ممبئی کے بھاٹیہ ہاسپٹل کی 82 نرسوں کو نہ صرف ان کا گھر چھوڑنے پر مجبور کیا گیا بلکہ انہیں فلیٹ سے ان کا سامان بھی نہیں لینے دیا گیا کیونکہ پڑوسیوں اور سوسائٹی کے لوگوں کو ڈر لگنے لگا تھا کہ وہ کورووا وائرس کاانفیکشن پھیلا سکتی ہیں۔
نئی دہلی: پچھلے کچھ دنوں میں ممبئی کے بھاٹیہ ہاسپٹل کی 82 نرسوں کو صرف اس لیے اپنا گھر چھوڑنا پڑا کیونکہ پڑوسیوں اور سوسائٹی کے لوگوں کو ڈر لگنے لگا تھا کہ وہ کورووا وائرس کاانفیکشن پھیلا سکتی ہیں۔انڈین ایکسپریس کے مطابق، مختلف رہائشی بلڈنگوں میں رہنے والی ان نرسوں کونہ صرف ان کا گھر چھوڑنے پر مجبور کیا گیا بلکہ انہیں فلیٹ سے ان کا سامان بھی نہیں لینے دیا گیا۔
ممبئی کے گرانٹ روڈ پرواقع آٹھ رہائشی بلڈنگوں میں رہنے والی ان نرسوں سے کہا گیا کہ اگر وہ کام پر جاتی ہیں تو انہیں آنےنہیں دیا جائےگا۔اس کے بعد بھاٹیہ ہاسپٹل نے اپنے چھ فلور کے وارڈ میں کچھ نرسوں کے رہنے کا انتظام کیا جبکہ دوسروں کے لیے ہوٹل یا آس پاس کی بلڈنگوں میں رہنے کا انتظام کیا گیا۔
کیرل کی رہنے والی 23 سالہہ رینو الزابیتھ کوشی تین مہینے پہلے بھاٹیہ ہاسپٹل میں کام کرنے کے لیے ممبئی آئی تھیں۔ ایک مہینے پہلے پڑوسیوں کے ذریعے پریشان کیے جانے کے بعد انہیں فلیٹ چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا۔انہوں نے کہا، ‘میں جب بھی کام سے لوٹتی تھی وہ گیٹ بند کر دیتے تھے۔ ہمیں درخواست کرنے پر اندر جانے دیا جاتا تھا۔ ایک دن سوسائٹی نے مجھ سے میرا آئی کارڈمانگا اور پھر اس کو فرضی بتاتے ہوئے اندر آنے سے منع کر دیا۔’
اسی طرح نرس ایشوریہ کو بھی 20 دن پہلے دوسری جگہ جانا پڑا کیونکہ وہ جہاں رہتی تھیں وہاں اندر آنے سے منع کر دیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا، ‘ہم مکمل احتیاط رکھتے ہیں، نہاتے ہیں اور گھر لوٹنے سے پہلے کپڑے بدلتے ہیں۔ پہلے تو کوڑے والے کو میرا کوڑا اٹھانے سے روکا گیا اور پھر لفٹ کااستعمال کرنے سے روک دیا گیا۔’انہوں نے کہا، ‘میں نےسب کچھ فلیٹ میں چھوڑ دیا ہے۔ اب جب میں نے اپنا سامان لینے کی کوشش کی تب سوسائٹی نے منع کر دیا۔ دراصل زمین پر میڈیکل پیشہ وروں کے لیے کوئی احترام نہیں ہے۔’
ہاسپٹل کا کام دیکھنے والی سویٹی مینڈٹ نے کہا، ‘لوگوں کی خدمت کرنے کے لیے ہم نے بھی اپنا گھر چھوڑا ہے۔ ہم بھی اپنی زندگی جوکھم میں ڈال رہے ہیں۔’انہوں نے کہا کہ مقامی لوگوں کا غصہ ختم ہونے تک ہاسپٹل نے نرسوں کو کچھ دنوں کے لیے ہاسپٹل کیمپس اور ہوٹلوں میں رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہاسپٹل میں ہوٹل میں ایک مہینے کے لیے 10 کمرے لیے ہیں جس پر روز کا خرچ 33 ہزار روپے آ رہا ہے۔
مینڈٹ نے کہا، ‘کچھ دن پہلے ہم نے سبھی سوسائٹی کو نرسوں کو داخلہ دینے کے لیےخط لکھنا شروع کیا۔ لیکن انہوں نے منع کر دیا۔ ہم نے ان کا سامان نکالنے کی اجازت دینے کی بھی گزارش کی لیکن اس کے لیے بھی انہوں نے منع کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ بلڈنگ میں داخل ہونے سے پہلے نرسوں کو کو رونا نگیٹو کی رپورٹ لانی پڑےگی۔’
اس پریشانی کے حل کے لیے ہاسپٹل نے ڈی وارڈ افسر اور تاردیو پولیس سے بھی رابطہ کیا۔ایڈیشنل میونسپل کمشنر سریش ککنی کے مطابق، کئی نجی ہاسپٹل نے اپنے اسٹاف کے رہنے کے انتظام کے لیے تشویش کا اظہار کیا کیونکہ وہ زیادہ دور تک سفر نہیں کر سکتے یا اپنی سوسائٹی میں پریشانیوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ ہم نے یقین دہانی کرائ ہے کہ قریبی علاقوں میں رہنے کا انتظام کیا جائےگا۔
ہاسپٹل کےمیڈیکل ڈائریکٹرڈاکٹرآر بی دستور نے کہا کہ کم سے کم آٹھ نرسوں نے کام چھوڑ دیا ہے۔ انہیں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور ایسے ماحول میں کام کرنے میں دقت ہو رہی ہے۔