نرودا گام فسادات معاملہ: عدالتی فیصلے میں ملزمین کے بری ہونے کے لیے ایس آئی ٹی جانچ کو ذمہ دار بتایا گیا

احمد آباد کے نرودا گام میں 2002 کے فرقہ وارانہ فسادات کے دوران 11 افراد مارے گئے تھے، جس کے تمام ملزمین کو گزشتہ ماہ بری کر دیا گیا۔اب منظر عام پر آئے 1728 صفحات کے عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ تحقیقاتی ایجنسی نے گواہوں کے بیانات کی تصدیق نہیں کی تھی۔

احمد آباد کے نرودا گام میں  2002  کے فرقہ وارانہ فسادات کے دوران  11  افراد مارے گئے تھے، جس کے تمام ملزمین کو گزشتہ ماہ بری کر دیا گیا۔اب منظر عام پر آئے  1728  صفحات کے عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ تحقیقاتی ایجنسی نے گواہوں کے بیانات کی تصدیق نہیں کی تھی۔

بی جے پی کی سابق وزیر مایا کوڈنانی اور بجرنگ دل کے سابق لیڈر بابو بجرنگی بھی فسادات کے ملزمان میں شامل تھے۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

بی جے پی کی سابق وزیر مایا کوڈنانی اور بجرنگ دل کے سابق لیڈر بابو بجرنگی بھی فسادات کے ملزمان میں شامل تھے۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: نرودا گام قتل عام کے تمام ملزمین کو بری کرنے کا فیصلہ منگل کو عام کر دیا گیا۔

ہندوستان ٹائمز کے مطابق، فیصلے میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے مقرر کردہ خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) نے 2002 کے نرودا گام قتل عام کی صحیح طریقے سے تفتیش نہیں کی اور استغاثہ یہ ثابت نہیں کر سکا کہ ملزمین جائے وقوعہ پر موجود تھے۔

بتا دیں کہ گزشتہ ماہ ایس آئی ٹی کی خصوصی عدالت نے نرودا گام معاملے میں تمام ملزمین کو بری کر دیا تھا۔ 2002 کے ان فسادات میں 11 مسلمان مارے گئے تھے۔ عدالت نے  معاملے کے تمام 67 ملزمین کو بری کرتے ہوئے ایک سطری فیصلہ سنایا  تھا۔ مقدمے کی سماعت کے دوران 18 افراد کی موت ہوگئی تھی۔ بری کئے گئے ملزمین میں گجرات کی سابق وزیر مایا کوڈنانی، بجرنگ دل لیڈر بابو بجرنگی اور وشو ہندو پریشد لیڈر جئے دیپ پٹیل شامل  تھے۔

غور طلب ہے کہ1728 صفحات پر مشتمل فیصلے کو منگل کو عام کیا گیا اور اس میں ملزمین کے بری ہونے کے لیے ایس آئی ٹی کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ گواہوں کے بیانات کی تفتیشی ایجنسی نے تصدیق نہیں کی اور ان کے بیانات پولیس کو دیے گئے سابقہ بیانات کے برعکس پائے گئے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ تفتیشی ٹیم نے شناختی پریڈ بھی ٹھیک سے نہیں کروائی۔

اسپیشل جج شبھدا بخشی نے اپنے فیصلے میں کہا، عدالت کے سامنے پیش کیے گئے شواہد، تحریری دلائل اور فیصلوں کی بنیاد پر یہ کسی بھی طرح سے ثابت نہیں ہوتا کہ ملزم نے جرم کرنے کی سازش کی، غیر قانونی میٹنگ میں شامل ہوئےیاایک  مشترکہ مقصد کے حصول کے لیےگھناؤنا جرم  کیا یا کسی کو قتل کیا۔

بتادیں کہ اس سے قبل یہ خبر آئی تھی کہ سپریم کورٹ کی طرف سے مقرر کردہ خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی ) 2002 کے نرودا گام فسادات کیس میں ایک خصوصی عدالت کے ذریعے تمام 67 ملزمین کو حال ہی میں بری کیے جانے کو گجرات ہائی کورٹ میں چیلنج کرے گی۔

نرودا گام قتل عام 2002 کے ان نو بڑے فرقہ وارانہ فسادات میں سے ایک تھا جن کی جانچ ایس آئی ٹی  نے کی اور خصوصی عدالتوں نے ان کی سماعت کی۔

ایس آئی ٹی نے 2008 میں گجرات پولیس سے تفتیش اپنے ہاتھ میں لی اور 30 سے زیادہ لوگوں کو گرفتار کیا تھا۔

  کیس میں کل  86 ملزمان تھے، لیکن ان میں سے 18 کی درمیانی مدت میں ہی  موت ہو گئی تھی۔، جبکہ ایک کو اس کے خلاف ناکافی ثبوت کی وجہ سےعدالت نے سی آر پی سی (کرمینل پروسیجر کوڈ) کی دفعہ 169 کے تحت عدالت نے پہلے ہی  بری کر دیا تھا۔

واضح ہو کہ گودھرا اسٹیشن کے قریب ایک ہجوم کے ذریعے سابرمتی ایکسپریس کے ایس 6 کوچ کو آگ لگانے کے خلاف بلائے گئے بند کے دوران احمد آباد کے نرودا گام علاقے میں 28 فروری 2002 کو فسادات پھوٹ پڑے تھے۔ اس واقعے میں ٹرین کے کم از کم 58 مسافر، جن میں زیادہ تر کار سیوک ایودھیا سے واپس آ رہے تھے، جل کر ہلاک ہو گئے تھے۔

ملزمان کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 302 (قتل)، 307 (قتل کی کوشش)، 143 (غیر قانونی اجلاس)، 147 (ہنگامہ آرائی)، 148 (مہلک ہتھیاروں سے لیس ہو کر دنگا کرنا)، 120 بی (مجرمانہ سازش) اور 153 (دنگوں کے لیے اکسانا) سمیت مختلف دفعات کے تحت الزامات کا سامنا کر رہے تھے۔ ان جرائم کی زیادہ سے زیادہ سزا موت ہے۔

اس وقت کے بی جے پی صدر امت شاہ، جو اب مرکزی وزیر داخلہ ہیں، ستمبر 2017 میں کوڈنانی کے دفاعی گواہ کے طور پر ٹرائل کورٹ میں پیش ہوئے تھے۔ کوڈنانی کا دعویٰ ہے کہ وہ تشدد کے وقت گجرات اسمبلی اور سولہ سول اسپتال میں موجود تھیں نہ کہ نرودا گام میں جہاں قتل عام ہوا تھا۔