائل کی نشان دہی اور ان کے سد باب کی سنجیدہ تدابیر کو رو بہ عمل لانے کی سعی سے عبارت ہے۔ اس حصہ میں 20 مضامین شامل ہیں اور حصہ دوم کا تعلق علی گڑھ تحریک سے ہے اور پروفیسر سجاد نے آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس، سر سید احمد خاں اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے رول کا نیا خاکہ تہذیب الاخلاق کی تشکیل نو اور کیا آج علی گڑھ سرسید کے خوابوں کی تعبیر ہے کو موضوع گفتگو بنایا ہے۔
اردو میں ایک جغرافیائی خطہ سے مخصوص سیاسی، معاشرتی، تعلیمی، ثقافتی اور تاریخی پہلوؤں کو مرکز مطالعہ بنانے کی مثالیں شاذ ہی ملتی ہیں اور علاقائی ثقافتی تاریخ کے مباحث سے واقفیت عام نہیں ہے۔ مصنف نے بہار اور مظفر پور سے متعلق 18مضامین سپرد قلم کیے ہیں جن میں بہار کی مسلم قیادت، مسلمانوں کی جدید تعلیمی اور سیاسی بیداری، امارت شرعیہ کی دینی و سماجی خدمات، بہار میں رقص، حیوانیت کے مسلسل عمل، تعمیر نو کے لیے بہار میں نئی سیاست کی تلاش، بہار میں اردو تحریک، مسلمانان بہار کے تئیں لالو اور رابڑی حکومت کا رویہ، بہار کے لوگوں کو حقارت کی نظر سے یوں دیکھا جاتا ہے، ترہت میں 1857 کا انقلاب، مظفر پور میں فرقہ وارانہ تشدد اور مسلم سیاست انقلابی تبدیلی کی طرف گامزن، شامل ہے۔
اس کتاب میں بہار اور مظفر پور سے متعلق ان اہم شخصیات کے کارناموں کو تحقیقی دیانت داری کے ساتھ اجاگر کیا گیا ہے جن پر فی زمانہ بڑی حد تک فراموش کاری کی گہری دھند چھائی ہوئی ہے۔ پروفیسر سجاد نے سید محمود، سید امداد علی، محمد شفیع داؤدی اور مغفور احمد اعجازی کی مختلف النوع گراں قدر خدمات پر روشنی ڈالی ہے اوریہ مضامین اس کتاب کی تحقیقی اور تاریخی اہمیت کو دوچند کرتے ہیں۔ پروفیسر سجاد انگریزی اور اردو کے متعدد اخبارات میں تواتر کے ساتھ لکھتے رہتے ہیں اور ان کے مضامین معاصر صورت حال سے ہم آہنگ ہونے کے باوجود تاریخی پس نظر کی شمولیت اور تجزیاتی انداز بیان کے باعث ایک لازمانی جہت کا احساس کراتے ہیں جس کے لیے مصنف داد و تحسین کے مستحق ہیں۔ یہ مضامین سیاسی اور معاشرتی تجزیہ نگاری کے نئے افق وا کرتے ہیں اور مسلمانوں کو جذباتی ردعمل کے محابا اظہار سے باز رہنے کی بجا طور پر تلقین کرتے ہیں۔
(تبصرہ نگارعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ ماس کمیونیکیشن میں پروفیسر ہیں۔ ان کے ہفتہ وار کالم ورق در ورق کی ساری قسطیں آپ یہاں پڑھ سکتے ہیں۔)
The post ورق در ورق : مسلمانوں کی سیاسی اور معاشرتی تجزیہ نگاری کے نئے افق کو وا کرتی کتاب appeared first on The Wire - Urdu.