ڈی این اے ٹیسٹ کے بعد این ڈی تیواری نے قبول کر لیا کہ روہت انہیں کا بیٹا ہے اور 15 مئی 2014 کو “آروہی” 1، مال ایونیو لکھنؤ میں اپنی پرانی معشوقہ اجولہ سے شادی کر لی۔
ابھی چند دن پہلے 16 اپریل 2019 کو نئی دہلی میں روہت شیکھر کی موت ہو گئی۔بمشکل 40 سال کے روہت کی اس اچانک موت کی طرف میڈیا نے کم ہی توجہ دی۔ حالانکہ روہت کی زندگی مختصر رہی مگر تھی کافی اتار چڑھاؤ بھری۔ روہت شیکھر نے اپنی ولدیت حاصل کرنے کے لیے ایک طویل قانونی جنگ لڑی اور اس میں فتحیاب رہے۔ یہ تکلیف دہ جنگ انہیں اپنے والد اور مشہور زمانہ سیاستداں نرائن دت تیواری کے خلاف لڑنی پڑی تاکہ وہ انہیں اپنا بایولاجیکل فرزند تسلیم کر لیں۔ نشیب و فراز بھری ان کی زندگی کا یہ سفر یقینی طور پر ایک بایو پک کا موضوع ہے۔
روہت کے نصیب میں کچھ ایسا لکھا تھا کہ جب وہ تیواری سے مقدمہ لڑ رہے تھے تو بار بار دھمکیاں مل رہی تھیں، لیکن نو سال کے طویل عرصے میں ان کا بال بھی بانکا نہ ہوا۔ اب حالات کی ستم ظریفی دیکھیے کہ تیواری کا بیٹا بن جانا روہت کی اذیت ناک موت کا سبب بن گیا۔ روہت کی موت مشکوک حالات میں ہوئی ہے اور دہلی پولیس منھ دبا کر ان کا قتل کیے جانے کی بات کہہ رہی ہے۔
روہت شیکھر تیواری کی موت ایسے وقت ہوئی جب وہ اکتوبر 2018 میں جہانِ فانی سے کوچ کر چکے اپنے 93 سالہ والد نرائن دت تواری کے قانونی وارث ہونے کے معاملات طے کرنے میں مصروف تھے۔ بزرگ تیواری کئی پہلو سے ایک اہم شخصیت کے مالک تھے۔ سیاستدانوں کے سیاستداں، مجاہد آزادی، اترپردیش اور اتراکھنڈ کے سابق وزیر اعلیٰ، سابق مرکزی وزیر و گورنر نیز راجیو گاندھی و پی وی نرسمہا راؤ دونوں کو کبھی چیلنج دینے والے۔ عمر بھر کانگریسی رہے نرائن دت تیواری نے زندگی کے آخری دنوں میں بی جے پی کا دامن تھام لیا تھا اور روہت شیکھر اس کی بھرپور کوشش کر رہے تھے کہ انہیں کماوں علاقے سے بی جے پی کا ٹکٹ مل جائے۔ جبکہ پارٹی کی جانب سے انہیں 2022 میں ہونے والے صوبے کے اسمبلی الیکشن تک رکنے کو کہا گیا تھا۔
روہت شیکھر تیواری اور ان کے والد کا کانگریس سے بی جے پی کی طرف آنا آسان نہیں تھا۔ لیکن کہا جاتا ہے کہ 2016 میں بزرگ تیواری کی 91ویں سالگرہ پر ہلدوانی یا دہلی میں شمولیت سے گاندھی خاندان کے انکار کے بعد یہ مشکل فیصلہ لیا گیا۔ روہت، اس کی والدہ اجولہ اور بزرگ تیواری نے غیر رسمی طور پر یہ بات بھی گاندھی خاندان کے ذمہ دار افراد تک پہنچا دی تھی کہ اگر راہل اس موقعہ پر آنے کی رضامندی دیتے ہیں تو سالگرہ کا جشن دہلی میں بھی منایا جا سکتا ہے۔ لیکن سب لاحاصل رہا۔ اس مخصوص دن راہل چنئی میں جے للیتا کی عیادت کرتے نظر آ رہے تھے۔
اپریل 2008 تک روہت دہلی کی ڈیفنس کالونی میں رہنے والے ایک عام سے وکیل تھے۔ پھر 29 سال کی عمر میں انہوں نے این ڈی تیواری کے خلاف ولدیت کا کیس لگا دیا۔ اپریل 2014 میں وہ یہ کیس جیت گئے۔ اس کے لیے باقاعدہ ڈی این اے ٹیسٹ کرایا گیا تھا۔ ممکنہ طور پر یہ پہلا معاملہ تھا، جس میں ملک کے ایک بڑے سیاستداں کو اس طرح کے ٹیسٹ سے گزرنا پڑا۔ دو ماہ کے اندر ہی روہت نے این ڈی تیواری کو اس کے لیے راضی کر لیا کہ وہ اس کی والدہ اجولہ شرما سے شادی کر لیں، جو سنسکرت کی عالمہ اور کلاسیکل گلوکارہ ہیں۔
روہت کے نانا شیر سنگھ اندرا گاندھی کی وزارت عظمیٰ میں 1967 سے 1977 تک کابینہ منسٹر رہے۔ 1967 میں این ڈی تیواری انڈین یوتھ کانگریس کے صدر تھے۔ انہی دنوں وہ شیر سنگھ سے رابطے میں آئے۔ اسی دوران اجولہ کو یوتھ کانگریس کی خواتین ونگ کا جنرل سکریٹری بنایا گیا، جس کی صدارت نندنی ستپتھی کے پاس تھی۔
ایک بااثر اور جانی پہچانی شخصیت کے خلاف ولدیت کا کیس لگانا روہت شیکھر کے لیے ایک پریشان کن اور اذیت ناک تجربہ تھا۔ چھ سال کی مدت تک چلے اس مقدمے کے دوران روہت نے دیکھا کہ این ڈی تیواری مستقبل میں ہونے والی اپنی بیوی اور روہت کی ماں اجولہ کو ایک “بدچلن عورت” قرار دینے پر آمادہ ہیں۔ وہ روہت کی ماں کے ساتھ اپنے تعلقات تو قبول کر رہے ہیں، لیکن عرضی گزار کی باتوں کو عدالت کی حدود کا حوالہ دیتے ہوئے چیلنج کر رہے ہیں۔ (این ڈی تیواری کا کہنا تھا کہ روہت کو 18 سال کا ہونے کے بعد 3 سال کی مدت میں یہ دعویٰ دائر کر دینا تھا۔) وہ اس عرضی کے پیچھے موجود منشاء کا سوال بھی اٹھاتے ہیں۔
بذات خود ایک وکیل، روہت نے دعویٰ کیا کہ جب وہ13-12 سال کے تھے تب پتہ چلا کہ ان کے “فطری” والد کوئی اور ہیں۔ 18 سال کا ہونے کے بعد اس نے مستقل اپنی حیثیت جاننے کی کوشش کی، لیکن ہر بار منفی جواب ملا۔این ڈی تیواری کی دلیل یہ تھی کہ روہت جب پیدا ہوا تھا، تب اجولہ بی پی شرما کی بیوی تھیں اور قانونی نکتہ یہ ہے کہ شادی شدہ عورت سے پیدا ہونے والی اولاد اس کے شوہر کی جائز اولاد میں شمار ہوتی ہے۔ تیواری اس پر بھی مصر تھے کہ ضابطہ فوجداری یا گواہان ایکٹ میں کوئی ایسا مخصوص ضابطہ نہیں ہے جس کی رو سے ڈی این اے ٹیسٹ کا حکم دیا جا سکے۔
اس عدالتی جنگ کے دوران ایک الگ طرح کی غیر روایتی اجولہ بھی نظر آئیں، جب ان کے شوہر بی پی شرما نے عدالت میں یہ بیان داخل کیا کہ 1970 سے 1979 کے دوران ان دونوں کے بیچ جسمانی تعلقات نہیں تھے۔ وہیں ڈی این اے ٹیسٹ کا حکم جاری کرتے ہوئے منصفوں نے محسوس کیا کہ ایسے مقدمات میں ناجائز ہونے کے گھناؤنے الزام سے بچوں کو بچانے کے لیے بھی کچھ کیے جانے کی ضرورت ہے۔
مقدمے کے دوران دیکھا گیا کہ جج صاحبان اپنی حیاتیاتی جڑوں کا پتہ لگانے کی کوشش کر رہے عرضی گزار کی ضرورت بخوبی سمجھ رہے ہیں۔ “اس طرح کے کیسز میں جائز ہونے کے حفاظتی غلاف میں لپٹے بچوں کو ان کی ولدیت کے بارے میں اصلیت جاننے سے نہیں روکنا چاہیے۔” ججوں نے اس بابت انگلینڈ کے فیملی ریفارمس ایکٹ 1969 اور 1987 کا حوالہ بھی دیا۔ ہندوستان میں گھریلو معاملات کو لے کر “قانون سازی میں بے توجہی” کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے ہندوستان کو حقوق انسانی پر اقوام متحدہ کے اعلامیہ اور حقوق اطفال کنونشن کے عہد کی پاسداری کی بھی تلقین کی کہ ہندوستان ان دونوں بین الاقوامی اداروں سے وابستہ ہے۔
ڈی این اے ٹیسٹ کے بعد این ڈی تیواری نے قبول کر لیا کہ روہت انہیں کا بیٹا ہے اور 15 مئی 2014 کو “آروہی” 1، مال ایونیو لکھنؤ میں اپنی پرانی معشوقہ اجولہ سے شادی کر لی۔ اس موقعے پر موجود مخصوص مہمانوں نے دیکھا کہ 89 سالہ تیواری باقاعدہ دولہے کا لباس پہنے ہیں، وہیں 66 سالہ اجولہ دلہن کی طرح سجی دھجی نظر آ رہی ہیں۔ شلوکوں کے بیچ ویدک رسم و رواج سے دونوں نے سات پھیرے لیے اور ورمالا کی رسم بھی ادا کی گئی۔ اس کے بعد وہ محبت بھرے گھر میں ساتھ ساتھ رہنے لگے۔ کہا جاتا ہے کہ بیماری کے وقت روہت اور اجولہ دونوں نے تیواری کی خوب خدمت کی۔ دونوں ماں بیٹے اچھے گلوکار بھی ہیں، سو نیند نہ آنے پر تیواری ان سے راگ درگا سنانے کی فرمائش کرتے اور سنتے سنتے ایک بچے کی طرح سو جاتے۔
(صحافی اور قلمکار رشید قدوائی اوآرایف کے وزیٹنگ فیلو ہیں۔ان کا کالم پیر کے روز شائع ہوتا ہے، پرانے کالمس پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں۔ )