جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کیے جانے کے بعد حراست میں لیے گئے 285 لوگوں کو اتر پردیش کی مختلف جیلوں میں رکھا گیا ہے۔ آگر ہ سینٹرل جیل میں 1933 قیدیوں میں 85 کشمیری قیدی ہیں حالاں کہ جیل کی صلاحیت محض 1350 کی ہے۔
نئی دہلی : گزشتہ جمعہ کو جموں وکشمیر کے پلواما کے رہنے والے غلام آگرہ میں اپنے 35 سالہ بیٹے سے ملنے پہنچے، جنہیں اگست کے پہلے ہفتے سے سینٹرل جیل میں رکھا گیا ہے۔ حالانکہ، سرینگر اور دہلی سے ہوتے ہوئے آگرہ پہنچنے کے بعد بھی غلام کو مایوسی کا سامنا کرناپڑا۔انڈین ایکسپریس کے مطابق، غلام نے کہا کہ جیل حکام جموں وکشمیر پولیس کی جانب سے دیے گئے تصدیق نامہ کی مانگ کر رہے تھے، جو کہ ان کے پاس نہیں تھا۔غلام کا بیٹا کشمیر وادی کے ان 285 لوگوں میں سے ہے جنہیں اتر پردیش کی جیلوں میں حراست میں رکھا گیا ہے۔ اس میں سے 85 لوگوں کو اکیلے آگرہ میں حراست میں رکھا گیا ہے۔ گزشتہ جمعہ کو آگرہ کی جیل میں 29 اور لوگوں کو بھیجا گیا۔
واضح ہوکہ ، 5 اگست کو مرکزی حکومت کے ذریعے جموں وکشمیر کاخصوصی درجہ ختم کئے جانے کے بعد سے رہنماؤں ، کاروباریوں اور کارکنان کے ساتھ بڑی تعداد میں لوگوں کو حراست میں رکھا گیا ہے۔جیل حکام کے مطابق، زیادہ تر قیدیوں کی عمر 18 سے 45 کے بیچ ہے جبکہ کچھ قیدی 50 سال سے زیادہ عمر کے ہیں۔ذرائع کے مطابق، ان قیدیوں میں نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کے رہنما، کالج اسٹوڈنٹ، پی ایچ ڈی امیدوار، مبلغ ، اساتذہ ، بڑے کاروباری اور کشمیری نوجوانوں کی نمائندگی کرنے والے سپریم کورٹ کے ایک وکیل شامل ہیں۔
آگرہ زون کے ڈی آئی جی (جیل) سنجیو تر پانی نے کہا،قیدیوں کو کشمیر کی الگ الگ جیلوں سے لے آیا گیا ہے۔ فی الحال، 85 قیدیوں کو آگرہ کی سینٹرل جیل میں رکھا گیا ہے۔ انہیں سخت سکیورٹی کے بیچ یہاں لایا گیا اور اس کے لئے ٹریفک روٹ میں تبدیلی کی گئی ۔ یہ ممکن ہے کہ اور دوسرے قیدیوں کو بھی یہاں لایا جا سکتا ہے۔ آنے والے ہفتوں میں تصدیق کے بعد ان کے اہل خانہ کو ان سے ملنے دیا جائےگا۔ انہیں رکھنے کے لئے جیل میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔جیل حکام نے کہا کہ کشمیری قیدیوں کو دوسرے قیدیوں سے الگ بیرکوں میں رکھا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دوسرے قیدیوں سے الگ جگہ اور الگ وقت پر ان کے اہل خانہ کو ملنے دیا جا سکتا ہے۔
حکام نے کہا کہ قیدیوں کا ایک عمومی مطالبہ انگریزی اخبار کا ہے۔ ترپاٹھی نے کہا، ‘انہیں دوسرے قیدیوں کی طرح ہی کھانا دیا جا رہا ہے۔ انہیں جیل احاطے میں واقع گراؤنڈ میں جانے کی بھی اجازت ہے۔’ حالانکہ، غلام جیسے لوگوں کے لئے یہ سب بہت کم ہے۔غلام کے ساتھ آنے والے ان کے ایک رشتےدار رئیس نے کہا، ‘ہم نے تقریباً 20 ہزار روپے خرچ کرکے ایک لمبی دوری طے کی لیکن کسی نے بھی ہمیں تصدیق نامہ کے بارے میں نہیں بتایا۔ چونکہ فون اور انٹرنیٹ کام نہیں کر رہے ہیں تو ہم فون کرکے تصدیق نامہ فیکس کرنے کو بھی نہیں کہہ سکتے ہیں۔ اب ہمیں ایک کاغذ کے ٹکڑے کو واپس لانے کے لئے واپس جانا ہوگا اور ہزاروں روپے خرچ کرنے ہوں گے۔
رئیس کے مطابق، غلام کا بیٹا رسیاسی طور پر فعال تھا لیکن کسی غیر قانونی سرگرمی میں شامل نہیں تھا۔انہوں نے کہا، ‘اسے 5 اگست کی شام کو دو پولیس گاڑیوں میں آئے لوگوں کے ذریعے پکڑا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ اس کو پی ایس اے کے تحت گرفتار کیا گیا۔ اس کے بعد سے ہم نے اس کو نہیں دیکھا ہے۔ اس کی دو مہینے کی بیٹی ہے جو اس کا انتظار کر رہی ہے۔آگرہ میں حراست میں رکھے گئے ایک اسٹوڈنٹ حسین کے رشتےدار نے گزشتہ جمعہ کو دعویٰ کیا تھا کہ اگر وہ ایسے ہی یہاں آتے رہے تو ان کی فیملی جلد ہی مقروض ہوجائے گی ۔
حسین نے کہا، ‘وہ ایک اسٹوڈنٹ ہے اور اس کا ٹریک ریکارڈ صاف ہے۔ اس کے خلاف کوئی معاملہ نہیں ہے۔ ہم جیل حکام کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ ہم ان سے ملنے کی اجازت لے سکیں۔ ہم غریب لوگ ہیں اور واپس لوٹنے کا جوکھم نہیں اٹھا سکتے۔ ہمارے پاس ہمارے آدھار کارڈ ہیں، لیکن ہم سنتے ہیں کہ یہ بہت نہیں ہے۔رئیس اور حسین دونوں نے اپنا پورا نام اور حراست میں رکھے گئے اپنے رشتےدار کی مکمل پہچان دینے سے انکار کر دیا۔
حکام کا کہنا ہے کہ آگرہ سینٹرل جیل میں موجودہ وقت میں کل 1933 قیدی ہیں، حالانکہ اس کی صلاحیت 1350 ہے۔ جیل اہلکاروں کے علاوہ، 92 پولیس اہلکار اس کی حفاظت کرتے ہیں۔