یہ الزام ایسے وقت میں سامنےآیا ہے جب 12 اپریل کو اُڈوپی کے ہوٹل میں ایک ٹھیکیدار نے وزیر اور بی جے پی لیڈر کے ایس ایشورپا پر بدعنوانی کا الزام لگاتے ہوئے مبینہ طور پر خودکشی کر لی۔ اس کے بعد ایشورپا نے وزیر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ اس الزام پر وزیر اعلیٰ بسواراج بومئی نے کہا کہ ان کی حکومت سنت کے الزامات کو بہت سنجیدگی سے لے رہی ہے۔
بسواراج بومئی۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک)
نئی دہلی: لنگایت کمیونٹی کے ایک سنت نے سوموار کو الزام لگایا کہ ریاست میں بدعنوانی سے مٹھ بھی متاثر ہیں اور وہ بھی منظور شدہ گرانٹ حاصل کرنے کے لیے 30 فیصد کمیشن دیتے ہیں۔
اس پر وزیر اعلیٰ بسواراج بومئی نے کہا کہ ان کی حکومت سنت کے الزامات کو بہت سنجیدگی سے لے رہی ہے۔
یہ الزام ایسے وقت میں سامنےآیا ہے جب 12 اپریل کو اُڈوپی کے ہوٹل میں ایک ٹھیکیدار نے وزیر اور بی جے پی لیڈر کے ایس ایشورپا پر بدعنوانی کا الزام لگاتے ہوئے مبینہ طور پر خودکشی کر لی۔ اس کے بعد
ایشورپا نے وزیر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
بیلگاوی کے رہنے والےٹھیکیدار سنتوش پاٹل 12 اپریل کو اُڈوپی کے ایک ہوٹل میں مردہ پائے گئے تھے۔ انہوں نے چند ہفتے قبل ایشورپا کے خلاف بدعنوانی کے الزامات لگائے تھے۔
پاٹل نے مبینہ وہاٹس ایپ پیغام میں ایشورپا کو اپنی موت کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔
انہوں نے گزشتہ ماہ شکایت کی تھی کہ ہندلگا گاؤں میں 2021 میں سڑک کے کام کے لیے انھیں ابھی تک 4 کروڑ روپے ادا کیے جانے ہیں۔ انہوں نے ایشورپا کے معاونین پر 40 فیصد کمیشن کی ادائیگی کا مطالبہ کرنے کا الزام لگایا تھا۔
تاہم، شیرہٹی تعلقہ کے بالے ہوسور مٹھ کی لنگایت کمیونٹی کے سنت ڈنگیشور سوامی جی نے باگل کوٹ ضلع کے بڈاگنڈی گاؤں میں منعقد ایک ریلی کے دوران کہا، اگر کسی سوامی (سنت) کا گرانٹ منظور کیا جاتا ہے، تو یہ 30 فی صد کٹوتی کے بعد مٹھ تک پہنچ پاتا ہے۔ یہ سیدھا سچ ہے۔ افسران آپ کو صاف بتاتے ہیں کہ جب تک رقم کاٹ نہیں لی جائے گی، آپ کا پروجیکٹ شروع نہیں ہوگا۔
سنت نے الزام لگایا کہ ریاست میں کوئی بھی سرکاری کام ٹھیک سے نہیں ہو رہا ہے۔
سوامی جی نے دعویٰ کیا، 30 فیصد کمیشن دینے کے حوالے سے ایک قابل رحم حالت ہے۔ 30 فیصد ادائیگی کے بعد ہی کام شروع ہوتا ہے۔ کئی ٹھیکیداروں نے اپنا کام روک دیا ہے۔ صرف باتیں ہو رہی ہیں لیکن کوئی ترقی نہیں ہو رہی۔ بہت سے ایم ایل اے کام شروع کرنے سے پہلے ریٹ طے کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا، شمالی کرناٹک کے ساتھ بہت بڑی ناانصافی کی جا رہی ہے۔ شمالی کرناٹک میں کوئی نظام نہیں ہے۔ سڑکیں، بس سروس، تعلیم، اسکولوں کی حالت ابتر ہے۔ یہاں اساتذہ کی کمی ہے۔ سینچائی کے کام کی حالت قابل رحم ہے۔
لنگایت سنت کی طرف سے لگائے گئے الزامات پر تبصرہ کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ بسواراج بومئی نے کہا، وہ (سنت) ایک عظیم سوامی جی ہیں۔ یہ بات ساری ریاست جانتی ہے۔ میں ان سے صرف یہ درخواست کرتا ہوں کہ مکمل تفصیلات دیں۔ کس نے ادائیگی کی، کس مقصد کے لیے ادائیگی کی گئی اور کس کو ادائیگی کی گئی۔ ہم ضرور تحقیقات کریں گے اور معاملے کی گہرائی میں جائیں گے۔ ہم ان کے الزام کو بہت سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔
سنت کے اس الزام نے اپوزیشن کانگریس کو حکمراں بی جے پی کو نشانہ بنانے کا موقع فراہم کیا ہے۔
سابق وزیر اعلیٰ سدارامیا نے کہا، یہ شرم کی بات ہے کہ بی جے پی، جو خود کو مذہب کا محافظ کہتی ہے، مٹھوں اور مندروں کے لیے منظور شدہ گرانٹ میں 30 فیصد کمیشن کھا رہی ہے۔
بی جے پی حکومت کو ’40 فیصد کمیشن والی حکومت’ کہنے والے
کانگریس لیڈر نے حیرت کا اظہار کیا کہ 10 فیصد کی ‘رعایت’ کیوں ہے اور انہوں نےبی جے پی حکومت سے کہا کہ وہ مندروں اور مٹھوں سے 30 فیصد کمیشن مانگنے تک محدود نہ رہے۔
سدارامیا نے کہا، جب آپ بھگوان سے کمیشن لیتے ہیں تو آپ کا ‘دھرم رکشا’ (مذہب کی حفاظت) کیسا ہے؟
انہوں نے اتوار کو بی جے پی ایگزیکٹو کمیٹی کی میٹنگ کے دوران ہوساپیٹ میں ان کے بیان کے لیے وزیر اعلیٰ بومئی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا، جہاں انہوں نے کہا تھا کہ بی جے پی کانگریس پارٹی کی بدعنوانی کو عوام کے سامنے بے نقاب کرے گی۔
سدارامیا نے چیف منسٹر کو چیلنج کرتے ہوئے کہا، خالی شور نہ مچائیں کہ کانگریس کے دور حکومت کے دوران آپ (بومئی) کے پاس بدعنوانی کے ثبوت ہیں۔ دستاویز جاری کریں اور پھر بات کریں۔
کرناٹک میں مٹھوں اور مندروں کے لیے گرانٹ کی تقسیم کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یکے بعد دیگرے حکومتیں مٹھوں کو ان کے مذہبی اور سماجی کاموں کو انجام دینے کے لیے فنڈز جاری کرتی رہی ہیں۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)