وزیراعظم نریندر مودی کے برسر اقتدار آنے کے بعد تو صحافت کی دنیا ہی بدل گئی۔حالات اس قدر بدل چکے ہیں کہ حکومت سے متعلق معمولی اسٹوری کا بھی ایڈیٹر حضرات ایک طرح کا آپریشن کر دیتے ہیں۔ ان کو خدشہ رہتا ہے کہ اگر یہ اسٹوری حکومت کو پریشان کرے گی تو ادارے کے اشتہارات بند ہوں گےیا مالکان یا ادارے کی کمپنی کو کسی نہ کسی کیس میں گھسیٹا جائے گا۔
ایک جمہوری ملک میں صحافی اور حکومت کے درمیان تخلیقی یا مثبت تناؤ کا رشتہ ہونا ضروری ہے۔ میڈیا کا اصل کام اداروں کا ہمہ وقت احتساب کرنا اور حکومت اور عوام کے درمیان ایک رابطے کی ذمہ داری بھی نبھانا ہوتا ہے۔
تقریباً ڈیڑھ دہائی سے، جب میں دہلی میں بطور صحافی کام کر رہی ہوں، ہم منسٹروں، سیاسی لیڈروں اور سیکریٹریوں کے دفاتر میں سورس بنا کر خبریں نکالتے تھے۔ ہندوستان میں ہر بدھ یا جمعرات کو وزیراعظم کی سربراہی میں کابینہ کی میٹنگ ہوتی ہے۔ پیر سے ہی اس میٹنگ کے ایجنڈہ کےحصول کے لیےرپورٹروں میں مسابقت شروع ہوتی تھی۔
کابینہ کی میٹنگ اور اس کی منظور ی سے قبل ایجنڈہ میں شامل نکات انتہائی خفیہ دستاویزات کے زمرے میں آتے ہیں۔ یہ ایجنڈہ دو روز قبل سبھی وزراء میں تقسیم ہوتا تھا تا کہ اگر کسی وزیر کو کوئی اعتراض ہو تو وہ کابینہ سکریٹری کے پاس قبل از وقت جمع کروا سکے۔
ان دستاویزات کے حصول کے لیے پیر سے بدھ کی صبح تک حکومت کو کور کرنے والے رپورٹر دن رات ایک کر دیتے تھے۔ تگ و دو کرتے ہوئے مجھے کھبی کبھار محسوس ہوتا تھا کہ حکومت خود بھی اس ایجنڈہ یا اس کے نکات کو لیک کرنے کی خواہش رکھتی تھی۔ ہاں!جو صحافی ان دستاویزات کو لے کر دفتر پہنچتا تھا، اس کی قدر آفس میں خوب بڑھ جاتی تھی۔
حکومت کے لیک کرنے کا مقصد ہوتا تھا کہ اگر بدھ کی صبح یا کابینہ کی میٹنگ سے ایک دن قبل میڈیا کا کوئی ادارہ ایجنڈہ کا کوئی حصہ شائع کرتا تھا، تو حکومت اس مجوزہ فیصلے کا عوام میں ردعمل بھی دیکھتی تھی۔ اگر ردعمل منفی ہو تو ایجنڈہ سےاس ایشو کو غائب کر دیا جاتا تھا۔ اس طرح حکومت کو قبل از وقت فیڈ بیک ملتا تھا۔ یا ایجنڈہ میں شامل کسی ایشو میں ترمیم بھی کی جاتی تھی۔
مگر 2014 میں وزیراعظم نریندر مودی کے برسر اقتدار آنے کے بعد تو صحافت کی دنیا ہی بدل گئی۔ کابینہ کا ایجنڈہ تو دور کی بات معمولی دستاویز بھی اب صحافیوں کے ہاتھ نہیں لگتی ہے۔ مودی کے آتے ہی حکم دیا گیا کہ ایجنڈہ اب وزراء میں میٹنگ سے قبل تقسیم نہیں ہو گا۔ سوائے اس وزیر کے، جس کا ایشو زیر بحث آنے والا ہو، بقیہ وزراء کو کابینہ کے ایجنڈہ کا علم میٹنگ کے وقت ہی ہوتا ہے۔
مجھے یاد ہے کہ کابینہ کے اجلاس ہی کئی گھنٹوں پر محیط ہوتے تھے، کافی بحث و مباحثے ہوتے تھے۔ ذرائع کے حوالے سے اندر کی گرما گرمی کی خبریں بھی ملتی تھیں۔ مگر اب کابینہ کی میٹنگ چند منٹ سے زیادہ چلتی ہی نہیں ہے۔
حالات اس قدر بدل چکے ہیں کہ حکومت سے متعلق معمولی اسٹوری کا بھی ایڈیٹر حضرات ایک طرح کا آپریشن کر دیتے ہیں۔ ان کو خدشہ رہتا ہے کہ اگر یہ اسٹوری حکومت کو پریشان کرے گی تو ادارے کے اشتہارات بند ہوں گے، یا مالکان یا ادارے کی کمپنی کو کسی نہ کسی کیس میں گھسیٹا جائے گا۔
رام ناتھ گوینکا اور ونود مہتہ جیسے ایڈیٹر اب ناپید ہو چکے ہیں۔ اس مداخلت سے پریشان صحافی اپنی مایوسی کو آج کل یا تو سگریٹ کے دھوئیں کے ساتھ پھونک دیتے ہیں یا چائے کی ایک پیالی کے ساتھ ہضم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہندوستان کی جمہوریت تمام تر کمزوریوں کے باوجود پوری دنیا میں ایک ماڈل کی حیثیت رکھتی تھی۔ مگر اب لگتا ہے کہ ہندوستان بہت بدل گیا ہے اوریہ اتنی تیزی سے بدل جائے گا کسی کے تصور میں بھی نہیں تھا۔ اقلیتوں کے خلاف ماحول، معلومات کا حق (رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ)ہونے کے باوجود، عوام کو بنیادی معلومات فراہم نہ کر کے اس قانون کا ہی گلا دبانا، حکومت مخالف مظاہرین پر ملک دشمنی کا لیبل لگانا اور مخالفین کو جیلوں میں بند کرنا تو اب عام سی بات ہو گئی ہے۔
حکومت پر تنقید کرنے پر صحافیوں پر ملک کے ساتھ غداری کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔کشمیر کے مقتدر اور بزرگ لیڈر سید علی گیلانی کی میت کے ساتھ حال ہی میں، جس طرح کا سلوک کیا گیا، وہ اس کی ایک معمولی مثال ہے۔
گزشتہ پندرہ ستمبر کو جب دنیا جمہوریت کا عالمی دن منارہی تھی، تو تمام ذی شعورافراد و دانشوروں کو ادراک ہونا چاہیے کہ فی الوقت ہندوستان میں جمہوریت شدید خطرے کا سامنا کرتی نظر آ رہی ہے۔
ہیومن فریڈم انڈیکس2020 کے مطابق ہندوستان میں جمہوریت اور آزادی کا درجہ 2020 میں 94 سے گر کر111 ہو گیا ہے۔2021ء میں ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس نے میڈیا کی آزادی کے حوالے سےہندوستان کو 180ممالک میں 142ویں درجے پر رکھا ہے۔
فرانسیسی اسکالر کرسٹوف جعفرلوٹ نے اپنی حالیہ کتاب ’مودی انڈیا: ہندو نیشنلزم اینڈ دی رائز آف اِتھنک ڈیموکریسی‘ میں ہندوستان میں نسلی جمہوریت کی پیش گوئی کی ہے، جہاں جمہوری حقوق چند نسلی گروہوں تک محدود ہوں گے اور اقلیتوں کو دوسرے درجے کے شہریوں کے بطور زندگی گزارنی ہو گی۔ بقول مصنف انتہا پسندی اس حد تک پہنچ جائے گی، جہاں سے لوٹنا ناممکن ہو گا۔
موجودہ تناظر میں، جعفرلوٹ کی پیش گوئی سچ ثابت ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ اختلاف اور احتجاج کی گنجائش کم ہوتی جا رہی ہے۔ یونیورسٹی کیمپس پر احتجاج کرنے والے طلباء پر ملک سے غداری کا الزام لگتا ہے اور وہ جیلوں میں قید کر دیے جاتے ہیں۔ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف پرامن احتجاج کرنے والوں کو ملک دشمن قرار دیا جا رہا ہے۔ ہندوستان کے کسان، جو بھارتی دارالحکومت کی سرحدوں کے باہر بیٹھے ہیں، ان پر خالصتان کے ہمدرد ہونے کا لیبل چسپاں کر دیا جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ لوگوں کو ہر وقت قوم پرستی کا پٹا اپنے گلے میں باندھے رکھنا چاہیے۔
مایوسی کے اس دور کے بیچ معروف مصنف اور صحافی پارسا وینکٹیشور راؤ جونیئر کا کہنا ہے کہ ابھی اتنا کچھ برا نہیں ہے اور واپسی کی گنجائش باقی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ موجودہ صورت حال جمہوریت کا محض ایک پڑاؤ ہے، ”جب کانگریس پارٹی 1947 سے 20 سال تک اقتدار میں تھی،ہر ایک کا خیال تھا کہ کانگریس کا کبھی کوئی متبادل نہیں ہو سکتا لیکن ایسا نہیں ہوا۔‘‘ان کا مزید کہنا ہے کہ آج لوگ شاید ایک نظریے کے حق میں ہیں یا انہوں نے قوم پرستی کو قبول کر لیا ہے۔ لیکن جس دن متوسط طبقے کو حکومتی پالیسیوں سے تکلیف پہنچے گی تو بغاوت ہو گی اور یہی جمہوریت کی اصل روح ہے۔
کاش میرے سینئر ساتھی پارسا کی یہ پیشن گوئی صحیح ثابت ہو اور ہندوستان واپس جمہوریت کی شاہراہ پر گامزن ہو اور صحافی ایک بار پھر خبروں کے تعاقب میں سرگرداں اور مقابلہ کرتے نظر آئیں۔ ورنہ ہندوستان جیسی بڑی آبادی والے ملک کی جمہوریت سے روگردانی کرنے اور قو م پرستی کے جنون میں مبتلا ہونے سے پورے خطے پر اس کے دو رس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، جس کا کوئی متحمل نہیں ہو سکتا۔
(روہنی سنگھ دہلی میں مقیم آزاد صحافی ہیں ، ان کاکا یہ بلاگ ڈی ڈبلیو اُرود پر شائع ہوا ہے۔)