افسوس کی بات تھی کہ ایک ایسے نازک وقت میں ایوان کے اندر سرکارکے لوگ ہنسی مذاق اور چھینٹا کشی کر رہے تھے، جب منی پور میں گزشتہ تین ماہ سے لاشیں دفن کیے جانے کا انتظار کر رہی ہیں۔ اتنی سنگدلی، بے رحمی اور بے حسی کے ساتھ کوئی معاشرہ کس قدر اور کب تک زندہ رہ سکتا ہے؟
وزیر اعظم نریندر مودی تحریک عدم اعتماد پر لوک سبھا میں اپنی تقریر کے دوران۔ (اسکرین گریب بہ شکریہ: یوٹیوب/سنسد ٹی وی)
‘مودی ماہر ٹرول ہیں’ وزیر اعظم کے ایک اسٹار مداح نے ایوان میں اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کے جواب میں ان کی تقریر پر نہال ہوتے ہوئے لکھا۔ اس تعریف کے بعد اس تقریر کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں رہ جاتی ۔
نریندر مودی کے مداح اس وقت بیہودہ قسم کی لذت کوشی میں غوطہ زن ہیں۔ وہ تجزیہ کار، جو راہل گاندھی کی تیاری کی کمی کی شکایت کر رہے تھے، نریندر مودی اور امت شاہ کی شاندار خطابت کی تعریف کر رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ وہ پوری تیاری کے ساتھ آئے تھے جبکہ اپوزیشن کی تیاری نہیں تھی۔
وزیر داخلہ نے کئی جگہ غلط بیانی کی، کہا کہ برما میں تشدد کی وجہ سے کُکی منی پور آئے اور اس کی وجہ سے میتیئی کمیونٹی کے اندر خدشات نے جنم لیا، لیکن میڈیا نے اس پر کوئی سوال نہیں کیا۔کُکی برادری نے وزیر داخلہ کے اس بیان پر سخت اعتراض کیا۔ اس کے علاوہ وزیر داخلہ نے کہا کہ ‘کُکی ڈیموکریٹک فرنٹ’ نامی تنظیم میانمار میں لڑ رہی ہے، لیکن ایسی کوئی تنظیم ہے ہی نہیں۔
اس غلط بیانی پر سوال کیوں نہیں اٹھایا گیا؟ غلط بیانی کے علاوہ اس بیان سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ وفاقی حکومت بھی میتیئی اکثریتی منی پور حکومت کے ساتھ ہے۔ پھر اس سے یہ امید کیسےکی جا سکتی ہے کہ وہ منی پور میں امن قائم کرے گی۔
ایوان کے اندرکئی معاملوں میں وزیر داخلہ کی غلط بیانی پرکوئی سوال نہیں اٹھایا گیا۔ امت شاہ نے کہا کہ مودی کے کہنے پر یوکرین اور روس نے تین دن کے لیے جنگ روک دی تھی۔ اس بارے میں پہلے سے ہی وزارت خارجہ کی وضاحت موجود ہے کہ یہ جھوٹ ہے۔ کیوں میڈیا نے اس جھوٹ پر کوئی سوال نہیں اٹھایا؟
وزیر داخلہ نے کلاوتی اور راہل گاندھی کے بارے میں جو غلط بیانی کی، اسے تو ان کا سیاسی حق ہی سمجھا جائے گا۔ ایوان میں غلط بیانی بہت بڑا جرم ہے۔ لیکن یہ کیوں ہمارے لیےتشویش کا باعث نہیں ہے؟ کیوں متھ اور آدھے سچ کو قبول کیا جا رہا ہے؟ کیا یہ ہندوستانی عوام کے ساتھ دھوکہ نہیں ہے؟ یہ کہنے کےبجائے وزیر داخلہ کی تعریف کی جا رہی ہے کہ انہوں نے پوری تیاری کر رکھی تھی۔ غلط بیانی کی تیاری؟
وزیر اعظم کی لفاظی کو تو خیر ان کی خوبی ہی سمجھا جاتا ہے۔ پھبتی،چھینٹا کشی،سفلہ پن یا رذالت کو مقبولیت کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے۔ ملک کے اعلیٰ ترین عہدے پر فائز شخص کے لیے جارحانہ اور متشدد زبان مناسب سمجھی جانے لگی ہے۔ چالاکی تو خیر ضروری ہے ہی۔
میڈیا میں کچھ لوگ دبی زبان میں کہہ رہے ہیں کہ وزیر اعظم کو منی پور پر کچھ اور بولنا چاہیے تھا۔ لیکن ان میں یہ کہنے کی ہمت نہیں ہورہی کہ آخر یہ کیسےقبول کیا جاسکتا ہے کہ ملک کے سب سے اہم موضوع منی پور کو وزیر اعظم نے اپنی دو گھنٹے کی تقریر میں صرف 6 منٹ کے لائق سمجھا۔ اس میں بھی خالی خولی بیان بازی کے علاوہ کچھ نہیں۔
‘ملک منی پور کے ساتھ ہے یا یہ ایوان منی پور کے ساتھ ہے’ تشدد سے متاثرہ منی پور کے لیے یہ کوئی ہمدردی یاتسلی نہیں ہے۔ منی پور کا مسئلہ یہ نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ منی پور کی اقلیتی کُکی آبادی کہہ رہی ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ان کے ساتھ نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ منی پور دو حصوں میں بٹ چکا ہے اور یہ دونوں ایک دوسرے کے دشمن بن چکے ہیں۔ امن کا سورج کبھی طلوع ہوگا، یہ منی پور میں تشدد کے متاثرین کے لیے کوئی یقین دہانی نہیں ہے۔
اس طرح کی لفاظی ایسے وقت میں جب اپوزیشن جاننا چاہتی ہے کہ حکومت نے منی پور میں تشدد کو روکنے کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں۔ لیکن منی پور وزیر اعظم کے لیے موضوع نہیں تھا۔ موضوع وہ خود تھے۔
جب وہ تقریر کر رہے تھے، دہلی کے قریب ہریانہ میں ان کی اپنی پارٹی کی حکومت کی لاپرواہی یا ملی بھگت سے بڑے پیمانے پر تشدد ہوچکا تھا۔ اور اس کے بعد حکومت نے مسلمانوں پر شدید تشدد کیا۔ لیکن وزیر اعظم کی تقریر میں اس تشدد پر کوئی افسوس نہیں تھا۔ ہلاک ہونے والوں کے لیےہمدردی اورتسلی کا ایک لفظ بھی نہیں۔
کیا اپوزیشن کو ہریانہ کے لیے بھی نئی تحریک عدم اعتماد لانی پڑے گی تاکہ وزیر اعظم یا وفاقی حکومت کی زبان کھُلے؟ ہریانہ میں تشدد کے بعد پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ نے حکومت کے بلڈوزر تشدد پر سخت تبصرہ کرتے ہوئے اسے نسل کشی قرار دیا۔ لیکن ہندوستان کی وفاقی حکومت ایسے برتاؤ کر رہی ہےگویا کہ کہیں کچھ ہوا ہی نہیں۔ دہلی کے قریب ہزاروں لوگ بے گھر ہو گئے ہیں اور وزیر اعظم ایوان میں اپنے درباری ایم پی کے ساتھ ہنسی مذاق کر رہے ہیں۔
اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد پر بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کا جواب منی پور کی سراسر توہین تھی۔ نریندر مودی اور امت شاہ کی تقریر میں کوئی افسوس ، منی پور کی تکلیف کے لیے ہمدردی کا نام و نشان نہیں تھا۔ بی جے پی کے حامی کتنی ہی تالیاں بجائیں، ہندوستانی عوام کو اس کو لے کر ضرورفکرمند ہونا چاہیے کہ ان کے حکمران کتنے سفاک طریقے سے خود نرگسیت میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔
جن میں ابھی انسانیت بچی ہوئی ہے، ان میں اس تقریر کے بعد اداسی، مایوسی، غصہ، بیزاری اور شرمندگی کے جذبات ہی ابھرے۔ کیا منی پور کے لوگ حکومت ہند کی طرف سے اسی سلوک کے مستحق ہیں؟ کیا منی پور میں جو آگ لگی ہے، اس کو بجھانے کے لیے حکومت ہند کے پاس ہمدردی کے دو لفظ بھی نہیں ہیں؟
یہ بڑے افسوس کی بات تھی کہ اس وقت ایوان میں حکومت کے لوگ ہنسی مذاق اور چھینٹاکشی کر رہے تھے جب منی پور میں تین ماہ سے لاشیں دفن کیے جانے کا انتظار کر رہی ہیں۔ اتنی بے رحمی اور اتنی بے حسی کے ساتھ کوئی معاشرہ کس قدر اور کب تک زندہ رہ سکتا ہے؟
(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)