مرگ انبوہ-آج کا ناول اس لیے ہے کہ اس میں ہم ایک تبدیل ہوتے ہوئے بھارت کو دیکھ سکتے ہیں۔ہمیں یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ لنچنگ اور شہریت قانون تو بس ایک بہانہ ہے ، نسلوں کا صفایا اصل نشانہ ہے ۔کیا موت کے یہ فرمان ، یہ فارم،این پی آر ،این آر سی اور سی اے اے کے ہی فارم نہیں ہیں ؟
مرگ انبوہ‘ کی دُنیا ’جانی ‘ سی سہی مگر ’انجانی ‘ ہے ۔خوف سے بھری ہوئی ، خوف ’جانتے ‘ہوئے کا بھی اور ’انجانے ‘ کا بھی ۔ خوف ’آج ‘ کابھی اورآنے والے ’کل ‘ کا بھی ۔ خوف گہرا اور کسی مافو ق الفطرت وجود کے جھپٹنے کے خوف سے بھی کہیں زیادہ جسم کے رگ و ریشے میں سرایت کرنے والا ۔ایک الگ طرح کا خوف ، ایک ’جانی ‘ ہوئی دُنیا کے ’انجانی ‘دنیا میں ڈھلنے کا خوف ۔
مشرف عالم ذوقی کا ناول ’مرگِ انبوہ ‘ پڑھتے ہوئے جب قاری آخر کے چند صفحات تک پہنچتا ہے تو ایک طرح کی بے یقینی اسے گھیر لیتی ہے ۔ شدید ترین اندیشے اس کی سانسیں اٹکانے لگتے ہیں اور اچانک معدوم ہونے کے احساس سے اس پر لرزہ طاری ہوجاتا ہے ۔
بات کپکپا دینے والی ہے بھی!اگر کوئی’ جادوگر‘آپ سے،مجھ سے یا کسی سے یہ کہے کہ ’طے کرلیں کب جان دینی ہے ؟‘ تو لرزہ تو طاری ہوگا ہی!اور یہ ’جادوگر‘ ذوقی کے ناول کا وہ کردار ہے جو ’غائب ‘ رہتے ہوئے بھی ہر جگہ ’حاضر ‘ نظر آتا ہے اور یہ ہر جگہ کی ’حاضری ‘اسے ’مرگ انبوہ ‘ کا ایک انتہائی قابل نفریں کردار بنادیتی ہے
۔ سب جانتے ہیں کہ یہی وہ ’جادوگر‘ ہے جو ان کی ’جانی ‘اور’پہچانی‘دُنیا کو ایک ’انجانی ‘دنیا میں ڈھال رہا ہے ، مگریہ جانتے ہوئے بھی اس کا ’سحر‘ انہیں جکڑے ہوئے ہے۔بات یوں سمجھ میں نہیں آئے گی ، ’جادوگر‘ کا مکمل تعارف ’مرگِ انبوہ‘ کو ورق ورق الٹے پلٹے بغیر ممکن نہیں ہے ۔
میں جب اپنے اطراف میں نظر دوڑاتا ہوں تو وہی دنیا نظر آتی ہے کہ جسے بچپن سے دیکھتا رہا ہوں ، کیا کوئی تبدیلی آئی ہے ، کچھ بدلاؤ؟ شاید نہیں ۔ لیکن سچ یہ ہے کہ تبدیلی آئی ہے،بدلاؤ ہوا ہے ، پاشا مرزا جیسے لوگ تبدیلی دیکھ نہیں پارہے ہیں ۔پاشا مرزا کے والد جہانگیر مرزا کو یہ ’جانی‘اور’پہچانی‘دُنیا بتدریج ایک ’انجانی‘دنیا میں ڈھلتی نظر آتی ہے ۔ انہیں اس کا سبب بھی معلوم ہے، یہ’ جادوگر‘ کے اس’سحر‘ کا ہی تو نتیجہ ہے جو سب کو جکڑے ہوئے ہے ۔
مشرف عالم ذوقی کایہ ناول آج کے تناظر میں ہے،ویسے ان کا ہر ناول آج ہی کے تناظر میں ہوتا ہے، یہ بات انہیں دوسرے بہت سارے ناول نگاروں سے ممتاز کرتی ہے ۔ لیکن یہ امتیاز ضروری نہیں ہے کہ سب کے لیے پسندیدہ ہو، بہت سارے ہیں جو آج کے تناظر سے آنکھیں بند رکھنے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے ہیں، جیسے کہ آج کے مسلمان ، سب نہ سہی پر اکثر ۔
’مرگ انبوہ ‘ آج کا ناول اس لیے ہے کہ اس میں ہم ایک تبدیل ہوتے ہوئے بھارت کو دیکھ سکتے ہیں۔ہمیں یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ لنچنگ اور شہریت ترمیم قانون تو بس ایک بہانہ ہے ، نسلوں کا صفایا اصل نشانہ ہے ۔
پاشا مرزا کو یہ احساس نہیں ہے ۔ وہ آج کی اس نسل کا نوجوان ہے جس کی اکثریت اپنے والدین سے شاکی رہتی ہے۔ایک ایسا نوجوان جسے جہانگیر مرزا سے شکایت ہے کہ کیوں وہ دوسرے والدین کی طرح اسے عیش و عشرت سے نہیں پال سکتے! پاشا مرزا کا کردار ناول کا ایک اہم کردار ہے ۔ یہ آج کے نوجوانوں کا کردار ہے ۔
سیکس ،چیٹ اور ’بلیو وہیل‘ کا شوق، اخلاق سے عاری،ڈرگزاور پیزا کے رسیا!جنہیں کتابوں سے بھری الماریاں ، کوڑا کرکٹ لگتی ہیں، جو اپنے والدین سے نفرت وہ بھی شدید ترین نفرت کے اظہار کو معیوب نہیں سمجھتے ۔
پاشا مرزا ’ینگستان‘ کے ان کرداروں میں سے ایک کردار ہے جو انٹرنیٹ کے چو ردروازے سے مستقبل کو فتح کرنا چاہتے ہیں ۔ جو ایک ہی جھٹکے میں اسٹیو جابس اور مارک زکر برگ بننے کا سپنا سجائے ہوئے ہیں ۔ جو ’گلوبل گاؤں ‘ میں رہتے ہیں اور ’یوزرس جرنیٹیڈ کنٹنٹ‘ کا ایک حصہ ہیں ۔
انہیں تیزی کے ساتھ تبدیل ہوتی ہوئی دنیا نظر نہیں آتی ، لیکن جہانگیر پاشاجیسوں کو ، جو دنیا کے بدلنے کا ادراک رکھتے ہیں ، ان نوجوانوں کی ’بے خطر آتش نمرود میں کود پڑنے ‘ کی ’ادا‘ بھاتی تھی ۔انہیں یہ اندازہ تھا کہ یہ ’مستقبل ‘ ہیں’سنہرا مستقبل ‘ ۔ اور وہ اس سنہرے مستقبل کو بچانے کے لیے کچھ بھی کرسکتے تھے ۔ ’بی مشن ‘ سے سمجھوتہ بھی ۔ لیکن یہ ’سمجھوتہ ‘ اچانک تو نہیں تھا ۔ جہانگیر پاشا تو ایک ادیب تھے ، سچ اور حق لکھنے والے ۔ انہیں شدت سے یہ احساس تھا کہ ؛
پاشا کو دینے کے لیے کبھی میرے پاس زیادہ کچھ نہیں رہا ۔ کبھی کبھی تو اسکول یا کالج میں اس کی فیس بھرنے کے پیسے بھی نہیں ہوتے تھے ۔ اس نے موٹر سائیکل کی ڈیمانڈ کی تھی ، میں اس کی یہ خواہش بھی پوری نہیں کرسکا ۔ وہ انتہائی خوبصورت نوجوان تھا ۔ اور اس کی فکر یہ تھی کہ اس کا مستقبل کیا اور کیسا ہوگا، وہ آگے کیا کرے گا ؟ ایک ماڈرن نوجوان دیکھتے ہی دیکھتے کمرے میں بند ہوگیا۔ بی مشن آنے کے بعد ملک میں نوکریاں ختم ہوگئی تھیں ۔ کروڑوں بے روزگار ہوگئے تھے ۔ کسان خودکشی پر آمادہ تھا ۔ بے روزگار نوجوان نسل بی مشن سے وابستہ ہوکر اسلحوں سے کھیل رہی تھی۔
یہ بی مشن ، سب کچھ نگل رہا تھا، اور ان کے گھروں میں دیواروں پر سُرخ چیونٹیاں رینگے لگی تھیں جو ’زد‘ پر تھے ، جیسے کہ سجان علی ۔ جو یہ سمجھ چکے تھے کہ انہیں بھی ’’ان کی ہندوستانیت اور راشٹرواد کا حصہ بننا پڑے گا ‘‘ مگر پرچم لہراتے ہوئےجنہیں ’ہجومی تشدد‘ نے کھالیا اور جن کی بیٹی سمیرا غائب کردی گئی ۔ بی مشن کی شروعات ہوچکی ہے ۔ اور ہندوستان غائب ہورہا ہے ۔
ذوقی اس غائب ہوتے ہوئے ہندوستان کی داستان سنارہے ہیں ، جہاں ’شعبدہ ‘ ایک بڑی حقیقت ہے ۔ یہ بیف ، کو ’مٹن ‘ میں تبدیل کردیتا ہے اور آگے بڑھ کر اس نے فوج ، عدالت، خفیہ ایجنسی سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔
کیا ہم نے جج صاحبان کو بابری مسجد کی ملکیت کے مقدمے کا فیصلہ کرتے نہیں دیکھا! کیا سپریم کورٹ کے
سابق چیف جسٹس رنجن گگوئی کو راجیہ سبھا کا رُکن ہوتے نہیں دیکھا! اور کیا دہلی فسادات کے دوران پولیس کی جانبداری کسی کو نظر نہیں آئی !
یہ بی مشن ہمارے لیے نا مانوس نہیں ہے ، یہ زعفرانی سیاسی پارٹی ہی کی طرح تو ہے ، بی جے پی کی طرح جو معاشی ، سماجی ، تہذیبی ، اقتصادی تمام ناکامیوں کے باوجود جیت کے لیے اقلیت کا بہانہ رکھتی ہے۔ ذوقی کا یہ کہنا کیا غلط ہے ؛
ہزار برسوں کی تاریخ میں مخصوص اقلیت کو لٹیرا کہنے والے آسانی سے فیصلہ لے آئیں گے کہ اقلیتوں کی زمین کیسی ؟ محمد بن قاسم سے غزنوی ، غوری ، خلجی اور مغل بادشاہ تک سارے لٹیرے تھے ۔ لوٹ کی زمین کو اقلیتوں کا حق نہیں کہا جاسکتا ۔اس وقت بی مشن کا ہر نمائندہ ،میڈیا مسلسل اقلیتوں کی مخالفت کررہا تھا۔ ہمارے پاس جواب دینے کے لیے کیا ہے ؟ ہم تسلیم کرلیں کہ بی مشن میں مسلمانوں کو جِلا وطن کیا جاچکا ہے ۔ ہم ایک ایسے وائرس کا شکار ہوچکے ہیں ، جو ہمارا نام صفحۂ ہندوستان سے مٹا دینا چاہتا ہے ۔
یہ جملے توآج کے ہندوستان کی تصویر پیش کرتے ہیں ۔لیکن ذوقی کا ناول آج کے ہندوستان کے ساتھ آنے والے تبدیل ہوچکےہندوستان کی تصویر بھی دکھاتا ہے ۔ جہانگیر پاشاکو ’بی مشن ‘ میں شمولیت بھی ’احساس تحفظ ‘ نہیں دیتا۔ ایک ایک کرکے سب ہی فنا ہورہے ہیں ، کامریڈ بھی بدل رہے ہیں اور بی مشن کا ووٹ بینک بڑھ رہا ہے ۔ اور ;
جادوگر مسکرا رہا تھا۔ روشنی کے دائرے میں اس کا ہاتھ چمکا ۔ تاریکی میں بیٹھے ہوئے لوگوں کے ہوش اُڑ گئے یہ اس کے دائیں ہاتھ کی ہتھیلی تھی ۔روشنی کے دائرے میں اس کی ہتھیلی سے سرخ خون نکل رہا تھا۔ سرخ خون کی لہریں اسٹیج سے ہوکر اب آہستہ آہستہ ان کی طرف بڑھ رہی تھیں ۔ پھر ایک آواز آئی ، جاتے جاتے اپنی جیبوں کی تلاشی لیجئے ، آپ گھڑی پہنتے ہیں تو وقت دیکھ لیجئے ، عورتوں کے گلے میں زیور ہوتو وہ پہلے اطمینان کرلیں کہ یہ زیور اب بھی موجود ہیں یا نہیں ۔تلاشی لی گئی اور جیسا کہ جادو گر نے کہا تھا ، کچھ بھی محفوظ نہیں تھا۔ سونے اور چاندی کے زیورات گم تھے ، یہاں تک کہ ہاتھوں کی انگوٹھیاں بھی غائب تھیں ۔
جیب میں پڑے چھوٹے بڑے روپئے اور سکے غائب تھے ۔ تماشہ یہ کہ ان سب کی نظروں کے سامنے جادوگر ہال سے باہر آیا، اس وقت اس کے بدن پر کافی مہنگا لباس تھا ، وہ مہنگی گاڑی میںبیٹھا اور اُڑن چھو ہوگیا ۔‘‘ اس کے بعد ’’ہیبت اور خوف میں ڈوبے ہوئے لوگ اپنی جگہ منجمد ہوگئے۔ اب سب مل کر قومی ترانہ گارہے تھے ۔‘‘
ذوقی نے ایک ہیبت ناک دنیا خلق کی ہے ۔ اس دنیا کا وہ منظر ، جو یقیناً آج یا کل سامنے آئے گا،انتہائی ہولناک ہے ، جس میں ’جادوگر‘ کہہ رہا ہے۔
’’اس وقت ہماری آبادی ایک بڑے طوفان کی زد میں ہے ۔بڑھتی ہوئی آبادی اور اکثریتی طبقے کی خوشحالی۔ بیمار لوگوں کو مرنا ہوگا۔ اس پورے نظام کی خوشحالی ان کی موت پر منحصر ہے۔ ملک اتنی بڑی آبادی کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتا۔ ہم نے بہت سوچ کر حسین موت کا انتخاب کیا ہے ۔ خوشحال اکھنڈ بھارت کے لیے ، جئے ہند‘‘ ۔اور یہ حسین موت کیا ہے ، وہ فارم جسے آپ کو اور مجھے اور تمہیں ، سب کو اپنے ہاتھوں سے پُر کرنا ہے اور پُر کرتے ہوئے اپنی موت کا وقت متعین کرنا ہے ۔’’راکیش وید نے فارم ہوا میں لہرایا ، رحمتوں اور برکتوں والے جادوگر کے لیے اس کی درازیٔ عمر کے لیے دعاکیجئے اس کی لافانی محبتوں کا قرض ادا کیجئے ۔اس نے آپ کی قوم کو دس برس دیے ہیں ۔
دس برس میں آپ نہیں ہوں گے اور آپ کو اس کی رحمدلی پر بھروسہ کرنا چاہیے ، آپ مسلسل پریشان تھے ، اذیتوں میں گرفتار تھے اور آسان موت۔ اور ہاں دس برس میں 4 برس سے لے کر 10 برس کا کوٹہ فِل ہوچکا ہے ۔ آپ کے پاس3 برس ہیں ۔
کیا یہ سُننا کہ زندگی کے صرف تین برس ہی آپ جی سکتے ہیں ، خوشگوار ہے ؟ اور جب یہ کہا جائے کہ وہ ’لخت جگر ‘ جو ابھی 20سال کا ہی ہوا ہے صرف اور تین سال جی سکے گا تب کیسی ہیبت طاری ہوگی اور جب باپ سے بیٹے کے مرنے کی گارنٹی مانگی جائے تو کس بے بسی کا سامنا ہوگا!!مگر موت کے فرمان پر دستخط کرنا ہی پڑتے ہیں۔ کیا موت کے یہ فرمان ، یہ فارم،این پی آر ،این آر سی اور سی اے اے کے ہی فارم نہیں ہیں ؟ یہ سوال ذہن میں اٹھتا ہے اور اس سوال کے ساتھ موت کے فرمان پر دستخط کرنے والے صفحات پڑھنے والے کے سارے وجود پر لرزہ طاری کردیتے ہیں ۔
یہ تو ’مرگ انبوہ‘ ہے ، ہولو کاسٹ، نسل کشی ، قتل عام، تطہیر، ان ہیت ناک لفظوں کو سوچ سوچ کرمجھ پر بھی لرزہ طاری ہوا تھا، لیکن ذوقی مایوس نہیں ہیں ۔ ان کے یہ الفاظ جو جہانگیر مرزا سے کہلوائے گئے ہیں ، آپ کے لیے بھی ہیں ،میرے لیے بھی ، تمہارے اور سب کے لیے;
میری طرح زندگی سے شکست تسلیم مت کرنا۔ تم میرے بہادر بیٹے ہو ۔ اچھا میرے بیٹے الوداع ۔
ذوقی کے یہ الفاظ بھی حوصلہ دیتے ہیں ’’ایک اندھیرا تمہیں گم کرتا ہے ایک اجالا ہمیں زندگی دے جاتا ہے ۔‘‘مشرف عالم ذوقی کا یہ ناول ہمیں ماضی ، مستقبل اور حال کی آگاہی دینے کے ساتھ جو کچھ بھی پیش آسکتا ہے اس سے باخبر کرتا ہے ۔ یہ آج کے ہندوستان کاناول ہے ۔ ساتھ ہی ساتھ تبدیل ہوتے ہوئے ہندوستان کا بھی ۔
ذوقی کے ناول کی ہئیت ، بنت ، تکنیک اس ناول کے تھیم اور موضوع کے عین مطابق ہے ۔ منظر کشی مایوس کن ، باہر نکلنےکے راستے بظاہر مسدود مگر ریمنڈ سے کہاہوا جج کا یہ جملہ مایوسی کو اُمید میں بدلتا ہے ;
آپ لوگ کبھی بی مشن کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔
اور آج ہمارے لیے بے شمار ریمنڈ کھڑے ہیں ، بے شمار شاہین باغ وجود میں آگئے ہیں ۔ پاشا مرزا بھی ایک اُمید بن کر ابھرتا ہے، اسے والد سے نفرت ہے لیکن والد کی ڈائری پڑھنے کے بعد وہ کہتا ہے ’’مجھے ڈیڈ پر پیار آرہا ہے ‘‘۔ کیوں؟ اس لیے کہ پاشا مرزا جان گیا ہے کہ اس کے والد نے خود کو ’نیند کے حوالے نہیں کیا بلکہ وہ نیند کے حوالے ہونے سے خود کو بچاتے رہے ۔‘ پاشا مرزا کی زبانی ’’مجھے ڈیڈ پر پیار آرہا ہے ‘‘ کہلوا کر ذوقی نے آپ کو ،مجھے ، تمہیں، سب کو یہ سبق دیا ہے کہ سرنگوں ہونے سے بہتر لڑتے لڑتے گم ہوجانا ہے ،لہٰذا تیار رہیں ، لڑنے کے لیے اور بچانے کے لیے ،ذوقی کے ناول کا یہی سبق ہے اور یہ بہت ہی اہم سبق ہے ۔