نیپال میں سوشل میڈیا پر پابندی، بے روزگاری اور بدعنوانی کے خلاف شروع ہوئے مظاہروں کے بعد وزیراعظم کے پی شرما اولی کو استعفیٰ دینا پڑا ہے۔ دارالحکومت کاٹھمنڈو سمیت کئی شہر آگ اور تشدد کی زد میں ہیں۔ مظاہرین نے رہنماؤں کے گھروں کو نشانہ بنایا ہے۔ یہ عدم اطمینان نیپال کے جمہوری سفر کی گہری دراڑوں کو اجاگر کرتا ہے۔
نیپال کے شہر کاٹھمنڈو میں حکومت مخالف مظاہروں کے دوران ٹائر جلائے جانے کے بعد اٹھتا دھواں۔ (تصویر: پی ٹی آئی)
نیپال ایک بار پھر عدم استحکام کی راہ پر گامزن ہے۔ وزیر اعظم کے پی شرما اولی نے دارالحکومت اور صوبوں میں پھیلے پرتشدد مظاہروں کے درمیان 9 ستمبر کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ قبل ازیں وزیر داخلہ رمیش لیکھک نے طلباء کے خلاف کارروائی کی اخلاقی ذمہ داری لیتے ہوئے استعفیٰ دے دیا تھا۔ کئی دیگر وزراء اور ارکان پارلیامنٹ نے بھی یہی راستہ چنا ہے۔
کاٹھمنڈو کی گلیوں میں تیرتا دھواں اب صرف جلتےٹائروں اور گولیوں کا نہیں، بلکہ ان خوابوں کا ہے جو جمہوریت کی سانسوں کے ساتھ اٹھے تھے اور اب راکھ میں تبدیل ہورہے ہیں۔
نیپال بار بار یہ دکھاتا ہے کہ حکومت اور عوام کے درمیان کارشتہ آئین سے نہیں بلکہ سڑکوں پر گرتے لہو، آنسو اور ٹوٹتی آوازوں سے ناپا جاتا ہے۔ ترائی سے لے کر پہاڑوں تک پتھر برسائے گئے، گولیاں چلائی گئیں اور لاٹھیاں ٹوٹیں۔ یہ احتجاج صرف آج کا نہیں ہے؛ یہ ان بے اطمینانیوں کی زنجیر کا ایک حصہ ہے جو کبھی مدھیسی تحریک کی شکل میں ابھرے، کبھی نسلی عدم مساوات اور سیاسی وعدہ خلافی کی صورت میں۔
قیادت کی عدم دلچسپی نے اس عدم اطمینان کو مزید گہرا کر دیا۔ مظاہرین نے تحفظات اور بدعنوان رہنماؤں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ یہ تحریک صرف پالیسیوں کے خلاف احتجاج نہیں تھی؛ یہ انصاف کے لیے نوجوانوں کی اس جدوجہد کی علامت ہے، جسے برسوں سے دبایا گیا۔ کاٹھمنڈو کی سڑکوں پر اٹھتا دھواں مزاحمت کے ساتھ ساتھ جمہوریت کی ٹوٹی ہوئی امیدوں کا بھی منہ بولتا ثبوت ہے۔
استعفیٰ اور بڑھتی ہوئی آگ
منگل 9 ستمبر کو صورتحال نے فیصلہ کن موڑ لیا، جب وزیر اعظم کے پی شرما اولی نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ اپنے استعفیٰ میں انہوں نے لکھا؛
ملک میں موجودہ غیر معمولی صورتحال کے پیش نظر اور آئینی سیاسی حل اور مسائل کے حل کے لیے مزید کوششوں کو آسان بنانے کے لیے، میں آئین کے آرٹیکل 77(1)(اے) کے تحت فوری اثر سے وزیر اعظم کے عہدے سے استعفیٰ دیتا ہوں۔
لیکن اولی کا استعفیٰ آگ کو ٹھنڈا نہیں کر سکا۔ کرفیو کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مظاہرین نے دارالحکومت اور دیگر شہروں میں سیاسی رہنماؤں کے گھروں اور دفاتر کو آگ لگا دی۔ اولی کا بالاکوٹ، بھکت پور واقع نجی رہائش گاہ کو جلا دیا گیا۔ صدر رام چندر پوڈیل کی رہائش گاہ پر حملہ کیا گیا۔ سابق وزیر داخلہ رمیش لیکھک، نیپالی کانگریس کے سینئر لیڈر شیر بہادر دیوبا اور ماؤنواز لیڈر پشپ کمل دہل ‘پرچنڈ’ کے گھروں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ یہاں تک کہ وزیر خارجہ ارجن دیوبا رانا کی ملکیت والے کسی اسکول کو بھی نہیں بخشا گیا۔
صورتحال اس قدر بگڑ گئی کہ کاٹھمنڈو پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق فوج کو وزراء کو ہیلی کاپٹروں کے ذریعے ان کے گھروں سے نکالنا پڑا۔ کاٹھمنڈو جو کبھی امن اور بات چیت کی علامت تھا، آج ایک جنگی میدان بن چکا ہے۔
تاریخی پس منظر
نیپال کی عصری تاریخ سماجی اور سیاسی تحریکوں سے بھری پڑی ہے۔ 1990 کے جن آندولن (جن آندولن اول) نے راج شاہی کو کمزور کیا اور کثیر جماعتی جمہوریت کی بنیاد رکھی، لیکن یہ تبدیلی سطحی تھی۔ راج شاہی کے خاتمے کے باوجود عدم مساوات برقرار رہی۔
یہ عدم مساوات 1996 سے 2006 تک جاری رہنے والی ماؤ نواز شورش نے مزید بڑھائی۔ اس خانہ جنگی میں تقریباً 17,000 لوگ مارے گئے اورمتعدد افراد لاپتہ ہو گئے۔ یہ تنازعہ نیپال کے سیاسی منظر نامے کو تبدیل کرنے میں فیصلہ کن ثابت ہوا۔
سال 2006 کے جن آندولن (جن آندولن دوم) نے بادشاہت کا خاتمہ کیا اور نیپال کو ایک جمہوریہ میں تبدیل کر دیا۔ تاہم، اقتدار اور سماج کے درمیان دوری بنی رہی۔
نیا آئین 2015 میں نافذ ہوا، لیکن اسے مدھیسی، تھارو اور دیگر کمیونٹیز نے امتیازی قرار دیا۔ ان کمیونٹیز نے آئین کے خلاف مظاہرے کیے، جو بعد میں 2015-16 کےنیپال ناکہ بندی کا باعث بنے۔
سیاسی عدم استحکام اور حالیہ تشدد کی ممکنہ وجوہات
نیپال میں حالیہ سیاسی عدم استحکام صرف اقتدار کی تبدیلی تک محدود نہیں ہے؛ اس کا معاشرے اور شہری زندگی کے تانے بانے پر گہرا اثر پڑ رہا ہے۔ گزشتہ 16 سالوں میں نیپال میں 13 مختلف حکومتیں بن چکی ہیں، اور ان میں سے کوئی بھی اپنی مدت پوری نہیں کر سکی۔ کے پی شرما اولی اور پشپ کمل دہل ‘پرچنڈ’ کے درمیان اقتدار کا مسلسل تبادلہ عوام کے اعتماد کو کمزور کر تارہا ہے۔ لوگوں نے دیکھا ہے کہ سیاسی جماعتیں صرف اتحاد بناتے اور توڑتے ہیں۔ تعلیم، روزگار، صحت اور انفراسٹرکچر جیسے زمینی مسائل پر کوئی ٹھوس کام نہیں کیا جاتا۔ یہ عدم استحکام نوجوانوں میں شدید ناراضگی کی پہلی وجہ بن گیا۔
دوسری وجہ سماجی اور معاشی عدم مساوات ہے۔ نیپال میں ہر سال تقریباً 5 لاکھ نوجوان روزگار تلاش کرتے ہیں، لیکن بے روزگاری کی شرح 19.2 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ سرکاری اور نجی شعبے میں مواقع کی کمی نے نوجوان نسل میں مایوسی پیدا کی ہے۔ سوشل میڈیا پر پابندی نے عوام کی آواز کو دبا دیا ہے اور ترسیل کو روک دیا ہے جس سے افواہیں پھیلیں اور عدم اطمینان میں اضافہ ہوا۔ یہ سب حالیہ تشدد کی ممکنہ وجوہات ہیں۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ سیاسی عدم استحکام نے سرمایہ کاروں کے اعتماد کو توڑا ہے اور معیشت کو سست کر دیا ہے۔ اس سے نوجوان مزید غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں۔ نسلی عدم مساوات، مقامی انتظامیہ کی نا اہلی اور سماجی تفاوت شہری زندگی کے ہر پہلو کو متاثر کر رہے ہیں۔
یہ تمام عوامل حالیہ تشدد کے لیے سازگار ماحول پیدا کر رہے ہیں۔ نیپال میں یہ عدم استحکام صرف ملک تک محدود نہیں ہے۔ اس کا اثر پورے جنوبی ایشیا کے استحکام، سلامتی اور اقتصادی شراکت داری پر پڑ سکتا ہے۔
عوام اور اقتدار کے درمیان جنگ
آج نیپال کی سڑکوں پر جو ہجوم نکلا ہے وہ اس نظام کے خلاف کھڑا ہے جس نے بار بار وعدے کیے ہیں اور انہیں توڑا ہے- کبھی راج شاہی کے نام پر، کبھی جمہوریت کے نام پر، کبھی جمہوریہ کے نام پر۔ یہ احتجاج ایک نسل کی مایوسی اور بے اطمینانی کا نتیجہ ہے۔
گزشتہ ہفتے حکومت نے فیس بک، انسٹاگرام، وہاٹس ایپ اور یوٹیوب سمیت 26 بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پابندی لگا دی ۔ اس اقدام کو اظہار رائے کی آزادی پر براہ راست حملہ کے طور پر دیکھا گیا۔ کاٹھمنڈو میں مظاہرین نے پارلیامنٹ کی عمارت تک مارچ کیا؛ پولیس نے آنسو گیس، ربڑ کی گولیوں اور لاٹھی چارج کا سہارا لیا، جس سے کم از کم 19 افراد ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہوئے۔
تشدد اچانک نہیں پھوٹ پڑا۔ یہ پرانے زخموں کے دوبارہ ابھرنے جیسا تھا۔ مدھیسی تحریک، قبائلی عدم اطمینان، سیاسی پارٹیوں کے اندرونی تنازعات اور وعدوں کی بار بار خلاف ورزی— سبھی آج سڑکوں پر لوٹ آئے۔ خاص طور پرترائی کے علاقے میں جنک پور، بیر گنج اور دھارن، دوردراز مغرب میں دھنگڑھی، اور کاٹھمنڈو، پوکھرا، بھرت پور اور بھیرہوا جیسے شہروں میں احتجاج ہوئے۔ مظاہرین نے وزیراعلیٰ کے دفتر اور دیگر عوامی مقامات پر دھاوا بول دیا اور ٹائر جلائے۔
ہندوستان کی خاموشی اور اس کے سائے
نیپال اور ہندوستان کے تعلقات صرف سفارتی مسئلہ نہیں ہیں۔ وہ جغرافیہ، ثقافت اور مشترکہ تاریخ سے جڑے ہوئے ہیں۔ کھلی سرحد، لاکھوں نیپالی شہریوں کی موجودگی اور مذہبی ثقافتی رشتے اسے مزید قریب کرتے ہیں۔ اس قربت کی وجہ سے نیپال کا سیاسی استحکام ہندوستان کی سلامتی کے لیے انتہائی اہم ہے۔ اس کے باوجود موجودہ واقعات پر ہندوستان کا ردعمل محدود ہے۔
پہلے ادوار میں – 1990 کی عوامی تحریک یا 2006 کی بادشاہت مخالف جدوجہد – ہندوستان نے ایک فعال کردار ادا کیا اور بعض اوقات براہ راست ثالثی کی۔ آج کی خاموشی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ ہندوستان اپنے روایتی کردار سے پیچھے ہٹ گیا ہے۔
نیپال میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ ہندوستان صرف تزویراتی اور سلامتی کے مفادات تک محدود ہے جبکہ چین اور امریکہ علاقائی سیاست میں سرگرم ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ پڑوسی کا درد ہوا کے ساتھ اندر تک پہنچ جاتا ہے۔
ایسے میں اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہندوستان صرف جغرافیائی سیاسی توازن برقرار رکھنے کی کوشش کرے گا یا اپنے پڑوسی کے سانحے میں اخلاقی آواز بننے کا حوصلہ دکھائے گا؟
عدم استحکام اور تشدد کے درمیان ہندوستان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اخلاقی قیادت کا مظاہرہ کرے اور جمہوریت کے تحفظ کے لیے واضح پیغام بھیجے۔
جنوب ایشیا کا ڈگمگاتا نقشہ
نیپال کا عدم استحکام اس کی سرحدوں تک محدود نہیں ہے۔ ہمالیہ کی ڈھلوانوں سے اٹھنے والی ہر لہر ہندوستان کے سرحدی علاقوں پر اپنا اثر چھوڑتی ہے اور ان بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیتی ہے جنہیں ہم مستحکم سمجھتے تھے۔ اگر نیپال کا بحران گہرا ہوتا ہے، تو چین کو قدم جمانے کا موقع ملے گا، اور یہ ہندوستان کی سلامتی کے لیے ایک طویل مدتی چیلنج ہوگا۔
جنوبی ایشیاء پہلے ہی عدم استحکام کا شکار ہے۔ پاکستان دہشت گردی اور سیاسی بحران سے نبرد آزما ہے، سری لنکا معاشی بحران سے نکلنے کی کوشش کر رہا ہے، بنگلہ دیش میں جمہوری اداروں پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ ایسے میں نیپال کی غیر یقینی صورتحال علاقائی توازن کو مزید کمزور کر دے گی۔
یہ منظر نامہ ظاہر کرتا ہے کہ جنوب ایشیا کا امن کا نقشہ مسلسل سکڑ رہا ہے۔ ہر ملک اپنے اندرونی مسائل سے نبرد آزما ہے، لیکن اپنے ہمسایہ ممالک کے المیوں سے سبق سیکھنے یا اجتماعی حل تلاش کرنے کی کوئی ٹھوس کوشش نظر نہیں آتی۔
کبھی جنوب ایشیاء کو یہ بھروسہ تھا کہ کاٹھمنڈو جیسے شہر امن اور بات چیت کی علامت ہوں گے۔ لیکن آج یہی شہر آگ کی زد میں ہے۔ اگر نیپال کی جمہوریت گرتی ہے تو یہ صرف نیپال کا المیہ نہیں ہوگا بلکہ یہ پورے جنوب ایشیا کا وہ گوشہ ہوگا جہاں امن کا آخری تنکا بھی جل جائے گا۔
(آشوتوش کمار ٹھاکر پیشے کے اعتبار سے مینجمنٹ پروفیشنل ہیں، ادب اور آرٹ پر باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔)