مشتاق احمد یوسفی : چھٹتی نہیں منہ سے یہ ’ کافی‘ لگی ہوئی…

دنیا میں اگر‌کوئی ایسی شے ہے جسے آپ با محاورہ اردو میں بیک وقت کھا اور پی سکتے ہیں تو یہی ستو اور فالودہ ہے جو ٹھوس غذا اور ٹھنڈے شربت کے درمیان نا قابلِ بیان سمجھوتہ ہے۔ The post مشتاق احمد یوسفی : چھٹتی نہیں منہ سے یہ ’ کافی‘ لگی ہوئی… appeared first on The Wire - Urdu.

دنیا میں اگر‌کوئی ایسی شے ہے جسے آپ با محاورہ اردو میں بیک وقت کھا اور پی سکتے ہیں تو یہی ستو اور فالودہ ہے جو ٹھوس غذا اور ٹھنڈے شربت کے درمیان نا قابلِ بیان سمجھوتہ ہے۔

فوٹو: روزنامہ دنیا

فوٹو: روزنامہ دنیا

میں ‌نے سوال کیا؛آپ کافی کیوں ‌پیتے ہیں ؟

انھوں نے جواب دیا؛آپ کیوں نہیں پیتے ؟

مجھے اس میں سگار کی سی بو آتی ہے۔

اگر آپ کا اشارہ اس کی سوندھی سوندھی خوشبو کی طرف ہے تو یہ آپ کی قوتِ شامہ کی کوتاہی ہے۔

گو کہ ان کا اشارہ صریحاً میری ناک کی طرف تھا، تاہم رفع شر کی خاطر میں ‌نے کہا؛تھوڑی دیر کے لیے یہ مان لیتا ہوں کہ کافی میں سے واقعی بھینی بھینی مہک آتی ہے۔ مگر یہ کہاں کی منطق ہے کہ جو چیز ناک کو پسند ہو وہ حلق میں انڈیل لی جائے۔ اگر ایسا ہی ہے تو کافی کا عطر کیوں نہ کشید کیا جائے تاکہ ادبی محفلوں میں ایک دوسرے کے لگایا کریں۔

تڑپ کر بولے ؛صاحب!میں ماکولات میں معقولات کا دخل جائز نہیں سمجھتا، تاوقتیکہ اس گھپلے کی اصل وجہ تلفظ کی مجبوری نہ ہو-کافی کی مہک سے لطف اندوز ہونے کے لیے ایک تربیت یافتہ ذوق کی ضرورت ہے۔ یہی سوندھا پن لگی ہوئی کھیر اور دھُنگارے ہوئے رائتہ میں ہوتا ہے۔

میں نے معذرت کی؛کھُرچن اور دھُنگار دونوں سے مجھے متلی ہوتی ہے۔

فرمایا؛تعجب ہے !یوپی میں تو شرفا بڑی رغبت سے کھاتے ہیں۔

میں نے اسی بنا پر ہندوستان چھوڑا۔

چراندے ہو کر کہنے لگے ؛آپ قائل ہو جاتے ہیں تو کج بحثی کرنے لگتے ہیں۔

جواباً عرض کیا؛گرم ممالک میں بحث کا آغاز صحیح معنوں میں ‌قائل ہونے کے بعد  ہی ہوتا ہے۔ دانستہ دل آزاری ہمارے مشرب میں گناہ ہے۔ لہٰذا ہم اپنی اصل رائے کا اظہار صرف نشہ اور غصہ کے عالم میں ‌کرتے ہیں۔ خیر،یہ تو جملہ معترضہ تھا، لیکن اگر یہ سچ ہے کہ کافی خوش ذائقہ ہوتی ہے تو کسی بچے کو پلا کر اس کی صورت دیکھ لیجئے۔

جھلا کر بولے ؛آپ بحث میں معصوم بچوں کو کیوں گھسیٹتے ہیں ؟

میں بھی الجھ گیا؛آپ ہمیشہ بچوں سے پہلے لفظ معصوم کیوں لگاتے ہیں ؟ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ کچھ بچے گنہگار بھی ہوتے ہیں ؟ خیر، آپ کو بچوں پر اعتراض ہے تو بلی کو لیجئے۔

بلی ہی کیوں ؟ بکری کیوں نہیں ؟وہ سچ مُچ مچلنے لگے۔

میں نے سمجھایا؛بلی اس لئے کہ جہاں تک پینے کی چیزوں کا تعلق ہے، بچے اور بلیاں بُرے بھلے کی کہیں بہتر تمیز رکھتے ہیں۔

ارشاد ہوا ؛کل کو آپ یہ کہیں ‌گے کہ چونکہ بچوں اور بلیوں کو پکے گانے پسند نہیں آسکتے اس لیے وہ بھی لغو ہیں۔

میں نے انہیں یقین دلایا؛میں ہرگز یہ نہیں کہہ سکتا۔ پکے راگ انھیں ‌کی ایجاد ہیں۔ آپ نے بچوں کا رونا اور بلیوں کا لڑنا…

بات کاٹ کر بولے ؛بہرحال ثقافتی مسائل کا فیصلہ ہم بچوں اور بلیوں ‌پر نہیں چھوڑ سکتے۔

آپ کو یقین آئے یا نہ آئے، مگر یہ واقعہ ہے کہ جب بھی میں نے کافی کے بارے میں استصوابِ رائے عامہ کیا اس کا انجام اسی قسم کا ہوا۔ شائقین میرے سوال کا جواب دینے کی بجائے اُلٹی جرح کرنے لگتے ہیں۔ اب میں اسی نتیجے پر پہنچا ہوں ‌کہ کافی اور کلاسیکی موسیقی کے بارے میں استفسارِ رائے عامہ کرنا بڑی ناعاقبت اندیشی ہے۔ یہ بالکل ایسی ہی بد مذاقی ہے جیسے کسی نیک مرد کی آمدنی یا خوب صورت عورت کی عمر دریافت کرنا (اس کا مطلب یہ نہیں کہ نیک مرد کی عمر اور خوب صورت عورت کی آمدنی دریافت کرنا خطرے سے خالی ہے )زندگی میں صرف ایک شخص ملا جو واقعی کافی سے بیزار تھا۔ لیکن اس کی رائے اس لحاظ سے زیادہ قابلِ التفات نہیں کہ وہ ایک مشہور کافی ہاؤس کا مالک نکلا۔

ایک صاحب تو اپنی پسند کے جواز میں ‌صرف یہ کہہ کر چپ ہو گئے کہ

چھٹتی نہیں منہ سے یہ کافی لگی ہوئی

میں ‌نے وضاحت چاہی تو کہنے لگے؛دراصل یہ عادت کی بات ہے۔ یہ کم بخت کافی بھی روایتی چنے اور ڈومنی کی طرح‌ایک دفعہ منہ سے لگنے کے بعد  چھڑائے نہیں چھوٹتی۔ ہے نا ؟

اس مقام پر مجھے اپنی معذوری کا اعتراف کرنا پڑا کہ بچپن ہی سے میری صحت خراب اور صحبت اچھی رہی۔ اس لئے ان دونوں ‌خوب صورت بلاؤں سے محفوظ رہا۔

بعض احباب تو اس سوال سے چراغ پا  ہو کر ذاتیات پر اتر آتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ وہ جھوٹے الزام لگاتے ہیں۔ ایمان کی بات ہے کہ جھوٹے الزام کو سمجھ دار آدمی نہایت اعتماد سے ہنس کر ٹال دیتا ہے مگر سچے الزام سے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے۔ اس ضمن میں جو متضاد باتیں سننا پڑتی ہیں، ان کی دو مثالیں پیش کرتا ہوں۔

ایک کرم فرما نے میری بیزاری کو محرومی پر محمول کرتے ہوئے فرمایا؛

‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌ہائے ‌کم‌بخت تو نے پی ہی نہیں

ان کی خدمت میں حلفیہ عرض کیا کہ دراصل بیسیوں گیلن پینے کے بعد  ہی یہ سوال کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ دوسرے صاحب نے ذرا کھل کر پوچھا کہ کافی سے چِڑ کی اصل وجہ معدے کے وہ داغ (Ulcers) تو نہیں جن کو میں ‌دو سال سے لیے پھر رہا ہوں اور جو کافی کی تیزابیت سے جل اٹھے ہیں۔

اور اس کے بعد  وہ مجھے نہایت تشخیص ناک نظروں سے گھورنے لگے۔

استصوابِ رائے عامہ کا حشر  آپ دیکھ چکے۔ اب مجھے اپنے تاثرات پیش کرنے کی اجازت دیجئے۔ میرا ایمان ہے کہ قدرت کے کارخانے میں کوئی شے بے کار نہیں۔ انسان غور و فکر کی عادت ڈالے (یا محض عادت ہی ڈال لے )تو ہر بری چیز میں کوئی نہ کوئی خوبی ضرور نکل آتی ہے۔ مثال کے طور پر حقہ ہی کو لیجئے۔ معتبر بزرگوں سے سنا ہے کہ حقہ پینے سے تفکرات پاس نہیں پھٹکتے۔ بلکہ میں تو یہ عرض‌ کروں گا کہ اگر تمباکو خراب ہو تو تفکرات ہی پر کیا موقوف ہے، کوئی بھی پاس نہیں پھٹکتا۔ اب دیگر ملکی اشیائے خورد و نوش پر نظر ڈالیے۔ مرچیں کھانے کا ایک آسانی سے سمجھ آ جانے والا فائدہ یہ ہے کہ ان سے ہمارے مشرقی کھانوں کا اصل رنگ اور مزہ دب جاتا ہے۔ خمیرہ گاؤ زبان اس لیے کھاتے ہیں کہ بغیر راشن کارڈ کے شکر حاصل کرنے کا یہی ایک جائز طریقہ ہے۔ جوشاندہ اس لیے گوارا ہے کہ اس سے نہ صرف ایک ملکی صنعت کو فروغ ہوتا ہے بلکہ نفسِ امارہ کو مارنے میں ‌بھی مدد ملتی ہے۔ شلغم اس لیے زہر مار کرتے ہیں کہ ان میں وٹامن ہوتا ہے۔ لیکن جدید طبی ریسرچ نے ثابت کر دیا ہے کہ کافی میں سوائے کافی کے کچھ نہیں ہوتا۔ اہل ذوق کے نزدیک یہی اس کی خوبی ہے۔

فوٹو : سوشل میڈیا

فوٹو : سوشل میڈیا

معلوم نہیں کہ کافی کیوں، کب اور کس مردم آزار نے دریافت کی۔ لیکن یہ بات وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہو‌ں کہ یونانیوں کو اس کا علم نہیں تھا۔ اگر انھیں ذرا بھی علم ہوتا تو چرائتہ کی طرح یہ بھی یونانی طب کا جزوِ اعظم ہوتی۔ اس قیاس کو اس امر سے مزید تقویت پہنچتی ہے کہ قصبوں میں کافی کی بڑھتی ہوئی کھپت کی غالباً ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عطائیوں نے “اللہ شافی اللہ کافی” کہہ کر مؤخر الذکر کا سفوف اپنے نسخوں میں لکھنا شروع کر دیا ہے۔ زمانہ قدیم میں اس قسم کی جڑی بوٹیوں کا استعمال عداوت اور عقدِ ثانی کے لیے مخصوص تھا۔ چونکہ آج کل ان دونوں باتوں کو معیوب خیال کیا جاتا ہے، اس لیے صرف اظہارِ خلوصِ باہمی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

سنا ہے کہ چائے کے باغات بڑے خوبصورت ہوتے ہیں۔ یہ بات یوں بھی سچ معلوم ہوتی ہے کہ چائے اگر کھیتوں میں پیدا ہوتی تو ایشیائی ممالک میں اتنی افراط سے نہیں ملتی بلکہ غلہ کی طرح غیر ممالک سے درآمد کی جاتی۔ میری معلوماتِ عامہ محدود ہیں مگر قیاس یہی کہتا ہے کہ کافی بھی زمین ہی سے اگتی ہو گی۔ کیونکہ اس کا شمار ان نعمتوں میں نہیں جو اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں پر آسمان سے براہِ راست نازل کرتا ہے۔ تاہم میری چشم تخئیل کو کسی طور یہ باور نہیں آتا کہ کافی باغوں کی پیداوار ہو سکتی ہے۔ اور اگر کسی ملک کے باغوں میں یہ چیز پیدا ہوتی ہے تو اللہ جانے وہاں کے جنگلوں میں ‌کیا اُگتا ہو گا؟ ایسے اربابِ ذوق کی کمی نہیں جنھیں کافی اس وجہ سے عزیز ہے کہ یہ ہمارے ملک میں پیدا نہیں ہوتی۔ مجھ سے پوچھئے تو مجھے اپنا ملک اسی لیے اور بھی عزیز ہے کہ یہاں کافی پیدا نہیں ہوتی۔

میں مشروبات کا پارکھ نہیں ہوں۔ لہٰذا مشروب کے اچھے یا برے ہونے کا اندازہ ان اثرات سے لگاتا ہوں جو اسے پینے کے بعد  رونما ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے میں نے کافی کو شراب سے بدرجہا بدتر پایا۔ میں نے دیکھا ہے کہ شراب پی کر سنجیدہ حضرات بے حد غیر سنجیدہ گفتگو کرنے لگتے ہیں جو بے حد جاندار ہوتی ہے۔ برخلاف اس کے کافی پی کر غیر سنجیدہ لوگ انتہائی سنجیدہ گفتگو کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مجھے سنجیدگی سے چڑ نہیں بلکہ عشق ہے۔ اسی لیے میں ‌سنجیدہ آدمی کی مسخرگی برداشت کر لیتا ہوں، مگر مسخرے کی سنجیدگی کا روادار نہیں۔ شراب کے نشے میں لوگ بلا وجہ جھوٹ نہیں بولتے۔ کافی پی کر لوگ بلا وجہ سچ نہیں بولتے۔ شراب پی کر آدمی اپنا غم اوروں کو دے دیتا ہے مگر کافی پینے والے اوروں کے فرضی غم اپنا لیتے ہیں۔ کافی پی کر حلیف بھی حریف بن جاتے ہیں۔

یہاں ‌مجھے کافی سے اپنی بیزاری کا اظہار مقصود ہے۔ لیکن اگر کسی صاحب کو یہ سطور شراب کا اشتہار معلوم ہوں تو اسے زبان و بیان کا عجز تصور فرمائیں۔ کافی کے طرفدار اکثر یہ کہتے ہیں کہ یہ بے نشے کی پیالی ہے۔ بالفرضِ محال یہ گزارشِ احوال واقعی یا دعویٰ ہے تو مجھے ان سے دلی ہمدردی ہے۔ مگر اتنے کم داموں میں آخر وہ اور کیا چاہتے ہیں ؟

کافی ہاؤس کی شام کا کیا کہنا! فضا میں ہر طرف ذہنی کہرا چھایا ہوا ہے۔ جس کو سرمایہ دار طبقہ اور طلبا سرخ سویرا سمجھ کر ڈرتے اور ڈراتے ہیں۔ شور و شغب کا یہ عالم کہ اپنی آواز تک نہیں سنائی دیتی اور بار بار دوسروں سے پوچھنا پڑتا ہے کہ میں نے کیا کہا۔ ہر میز پر تشنگانِ علم کافی پی رہے ہیں۔ اور غروبِ آفتاب سے غرارے تک، یا عوام اور آم کے خواص پر بقراطی لہجے میں بحث کر رہے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے کافی اپنا رنگ دکھاتی ہے اور تمام بنی نوعِ انسان کو ایک برادری سمجھنے والے تھوڑی دیر بعد  ایک دوسرے کی ولدیت کے بارے میں ‌اپنے شکوک کا سلیس اردو میں اظہار کرنے لگتے ہیں، جس سے بیروں کو کلیتہً اتفاق ہوتا ہے۔ لوگ روٹھ کر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ لیکن یہ سوچ کر بیٹھ جاتے ہیں کہ؛

اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ گھر جائیں گے

گھر میں بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے

کافی پی پی کر سماج کو کوسنے والے ایک اٹلکچوئیل نے مجھے بتایا کہ کافی سے دل کا کنول کھل جاتا ہے اور آدمی چہکنے لگتا ہے۔ میں ‌بھی اس رائے سے متفق ہوں۔ کوئی معقول آدمی یہ سیال پی کر اپنا منہ نہیں ‌بند رکھ سکتا۔ ان کا یہ دعویٰ بھی غلط نہیں ‌معلوم ہوتا کہ کافی پینے سے بدن میں چستی آتی ہے۔ جبھی تو لوگ دوڑ دوڑ کر کافی ہاؤس جاتے ہیں اور گھنٹوں وہیں بیٹھے رہتے ہیں۔

بہت دیر تک وہ یہ سمجھانے کی کوشش کرتے رہے کہ کافی نہایت مفرح ہے اور دماغ کو روشن کرتی ہے۔ اس کے ثبوت میں انہوں ‌نے یہ مثال دی کہ ؛ابھی کل ہی کا واقعہ ہے۔ میں دفترسے گھر بے حد نڈھال پہنچا۔ بیگم بڑی مزاج ہیں۔ فوراً کافی کا TEA POT لا کر سامنے رکھ دیا۔

میں ذرا چکرایا؛پھر کیا ہوا؟میں نے بڑے اشتیاق سے پوچھا۔

میں نے دودھ دان سے کریم نکالی؛ انھوں نے جواب دیا۔

میں نے پوچھا ؛شکر دان سے کیا نکلا؟

فرمایا؛شکر نکلی، اور کیا ہاتھی گھوڑے نکلتے ؟

مجھے غصہ تو بہت آیا مگر کافی کا سا گھونٹ پی کر رہ گیا۔

عمدہ کافی بنانا بھی کیمیا گری سے کم نہیں۔ یہ اس لیے کہہ رہا ہوں ‌کہ دونوں ‌کے متعلق یہی سننے میں آیا ہے کہ بس ایک آنچ کی کسر رہ گئی۔ ہر ایک کافی ہاؤس اور خاندان کا ایک مخصوص نسخہ ہوتا ہے جو سینہ بہ سینہ، حلق بہ حلق منتقل ہوتا رہتا ہے۔مشرقی افریقہ کے اس انگریز افسر کا نسخہ تو سبھی کو معلوم ہے جس کی مزے دارکافی کی سارے ضلع میں دھوم تھی۔ ایک دن اس نے ایک نہایت پر تکلف دعوت کی جس میں اس کے حبشی خانساماں نے بہت ہی خوش ذائقہ کافی بنائی۔ انگریز نے بہ نظر حوصلہ افزائی اس کو معزز مہمانوں ‌کے سامنے طلب کیا اور کافی بنانے کی ترکیب دریافت پوچھی۔

حبشی نے جواب دیا؛بہت ہی سہل طریقہ ہے۔ میں بہت سا کھولتا ہوا پانی اور دودھ لیتا ہوں۔ پھر اس میں ‌کافی ملا کر دم کرتا ہوں۔

لیکن اسے حل کیسے کرتے ہو۔ بہت مہین چھنی ہوتی ہے۔

حضور کے موزے میں چھانتا ہوں۔

کیا مطلب؟ کیا تم میرے قیمتی ریشمی موزے استعمال کرتے ہو؟؛آقا نے غضب‌ ناک ہو کر پوچھا۔

خانساماں ‌سہم گیا؛نہیں سرکار!میں آپ کے صاف موزے کبھی استعمال نہیں کرتا۔

سچ عرض کرتا ہوں ‌کہ میں کافی کی تندی اور تلخی سے ذرا نہیں گھبراتا۔ بچپن ہی سے یونانی دواؤں کا عادی رہا ہوں اور قوتِ برداشت اتنی بڑھ گئی ہے کہ کڑوی سے کڑوی

گولیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا!

لیکن کڑواہٹ اور مٹھاس کی آمیزش سے جو معتدل قوام بنتا ہے وہ میری برداشت سے باہر ہے۔ میری انتہا پسند طبیعت اس میٹھے زہر کی تاب نہیں لا سکتی۔ لیکن دقت یہ آن پڑتی ہے کہ میں میزبان کے اصرار کو عداوت اور وہ میرے انکار کو تکلف پر محمول کرتے ہیں۔

لہٰذا جب وہ میرے کپ میں شکر ڈالتے وقت اخلاقاً پوچھتے ہیں؛

ایک چمچہ یادو؟

تو مجبوراً یہی گزارش کرتا ہوں ‌کہ میرے لیے شکر دان میں کافی کے دو چمچے ڈال دیجئے۔

صاف ہی کیوں نہ کہہ دوں کہ جہاں ‌تک اشیائے خورد و نوش کا تعلق ہے، میں ‌تہذیب حواس کا قائل نہیں۔ میں ‌یہ فوری فیصلہ ذہن کے بجائے زبان پر چھوڑنا پسند کرتا ہوں۔ پہلی نظر میں جو محبت ہو جاتی ہے، اس میں بالعموم نیت کا فتور کارفرما ہوتا ہے۔ لیکن کھانے پینے کے معاملے میں ‌میرا یہ نظریہ ہے کہ پہلا ہی لقمہ یا گھونٹ فیصلہ کن ہوتا ہے۔ بد ذائقہ کھانے کی عادت کو ذوق میں تبدیل کرنے کے لیے بڑا پِتا مارنا پڑتا ہے۔ مگر میں اس سلسلہ میں برسوں ‌تلخیِ کام و دہن گوارا کرنے کا حامی نہیں، تاوقتیکہ اس میں بیوی کا اصرار یا گرہستی  مجبوریاں شامل نہ ہوں۔ بنا بریں، میں ہر کافی پینے والے کو جنتی سمجھتا ہوں۔ میرا عقیدہ ہے کہ جو لوگ عمر بھر ہنسی خوشی یہ عذاب جھیلتے رہے، ان پر دوزخ اور حمیم حرام ہیں۔

Yusufi_Coffee

کافی امریکہ کا قومی مشروب ہے۔ میں اب بحث میں نہیں الجھنا چاہتا کہ امریکی کلچر کافی کے زور سے پھیلا،یا کافی کلچر کے زور سے رائج ہوئی۔ یہ بعینہ ایسا سوال ہے جیسے کوئی بے ادب یہ پوچھ بیٹھے کہ “غبارِ خاطر”چائے کی وجہ سے مقبول ہوئی یا چائے “غبارِ خاطر”کے باعث؟ ایک صاحب نے مجھے لا جواب کرنے کی خاطر یہ دلیل پیش کی امریکہ میں تو کافی اس قدر عام ہے کہ جیل میں ‌بھی پلائی جاتی ہے۔ عرض کیا کہ جب خود قیدی اس پر احتجاج نہیں کرتے تو ہمیں ‌کیا پڑی کہ وکالت کریں۔ پاکستانی جیلوں ‌میں ‌بھی قیدیوں کے ساتھ یہ سلوک روا رکھا جائے تو انسدادِ جرائم میں کافی مدد ملے گی۔ پھر انھوں نے بتایا کہ وہاں لا علاج مریضوں کو بشاش رکھنے کی غرض سے کافی پلائی جاتی ہے۔ کافی کے سریع التاثیر ہونے میں کیا کلام ہے۔ میرا خیال ہے کہ دمِ نزع حلق میں پانی چوانے کے بجائے کافی کے دو چار قطرے ٹپکا دیے جائیں تو مریض کا دم آسانی سے نکل جائے۔ بخدا، مجھے تو اس تجویز پر بھی اعتراض نہ ہو گا کہ گناہ گاروں کی فاتحہ کافی پر دلائی جائے۔

سنا ہے کہ بعض روادار افریقی قبائل کھانے کے معاملے میں جانور اور انسان کے گوشت کو مساوی درجہ دیتے تھے۔ لیکن جہاں ‌تک پینے کی چیزوں کا تعلق ہے، ہم نے ان کے بارے میں کوئی بری بات نہیں ‌سنی۔ مگر ہم تو چینیوں کی رچی ہوئی، حسِ شامہ کی داد دیتے ہیں کہ نہ منگول حکمرانوں کا جبر و تشدد انہیں پنیر کھانے پر مجبور کر سکا اور نہ  امریکہ انہیں کافی پینے پر آمادہ کر سکا۔تاریخ شاہد ہے کہ ان کی نفاست نے سخت قحط کے زمانے میں ‌بھی فاقے اور اپنے فلسفے کو پنیر اور کافی پر ترجیح‌دی۔

ہمارا منشا امریکی یا چینی عادات پر نکتہ چینی نہیں۔ ہر آزاد قوم کا یہ بنیادی حق ہے کہ وہ اپنے منہ اور معدے کے ساتھ جیساسلوک چاہے، بے روک ٹوک کرے۔ اس کے علاوہ جب دوسری قومیں ہماری رساول، نہاری اور فالودے کا مذاق نہیں اڑاتیں تو ہم دخل در ماکولات کرنے والے کون؟ بات دراصل یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں ‌پیاس بجھانے کے لیے پانی کے علاوہ ہر رقیق شے استعمال ہوتی ہے۔ سنا ہے کہ جرمنی (جہاں قومی مشروب بیئر ہے )ڈاکٹر بدرجۂ مجبوری بہت ہی تندرست و توانا افراد کو خالص پانی پینے کی اجازت دیتے ہیں، لیکن جن کو آب نوشی کا چسکا لگ جاتا ہے، وہ راتوں ‌کو چھپ چھپ کر پانی پیتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ پیرس کے کیفوں ‌میں ‌رنگین مزاج فن کار بورژوا طبقہ کو چڑانے کی غرض‌سے کھلم کھلا پانی پیا کرتے تھے۔

مشرقی اور مغربی مشروبات کا موازنہ کرنے سے پہلے یہ بنیادی اصول ذہن نشین کر لینا ازبس ضروری ہے کہ ہمارے یہاں ‌پینے کی چیزوں میں کھانے کی خصوصیات ہوتی ہیں۔ اپنے قدیم مشروبات مثلاً یخنی، ستو اور فالودے پر نظر ڈالئے تو یہ فرق واضح‌ہو جاتا ہے۔ ستو اور فالودے کو خالصتاً لغوی معنوں ‌میں ‌آپ نہ کھا سکتے ہیں اور نہ پی سکتے ہیں۔ بلکہ دنیا میں اگر‌کوئی ایسی شے ہے جسے آپ با محاورہ اردو میں بیک وقت کھا اور پی سکتے ہیں تو یہی ستو اور فالودہ ہے جو ٹھوس غذا اور ٹھنڈے شربت کے درمیان نا قابلِ بیان سمجھوتہ ہے، لیکن آج کل ان مشروبات کا استعمال خاص خاص تقریبوں میں ‌ہی کیا جاتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اب ہم نے عداوت نکالنے کا ایک اور مہذب طریقہ اختیار کیا ہے۔

آپ کے ذہن میں ‌خدانخواستہ یہ شبہ نہ پیدا ہو گیا ہو کہ راقم السطور کافی کے مقابلے میں چائے کا طرف دار ہے تو مضمون ختم کرنے سے پہلے اس غلط فہمی کا ازالہ کرنا از بس ضروری سمجھتا ہوں۔ میں ‌کافی سے اس لیے بیزار نہیں ہوں ‌کہ مجھے چائے عزیز ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ کافی کا جلا چائے بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے؛

ایک ہم ہیں کہ ہوئے ایسے پشیمان کہ بس

ایک وہ ہیں ‌کہ جنہیں ‌چائے کے ارماں ‌ہوں ‌گے

(بحوالہ : چراغ تلے ،1984،حسامی بک ڈپو،حیدرآباد)

The post مشتاق احمد یوسفی : چھٹتی نہیں منہ سے یہ ’ کافی‘ لگی ہوئی… appeared first on The Wire - Urdu.

Next Article

کنڑ ادیبہ بانو مشتاق کے افسانوں کے مجموعہ ’ہارٹ لیمپ‘ کو انٹرنیشنل بکر پرائز

کنڑادیبہ بانو مشتاق کی کہانیوں کے مجموعہ ‘ہارٹ لیمپ’ کو بین الاقوامی بکر پرائز سے نوازا گیاہے۔ 12 کہانیوں کے اس مجموعہ کا کنڑ سے انگریزی میں ترجمہ دیپا بھاستی نے کیا ہے۔

لندن میں منعقدتقریب میں میکس پورٹر، جیوری چیئر، بین الاقوامی بکر پرائز 2025 کی فاتحین بانو مشتاق اور دیپا بھاستی کے ہمراہ۔ (تصویر بہ شکریہ: ڈیوڈ پیری، بکر پرائز فاؤنڈیشن)

لندن میں منعقدتقریب میں میکس پورٹر، جیوری چیئر، بین الاقوامی بکر پرائز 2025 کی فاتحین بانو مشتاق اور دیپا بھاستی کے ہمراہ۔ (تصویر بہ شکریہ: ڈیوڈ پیری، بکر پرائز فاؤنڈیشن)

نئی دہلی: کنڑ زبان کی ادیبہ بانو مشتاق کے افسانوں کے مجموعہ ‘ہارٹ لیمپ’ کو بین الاقوامی بکر پرائز سے نوازا گیا ہے ۔ 12 کہانیوں کے اس مجموعہ کا کنڑ سے انگریزی میں ترجمہ دیپا بھاستی نے کیا ہے۔

بانو مشتاق ادیبہ ہونے کے علاوہ خواتین کے حقوق کی علمبردار اور وکیل ہیں۔ وہ اپنی تخلیقات کے ذریعے عام خواتین،  بالخصوص مسلم خواتین کے مسائل کو سامنے لاتی ہیں۔

بکر پرائز کی آفیشیل ویب سائٹ کے مطابق ، انہوں نے کہا،’ان خواتین کی تکلیف،اذیت  اور بے بس زندگی مجھ پر گہرا جذباتی اثر ڈالتی ہے۔ میں کسی بڑی تحقیق میں نہیں پڑتی- میرا دل  ہی میرےمطالعہ کا شعبہ ہے۔’

یہ کتاب بین الاقوامی بکر پرائز جیتنے والی کنڑ زبان سے ترجمہ ہونے والی پہلی کتاب ہے۔ اس کے علاوہ، یہ افسانوں کا پہلا مجموعہ ہے جسے یہ اعزاز حاصل ہوا ہے۔

کرناٹک ساہتیہ اکیڈمی اور دان چنتامنی اتیمبے ایوارڈزکی فاتح بانو مشتاق کی تخلیقات کا انگریزی میں ترجمہ نہیں ہوا تھا، یہ پہلا موقع تھا جب دیپا بھاستی نے ہارٹ لیمپ کے ذریعے اس کا آغاز کیا۔

دیپا بھاستی کرناٹک کے کوڈاگو ضلع کی رہنے والی ادیبہ اور مترجم ہیں۔ ان کے مطبوعہ  تراجم میں کوٹا شیورام کارنتھ کا ایک ناول اور کوڈگینا گوری اماں کی مختصر کہانیوں کا مجموعہ شامل ہے۔

بھاستی نے بکر ویب سائٹ کو بتایا،’بانو کی کہانیوں کے ساتھ میں نے پہلے ان کے تمام مطبوعہ افسانے پڑھے اور پھر ہارٹ لیمپ میں شامل کیےجانے والے افسانوں کا انتخاب کیا ۔مجھے یہ آزادی ملی کہ میں جن کہانیوں پر کام کرنا چاہوں کر سکتی ہوں۔’

بین الاقوامی بکر پرائز 2025 کے ججوں میں اینٹون ہر، بیتھ آرٹن، کیلیب فیمی، میکس پورٹر اور ثنا گوئل شامل تھے۔

ان کے مطابق، ‘یہ کہانیاں اقتدار کے سامنے سچ بولتی ہیں اور ہمعصر معاشرے میں ذات، طبقے اور مذہب کی گہری تقسیم کو بے نقاب کرتی ہیں۔ یہ بدعنوانی، ظلم، ناانصافی اور تشدد کی شکل میں اندر چھپی غلاظت کو باہر لاتی ہیں۔ پھر بھی، ہارٹ لیمپ کی روح ہمیں کہانی سنانے کی ٹھوس روایات، ناقابل فراموش کرداروں، جاندار مکالمے، سطح کے نیچے پیدا ہونے والے تناؤ اور ہر موڑ پر حیران کن پہلوؤں کے توسط سےپڑھنے کی حقیقی لذت سے ہمکنار کرتی ہے۔’

واضح ہو کہ بکر پرائز ان ناولوں کو دیا جاتا ہے جو اصل میں انگریزی میں لکھے جاتے ہیں، جبکہ بین الاقوامی بکر پرائز فکشن کی ان کتابوں کو دیا جاتا ہے جن کا انگریزی میں دوسری زبان سے ترجمہ کیا جاتا ہے۔

بین الاقوامی بکر پرائز جیتنے والی یہ کتاب ہندوستانی زبان میں دوسری کتاب ہے۔ اس سے پہلے گیتانجلی شری کی کتاب ’ریت سمادھی‘ کو یہ اعزاز حاصل ہوا تھا، جس کا انگریزی میں ترجمہ ڈیزی راک ویل نے  ’ ٹومب آف سینڈ‘ کے نام سے کیا تھا۔

Next Article

’سنتوش فلم پر پابندی افسوسناک، کچھ لوگوں کی سوچ کی وجہ سے یہ عوام تک نہیں پہنچ پا رہی‘

ہندوستان میں سینسر بورڈ نے عالمی شہرت یافتہ فلمساز سندھیا سوری کی فلم ‘سنتوش’ کی ریلیز کو روک دیا کیونکہ اسے لگا کہ یہ پولیس کی منفی امیج کی عکاسی کرتی ہے۔ فلم میں مرکزی کردار اداکارہ شہانا گوسوامی نے ادا کیا ہے، جن کے کام کو خوب پذیرائی ملی ہے۔ ان سے انکت راج کی بات چیت۔

Next Article

موت کی کتاب: ایک حقیقی ادبی تخلیق

فرانسیسی نقاد پیترک ابراہم کا تبصرہ: خالد جاوید کا ناول ’موت کی کتاب‘ اپنی گہری تاریکی اور معنوی تہہ داری کے باعث ایک عظیم تخلیقی شہ پارہ ہے۔ یہ ہمیں ہماری اپنی داخلی تاریکیوں سے روشناس کراتا ہے اور ہمیں اس بات کے لیے مجبور کرتا ہے کہ اس کا مطالعہ بار بار کیا جائے۔

موت کی کتاب، فوٹو بہ شکریہ: متعلقہ پبلی کیشن

موت کی کتاب، فوٹو بہ شکریہ: متعلقہ پبلی کیشن


پیترک ابراہم کا یہ تبصرہ فرانسیسی زبان میں شائع ہوا ہے، محمد ریحان کے شکریے کے ساتھ یہاں اس کا اردو ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے۔(ادارہ)


یہ یقیناََ ایک خوش آئند خبر ہے کہ معاصر ہندوستانی ادیب پروفیسر خالد جاوید کا ناول ’موت کی کتاب‘ ایڈیشن بنیان کے زیرِ اہتمام شائع ہو کر منصۂ شہود پر آ گیا ہے، بالخصوص اس پس منظر میں کہ فرانسیسی زبان میں اردو ادب کے تراجم خال خال ہی نظر آتے ہیں۔

اردو ادب ہمارے لیے ایک غیر دریافت شدہ براعظم کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس شاندار اقدام کے لیے ڈیوڈ ایمے کو ہم مبارک باد دیتے ہیں اور روزن-آلس ویئے کو ان کے غیر معمولی اور معیاری ترجمے پر خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔

’موت کی کتاب‘ مختصر ہونے کے باوجود اپنی گہری تاریکی اور معنوی تہہ داری کے باعث ایک عظیم تخلیقی شہ پارہ ہے۔

یہ ایک ایسا ناول  ہے جو پہلی ہی قرأت میں ذہن و روح پر نقش ہو جاتا ہے، ہمیں ہماری اپنی داخلی تاریکیوں سے روشناس کراتا ہے اور ہمیں اس بات کے لیے مجبور کرتا ہے کہ اس کا مطالعہ بار بار کیا جائے۔

والٹر شیلر نامی شخص، جو سیوکاریگ فورٹ یونیورسٹی کے شعبۂ آثارِ قدیمہ سے وابستہ ہے، اپنی ’تمہید‘ (صفحہ 1-6) 2211 میں قلمبند کرتا ہے۔ اس میں وہ ایک ایسے مخطوطے کی دریافت کا ذکر کرتا ہے، جو ایک فراموش شدہ زبان میں تحریر تھا اور جسے سمجھنے میں بے حد دشواری پیش آئی تھی۔

یہ تحریر ’گرگٹہ تل ماس‘ کے کھنڈرات میں ملی تھی، جہاں تقریباً دو صدی قبل، اس قصبے کو ہائیڈرو الکٹرک ڈیم کی تعمیر کے لیے غرق آب کیے جانے سے پہلے، ایک ’پاگل خانہ‘ قائم تھا۔

اس کے بعد مسودے کے مصنف کا درد میں ڈوبا ہوا مگر ظرافت سے بھرپور یکطرفہ مکالمہ شروع ہوتا ہے۔ ہمیں اس کے عہد کا سراغ ملتا ہے، نہ ہی اس سرزمین کا جہاں اس نے اپنی زندگی بسر کی، اگرچہ ہمارا قیاس یہی کہتا ہے کہ وہ شمالی ہند کا باسی ہے۔

اس کردار کا وجود ایک ایسی داخلی اجنبیت کے احساس پر مبنی ہے جو اسے دنیا سے ہم آہنگ ہونے کی صلاحیت سے محروم رکھتا ہے۔

وہ موت کے خیال کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہےاور خودکشی کا آسیب کسی ناگزیر سائے کی مانند اس کے شعور پر سایہ فگن رہتا ہے۔ مگر اس کے لیے خودکشی محض ایک ترغیب، ایک خیال نہیں بلکہ ایک مجسم ہستی ہے، جو کبھی اس کا ساتھ نہیں چھوڑتی ہے۔

483527155_9483265428385970_8536707087862918278_n

یہ خود کشی پالتو گلہری کی شکل میں اس کی پتلون کی جیب میں جا بیٹھتی ہے۔ جب وہ افسردگی کے عالم میں چہل قدمی کرتا ہوا ریلوے لائن کے قریب پہنچتا ہے (صفحہ 19-23)، تو یہی خود کشی اسے مشورہ دیتی ہے کہ وہ خود کو ٹرین کے حوالے کر دے۔

کئی اشارے اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ وجودی اضطراب صرف بچپن کے دنوں تک محدود نہیں (صفحہ 43-46، 47-53، 54-59، 60-62)، بلکہ اس کی بازگشت پیدائش سے پہلے کی گھڑیوں میں بھی سنائی دیتی ہے (صفحہ 113-114)۔

تاہم، یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اگر کوئی ابتدائی دور کا صدمہ موجود ہے تو اس کی جڑیں کسی محض اتفاقی حادثے میں نہیں، بلکہ کسی گہری اور پیچیدہ حقیقت میں پیوست ہیں۔ اس پس منظر میں ’موت کی کتاب‘ کا علمی و فکری مطالعہ نہایت موزوں معلوم ہوتا ہے۔ میں اگلے صفحات پر اس پہلو پر مزید روشنی ڈالوں گا۔

راوی اپنی ماں کی موت کے بعد، جو مسلسل تشدد اور محرومیوں کے نتیجے میں واقع ہوتی ہے، شادی کر لیتا ہے، مگر اس کے دل میں باپ کے قتل کی خواہش اور دونوں کے مابین نفرت کی دیوار جوں کی توں قائم رہتی ہے۔

اس کی زندگی میں ایک معشوقہ بھی ہے، جس کی ہتھیلیاں زردی مائل اور آنکھیں ویران ہیں۔ وہ، اس کی بیوی کے برعکس، دل کی اتھاہ گہرائیوں سے اس سے محبت کرتی ہے، مگر اس کے ساتھ خوش نہیں ہے (صفحہ 16-18، 19-23، 24-25)۔

سنیما کی بات کو پس پشت ڈال دیں تو جدید ہندوستانی ادب عموماً جنسی موضوعات کے بیان میں جھجک کا مظاہرہ کرتا ہے، مگر خالد جاوید اپنے المناک کردار کے ازدواجی اور ناجائز تعلقات کو بڑی بے باکی کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔


یہ بھی پڑھیں: نعمت خانہ: سماجی مسائل کے بطن میں انسانی زندگی کے فلسفے کی تلاش …


ناول کا اختتام ایک جہنمی موسم (صفحہ 84-91، 92-103) پر ہوتا ہے، جہاں راوی خود کو ایک ایسی مایوسی میں قید کر لیتا ہے جس سے فرار ممکن نہیں، اور وہ نہایت منظم انداز میں اپنی ہی ذات سے گھن کھانے لگتا ہے۔ اس کے مکروہ اور بدنما خودبیانیہ پرغور کرنا دلچسپی سے خالی نہیں، جو اس کی گہری نفرت کی عکاسی کرتا ہے، بالکل ویسے ہی جیسے لوترے آموں (Lautréamont) کے اسلوب میں دکھائی دیتا ہے۔ کیا روزن-آلس ویئے اور ڈیوڈ ایمے کو اس بات کا علم ہے کہ خالد جاوید نے Les Chants de Maldoror کا مطالعہ کیا ہے اور کیا وہ اس سے متاثر ہوئے ہیں؟

لوترےآموں ’لے شوں‘ (IV, 5) میں لکھتا ہے؛

’میں غلیظ ہوں۔ جوئیں میرے جسم کو کھا رہی ہیں۔ سور مجھے دیکھ کر قے کر دیتے ہیں۔ کوڑھ کے زخموں کی پپڑیاں میری جلد سے اتر چکی ہیں، اور میرا جسم پیلے رنگ کے پیپ میں لت پت ہے۔‘

خالد جاوید اپنے ناول (صفحہ 87، 92) میں لکھتے ہیں؛

’میں نے جسم کا خیال رکھنا بالکل ہی چھوڑ دیا ۔ میں گندا اور غلیظ رہنے لگا۔ (…) زخم سے پیپ کی دوری ختم ہوتی جا رہی ہے۔ جلد ہی میں ایک قد آدم زخم کے اندر چلوں گا۔‘

راوی کا باپ اور اس کی بیوی اسے ایک پاگل خانے میں داخل کرانے کا فیصلہ کرتے ہیں (صفحہ 104-115)، ایک مشکل آزمائش، جس سے نجات اسے صرف اپنے والد کی موت کے بعد ہی ملتی ہے۔ رہائی کے بعد، وہ بارش میں اس پاگل خانے کی’سیاہ اور دیو ہیکل دیواروں‘ سے دور نکل جاتا ہے اور بالآخر بیکٹ کے کسی کردار کی مانند، کیچڑ سے بھرے ایک گڑھے میں پناہ لے لیتا ہے (صفحہ 118-124)۔

یہ کتاب ابواب کے بجائے’اوراق‘ میں منقسم ہے،کل انیس اوراق۔ بیسواں ورق(صفحہ 125) خالی رہتا ہے اور کتاب ایک پُراسرار جملے پر اس طرح ختم ہوتی ہے؛’لامحدود اور بیکراں زمانوں تک……‘ اور یہ جملہ، جیسا کہ خالد جاویدلکھتے ہیں (عرض مصنف، صفحہ i-ii) ، سنسکرت زبان کے ایک پراسرار حرف ’ری‘ (ऋ) کی جانب اشارہ کرتا ہے، جس کی دھاتو پر غور کریں تو اس کا مطلب ’پتھر پر خراشیں ڈالنا‘ یا ’مصنف اور اس کی تحریر کے درمیان کوئی دوئی یا دوری نہ باقی رہے‘ ہو سکتا ہے۔

اس میں نفسیاتی مریضوں کے ہسپتال، پاگل خانے کا ذکر ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں بیان کردہ واقعات پر کتنا اعتبار کرنا چاہیے۔ آخر ہم اس راوی کی باتوں پر کہاں تک یقین کریں؟ کیا یہ کسی کا ایک بے باک اعتراف ہے یا کسی دیوانے کی ڈائری؟

والٹر شیلر، جو خود کو تئیسویں صدی کا ماہرِ آثارِ قدیمہ ظاہر کرتا ہے، حقیقت میں وہی اس متن کا مصنف تو نہیں؟ کیا والٹر شیلر، اس کی ’سیوکاریگ فورٹ یونیورسٹی‘، اور اس کا دوست ’ژاں ہیوگو،جو ’گارساں دَ تاسی‘ کی نسل سے ہے اور اس مخطوطے کا مترجم بھی، کیاواقعی میں یہ سب کوئی حقیقی وجود رکھتے ہیں؟

یہ کوئی معنی نہیں رکھتا کہ اس میں کیا حقیقی ہے اور کیا نہیں۔ کیوں کہ یہ نہ تو کسی طبی معائنے کے لیے پیش کردہ’دستاویز‘ ہے، نہ ہی خودنوشت کہانی (جو ان دنوں فرانس میں بے حد مقبول ہے) اور نہ ہی کوئی ایسا سنسنی خیز افسانہ جس کی کہانی گھسے پٹے انداز میں بُنی گئی ہو۔ بلکہ یہ ایک حقیقی ادبی تخلیق ہے (یونانی مفہوم میں ایک نظم کے مترادف) جس کے سوالات کے جواب صرف اس کے بیانیے کے اندر ہی تلاش کیے جا سکتے ہیں۔


یہ بھی پڑھیں: ’میری ہر تحریر موت کی ایک کتاب ہے‘


اس ناول کا عنوان بھی اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ اس کی تعبیر کیسے کی جائے؟ اس حوالے سے کئی عبارتیں موجود ہیں جو اس کی تفہیم میں ہماری رہنمائی کرتی ہیں (صفحہ 89، 106، 115، 119)۔ ’موت کی کتاب‘شاید وہی کتاب ہے جس میں ’ہمارے گناہوں کا اندراج ہوگا‘ اور جو صرف اس وقت قابلِ مطالعہ ہوگی جب ہم خودفنا ہو چکے ہوں گے، یعنی اس وقت جب بہت دیر ہو چکی ہوگی۔

مگر اس سے بھی زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ اس کتاب کی ترتیب کئی جنم پہلے ہی مکمل ہو چکی تھی، کیونکہ اسے ’کرموں کے لگاتار بہتے ہوئے سنسکاروں نے گڑھا ہے‘، جن پر ہمارا ’کوئی اختیار‘ نہیں تھا۔’ (ہمارے) سارے اعمال اور (ہمارے) سارے گناہ (ہمارے) جنم لینے سے پہلے ہی(ہمارے) تعاقب میں ہیں۔‘

یہ مفروضہ اور بھی زیادہ حیرت انگیز ہو سکتا ہے جہاں غنوصی تعبیر از سر نو ابھر کر سامنے آتی ہے؛ کیا یہ کتاب خدا اور شیطان کی مشترکہ تخلیق نہیں،جس میں ’شیطان کے قلم کی سیاہی اڑنے والی نہیں‘ ہے؟ کیا خدااور شیطان (خدا اپنے ہی کھیل میں شیطان کی شمولیت قبول کرنے پر مجبور ہے) مل کر ہماری زندگیاں لکھ رہے ہیں، ہماری بدبختی کی، اور وہ بھی ہماری لاعلمی میں؟

مجھے امید ہے کہ میں یہ واضح کر نے میں کامیاب ہوں کہ خالد جاوید کا پہلا ناول (’موت کی کتاب‘ عربی میں لفظ ’کتاب‘ ’مقدس کتاب‘ کے معنی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے) فکر و معنی کے بے شمار در وا کرتا ہے، کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچتا اور ناول کا یہی پہلو اسے مسحور کن بنا دیتا ہے۔

سال 2025 کا Le Prix Médicis étranger انعام، جو غیرانگریزی ہندوستانی ادب کو عالمی توجہ دلانے کا مؤثر ذریعہ بھی بن سکتا ہے، اگر اس ناول کو دیا جائے تو کسی طور پر غیر مناسب نہ ہوگا۔

(پیترک ابراہم افرانسیسی تنقیدنگار، صحافی اور مصنف ہیں۔ وہ عصری ادب پر اپنے بصیرت افروز تبصرے اور مضامین کے لیےمعروف ہیں۔)

Next Article

ہندی کے نامور ادیب ونود کمار شکل کو اس سال کے گیان پیٹھ ایوارڈ سے نوازا جائے گا

گزشتہ چھ دہائیوں سے ادبی دنیا میں فعال ونود کمار شکل یکم جنوری 1937 کو راج ناندگاؤں میں پیدا ہوئے۔ وہ کئی دہائیوں سے رائے پور میں مقیم ہیں۔ ان کا شمار ان معدودے چند ادیبوں  میں ہوتا ہے، جنہوں نے زبان کے نئے محاورے وضع کیے ہیں۔

ونود کمار شکلا (تصویر بہ شکریہ: x/@vishnudsai)

ونود کمار شکلا (تصویر بہ شکریہ: x/@vishnudsai)

نئی دہلی:  ہندی کے معروف  شاعر اور ادیب ونود کمار شکل کو اس سال ملک کے سب سے بڑے ادبی اعزازگیان  پیٹھ ایوارڈ سے نوازا جائے گا۔ اس کا اعلان سنیچر (22 مارچ) کو نئی دہلی میں گیان  پیٹھ کی کمیٹی نے کیا۔

قابل ذکر ہے کہ چھتیس گڑھ کے کسی ادیب  کو پہلی بارگیان  پیٹھ ایوارڈ دیا جائے گا۔ گزشتہ چھ دہائیوں سے ادبی دنیا میں فعال  ونود کمار شکل یکم جنوری 1937 کو راج ناندگاؤں میں پیدا ہوئے۔ وہ کئی دہائیوں سے رائے پور میں مقیم ہیں۔ وہ ان معدودے چند ادیبوں میں ہیں ،جنہوں نے زبان کے نئے محاورے وضع کیے ہیں۔

ان کے نام کے اعلان کے بعد چھتیس گڑھ کے وزیر اعلیٰ وشنو دیو سائی نے انہیں مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ چھتیس گڑھ کے لیے فخر کی بات ہے کہ ملک کے نامور ناول نگار اور شاعر ونود کمار شکل کو باوقار گیان  پیٹھ ایوارڈ ملا ہے۔ انہوں نے چھتیس گڑھ کو ایک بار پھر ہندوستان کے ادبی منظر نامے پر فخر محسوس کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔

ونود کمار شکل کی تخلیقات

ونود کمار شکل کا پہلا شعری مجموعہ ‘لگ بھگ  جئے ہند’ 1971 میں شائع ہوا تھا اور اس کے بعد سے ان کی تحریروں نے ادبی دنیا میں اپنی جگہ بنا لی۔ ان کی تخلیقات عام لوگوں کی  زندگی کو غیر معمولی انداز میں پیش کرتی ہیں۔ اس منفرد اسلوب کی وجہ سے وہ ادبی دنیا میں ایک الگ پہچان رکھتے ہیں۔

انہوں نے ‘نوکر کی قمیص’، ‘کھلے گا تو دیکھیں گے’ اور ‘دیوار میں ایک کھڑکی رہتی تھی’ جیسے بہترین ناول لکھے، جنہیں پوری دنیا میں سراہا گیا۔ ان کی کہانیوں کے مجموعے ‘پیڑ پر کمرہ’، ‘آدمی  کی عورت’ اور ‘مہاودیالیہ’ بھی کافی مشہور ہوئے۔ اس کے ساتھ ہی ان کی نظموں میں  ‘وہ آدمی چلا گیا نیا گرم کوٹ پہن کر’، ‘آکاش دھرتی کو کھٹکھٹاتا ہے’ اور ‘کویتا سے لمبی کویتا’ بہت مقبول ہیں۔

ونود کمار شکل نے بچوں کا ادب بھی لکھا ہے۔ بچوں کے لیے ان کی کتابوں میں ‘ہرے پتے کے رنگ کی  پترنگی’ اور ‘کہیں کھو گیا نام کا لڑکا’ شامل ہیں۔ ان کی کتابوں کا کئی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے اور ان کا ادب پوری دنیا میں پڑھا جاتا ہے۔

ونود کمار شکل کو کئی ایوارڈمل چکے  ہیں، مثلاً گجانن مادھو مکتی بودھ فیلوشپ، رضا ایوارڈ اور ساہتیہ اکادمی ایوارڈ ناول ‘دیوار میں ایک کھڑ کی رہتی تھی’ کے لیے۔

اس کے علاوہ انہیں ماتر بھومی بک آف دی ایئرایوارڈ اور پین امریکہ نابوکاؤ ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔ وہ اس ایوارڈ کو پانے والے ایشیا کے پہلے ادیب تھے ۔ ان کے ناول ‘نوکر کی قمیص’ پر مشہور فلمساز منی کول نے ایک  فلم  بھی بنائی تھی۔

غور طلب ہے کہ گزشتہ سال 2024 میں ساہتیہ اکادمی نے انہیں گریٹر ساہتیہ اکادمی کی رکنیت سے نوازا تھا۔

Next Article

پروپیگنڈہ نے ہمارے سنیما کو مسخ کر دیا ہے: اویناش داس

حال ہی میں آئی فلم ‘ان گلیوں میں’ کے ڈائریکٹر اویناش داس کے ساتھ دی وائر کی مدیر سیما چشتی کی بات چیت۔ لکھنؤ میں سیٹ یہ فلم ایک چھوٹے سے شہر میں بین المذاہب محبت کی باریکیوں کو تلاش کرتی ہے اور اس پر معاشرے کے ردعمل کے جوہر کو پیش کرتی ہے۔ فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینے والی پروپیگنڈہ فلموں کے درمیان، داس کی یہ فلم تازہ ہوا کے جھونکے کی طرح آئی ہے، جو ڈیجیٹل دور میں محبت، پہچان اور سماجی اصولوں پر ایک نقطہ نظر پیش کرتی ہے۔