15ویں فنانس کمیشن کے سینٹرلائزیشن کی کوششوں پر روک لگنی چاہیے۔
گجرات کے وزیراعلیٰ کے طور پر نریندر مودی پورے جوش و خروش سے یہ مطالبہ کیا کرتے تھے کہ ریاستوں کو اپنے ترقیاتی پروگراموں کو تیار کرنے اور اپنے حصے کے ٹیکس کو خرچ کرنے کے معاملے میں زیادہ خودمختاری دی جانی چاہیے۔انہوں نے تو یہ تک مطالبہ کیا تھا کہ ریاستی حکومتوں کو ٹیکس میں اضافہ کرنے کا حق دیا جانا چاہیے۔ مختصراً کہیں تو وہ سرکاری خزانےکی وفاقیت(fiscal federalism) کے سب سے بڑے پیروکار تھے۔
لیکن وزیر اعظم کے طور پر نریندر مودی بالکل الٹے رویے کا اظہارکر رہے ہیں۔ وہ اب عوامی اشیا کی تقسیم کو اس حد تک سینٹرلائزڈ کرنا چاہتے ہیں کہ ریاستوں کی حیثیت مرکزی پروگراموں کو چپ چاپ نافذ کرانے والی ایجنسی محض بن کر رہ جائےگی۔کئی ریاست اس بات کو لےکر کافی فکرمند ہیں کہ 15 ویں فنانس کمیشن کو صدرجمہوریہ کی جانب سے بھیجے گئے حالیہ پیغام نے آخری لمحے میں ایک نیا ٹرمس آف ریفرنس جوڑ دیا ہے، جس میں یہ صلاح دی گئی ہے کہ تقسیم کیے جانے لائق محصولات کے اندر سے ایک الگ فنڈ بنایاجائے اور اس کو خاص طور پر قومی سلامتی اور تحفظ سے متعلق اخراجات کے لئے محفوظ رکھا جائے۔
ریاستوں کو ڈر ہے کہ یہ ایک بھرمانے والی چال ہے-اور اس کا اصلی مقصد فنڈز کے استعمال میں مرکزی اختیارات کو بڑھاوا دینا ہے۔ یہ اپنے آپ میں بے مثال ہے کیونکہ اب تک کے فنانس کمیشن نے بس تقسیم کے لائق محصولات کے ایک حصے کو ریاستوں کو منتقل کرنے کے فارمولے کی ہی سفارش کی ہے۔مرکز اپنے پاس جتنا بھی پیسہ رکھتا تھا، اس کو قومی سلامتی، تحفظ وغیرہ کے لئے ہندوستان کے جمع شدہ فنڈ میں سے استعمال کیا جاتا تھا۔ لیکن آخری لمحے میں ایک خاص فنڈ کی مانگ کرنا، وہ بھی تب جبکہ فنانس کمیشن نے پچھلے کچھ سالوں میں تمام ریاستوں کے ساتھ جامع مشورہ کر لیا ہے، یکطرفہ رویے کو دکھاتا ہے، جو اس حکومت کی عادت بن گئی ہے۔
یہ صلاح کہ ریاستوں کو ٹیکس میں سے اپنے حصے کا ایک حصہ (کل ٹیکس کا 42 فیصد)قومی سلامتی اور تحفظ کے نام پر قربان کر دینا چاہیے، ایک طرح سے مرکز کی بوکھلاہٹ کو بھی دکھاتا ہے، جس کے سرکاری خزانےکا حساب و کتاب واضح طور پر بگڑ گیا ہے، جس کا ثبوت حالیہ بجٹ کے اعداد و شمار ہیں۔جی ایس ٹی کے اعداد و شمار کے عدم استحکام نے مرکز کی تشویش کو اور بڑھا دیا ہے۔ حقیقت میں جی ایس ٹی میں کمزور اضافہ، جو شروعاتی اندازہ سے کم سے کم 15-20 فیصد کم ہے، باقی چیزوں کے علاوہ معیشت میں تیزی سے آ رہی گراوٹ کو دکھاتا ہے۔
اب جبکہ مرکز نے خود کو بحران میں پھنسا لیا ہے، وہ ریونیو میں ریاستوں کے حصے کے ایک حصہ پرقبضہکرنا چاہتا ہے۔ اور اس کا بہتر راستہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ یہ کام فنانس کمیشن جیسے آئینی اکائی کے ذریعے کیا جائے۔ تمام اداروں کی طرح اس پر بھی حکومت کی مرضی کے مطابق چلنے کا دباؤ پڑنے والا ہے۔2015 میں مودی حکومت نے ریونیو میں ریاستوں کا حصہ 32 فیصد سے بڑھاکر 42 فیصد کرنے کے 14ویں فنانس کمیشن کی اہم سفارشات کو قبولکر لیا تھا۔ اوپری طور پر یہ ایک بڑے اضافہ کی طرح نظر آ سکتا ہے، لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اصل اضافہ کافی کم (3 فیصد) تھا۔کیونکہ 14ویں فنانس کمیشن نے دیگر صوابدیدی اسکیم اور غیر-اسکیم امدادوں کو بھی اس میں شامل کر دیا تھا، جو پہلے ریاستوں کو ملا کرتا تھا۔ اس لئے ریاستوں کو ہونے والا سیدھا فائدہ زیادہ نہیں تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ ‘نیو اپروچز ٹو فیڈرل فیڈرلزم ان انڈیا‘کے عنوان سے ایک پیپر میں ریزرو بینک کے سابق گورنر وائے وی ریڈی نے یہ دلیل دی ہے کہ 2015-16 سے 2018-19 کے درمیان کے چار سالوں میں فیصد کے طور پر ریاستوں کا حصہ 2011-12 سے 2014-15 کے مقابلے میں دراصل کم ہو سکتا ہے۔یہ زیادہ گہرائی سے تفتیش اور تجزیے کا مطالبہ کرتا ہے کیونکہ اب مرکز ریاستوں کے ریونیو کے موجودہ حصے کا ایک حصہ اس بہانے سے حاصلکرنا چاہتا ہے کہ 14 واں فنانس کمیشن ریاستوں پر کچھ زیادہ ہی مہربان تھا۔لیکن ڈاکٹر ریڈی کے تجزیے کے مطابق، جس کی حمایت کئی دوسرے ماہرین نے بھی کیا ہے، یہ دعویٰ صحیح نہیں ہے۔ اصل میں ہو سکتا ہے کہ ریاستوں کے حصے میں کوئی واضح اضافہ ہوا ہی نہ ہو۔
مرکز کی یہ پینترےبازی آئین کے جذبہ کے خلاف ہے کیونکہ فنانس کمیشن ایک آئینی اکائی ہے اور اس کا استعمال مرکز کے ذریعے زور زبردستی کے اوزار کے طور پر نہیں کیا جا سکتا ہے۔مودی حکومت نے شروع میں ہی تنازعات کو جنم دے دیا تھا، جب اس نے 15 ویں فنانس کمیشن کے لئے کافی ٹرمس آف ریفرنس طے کیا تھا۔ 15ویں فنانس کمیشن کے لئے جس طرح سے غیرمعمولی قسم کے ٹرمس آف ریفرنس کا تعین کیا گیا تھا وہ مودی کے مرکزپرستی کے رجحان کو دکھاتا تھا۔
جیسا کہ ڈاکٹر ریڈی نے اپنے پیپر میں لکھا ہے، ‘5 ویں فنانس کمیشن کے ٹرمس آف ریفرنس نے بے مثال تنازعات کو جنم دیا۔ روایتی طور پر فنانس کمیشن کے اہم کاموں میں ضرورت مند ریاستوں کے لئے امداد پر غور کرنا شامل ہوتا تھا۔ اس کو ہٹا دیا گیا ہے۔ ریاستوں کا یہ ڈر بے بنیاد نہیں ہے کہ ضرورت پر مبنی ریونیو ڈیفسٹ گرانٹ کی غیرموجودگی میں صواب دیدی اختیارات مرکز کو سونپ دی جائیںگی، جو آئین کی منشاکے الٹ ہے۔
ریزرو بینک کے سابق گورنر نے یہ بھی لکھا ہے، ‘پہلی بار گزشتہ فنانس کمیشن کی سفارشات کا تجزیہ کرنے کے لئے کہا گیا ہے۔ ‘یہ بے مثال ہے اور یہ منشاآخری لمحے میں دئے گئے اس حکم میں بھی جھلکتی ہے کہ تحفظ اور قومی سلامتی کے لئے ایک الگ فنڈ تیار کیا جائے۔ اس کا مقصد تقسیم لائق محصول میں سے ریاستوں کے حصے کو کم کرنا ہے۔جیسا کہ ڈاکٹر ریڈی نے بھی نشان زد کیا ہے، اس ٹرمس آف ریفرنس کا سب سے غیرمعمولی پہلو یہ ہے کہ پہلی بار فنانس کمیشن کو سرکاری طور پر مودی کے ذریعے’نیو انڈیا 2022’کے سرنامہ کے ساتھ شروع کئے گئے مختلف ترقیاتی اور سودمند پروگراموں پر غور کرنے کی بھی ہدایت دی گئی ہے۔ ‘
اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاستوں کو منتقل کئے جانے والے فنڈ کو مرکز کے پی ایم آواس یوجنا، آیوشمان بھارت، ہر گھر نل (یونیورسل ٹیپ واٹر ڈیلیوری) جیسی اہم اسکیموں میں ان کی حصےداری اور خرچ سے نتھی کیا جا سکتا ہے۔مودی پہلے ہی ان اسکیموں کا اعلان کر چکے ہیں اور مرکزی بجٹ میں ان اسکیموں کے لئے کافی کم پیسہ مختص کیا گیا ہے۔ ان اسکیموں کی پوری طرح سے عمل آوری کے لئے کافی پیسے کا درکار ہیں۔
یہ صاف ہے کہ مودی فنانس کمیشن کے راستے کا استعمال ‘ نیو انڈیا-2022 ‘ کے نام سے پروسے گئے اپنے پسندیدہ فلاحی اور ترقیاتی پروگراموں کو آگے بڑھانے کے لئے کرنا چاہتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ اپنی ضروریات کے مطابق اپنی اسکیموں کو تیار کرنے کی ریاست کی خودمختاری کو محدودکرےگا۔ ایسے میں ریاستیں بس ایک ایجنسی بنکر رہ جائیںگی۔
سیاسی معیشت کی بات کریں، تو مودی کی’نیو انڈیا’کی تمام اسکیموں کا ہدف اہم طور پر ہندی پٹی کی ریاست ہیں، جو ترقی اور سوشل انڈیکس کے معاملے میں پچھڑے ہوئے ہیں، لیکن جنہوں نے 2019 کے انتخاب میں بی جے پی کی جھولی میں تقریباً 50 فیصد ووٹ ڈالے ہیں۔اس کا خمیازہ بہتر مظاہرہ کرنے والے ریاستوں کو اٹھانا پڑےگا، خاص طور پرجنوب والی ریاستوں کو، جو مودی کے ‘نیو انڈیا’کے تئیں وابستگی کی نمائش نہیں کرنے کے لئے راغب ہو سکتے ہیں۔ یہاں سیاسی اور آئینی دونوں ہی نظریے سے شدید اختلاف پیدا ہو سکتے ہیں۔
15ویں فنانس کمیشن کے نومبر میں جاری کی جانے والی سفارشات پر کئی ریاستوں کی قریبی نظر ہوگی، یہ دیکھنے کے لئے کہ ان کے سرکاری خزانےکی آزادی کا کتنا حصہ مودی کی مرکزپرست حکومت چھین لیتی ہے۔