اپٹا کی بناوٹ اور آرائش و زیبائش ہی ایسی تھی کہ اس کے سوشل ڈسکورس میں سیاسی سمجھ کی تہیں ملی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اس لئے اپٹا نے کئی سطحوں پر کامیابی حاصل کی لیکن اس کے 75سالہ سفر میں ایسے موڑ بھی آئے جب اس کو اپنے وجود تک کے لئے جدو جہد کرنی پڑی۔
ادب اور سینما کے صارفی کلچر میں عوام اور سماج کی بات کرنا کچھ خاص لوگوں کا ‘ پیشہ ‘ بن چکا ہے، دراصل ادب اور سماج کے تمام زمینی اور ضروری رشتے موٹی-موٹی کتابوں اور دستاویزوں کے درمیان اونگھ رہے ہیں۔ گویا حاشیائی رشتوں کی کایا کلپ ہو چکی ہے۔ ان باتوں کو درج کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ادب کے بہانے ہم کبھی کبھی ایسی باتیں کرنے کے لئے مجبور ہوتے ہیں۔ شاید ابتک یہ خبر آپ کے کانوں میں پڑ چکی ہوگی کہ پٹنہ میں انڈین پیپلز تھیٹر ایسوسی ایشن (اپٹا) کے 75 سال پورے ہونے پر پلیٹینم جبلی کا انعقاد کیا گیا ہے۔
ظاہر ہے اس تقریب میں انہی غیرضروری رشتوں کو یاد کیا جا رہا ہے۔ اپٹا کے بہانے اس بھولے بسرے رشتے یا حاشیائی دنیا کو پڑھنے کی کوشش میں ہماری پہلی ملاقات اس عوامی کلچر کےہیرین مکھرجی (ہریندرناتھ مکھرجی) سے ہوتی ہے، مکھرجی سیاست اور تعلیم کے شعبے میں اپنی غیرمعمولی خدمات کے لئے یاد کیے جاتے ہیں۔ مکھرجی کو یہاں یاد کرنا اس لئے ضروری ہے کہ انھوں نے 25 مئی 1943 کو بمبئی میں اپٹا کے قیام پر کچھ اس طرح کی اپیل کی تھی کہ ؛
ہمارے اندر جو سب سے اچھا ہے، وہ عوام اور سماج کو نذر کر دینا چاہیے۔
مکھرجی نے قلم کاروں ، فن کاروں، اداکاروں اور ڈرامہ نگاروں سب کو آواز دیتے ہوئے بڑے جوش سے یہ بات کہی تھی کہ ؛ تم سب کے سب جو ہاتھ اور ذہن سے کام کرتے ہو، آگے آؤ اور خود کو آزادی اور سماجی انصاف جیسے مدعوں کے لئے وقف کر دو۔ کانفرنس میں ہی اسٹیج اور روایتی آرٹ کی ضرورت کو قبول کرتے ہوئے عام لوگوں کو اس منچ سے جوڑنے اور تنظیم کی تشہیر کے مدنظر پورے ملک میں عوامی ڈرامہ کی تحریک کی فوری ضرورت پر زور دیا گیا تھا۔
سماجی ضروریات، عوام اور آرٹ کے امتزاج سے اپٹا نے تحریک آزادی کے دور میں ایک بڑا رول ادا کیا اور ہر طرح کے شعور اور بیداری پر زور دیا۔ آپ کھیت کھلیان کی بات کریں، مزدوروں کی بات کریں یا عورت کی بات کریں ،اپٹا کے سنہرے صفحات روشن ہو جاتے ہیں۔ اپٹا کی بناوٹ اور آرائش و زیبائش ہی ایسی تھی کہ اس کے سوشل ڈسکورس میں سیاسی سمجھ کی تہیں ملی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اس لئے اپٹا نے کئی سطحوں پر کامیابی حاصل کی لیکن اس کے سفر میں ایسے موڑ بھی آئے جب اس کو اپنے وجود تک کے لئے جدو جہد کرنی پڑی۔
مالی تنگی کے زمانے بھی آئے لیکن ہر بار کچھ لوگوں کی مدد سے اپٹا نے اسٹیج اور عوام کے رشتے کو قائم رکھنے میں کامیابی حاصل کی۔ 1949 اپٹا کی تاریخ کے کچھ ایسے ہی صفحات کو کھولتا ہے، بتایا جاتا ہے کہ اس وقت کچھ لوگوں کی غلط پالیسیوں اور حکومت کے ظلم کی وجہ سے اپٹا کا ساتھ کئی لوگوں نے چھوڑ دیا۔ دھننجے کمار اپنے ایک مضمون میں اس کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ؛
1949 میں پنڈت نہرو نے مزدوروں کی ہڑتال پر پابندی لگا دی اور ہڑتال کی حمایت کرنے والے کمیونسٹوں کو جیل میں بند کر دیا۔ تب حکومت کی مخالفت کرنے کے سوال پر اپٹا فکر کی سطح پر دو حصوں میں منقسم ہو گیا۔ ایک طرف ایسے لوگ تھے جو حکومت کے اعلان کو انسانیت کے خلاف مانتے تھے اور اس کی مخالفت میں آندولن کرنا چاہتے تھے۔ تو دوسری طرف وہ لوگ تھے جو حکومت کو اور وقت دیے جانے کی وکالت کر رہے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ آہستہ آہستہ اپٹا سے الگ ہونے لگے۔ کچھ نے اپنی الگ تنظیم بنا لی۔ باقی جو لوگ اپٹا میں بچ گئے انہوں نے حکومت کی مخالفت کی، کئی جیل گئے، کئی روپوش ہو گئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کمزور اپٹا میں جمود آ گیا۔
شاید یہی کمزوری اور اس کا جمود اپٹا کی اپنی مضبوطی تھی، دراصل ایک نظریہ کے طور پر اس نے 1939 کے آس پاس ہی اپنی زمین تیار کر لی تھی جب ترقی پسند تحریک کے ایک اجلاس میں یورپ کے یونٹی تھیٹر کی مثال دیتے ہوئے ہندوستان میں اس طرح کے عوامی تھیٹر کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے شیودان سنگھ چوہان نے ‘ بھارت کی جن ناٹیہ شالہ’ کے عنوان سے اپنا ایک مضمون پیش کیا تھا۔
اور شاید یہ بات اہم ہے کہ اس سے جڑنے والے زیادہ تر لوگ ترقی پسند مصنف یا فنکار کی صف میں شمار کیے جاتے تھے۔ شیودان سنگھ چوہان والے مضمون کے ذکر کی وجہ سے یہاں کوئی غلط فہمی پیدا نہ ہو اس لئے یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ اپٹا کا نام مشہور سائنس داں ہومی جہانگیر بھابھا نے دیا تھا۔ اس سلسلے میں بتایا جاتا ہے کہ بھابھا نے روماں رولاں کی کتاب ‘ دی پیپلس تھیٹر ‘ کی طرز پر یہ نام رکھنے کا مشورہ انل ڈی سلوا کو دیا تھا۔
یہاں شاید اس بات کا ذکر بھی کیا جا سکتا ہے کہ جب کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (سی پی آئی)اور ترقی پسند تحریک کے لوگ اپٹا میں فعال تھے، تو کیا اپٹا کسی پارٹی کا اشتہار بھی تھی؟ اپٹا کے خاص طرح کے جھکاؤ کے باوجود اس کے جواب میں مشہور اداکار بلراج ساہنی کے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ ؛
اپٹا نہ تو کسی سیاسی پارٹی سے جڑا ہے۔ نہ کسی گروپ سے۔ اپٹا تمام سیاسی جماعتوں اور غیر سیاسی لوگوں کا استقبال کرتا ہے۔ اس کا ممبر ہونے کی واحد شرط ہے-حب الوطنی اور اپنی عوامی تہذیب پر فخر۔
اس وضاحت کے بعد بھی کہہ سکتے ہیں کہ اپٹا بھلے ہی کسی پارٹی کا اشتہار نہ رہا ہو لیکن کمیونسٹ پارٹی کی اٹھا پٹک میں اس کے اندر بھی بحران پیدا ہوئے۔ شاید اس لئے جب 1964 میں کمیونسٹ پارٹی فکری طور پر دو حصوں میں منقسم ہوئی تو اپٹا اس سے متاثر ہوا۔ لیکن کچھ لوگوں نے اپٹا کو پھر سے مشکلوں سے نکالنے میں مدد کی۔ اس وقت وشوامتر عادل، اے کے ہنگل، آر ایم سنگھ کے ساتھ کچھ اور لوگ سامنے آئے اور خواجہ احمد عباس کی صدارت میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس کا جنرل سکریٹری وشوامتر عادل کو بنایا گیا اور ایک بار پھر اپٹا نے اپنے سفر کی شروعات کی۔
لیکن زیادہ دنوں تک یہ سفر برقرار نہ رہ سکا، لوگوں سے اپٹا کا رشتہ ٹوٹنے لگا۔ ایک بار پھر نئے سرے سے لوگوں کو جوڑنے کی کوشش شروع ہوئی۔ 1985 میں آگرہ میں اپٹا کے قیام نو کی کوشش اسی کا نتیجہ تھی۔ 1986 سے لےکر 1992 تک اپٹا کو منظم کرنے کی کوششیں ہوتی رہیں، جو بہت حد تک کامیاب بھی رہیں کہ 1992 میں اپٹا نے اپنی گولڈن جبلی منائی اور تقریباً ایک سال تک ملک کے کئی حصوں میں اس کے پروگرام ہوتے رہے۔ اپٹا کی موجودگی کو محسوس کرتے ہوئے 1994 میں ایم ایچ آر ڈی کے سابق وزیر ارجن سنگھ نے اپٹا کا ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا تھا۔
حکومت کے اس اعزاز کا ذکر اس لئے بھی ضروری ہو جاتا ہے کہ اپٹا نے حکومت کے ظلم و ستم کو بھی کئی طرح سے جھیلا، یہاں اگر ہم اسی ظلم کی بات کریں تو سامنے کی ایک مثال یہ پیش کی جاتی رہی ہے کہ ایک بار لکھنؤ میں پریم چند کی مشہور کہانی ‘ عید گاہ ‘ پر مبنی ڈرامہ کو روکنے کی کوشش بھی کی گئی۔ کئی جگہوں پر لوگوں نے ذکر کیا ہے کہ اس کہانی کو ڈرامہ کی صورت رضیہ سجاد ظہیر نے دی تھی اور امرت لال ناگر اس کے ہدایت کار تھے۔ ان دونوں پر الزام لگایا گیا کہ اپنے سیاسی خیالات کے تحت کہانی میں تبدیلی کی گئی ہے۔ بعد میں الٰہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے ان الزامات کو خارج کیا اور حکومت کی کارروائی کو غلط ٹھہرایا۔
ان باتوں سے الگ اپٹا نے اپنے شروعاتی دنوں سے ہی عوام سے مضبوطی کے ساتھ مکالمہ قائم کیا، بتایا جاتا ہے کہ اپٹا کی پہلی جنرل سکریٹری انل ڈی سلوا نے کچھ لوگوں کی مدد سے بمبئی میں اس کی ایک یونٹ بنائی اور 1 مئی 1942 کو وہاں کی مزدور بستی پریل کے دامودر ہال میں کامیابی کے ساتھ ڈرامے اسٹیج کیے۔ مراٹھی ڈرامہ ‘ دادا ‘ اور سردار جعفری کا مشہور ڈرامہ ‘ یہ کس کا خون ہے؟ ‘ کو اسٹیج کرنے کے بعد اپٹا نے تیزی سے چھوٹے-چھوٹے قدم اٹھائے اور ملک بھر میں اپنے پاؤں پسار لئے۔ ملک کی کئی اہم زبانوں میں اپٹا نے اہم مدعوں کو اپنے مکالمے میں شامل کیا۔ اس طرح ادب اور سماج کے رشتوں کو پیش کرتے ہوئے سیاسی شعور کو لوگوں تک لے جانے میں آج بھی اس کی مثال دی جاتی ہے۔
صرف ایک مثال دی جائے تو اس بات کا ذکر کیا جا سکتا ہے کہ بنگال میں قحط کے دوران عوام کے دکھ کو ملک کے دوسرے حصوں کی عوام کے درمیان پہنچانے میں اس نے ایک اہم رول ادا کیا۔ بنگال کے دکھ درد کو اپنے ڈراموں میں گا کر اپٹا نے پیسے اکٹھا کئے اور انسانیت کی خدمت کے لیے آگے آیا۔
بھیشم ساہنی نے اپنی کتاب ‘ بلراج میرا بھائی ‘ میں اپٹا کی سرگرمیوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بنگال کے قحط کے دوران اپٹا کی ناچنے گانے والی منڈلی نے پورے شمالی ہندوستان کا دورہ کرکے قحط متاثرین کے لئے چندہ اکٹھا کیا تھا۔ انہوں نے اپنی آنکھوں دیکھے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بنگال کے خوفناک قحط پر اپٹا کی پیش کش دیکھکر کس طرح عورتوں نے اپنے سونے کی چوڑیاں کلائیوں سے اتارکر بنگال کی عوام کی مدد کے لئے دے دی تھی۔
ڈرامہ گروپ کے علاوہ اپٹا کا ڈانس گروپ سینٹرل کلچرل اسکواڈ بھی کافی مشہور ہوا۔ اس گروپ میں ادے شنکر، شانتی وردھن، پنڈت روی شنکر، ونئے رائے، پریم دھون، دینا پاٹھک، گل بردھن، ریکھا رائے جیسے مشہور فنکار کے نام لئے جاتے ہیں۔ شاید یہاں یہ بتانا بھی دلچسپ ہے کہ علامہ اقبال کی نظم ‘ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا ‘ کو آج بھی جس دھن پر گایا جاتا ہے وہ دھن اپٹا کے لئے ہی پنڈت روی شنکر نے بنائی تھی۔
اپٹا اپنے وقت کے شعور سے جنم لےکر ہمارے سامنے آیا، اس لئے آزادی کی جدو جہد میں بھی اس کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ بھیشم ساہنی کی مانیں توفرقہ وارانہ فسادات کے وقت اپٹا کی ٹولیاں ان مقامات پر قومی یگانگت کا پیغام لے کر پہنچ جاتی تھیں، جہاں قرفہ وارانہ کشیدگی ہوتی تھی۔ ملک کی تقسیم سے پیدا ہوئے حالات کو بھی اپٹا نے خواجہ احمد عباس کے ڈرامے ‘میں کون ہوں؟’ کے ذریعے پیش کیا۔ خواجہ احمد عباس کا ذکر اس لئے بھی ہونا چاہیے کہ ان کو اس وقت اپٹا کا خزانچی منتخب کیا گیا تھا۔
اپٹا کی کئی اچھی باتوں میں ایک بات یہ بھی نظر آتی ہے کہ اس کو کسی زبان سے پرہیز نہیں تھا۔ شاید اس لئے بھی تمام زبانوں کے ساتھ ساتھ اردو کی ایک پوری کہکشاں اس کے اسٹیج پر نظر آتی ہے۔
اپٹا سے جڑے کچھ اہم نام
اس طرح پتا چلتا ہے کہ اپٹا سے اپنے زمانے کے تمام بڑے فن کار کسی نہ کسی سطح پر جڑے تھے۔ پرتھوی راج کپور، بھیشم ساہنی، بلراج ساہنی، سروجنی نائڈو، انل ڈی سلوا، خواجہ احمد عباس، سردار جعفری، چیتن آنند، اودئے شنکر، پنڈت روی شنکر، شمبھو مترا، اتپل دت، سلیل چودھری، زہرا سہگل، اے کے ہنگل، شیلا بھاٹیہ، دینا پاٹھک، راجیندر رگھو ونشی، نیمی چندر جین، بھوپین ہزاریکا، کیفی اعظمی، مجروح سلطان پوری، ساحر لدھیانوی، پریم دھون، شیلندر، چتو پرساد، جتیندر رگھو ونشی، رشید جہاں، ہیمانگو وشواس، مخدوم، کرشن چندر، سجاد ظہیر وغیرہ ایسے نام ہیں، جو اپنے میدان کی جانی مانی ہستیاں ہیں۔
اپٹا کے بارے میں یہ باتیں کسی نہ کسی طور پر سامنے آتی رہی ہیں لیکن اردو اور اپٹا کے رشتوں پر کم باتیں کی گئیں ہیں۔ اگر خواجہ احمد عباس سے ہی شروعات کی جائے تو کہہ سکتے ہیں کہ عباس نہ صرف اپٹا کے بنیاد گزاروں میں سے ہیں بلکہ انہوں نے اپٹا کے لئے کئی ڈرامے لکھے، انھیں ڈائریکٹ بھی کیا۔ اپٹا کے صدر، جنرل سکریٹری، خزانچی کے طور پر بھی کئی طرح کی ذمہ داری ادا کیں۔
ان کا ڈرامہ زبیدہ ، یہ امرت ہے، میں کون ہوں، لال گلاب کی واپسی، رپورٹر، بارہ بجکر پانچ منٹ کافی پسند کئے گئے۔ خاص طورپر زبیدہ کافی مقبول ہوا۔ ڈرامہ زبیدہ میں خواجہ احمد عباس نے سماج اور مذہب کی فرسودہ روایات کے تحت کئے جانے والے ظلم وستم کو پیش کیاہے ۔ جس کو بلراج ساہنی نے ڈائریکٹ کیا اور اس میں دیوانند، دمینتی ساہنی، چیتن آنند جیسے فن کاروں نے کام کیا۔
1946 میں اپٹا کے تحت بننے والی فلم ‘ دھرتی کے لال ‘ کو بھی خواجہ احمد عباس نے ڈائریکٹ کیا تھا۔ یہ فلم بنگال کے قحط پر بنائی گئی تھی۔ جس کی کہانی کرشن چندر کے افسانے ‘ ان داتا ‘ اور بنگالی ڈرامہ نئی فصل اور زباں بندی پر مبنی تھی۔ اس کے گانے سردار جعفری نے لکھے تھے۔اس میں زہرا سہگل، دمینتی ساہنی (بلراج ساہنی کی بیوی) جیسے فن کاروں نے کام کیا تھا۔
علی سردار جعفری نے گانوں کے ساتھ ساتھ اپٹا کے لئے کئی ڈرامے بھی لکھے۔ جس میں ‘ یہ کس کا خون ہے ‘ بہت مشہور ہوا۔ یہ ڈرامہ پہلی بار 1942 میں انل ڈی سلوا کی ہدایت کاری میں پیش کیا گیا تھا، بعد میں ممبئی کے علاوہ کئی شہروں میں اس ڈرامے کو کئی بار پیش کیا گیا۔ اس میں زمینداری کی روایت اور عوام کے احتجاج کو پیش کیا گیا تھا۔
کرشن چندر نے اپٹا کے لئے نہ صرف ڈرامے لکھے بلکہ بطور ہدایت کار بھی اپنی خدمات انجام دی۔ ان کا ڈرامہ ‘ جھاڑو ‘ کو اپٹا نے پہلی دفعہ 1949 میں اسٹیج کیا تھا جس کے ہدایت کار حبیب تنویر تھے۔ اس کے علاوہ انہوں نے ڈرامہ ‘ امن ‘ کو ڈائریکٹ کیا تھا۔ ان کے ڈراموں کا مجموعہ ‘ دروازہ ‘ کتابی صورت میں شائع ہو چکا ہے۔
مخدوم محی الدین نے بطور نغمہ نگار اپٹا کو اپنی خدمات دیں۔ سردار جعفری کے مشہور ڈرامہ ‘ یہ کس کا خون ہے ‘ میں مخدوم کا گیت ‘ آزادی کے پرچم تلے ‘ شامل تھا۔ اسی طرح وامق جونپوری ترقی پسند شعرا کی فہرست میں ایک اہم نام ہے۔ وہ شروع سےہی اپٹا سے جڑے تھے۔ ان کا مشہور نغمہ ‘ بھوکا ہے بنگال رے ساتھی بھوکا ہے بنگال ‘ عوام کی آواز بنا۔ جس کا ذکر سجاد ظہیر کی کتاب ‘روشنائی’ میں بھی موجود ہے۔
بھوکا ہے بنگال رے ساتھی بھوکا ہے بنگال
ندی نالے گلی ڈگر پر لاشوں کے انبار
جان کی ایسی مہنگی شے کا الٹ گیا بیوپار
مٹھی بھر چاول سے بڑھ کر سستا ہے یہ مال رے ساتھی
سستا ہے یہ مال
بھوکا ہے بنگال رے ساتھی بھوکا ہے بنگال
کیفی اعظمی کا رشتہ اپٹا سے کچھ یوں تھا کہ انہوں نے اپٹا کو نہ صرف نئی زندگی دی بلکہ اپنی فیملی کو بھی اس سے جوڑا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی بیوی شوکت اعظمی، بیٹی شبانہ اعظمی بھی اپٹا کا حصہ رہے ہیں۔ شبانہ اعظمی نے اپٹا کے ڈراموں میں اداکاری کی اور آج بھی اس سے جڑی ہوئی ہیں۔ کیفی اعظمی نے اپٹا کے لئے کئی ڈرامے اور نغمے لکھے، ان کا مشہور ڈرامہ ‘ آخری شمع ‘ لال قلعے میں اسٹیج کیا گیا تھا۔ یہ ڈرامہ فرحت اللہ بیگ کی تحریر ‘ لال قلعے کا آخری مشاعرہ ‘ پر مبنی تھا۔ اس ڈرامے میں ان کی بیوی شوکت اعظمی سمیت کئی مشہور ہستیوں مثلاً بلراج ساہنی، اے کے ہنگل، رمیش تلوار، قادر خان نے حصہ لیا تھا۔
رضیہ سجاد ظہیر (سجاد ظہیر کی بیوی) رشید جہاں کے بعد دوسری خاتون تھیں جنہوں نے اپٹا میں کافی اہم رول ادا کیا۔ یہاں تک کہ ایک ڈرامہ اسٹیج کرنے کے لئے پیشگی اجازت نہ لینے کی وجہ سے 1876 ڈرامہ ایکٹ کے تحت ان پر مقدمہ بھی چلا ۔ انہوں نے کئی ڈراموں کا ترجمہ کرکے اس کو اردو میں منتقل کیا۔ انہوں نے لکھنؤ اپٹا یونٹ کے لئے کئی ڈرامے لکھے، ترجمے بھی کئے، اس کے علاوہ پریم چند کی کئی کہانیوں کو ڈرامے کی صورت عطا کی ۔
اوپیندرناتھ اشک نے بھی اپٹا کے لئے ڈرامے لکھے، ہدایت کاری کی۔ جس کا ذکر انہوں نے اپنی کتاب ‘ پینترے ‘ میں بھی کیا ہے۔ ان کا ڈرامہ ‘ دنگا ‘، جس کے ہدایت کار حبیب تنویر تھے، بہت مشہور ہوا۔ یہ 1949 میں ممبئی میں اسٹیج کیا گیا تھا۔ حبیب تنویر ڈرامے کی دنیا میں ایک مشہور نام ہیں۔ انہوں نے اردو ڈرامے کو ایک نئی سمت دی۔ وہ ‘ نیا تھیٹر ‘ کے بانی بھی تھے۔ان کا ڈرامہ ‘ آگرہ بازار ‘ جو اردو شاعر نظیر اکبرابادی کی زندگی پر مبنی تھا، کافی مشہور ہوا تھا۔ انہوں نے اپٹا کے لئے ڈرامہ نگار، ہدایت کار، اداکار کی ذمہ داری بھی بخوبی انجام دی ۔
قدسیہ زیدی اردو ڈرامے کی دنیا میں ‘ ہندوستانی تھیٹر ‘ کی بانی کے طور پر بھی جانی جاتی ہیں۔ اردو ڈرامے کو اسٹیج دستیاب کرانے میں ان کے تھیٹر نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ اپٹا میں ان کا ڈرامہ آزر کا خواب ، گڑیا گھر، خالد کی خالہ، سفید کنڈلی وغیرہ اسٹیج ہوا اور عوام نے اس کو کافی پسند بھی کیا۔ قدسیہ کا خود کا تھیٹر ہونے کے باوجود اپٹا سے ان کا رشتہ ہمیشہ قائم رہا۔ ان کی بیٹی شمع زیدی آج بھی اس سے جڑی ہوئی ہیں۔
وشوامتر عادل نے اپٹا کے لئے ڈرامے لکھنے کے ساتھ ساتھ کئی ڈراموں کا ترجمہ بھی کیا۔ ان میں بسنتی بووا کا دودھ بھات، الیکشن، روٹیاں وغیرہ مشہور ہیں۔ ان کے علاوہ اپٹا سے جڑے کئی اہم لوگوں میں ساگر سرحدی (بھگت سنگھ، بھوکے بھجن نہ ہوئے گوپالا)، ایس ایم مہدی (غالب کے اڑیںگے پرزے، مارے گئے گلفام، (ہدایت کار عزیز قریشی)، انور عظیم (سورج کا سفر) رشید جہاں (جوڑ توڑ نئی پور)، عصمت چغتائی (دھانی بانکیں)، راجیندر سنگھ بیدی کا نام لیا جا سکتا ہے۔ عصمت نے اپٹا کی تشہیرو توسیع میں بھی کافی اہم کردار ادا کیا۔ بیدی اردو کے مشہور افسانہ نگار تھے۔ ان کا ڈرامہ نقل مکانی کو (جس پر بعد میں فلم دستک بنی) اپٹا نے 1948 میں ممبئی میں پیش کیا۔ اس میں زہرا سہگل اور حبیب تنویر نے ہیرو ہیروئین کا کردار ادا کیا تھا۔
مجموعی طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ اپٹا اپنے وقت میں عوام کی آواز تھی ،جس کی سانسیں ابھی بھی چل رہی ہیں۔
The post اپٹا جو اپنے وقت میں عوام کی آواز تھی،اس کی سانسیں ابھی بھی چل رہی ہیں… appeared first on The Wire - Urdu.