’آدی پرش‘ کو فلاپ ہونے سے ہندوتوا بچا سکا اور نہ ہی ہنومان

'آدی پرش' نہ صرف بیہودگی سے بنائی گئی فلم ہے، بلکہ اس نے ہر طرح کے لوگوں کو ناراض بھی کیا ہے۔

‘آدی پرش’ نہ صرف بیہودگی سے بنائی گئی فلم ہے، بلکہ اس نے ہر طرح کے لوگوں کو ناراض بھی کیا ہے۔

(فوٹوبہ شکریہ: Facebook/@omraut)

(فوٹوبہ شکریہ: Facebook/@omraut)

رامائن پر مبنی بتائی جارہی فلم ‘آدی پرش’ کو دکھانے والے ہر تھیٹر میں ایک سیٹ ہنومان کے لیےمختص کی گئی ہے۔ ابھی تک اس بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے کہ وہ پہنچے یانہیں، لیکن عام شائقین ضرور تھیٹر سے  دور رہے۔ ہر لحاظ  سے دیکھیں تو عظیم بتائی جارہی یہ فلم  فلاپ ہو گئی ہے۔

‘آدی پرش’ ان فلموں میں سے ایک ہے جس کا مقصد ہندوتوا کے بیانیے میں فٹ ہونا ہے۔ ایسی فلموں یا پروڈکشن میں بھگوا جھنڈے، ‘ملک کے دشمنوں’ کے خلاف اپیل وغیرہ جیسی خصوصیات عام ہیں۔ چاہے وہ عصری کہانیاں (دی کشمیر فائلز) سنائیں یا تاریخی (سمراٹ پرتھوی راج، تانہاجی) بعض خصوصیات مشترک ہیں- وہ یہ کہ ہندوؤں کو مظلوم کے طور پر پیش کرنے یا ان کی عظمت کو دکھانے کے لیے حقائق کو توڑ مروڑ کرپیش کرنا اور تمام مسلمانوں کو ولن کے طور پر دکھانا۔ تاریخ کے ساتھ کچھ چھیڑ چھاڑ اس مرکب کا حصہ ہے۔ ‘دی کیرالہ اسٹوری’ میں توپوری بے شرمی سے ایک فرضی اعداد و شمار کا استعمال کیا  گیا تھاکہ ریاست کی32000 خواتین کو اسلامک اسٹیٹ میں شامل ہونے کے لیے برین واش کیا گیا تھا۔ تاہم،  جب فلمساز کو چیلنج کیا گیا تو انہوں نے خاموشی سے تعداد گھٹا کر تین کر دی!

سچائی کے ساتھ انیس بیس  کرنے کا یہی رجحان نام نہاد ‘تاریخی’ کہانیوں پر بھی لاگو ہوتا ہے، جہاں ہارنے والے فاتح بن جاتے ہیں، تاریخ کی کتابیں کچھ بھی کہیں۔ وہ یا تو ایسا پختہ یقین کی وجہ سے کرتے ہیں، یا زیادہ امکان ہے کہ وہ اس نسخے کو آزما رہے ہیں جو بازارمیں ‘ٹرینڈنگ’ ہے ۔

فلم انڈسٹری ہمیشہ سےکسی بھی ٹرینڈیا چلن  سے فائدہ اٹھانا پسند کرتی ہے، لیکن اس کے لیے کسی بھی فلم کی کامیابی کا پیمانہ ایک ہی ہے– باکس آفس۔ ہندوتوا پر مبنی کئی فلمیں اس پیمانے پر کامیاب ہوئی ہیں، جس کی وجہ سے دوسرے فلمسازوں کو بھی اس راستے پر چلنے کی تحریک ملی ہے۔ لیکن اگر ایک ‘کشمیر فائلز’ بڑی کمائی کرتی ہے تو اس جیسے بہت سے ہیں جو عوام کو مایوس کرتے ہوئے منہ کے بل گر جاتے ہیں۔ اپنی قوم پرستانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے کو بے چین، اکشے کمار کی فلاپ فلموں  کی سیریز میں شامل ‘سمراٹ پرتھوی راج’ایک ایسی ہی ڈیزاسٹر تھی!

اور اب ‘آدی پرش’ اسی فہرست میں شامل ہو گئی ہے۔ ایسے ملک میں جہاں ہر کوئی رامائن سے واقف ہے، وہاں اسے ہٹ ہونا چاہیے تھا، لیکن اب اسے فلاپ بتایا گیا ہے۔ باکس آفس کے تجزیہ کار ترن آدرش نے ایک ٹوئٹ میں اسے انتہائی مایوس کن قرار دیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جب ہندوستانی ناظرین اس گرنتھ سے واقف ہیں اور حکمران جماعت نے رام کو ایک کل ہند دیوتا کے طور پر قائم کرنے کی پوری کوشش کی ہے، اس کے باوجودفلم بین ناقص اسپیشل ایفیکٹس، سستے مکالمے اور بیہودگی سے دکھائی جا رہی کہانی کو دیکھنا نہیں چاہتے۔

اس کے حوالے سےنہ صرف یہ بات پھیلی کہ یہ بیہودگی سے بنائی گئی فلم ہے، بلکہ اس سے ہر طرح کے لوگ  ناراض بھی ہوئے۔ نیپال اس بات پر ناراض ہوا کہ سیتا کو ‘ہندوستان کی بیٹی’ کہا گیا، جبکہ اس کا دعویٰ ہے کہ وہ نیپال کی رہنے والی ہیں، اور فلم پر ملک میں پابندی لگا دی گئی۔ ایودھیا کے چیف پجاری نے اس پر پابندی لگانےکی اپیل کی کیونکہ اس میں رام اور دیگر کرداروں کو ٹھیک سے نہیں دکھایا گیا۔ اگر ہم عام ناظرین کی بات کریں تو انہیں مکالمے ناقص لگے۔ فلم کی ریلیز کو بمشکل ایک ہفتہ گزراتھاکہ ڈائیلاگ رائٹر منوج منتشر شکلا نے کہا کہ وہ کچھ ڈائیلاگ بدل دیں گے۔ ظاہر ہے،اس نے ہندوتوا کے حامیوں کو خوش کرنے کے بجائے نہ صرف ناظرین کو بلکہ ہندو پجاری کوبھی ناراض کر دیا ہے۔ آپ جن کوخوش کرنا چاہتے ہوں،  ان کو ٹھیک الٹا محسوس کروانے کے لیے اسپیشل ٹیلنٹ کی ضرورت ہوتی ہے!

اس کے علاوہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ کسی مخصوص زمرے میں شامل ہونا ہر کسی کے کام نہیں آتا۔ کہیں کہیں نتائج تسلی بخش نہیں ہوتے۔ اورسو بات کی ایک بات یہی ہے کہ ناظرین تفریح چاہتے ہیں، اپنے پسندیدہ ستاروں ، چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں،کو بڑے پردے پر دیکھنے آتے ہیں۔

شاہ رخ خان کی فلم ‘پٹھان’ کو براہ راست اور بالواسطہ ہر قسم کے پروپیگنڈے سے جوجھنا پڑا۔ دیپیکا پڈوکون کے زعفرانی لباس کو ہندو روایت کی توہین قرار دیتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ تاہم، فلمساز بھی اپنی بات پر ڈٹے رہے اور یہ فلم اب تک کی سب سے بڑی کمرشل ہٹ  بن گئی۔ اس کے برعکس ‘سمراٹ پرتھوی راج’ کو آخری ہندو شہنشاہ کی کہانی کے طور پر مشتہر کیا گیا۔لیکن  یہ اس طرح گری  کہ اٹھ ہی نہیں پائی ۔ اس سے بڑی  مثال اور کیا ہوگی!

‘آدی پرش’ بھونڈی اورگھٹیا فلم ہے۔ اس کا ولن لنکیش، جو راون کے کردار کا ہی ایک ورژن ہے، کا رول ایک مسلم اداکار نے ادا کیا ہے۔ اور پھر بھی،ناظرین نے اس احمقانہ علامت کو دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کی اور اسے مسترد کر دیا۔ فلم کونہ ہندوتوا بچا سکا،نہ ہی ہنومان ۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)