چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمنا نے چھتیس گڑھ ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کے خلاف اپیل پر سماعت کرتے ہوئے یہ تبصرہ کیا۔ انہوں نے عدالتی فیصلےحکومتوں کی پسند کےمطابق نہ ہونے پر ان کی طرف سے ججوں کی امیج کو خراب کرنے کے چلن کو ‘شرمناک’ قرار دیا اور اس نئے رجحان پر افسوس کا اظہار کیا۔
سی جے آئی این وی رمنا۔ (تصویر: پی ٹی آئی)
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے عدالتی فیصلےحکومتوں کی پسند کے مطابق نہ ہونے پر ان کے ذریعے ججوں کی شبیہ کو خراب کیے جانے کو جمعہ کو’شرمناک’ قرار دیا اور اس نئے رجحان پر افسوس کا اظہار کیا۔
چیف جسٹس این وی رمنا کی سربراہی والی بنچ نے چھتیس گڑھ حکومت اور ایک شخص کی طرف سے دائر دو الگ الگ درخواستوں کی سماعت کے دوران یہ سخت تبصرہ کیا۔
انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس کے ایک سابق افسر کے خلاف آمدنی کے ذرائع سےمبینہ طور پر زیادہ دولت جمع کرنے کے الزام میں درج ایف آئی آر کو رد کرنے کے ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج دیتے ہوئے یہ درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔
بنچ کے ارکان میں شامل جسٹس کرشن مراری اور جسٹس ہیما کوہلی نے اس معاملے میں عدلیہ کے خلاف کچھ الزامات لگانے پر ناراضگی کا اظہار کیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ چاہےجو بھی جنگ لڑیں وہ درست ہے۔ لیکن عدالتوں کی امیج خراب نہ کریں۔ میں اس عدالت میں بھی دیکھ رہا ہوں، یہ ایک نیا چلن ہے۔
سینئر وکیل راکیش دویدی نے دو اپیلوں میں سے ایک میں ریاستی حکومت کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے کہا کہ وہ کہیں سے بھی اس بات پر اصرار نہیں کر رہے ہیں۔
سی جے آئی نے کہا، پہلے صرف نجی پارٹیاں ججوں کے خلاف ایسا کرتی تھیں۔ اب ہم یہ ہر روز دیکھ رہے ہیں۔ آپ سینئر وکیل ہیں، آپ نے یہ ہم سے زیادہ دیکھا ہے۔ یہ ایک نیا رجحان ہے۔ حکومت نے ججوں کی امیج خراب کرنا شروع کر دی ہے۔ یہ شرمناک ہے۔
رپورٹ کے مطابق، دویدی نے کہا کہ 2004 میں سروس جوائن کرنے والے امن کمار سنگھ نے استعفیٰ دے دیا اور کانٹریکٹ کی بنیاد پر سکریٹری بنے اور ان کی افسر بیوی نے بھی اسی پیٹرن پر عمل کیا۔
ریاستی حکومت کے سینئر وکیل نے کہا کہ جب افسر نے سروس میں شمولیت اختیار کی تو اس کے پاس 11 لاکھ روپے کا ایک اثاثہ تھا اور بعد میں وہ 2.76 کروڑ روپے کی سات جائیدادوں کے مالک بنے۔
انسداد بدعنوانی کارکن اچت شرما کی طرف سے پیش ہوئے ایک اور سینئر ایڈوکیٹ سدھارتھ دوے نے، ہائی کورٹ کے ایک فیصلے سے ‘امکان’ کی بنیادپر ایف آئی آر کورد کرنے کی سخت تنقید کی۔
انہوں نے کہا کہ آمدنی سے زیادہ اثاثےکی تحقیقات اس وقت خود بخود بند ہو جائے گی جب متعلقہ شخص اثاثوں کی تفصیلات دے گا۔
بنچ نے کہا، آپ کے اندازہ لگانے اور الزامات کی بنیاد پر ہم کسی کو بھی اس طرح سے نشانہ بنانے کی اجازت نہیں دیں گے۔
بنچ نے معاملے کی اگلی سماعت 18 اپریل کو مقرر کی۔
دوےنے کہا کہ تحقیقات قیاس پر مبنی نہیں تھی، کیونکہ الزام یہ تھا کہ متعلقہ افسر نے 2500 کروڑ روپے جمع کیے تھے۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق، سپریم کورٹ چھتیس گڑھ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف اپیل کی سماعت کر رہی تھی، جس نے سابق وزیر اعلیٰ رمن سنگھ کے پرنسپل سکریٹری امن سنگھ اور ان کی اہلیہ یاسمین سنگھ کے خلاف 2020 میں انسداد بدعنوانی ایکٹ کے تحت درج ایف آئی آر کو ردکر دیا تھا۔
ایک سماجی کارکن اچت شرما کی شکایت پر 25 فروری 2020 کو چھتیس گڑھ پولیس کی اقتصادی جرائم ونگ نےان کے خلاف ایف آئی آر درج کی تھی، جس میں وزیر اعلیٰ کی طرف سے اس جوڑے کے ذریعےمبینہ طور پر آمدنی سے زیادہ دولت جمع کرنے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
واضح ہو کہ 28 فروری 2020 کو ہائی کورٹ نے ایک عبوری فیصلے میں ہدایت دی تھی کہ جوڑے کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے۔
دس جنوری 2022 کے ایک فیصلے میں ہائی کورٹ نے ایف آئی آر کو یہ کہتے ہوئے رد کر دیا کہ درخواست گزار کے خلاف لگائے گئے تمام الزامات ابتدائی طور پر قیاس اورامکان پر مبنی ہیں اور کسی بھی شخص کے خلاف اس کی بنیاد پر مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)