
ویڈیو:مکتبہ جامعہ والے شاہد علی خان کی زبانی سنیے مکتبہ پر جمع ہونے والے ادیب و فن کار کے دلچسپ قصے اور مکتبہ کی خدمات۔
The post ویڈیو:مکتبہ جامعہ والے شاہد علی خان کی زبانی ادیب و فن کار کی کہانی appeared first on The Wire - Urdu.
The post ویڈیو:مکتبہ جامعہ والے شاہد علی خان کی زبانی ادیب و فن کار کی کہانی appeared first on The Wire - Urdu.
لندن میں منعقدتقریب میں میکس پورٹر، جیوری چیئر، بین الاقوامی بکر پرائز 2025 کی فاتحین بانو مشتاق اور دیپا بھاستی کے ہمراہ۔ (تصویر بہ شکریہ: ڈیوڈ پیری، بکر پرائز فاؤنڈیشن)
نئی دہلی: کنڑ زبان کی ادیبہ بانو مشتاق کے افسانوں کے مجموعہ ‘ہارٹ لیمپ’ کو بین الاقوامی بکر پرائز سے نوازا گیا ہے ۔ 12 کہانیوں کے اس مجموعہ کا کنڑ سے انگریزی میں ترجمہ دیپا بھاستی نے کیا ہے۔
بانو مشتاق ادیبہ ہونے کے علاوہ خواتین کے حقوق کی علمبردار اور وکیل ہیں۔ وہ اپنی تخلیقات کے ذریعے عام خواتین، بالخصوص مسلم خواتین کے مسائل کو سامنے لاتی ہیں۔
بکر پرائز کی آفیشیل ویب سائٹ کے مطابق ، انہوں نے کہا،’ان خواتین کی تکلیف،اذیت اور بے بس زندگی مجھ پر گہرا جذباتی اثر ڈالتی ہے۔ میں کسی بڑی تحقیق میں نہیں پڑتی- میرا دل ہی میرےمطالعہ کا شعبہ ہے۔’
We’re delighted to announce that the winner of the #InternationalBooker2025 is Heart Lamp by Banu Mushtaq, translated by Deepa Bhasthi.
Here’s everything you need to know about the book: https://t.co/wPRGqgrQyc pic.twitter.com/tVFxwSGhZo
— The Booker Prizes (@TheBookerPrizes) May 20, 2025
یہ کتاب بین الاقوامی بکر پرائز جیتنے والی کنڑ زبان سے ترجمہ ہونے والی پہلی کتاب ہے۔ اس کے علاوہ، یہ افسانوں کا پہلا مجموعہ ہے جسے یہ اعزاز حاصل ہوا ہے۔
کرناٹک ساہتیہ اکیڈمی اور دان چنتامنی اتیمبے ایوارڈزکی فاتح بانو مشتاق کی تخلیقات کا انگریزی میں ترجمہ نہیں ہوا تھا، یہ پہلا موقع تھا جب دیپا بھاستی نے ہارٹ لیمپ کے ذریعے اس کا آغاز کیا۔
دیپا بھاستی کرناٹک کے کوڈاگو ضلع کی رہنے والی ادیبہ اور مترجم ہیں۔ ان کے مطبوعہ تراجم میں کوٹا شیورام کارنتھ کا ایک ناول اور کوڈگینا گوری اماں کی مختصر کہانیوں کا مجموعہ شامل ہے۔
بھاستی نے بکر ویب سائٹ کو بتایا،’بانو کی کہانیوں کے ساتھ میں نے پہلے ان کے تمام مطبوعہ افسانے پڑھے اور پھر ہارٹ لیمپ میں شامل کیےجانے والے افسانوں کا انتخاب کیا ۔مجھے یہ آزادی ملی کہ میں جن کہانیوں پر کام کرنا چاہوں کر سکتی ہوں۔’
بین الاقوامی بکر پرائز 2025 کے ججوں میں اینٹون ہر، بیتھ آرٹن، کیلیب فیمی، میکس پورٹر اور ثنا گوئل شامل تھے۔
ان کے مطابق، ‘یہ کہانیاں اقتدار کے سامنے سچ بولتی ہیں اور ہمعصر معاشرے میں ذات، طبقے اور مذہب کی گہری تقسیم کو بے نقاب کرتی ہیں۔ یہ بدعنوانی، ظلم، ناانصافی اور تشدد کی شکل میں اندر چھپی غلاظت کو باہر لاتی ہیں۔ پھر بھی، ہارٹ لیمپ کی روح ہمیں کہانی سنانے کی ٹھوس روایات، ناقابل فراموش کرداروں، جاندار مکالمے، سطح کے نیچے پیدا ہونے والے تناؤ اور ہر موڑ پر حیران کن پہلوؤں کے توسط سےپڑھنے کی حقیقی لذت سے ہمکنار کرتی ہے۔’
واضح ہو کہ بکر پرائز ان ناولوں کو دیا جاتا ہے جو اصل میں انگریزی میں لکھے جاتے ہیں، جبکہ بین الاقوامی بکر پرائز فکشن کی ان کتابوں کو دیا جاتا ہے جن کا انگریزی میں دوسری زبان سے ترجمہ کیا جاتا ہے۔
بین الاقوامی بکر پرائز جیتنے والی یہ کتاب ہندوستانی زبان میں دوسری کتاب ہے۔ اس سے پہلے گیتانجلی شری کی کتاب ’ریت سمادھی‘ کو یہ اعزاز حاصل ہوا تھا، جس کا انگریزی میں ترجمہ ڈیزی راک ویل نے ’ ٹومب آف سینڈ‘ کے نام سے کیا تھا۔
موت کی کتاب، فوٹو بہ شکریہ: متعلقہ پبلی کیشن
پیترک ابراہم کا یہ تبصرہ فرانسیسی زبان میں شائع ہوا ہے، محمد ریحان کے شکریے کے ساتھ یہاں اس کا اردو ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے۔(ادارہ)
یہ یقیناََ ایک خوش آئند خبر ہے کہ معاصر ہندوستانی ادیب پروفیسر خالد جاوید کا ناول ’موت کی کتاب‘ ایڈیشن بنیان کے زیرِ اہتمام شائع ہو کر منصۂ شہود پر آ گیا ہے، بالخصوص اس پس منظر میں کہ فرانسیسی زبان میں اردو ادب کے تراجم خال خال ہی نظر آتے ہیں۔
اردو ادب ہمارے لیے ایک غیر دریافت شدہ براعظم کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس شاندار اقدام کے لیے ڈیوڈ ایمے کو ہم مبارک باد دیتے ہیں اور روزن-آلس ویئے کو ان کے غیر معمولی اور معیاری ترجمے پر خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔
’موت کی کتاب‘ مختصر ہونے کے باوجود اپنی گہری تاریکی اور معنوی تہہ داری کے باعث ایک عظیم تخلیقی شہ پارہ ہے۔
یہ ایک ایسا ناول ہے جو پہلی ہی قرأت میں ذہن و روح پر نقش ہو جاتا ہے، ہمیں ہماری اپنی داخلی تاریکیوں سے روشناس کراتا ہے اور ہمیں اس بات کے لیے مجبور کرتا ہے کہ اس کا مطالعہ بار بار کیا جائے۔
والٹر شیلر نامی شخص، جو سیوکاریگ فورٹ یونیورسٹی کے شعبۂ آثارِ قدیمہ سے وابستہ ہے، اپنی ’تمہید‘ (صفحہ 1-6) 2211 میں قلمبند کرتا ہے۔ اس میں وہ ایک ایسے مخطوطے کی دریافت کا ذکر کرتا ہے، جو ایک فراموش شدہ زبان میں تحریر تھا اور جسے سمجھنے میں بے حد دشواری پیش آئی تھی۔
یہ تحریر ’گرگٹہ تل ماس‘ کے کھنڈرات میں ملی تھی، جہاں تقریباً دو صدی قبل، اس قصبے کو ہائیڈرو الکٹرک ڈیم کی تعمیر کے لیے غرق آب کیے جانے سے پہلے، ایک ’پاگل خانہ‘ قائم تھا۔
اس کے بعد مسودے کے مصنف کا درد میں ڈوبا ہوا مگر ظرافت سے بھرپور یکطرفہ مکالمہ شروع ہوتا ہے۔ ہمیں اس کے عہد کا سراغ ملتا ہے، نہ ہی اس سرزمین کا جہاں اس نے اپنی زندگی بسر کی، اگرچہ ہمارا قیاس یہی کہتا ہے کہ وہ شمالی ہند کا باسی ہے۔
اس کردار کا وجود ایک ایسی داخلی اجنبیت کے احساس پر مبنی ہے جو اسے دنیا سے ہم آہنگ ہونے کی صلاحیت سے محروم رکھتا ہے۔
وہ موت کے خیال کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہےاور خودکشی کا آسیب کسی ناگزیر سائے کی مانند اس کے شعور پر سایہ فگن رہتا ہے۔ مگر اس کے لیے خودکشی محض ایک ترغیب، ایک خیال نہیں بلکہ ایک مجسم ہستی ہے، جو کبھی اس کا ساتھ نہیں چھوڑتی ہے۔
یہ خود کشی پالتو گلہری کی شکل میں اس کی پتلون کی جیب میں جا بیٹھتی ہے۔ جب وہ افسردگی کے عالم میں چہل قدمی کرتا ہوا ریلوے لائن کے قریب پہنچتا ہے (صفحہ 19-23)، تو یہی خود کشی اسے مشورہ دیتی ہے کہ وہ خود کو ٹرین کے حوالے کر دے۔
کئی اشارے اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ وجودی اضطراب صرف بچپن کے دنوں تک محدود نہیں (صفحہ 43-46، 47-53، 54-59، 60-62)، بلکہ اس کی بازگشت پیدائش سے پہلے کی گھڑیوں میں بھی سنائی دیتی ہے (صفحہ 113-114)۔
تاہم، یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اگر کوئی ابتدائی دور کا صدمہ موجود ہے تو اس کی جڑیں کسی محض اتفاقی حادثے میں نہیں، بلکہ کسی گہری اور پیچیدہ حقیقت میں پیوست ہیں۔ اس پس منظر میں ’موت کی کتاب‘ کا علمی و فکری مطالعہ نہایت موزوں معلوم ہوتا ہے۔ میں اگلے صفحات پر اس پہلو پر مزید روشنی ڈالوں گا۔
راوی اپنی ماں کی موت کے بعد، جو مسلسل تشدد اور محرومیوں کے نتیجے میں واقع ہوتی ہے، شادی کر لیتا ہے، مگر اس کے دل میں باپ کے قتل کی خواہش اور دونوں کے مابین نفرت کی دیوار جوں کی توں قائم رہتی ہے۔
اس کی زندگی میں ایک معشوقہ بھی ہے، جس کی ہتھیلیاں زردی مائل اور آنکھیں ویران ہیں۔ وہ، اس کی بیوی کے برعکس، دل کی اتھاہ گہرائیوں سے اس سے محبت کرتی ہے، مگر اس کے ساتھ خوش نہیں ہے (صفحہ 16-18، 19-23، 24-25)۔
سنیما کی بات کو پس پشت ڈال دیں تو جدید ہندوستانی ادب عموماً جنسی موضوعات کے بیان میں جھجک کا مظاہرہ کرتا ہے، مگر خالد جاوید اپنے المناک کردار کے ازدواجی اور ناجائز تعلقات کو بڑی بے باکی کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔
ناول کا اختتام ایک جہنمی موسم (صفحہ 84-91، 92-103) پر ہوتا ہے، جہاں راوی خود کو ایک ایسی مایوسی میں قید کر لیتا ہے جس سے فرار ممکن نہیں، اور وہ نہایت منظم انداز میں اپنی ہی ذات سے گھن کھانے لگتا ہے۔ اس کے مکروہ اور بدنما خودبیانیہ پرغور کرنا دلچسپی سے خالی نہیں، جو اس کی گہری نفرت کی عکاسی کرتا ہے، بالکل ویسے ہی جیسے لوترے آموں (Lautréamont) کے اسلوب میں دکھائی دیتا ہے۔ کیا روزن-آلس ویئے اور ڈیوڈ ایمے کو اس بات کا علم ہے کہ خالد جاوید نے Les Chants de Maldoror کا مطالعہ کیا ہے اور کیا وہ اس سے متاثر ہوئے ہیں؟
لوترےآموں ’لے شوں‘ (IV, 5) میں لکھتا ہے؛
’میں غلیظ ہوں۔ جوئیں میرے جسم کو کھا رہی ہیں۔ سور مجھے دیکھ کر قے کر دیتے ہیں۔ کوڑھ کے زخموں کی پپڑیاں میری جلد سے اتر چکی ہیں، اور میرا جسم پیلے رنگ کے پیپ میں لت پت ہے۔‘
خالد جاوید اپنے ناول (صفحہ 87، 92) میں لکھتے ہیں؛
’میں نے جسم کا خیال رکھنا بالکل ہی چھوڑ دیا ۔ میں گندا اور غلیظ رہنے لگا۔ (…) زخم سے پیپ کی دوری ختم ہوتی جا رہی ہے۔ جلد ہی میں ایک قد آدم زخم کے اندر چلوں گا۔‘
راوی کا باپ اور اس کی بیوی اسے ایک پاگل خانے میں داخل کرانے کا فیصلہ کرتے ہیں (صفحہ 104-115)، ایک مشکل آزمائش، جس سے نجات اسے صرف اپنے والد کی موت کے بعد ہی ملتی ہے۔ رہائی کے بعد، وہ بارش میں اس پاگل خانے کی’سیاہ اور دیو ہیکل دیواروں‘ سے دور نکل جاتا ہے اور بالآخر بیکٹ کے کسی کردار کی مانند، کیچڑ سے بھرے ایک گڑھے میں پناہ لے لیتا ہے (صفحہ 118-124)۔
یہ کتاب ابواب کے بجائے’اوراق‘ میں منقسم ہے،کل انیس اوراق۔ بیسواں ورق(صفحہ 125) خالی رہتا ہے اور کتاب ایک پُراسرار جملے پر اس طرح ختم ہوتی ہے؛’لامحدود اور بیکراں زمانوں تک……‘ اور یہ جملہ، جیسا کہ خالد جاویدلکھتے ہیں (عرض مصنف، صفحہ i-ii) ، سنسکرت زبان کے ایک پراسرار حرف ’ری‘ (ऋ) کی جانب اشارہ کرتا ہے، جس کی دھاتو پر غور کریں تو اس کا مطلب ’پتھر پر خراشیں ڈالنا‘ یا ’مصنف اور اس کی تحریر کے درمیان کوئی دوئی یا دوری نہ باقی رہے‘ ہو سکتا ہے۔
اس میں نفسیاتی مریضوں کے ہسپتال، پاگل خانے کا ذکر ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں بیان کردہ واقعات پر کتنا اعتبار کرنا چاہیے۔ آخر ہم اس راوی کی باتوں پر کہاں تک یقین کریں؟ کیا یہ کسی کا ایک بے باک اعتراف ہے یا کسی دیوانے کی ڈائری؟
والٹر شیلر، جو خود کو تئیسویں صدی کا ماہرِ آثارِ قدیمہ ظاہر کرتا ہے، حقیقت میں وہی اس متن کا مصنف تو نہیں؟ کیا والٹر شیلر، اس کی ’سیوکاریگ فورٹ یونیورسٹی‘، اور اس کا دوست ’ژاں ہیوگو،جو ’گارساں دَ تاسی‘ کی نسل سے ہے اور اس مخطوطے کا مترجم بھی، کیاواقعی میں یہ سب کوئی حقیقی وجود رکھتے ہیں؟
یہ کوئی معنی نہیں رکھتا کہ اس میں کیا حقیقی ہے اور کیا نہیں۔ کیوں کہ یہ نہ تو کسی طبی معائنے کے لیے پیش کردہ’دستاویز‘ ہے، نہ ہی خودنوشت کہانی (جو ان دنوں فرانس میں بے حد مقبول ہے) اور نہ ہی کوئی ایسا سنسنی خیز افسانہ جس کی کہانی گھسے پٹے انداز میں بُنی گئی ہو۔ بلکہ یہ ایک حقیقی ادبی تخلیق ہے (یونانی مفہوم میں ایک نظم کے مترادف) جس کے سوالات کے جواب صرف اس کے بیانیے کے اندر ہی تلاش کیے جا سکتے ہیں۔
اس ناول کا عنوان بھی اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ اس کی تعبیر کیسے کی جائے؟ اس حوالے سے کئی عبارتیں موجود ہیں جو اس کی تفہیم میں ہماری رہنمائی کرتی ہیں (صفحہ 89، 106، 115، 119)۔ ’موت کی کتاب‘شاید وہی کتاب ہے جس میں ’ہمارے گناہوں کا اندراج ہوگا‘ اور جو صرف اس وقت قابلِ مطالعہ ہوگی جب ہم خودفنا ہو چکے ہوں گے، یعنی اس وقت جب بہت دیر ہو چکی ہوگی۔
مگر اس سے بھی زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ اس کتاب کی ترتیب کئی جنم پہلے ہی مکمل ہو چکی تھی، کیونکہ اسے ’کرموں کے لگاتار بہتے ہوئے سنسکاروں نے گڑھا ہے‘، جن پر ہمارا ’کوئی اختیار‘ نہیں تھا۔’ (ہمارے) سارے اعمال اور (ہمارے) سارے گناہ (ہمارے) جنم لینے سے پہلے ہی(ہمارے) تعاقب میں ہیں۔‘
یہ مفروضہ اور بھی زیادہ حیرت انگیز ہو سکتا ہے جہاں غنوصی تعبیر از سر نو ابھر کر سامنے آتی ہے؛ کیا یہ کتاب خدا اور شیطان کی مشترکہ تخلیق نہیں،جس میں ’شیطان کے قلم کی سیاہی اڑنے والی نہیں‘ ہے؟ کیا خدااور شیطان (خدا اپنے ہی کھیل میں شیطان کی شمولیت قبول کرنے پر مجبور ہے) مل کر ہماری زندگیاں لکھ رہے ہیں، ہماری بدبختی کی، اور وہ بھی ہماری لاعلمی میں؟
مجھے امید ہے کہ میں یہ واضح کر نے میں کامیاب ہوں کہ خالد جاوید کا پہلا ناول (’موت کی کتاب‘ عربی میں لفظ ’کتاب‘ ’مقدس کتاب‘ کے معنی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے) فکر و معنی کے بے شمار در وا کرتا ہے، کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچتا اور ناول کا یہی پہلو اسے مسحور کن بنا دیتا ہے۔
سال 2025 کا Le Prix Médicis étranger انعام، جو غیرانگریزی ہندوستانی ادب کو عالمی توجہ دلانے کا مؤثر ذریعہ بھی بن سکتا ہے، اگر اس ناول کو دیا جائے تو کسی طور پر غیر مناسب نہ ہوگا۔
ونود کمار شکلا (تصویر بہ شکریہ: x/@vishnudsai)
نئی دہلی: ہندی کے معروف شاعر اور ادیب ونود کمار شکل کو اس سال ملک کے سب سے بڑے ادبی اعزازگیان پیٹھ ایوارڈ سے نوازا جائے گا۔ اس کا اعلان سنیچر (22 مارچ) کو نئی دہلی میں گیان پیٹھ کی کمیٹی نے کیا۔
قابل ذکر ہے کہ چھتیس گڑھ کے کسی ادیب کو پہلی بارگیان پیٹھ ایوارڈ دیا جائے گا۔ گزشتہ چھ دہائیوں سے ادبی دنیا میں فعال ونود کمار شکل یکم جنوری 1937 کو راج ناندگاؤں میں پیدا ہوئے۔ وہ کئی دہائیوں سے رائے پور میں مقیم ہیں۔ وہ ان معدودے چند ادیبوں میں ہیں ،جنہوں نے زبان کے نئے محاورے وضع کیے ہیں۔
ان کے نام کے اعلان کے بعد چھتیس گڑھ کے وزیر اعلیٰ وشنو دیو سائی نے انہیں مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ چھتیس گڑھ کے لیے فخر کی بات ہے کہ ملک کے نامور ناول نگار اور شاعر ونود کمار شکل کو باوقار گیان پیٹھ ایوارڈ ملا ہے۔ انہوں نے چھتیس گڑھ کو ایک بار پھر ہندوستان کے ادبی منظر نامے پر فخر محسوس کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔
देश के लब्धप्रतिष्ठ उपन्यासकार–कवि आदरणीय विनोद कुमार शुक्ल जी को प्रतिष्ठित ज्ञानपीठ पुरस्कार से सम्मानित किए जाने का समाचार प्राप्त हुआ है। यह छत्तीसगढ़ के लिये गौरव की बात है। आदरणीय शुक्ल जी को अशेष बधाई। उन्होंने एक बार पुनः छत्तीसगढ़ को भारत के साहित्यिक पटल पर गौरवान्वित… pic.twitter.com/yFjGGPLS2j
— Vishnu Deo Sai (@vishnudsai) March 22, 2025
ونود کمار شکل کی تخلیقات
ونود کمار شکل کا پہلا شعری مجموعہ ‘لگ بھگ جئے ہند’ 1971 میں شائع ہوا تھا اور اس کے بعد سے ان کی تحریروں نے ادبی دنیا میں اپنی جگہ بنا لی۔ ان کی تخلیقات عام لوگوں کی زندگی کو غیر معمولی انداز میں پیش کرتی ہیں۔ اس منفرد اسلوب کی وجہ سے وہ ادبی دنیا میں ایک الگ پہچان رکھتے ہیں۔
انہوں نے ‘نوکر کی قمیص’، ‘کھلے گا تو دیکھیں گے’ اور ‘دیوار میں ایک کھڑکی رہتی تھی’ جیسے بہترین ناول لکھے، جنہیں پوری دنیا میں سراہا گیا۔ ان کی کہانیوں کے مجموعے ‘پیڑ پر کمرہ’، ‘آدمی کی عورت’ اور ‘مہاودیالیہ’ بھی کافی مشہور ہوئے۔ اس کے ساتھ ہی ان کی نظموں میں ‘وہ آدمی چلا گیا نیا گرم کوٹ پہن کر’، ‘آکاش دھرتی کو کھٹکھٹاتا ہے’ اور ‘کویتا سے لمبی کویتا’ بہت مقبول ہیں۔
ونود کمار شکل نے بچوں کا ادب بھی لکھا ہے۔ بچوں کے لیے ان کی کتابوں میں ‘ہرے پتے کے رنگ کی پترنگی’ اور ‘کہیں کھو گیا نام کا لڑکا’ شامل ہیں۔ ان کی کتابوں کا کئی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے اور ان کا ادب پوری دنیا میں پڑھا جاتا ہے۔
ونود کمار شکل کو کئی ایوارڈمل چکے ہیں، مثلاً گجانن مادھو مکتی بودھ فیلوشپ، رضا ایوارڈ اور ساہتیہ اکادمی ایوارڈ ناول ‘دیوار میں ایک کھڑ کی رہتی تھی’ کے لیے۔
اس کے علاوہ انہیں ماتر بھومی بک آف دی ایئرایوارڈ اور پین امریکہ نابوکاؤ ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔ وہ اس ایوارڈ کو پانے والے ایشیا کے پہلے ادیب تھے ۔ ان کے ناول ‘نوکر کی قمیص’ پر مشہور فلمساز منی کول نے ایک فلم بھی بنائی تھی۔
غور طلب ہے کہ گزشتہ سال 2024 میں ساہتیہ اکادمی نے انہیں گریٹر ساہتیہ اکادمی کی رکنیت سے نوازا تھا۔