آزادی کے فورا ً بعد قیادت کی وراثت مسلمانوں کے اشرافیہ طبقے کے پاس منتقل ہو گئی۔ یہ افراد زیادہ تر سیاسی خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے یا پھر سیاسی تعلقات کے سبب سیاست میں آئے تھے۔ ان رہنماؤں نے معاشرے کی ترقی کے بجائے سیاسی کریئر پر زیادہ توجہ مرکوز کی۔
ہندوستانی مسلمان 2014 سے ہی خبروں میں ہیں اور 2019 کے عام انتخابات کے بعد بھی سرخیوں میں بنے ہوئے ہیں۔ طلاق ثلاثہ، لنچنگ، ہیٹ کرائم اور این آر سی وہ اہم معاملات رہے ہیں، جن سے بار بار اس برادری کی طرف توجہ مرکوز ہوئی ہے۔ ان امور نے نہ صرف مسلم قائدین کی غلطیوں کو واضح کیا ہے، بلکہ سماج کے اندر کسی بھی قسم کی قیادت کے فقدان کو بھی اجاگر کیا ہے۔
مسلمانوں کے پاس بہت سارے سیاستدان موجود ہیں، ان میں کچھ بڑے عہدوں پر فائز رہے ہیں، لیکن قیادت کے معاملے میں وہ بہت کمزور ہیں۔ میڈیا نے بھی چند مسلم سیاستدانوں کو قائد کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن میڈیا نے اس اہم نکتے کو نظر انداز کیا ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کے بہت متنوع گروہ ہیں اور کوئی بھی اکیلا مسلم رہنما ہندوستانی مسلمانوں کی رہنمائی نہیں کر سکتا ۔
اعظم خان اور اسدالدین اویسی ہندوستانی میڈیا کے دو پسندیدہ چہرے ہیں۔ اعظم خان زیادہ تر کسی مضحکہ خیز بیان کی وجہ سے خبروں میں رہتے ہیں جبکہ اویسی کو ہندوستانی مسلمانوں کی نئی آواز کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ اگر میڈیا کا جنون نہ ہوتو اعظم خان کی مقبولیت ان کے حلقے تک ہی محدود ہوگی، وہیں اویسی جو نوجوانوں میں مشہور ہیں،اس کے باوجود ان کی پہنچ حیدرآباد اور اورنگ آباد تک ہی محدود ہے۔
دراصل سیکولر جماعتوں کے مسلم سیاستداں عرصہ قبل ہی مسلمانوں کے بیچ اپنا اعتبار کھو چکے ہیں۔ اہم معاملات پر حزب اختلاف کی جماعتوں کی خاموشی نے ان مسلم رہنماؤں کی ساکھ کو مزید متاثر کیا ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ آزادی کے فورا ً بعد قیادت کی وراثت مسلمانوں کے اشرافیہ طبقے کے پاس منتقل ہو گئی۔ یہ افراد زیادہ تر سیاسی خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے یا پھر سیاسی تعلقات کے سبب سیاست میں آئے تھے۔ ان رہنماؤں نے معاشرے کی ترقی کے بجائے سیاسی کریئر پر زیادہ توجہ مرکوز کی۔ دوسری طرف سیاسی جماعتوں نے مصالحت خواہی کے نام پر مقامی طور پر مضبوط ان کی سرپرستی کی، جن کی مسلم عوام پر کچھ گرفت تھی۔
یہ لوگ زیادہ تر غیر تعلیم یافتہ تھے اور اپنے سرپرست سیاسی جماعتوں کے لیے ووٹ حاصل کرنے کے لیے کمر بستہ رہے۔ لہذا مسلمانوں کی نمائندگی یا تو اشرافیہ مسلم رہنماؤں کے ذریعے کی گئی یا اکھڑ اور غیرمہذب مقامی مسلم قائدین کے ذریعے۔ ان میں اول الذکر طبقہ مسلمانوں کے مسائل سے بے خبر یا ان سے بے نیاز تھا، جبکہ آخر الذکر نے اپنے بیان و عمل سے مسلمانوں کے مسائل میں اضافہ کیا اور اس سے مسلم طبقے کو مزید شرمندگی اور خجالت سے دوچار ہونا پڑا۔ پھر میڈیا کے ذریعے آخر الذکر طبقے کے حرکات و سکنات کو اچھالا گیا اور ان پر بلا مقصد بحث و مباحثہ کرائے گئے۔ ان پر عام مسلمان کی شرمناک خاموشی کو ان کی حمایت کے طور پر پیش کیا گیا، جس سے مسلم سماج مزید قومی دھارے سے کٹ کر رہ گیا۔
یہ ایک بڑی حقیقت ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کی نمائندگی کسی ایک رہنما کے ذریعے نہیں کی جا سکتی ہے، بلکہ انھیں بہت سارے رہنماؤں کی ضرورت ہے جو نہ صرف مختلف خطوں اور علاقوں کے مسلمانوں کی نمائندگی کر سکیں بلکہ بحران کے وقت ان کے ساتھ کھڑے ہو سکیں۔ علاقائی مسلم آوازیں اپنی مسلم شناخت کے بارے میں کسی معذرت کے بغیر معاشرے کے لیے باتیں کرتی ہیں، بلکہ نئے سیاسی منظر نامے میں بدلتے سماجی و سیاسی حرکات و سکنات کو بھی سمجھتی ہیں۔ جبکہ شرح خواندگی میں کمی اور معاشی عدم استحکام جیسے بڑے مسائل مسلم سماج کو طویل عرصہ سے درپیش ہیں۔ ملک کی نئی حکومت کی جانب سے بھی مسلمانوں کو مزید کئی چیلنجز کا سامنا ہے، ان میں این آر سی، مسلم پرسنل لا میں تبدیلی اور شمالی ہند میں گئو کشی اور لو جہاد کے بہانے ہیٹ کرائم میں اضافہ جیسے اہم مسائل ہیں۔ میڈیا کے ذریعے مستقل طور پر مسلمانوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک اور برتاؤ معاشرے کو تنہا کرنے میں مزید کردار ادا کر رہا ہے۔
مسلمانوں کو درپیش مسائل پیچیدہ ہیں اور کوئی بھی رہنما تن تنہا ان کو حل نہیں کرسکتا۔ فی الحال توجہ ایسی متعدد آوازوں پر مرکوز رکھنی چاہئے، جو تعلیم یافتہ، باخبر اور چیلنجوں کا مقابلہ کرنے میں پراعتماد ہیں اور اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ جن لوگوں کا عام مسلمانوں سے رابطہ ہے۔وہ لوگ جو فرقہ وارانہ ہم آہنگی میں رکاوٹ پیدا کیے بغیر اہم معاملات پر آواز بلند کرسکتے ہیں، وہ لوگ جو ہیٹ کرائم کے متاثرین سے اظہار یکجہتی کرسکتے ہیں اور انصاف کا مطالبہ کرسکتے ہیں۔ ایک اجتماعی قیادت جو ایک سے زیادہ سطح پر کام کرتی ہے وہ برادری کو درپیش قیادت کے بحران کا جواب ہوگی۔
یہ بات بہت بعید معلوم ہوتی ہو یا غیر حقیقی ، لیکن یہ ناممکن نہیں ہے۔ تاریخ نے واضح کیا ہے کہ جب صورتحال خراب تھی تو کچھ آوازیں سامنے آئیں۔ مارٹن لوتھر کنگ، گاندھی، نیلسن منڈیلا یہ سب اس وقت سامنے آئے جب معاملات انتہائی مایوس کن تھے۔مسلم کمیونٹی کو چاہیے کہ وہ اس طرح کی نئی آوازوں کو تلاش کریں اور انھیں اس خلا کو پُر کرنے کی ترغیب دیں۔ ان نئی آوازوں کو سیاستدانوں یا سیاسی جماعتوں سے وابستہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ وہ کارکن ، ادیب اور مفکرین ہوسکتے ہیں جو مختلف مقامات پر مسلمانوں کو درپیش مسائل پر رہنمائی کر سکیں۔
شمالی ہندوستانی مسلمانوں کو درپیش مسائل جنوبی ہند کے مسلمانوں سے مختلف ہیں اور کشمیر اور آسام میں مسلمانوں کو درپیش چیلنجز زیادہ اہم اور پیچیدہ ہیں۔ایسے میں کوئی ایک قومی رہنما ہندوستانی مسلمانوں کی نمائندگی نہیں کرسکتا۔
(مضمون نگار بنگلور میں مقیم ایک ڈینٹسٹ اور سماجی کارکن ہیں۔)