اس کثیر لسانی اورکثیر المذاہب ملک میں صلح، مفاہمت،ہم آہنگی اور امن کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے،اس اہم نکتے کو اکبر کے زمانے میں یعنی سولہویں صدی میں ہی سمجھ لیا گیا تھا، پھر اس کو آج کیوں نہیں سمجھا جا سکتا؟
ایک پینٹنگ جس میں اورنگ زیب(بیچ میں) کے دربار کو دکھایا گیا ہے۔ ( بہ شکریہ: وکی میڈیا کامنس)
کرناٹک اسمبلی انتخابات میں ذلت آمیز شکست اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کےترجمان ‘دی آرگنائزر’ کی طرف سےجیت کے لیے مودی کے کرشمے اور ہندوتوا کو
ناکافی قرار دینے کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو ان دونوں پرسے اپنا فوکس ہٹانامنظور نہیں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ملک کی کئی ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات اور ان کے چند روز بعد ہونے والے لوک سبھا انتخابات سے قبل اس کے لیڈر اور حامی نئے سرے سےہندو– مسلمان کرتے ہوئے ہندوتوا کا توا گرم کرنے میں لگ گئے ہیں- اور اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے، کیونکہ پورے ملک میں ان کا کام توکم و بیش کرناٹک جیسا ہی ہے اور انہیں اس پر انحصار کرنا زیادہ جوکھم بھرا لگتا ہے۔
اب یہ توکوئی کہنے کی بات بھی نہیں کہ جب بھی انہیں اپنے ہندوتوا پر زور دینا ہوتا ہے، وہ ملکی تاریخ کے مغلیہ دور میں چلے جاتے ہیں اور اس کے بادشاہوں کو ‘ملک اور ہندوؤں کا دشمن’ بنا کران کا ڈیمنائزیشن کرنے لگتے ہیں۔
اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مغلیہ خاندان اور بادشاہوں میں بھی وہ سارے عیب تھے، جو عموماً شاہی خاندانوں میں ہوتے ہیں۔ لیکن بی جے پی کہیں یا ہندوتوا کے پیروکار، ان کا کام عیب گنانے بھرسے نہیں چلتا ہے۔ کام تب چلتا ہے جب اس سے آگے بڑھ کر ان کو ان کے مذہب کی وجہ سے ولن قرار دے دیں اور اپنے’ مذہب’ کے راجاؤں مہاراجاؤں کو محب وطن اور عوام نواز وغیرہ ٹھہرا دیاجائے۔
حالانکہ وہ خود بھی جانتے ہیں کہ شاہی خاندانوں میں مذہب کی بنیاد پر اس طرح کی تقسیم کہیں بھی نہیں لے جاتی، کیونکہ ان کے مفادات ہمیشہ اپنی رعایا کے خلاف ہوتے ہیں۔ اس صورت حال میں، فطری طور پر تضاد کا شکار ہوکروہ اپنی حکومتوں سے مغلیہ دور کو نصاب سے تو باہر کرادیتے ہیں،لیکن ہرچند کوشش کرتے ہیں کہ وہ سماجی (پڑھیے: سماج مخالف) ڈسکورس میں زندہ رہے۔
غورطلب ہے کہ اس ڈسکورس میں مغلیہ سلطنت کا بانی بابر انہیں بہت ‘عزیز’ رہا ہے- رام جنم بھومی بابری مسجد تنازعہ کی وجہ سے۔ لیکن سپریم کورٹ کے فیصلے سے گزر کر اس تنازعہ کے انجام پر پہنچ جانے کے بعد غالباً وہ یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ بابر سے ‘پیار’ کرکے وہ جو کچھ حاصل کر سکتے تھے،کر چکے ہیں۔ اس لیے اب ان کا اصل ہدف اورنگ زیب ہے، جسے وہ اس کے اچھے – برےاور دوسرےکاموں سے زیادہ وہ وارانسی میں کاشی وشوناتھ مندر کے انہدام اور گیان واپی مسجد کی تعمیر اور مہاراشٹر میں چھترپتی شیواجی کے ساتھ لمبی جدوجہد اور جنگ کی وجہ سے ‘یاد کیے جانے لائق’ مانتے ہیں۔
ان میں وارانسی میں اس کے کارنامے تو ان کے نزدیک واضح طور پر ہندو مخالف ہیں، جبکہ شیواجی کے ساتھ لڑائی کو بھی وہ اپنی اپنی سلطنتوں کی توسیع میں مصروف دو بادشاہوں کی نہیں بلکہ ہندوؤں اور مسلمانوں کی لڑائی ہی مانتے ہیں –بھلے ہی سچائی اس کے بالکل برعکس ہو۔
انہیں لگتا ہے کہ اورنگ زیب اب ہندو مسلم دشمنی کو ہوا دینے میں ان کے بابر سے زیادہ کارآمد ثابت ہو سکتا ہے، اس لیے وہ اس کے بارے میں زیادہ شور مچا رہے ہیں۔ وہ مہاراشٹر کے اورنگ آباد کے خلد آباد میں واقع ان کے مزار کے بارے میں نہ صرف سیاست کر رہے ہیں بلکہ سوشل میڈیا پر ان کی تصاویر وغیرہ شیئر کرکے ریاست کے امن و سکون کے بارے میں بھی خدشات پیدا کرتے رہتے ہیں۔
ان کے حمایتی میڈیا میں دوسرےمغل بادشاہوں کے ساتھ اورنگ زیب کے ڈیمنائزیشن والے موادکی بھرمار ہے، یہ ایک الگ ہی قصہ ہے۔ بہر کیف ،ایک شاعر کی اس شکایت کو صحیح ثابت کرتے ہوئے کہ ‘تمہیں لے دے کےساری داستاں میں یاد ہےاتنا/ کہ اورنگ زیب ہندوکش تھا، ظالم تھا، ستمگر تھا’۔
حد تو یہ ہے کہ اورنگ زیب کو ولن قرار دیتے ہوئے مرکزی وزیر گری راج سنگھ نے مہاتما گاندھی کے قاتل ناتھو رام گوڈسے کو
‘بھارت کا سپوت’ کہنا شروع کر دیا ہے۔ بابر کے ساتھ اورنگ زیب کوبھی حملہ آورٹھہراتے ہوئےوہ کہتے ہیں کہ ناتھورام گوڈسے ان دونوں کی طرح حملہ آور نہیں تھا، کیونکہ وہ ہندوستان میں پیدا ہوا تھا۔
اب ان کو کون بتائے کہ اورنگ زیب بھی ہندوستان کے باہر نہیں بلکہ گجرات کے گاؤں داہود میں پیدا ہوا تھا اوراگرسپوت ہونے کی ان کی کسوٹی کو لاگو کیا جائے تو انگریزوں کی غلامی کے دور میں ہندوستان میں پیدا ہوئے انگریزوں کے بچے بھی ہندوستان کے ہی سپوت ہوجائیں گے۔ حالانکہ وہ 15 اگست 1947 سے پہلے اپنے آباؤ اجداد کے ذریعے ہندوستان کی لوٹ کے ساتھی رہے اور اس کے بعد ان کے ساتھ ہندوستان چھوڑکرچلے گئے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ جب گری راج کہتے ہیں کہ خود کو بابر اور اورنگ زیب کی اولاد کہلانے میں خوشی محسوس کرنےوالے ہندوستان کے سپوت نہیں ہو سکتے تو جنون میں وہ اس تاریخی حقیقت کو بھی بھول جاتے ہیں کہ مغلیہ خاندان اپنے پیش رو مسلم شاہی خاندانوں کی طرز پرہندوستان کے ‘ہندو شاہی خاندانوں’ کے ساتھ دشمنی کی راہ پر گامزن نہیں ہوا – اپنی حکومت کی عمرلمبی کرنے کے لیے ہی صحیح، اس نے اپنے مضبوط ترین حریف راجپوتوں سے اقتدار کا اشتراک بھی کیا اور ان کے ساتھ رشتے بھی جوڑے۔
مغلیہ خاندان کے بانی بابر نے اپنے بیٹے ہمایوں کو اپنی ایک وصیت میں یہ نصیحت بھی کی تھی کہ: ہندوستان کی سرزمین میں ہر مذہب کے ماننے والے رہتے ہیں۔ الحمدللہ اس ملک کی بادشاہت تمہیں سونپی گئی ہے تو اپنے دل سے تعصب نکال کر انصاف کرو۔ خاص طور پر تم گائے کی قربانی نہ کرو۔ اس سے تم ہندوستان کے لوگوں کا دل جیت لو گے اور لوگ بادشاہت سے جڑیں گے۔ سلطنت میں رہنے والوں کی عبادت گاہوں کو گراؤ مت۔ اتنابرابری کا انصاف کرو کہ لوگ اپنے بادشاہ سے خوش ہوں اور بادشاہ لوگوں سے۔ اسلام ظلم کی تلوار سے نہیں نرمی سے آگے بڑھے گا۔
بعد ازاں سنہ 1582 میں شہنشاہ اکبر نے ہندو مسلم تنازعات کو ختم کرنے اور ان کو متحد کرنے کے لیے ‘دین الٰہی’ کومتعارف کرایا اور’صلح کل’ کی پالیسی اپنائی۔ مؤرخین کا کہنا ہے کہ جب ان کے دور میں ملک میں مذہبی منافرت بڑھنے لگی تو انہوں نے اسے ختم کرنے کے لیےاس نئے مذہب اور پالیسی کی تجویز کی۔
انہوں نے 11 فروری 1556 سے 27 اکتوبر 1605 تک حکومت کی اور اپنے کثیر المذاہب کثیر لسانی رعایا کے لیے سب سے زیادہ مفید مان کر دین الٰہی کو اس وقت تک دنیا بھرمیں رائج تمام مذاہب کا مجموعہ بنانے کی کوشش کی۔دین الہیٰ میں ہندو اور اسلام کے ہی نہیں، جین، بودھ اور عیسائیت کے مذہبی نظریے کو بھی اپنایا گیا تھا، جبکہ صلح کل؛ملک کو سیاسی طور پر مربوط کرنے- خاص طور پر راجپوتوں کو پورے ہندوستان کےکلیور میں شامل کرنے کے لیے تھا۔ دونوں اس عقیدے پر مبنی تھے کہ خدائی فضل کے وسیع دائرے میں تمام طبقات، عقیدوں اور مذاہب کے پیروکاروں کے لیے جگہ ہے۔
اس کی عظیم الشان سلطنت میں، جس کی حدود کا تعین صرف سمندر سے ہوتا ہے، مخالف مذاہب کے پیروکاروں اور اچھے برے ہر قسم کے نظریات کے لیے جگہ ہے، جبکہ عدم روداری کا راستہ بند ہے۔ ماہرین کے مطابق، صلح کل بنیادی طور پر صوفیوں کا نظریہ ہے اور خواجہ معین الدین چشتی نے اسے اکبر کو دیا تھا۔
اتفاق سے، صُلحِ کل (یعنی سرودھرم میتری) کو سب کے لیے امن کا اصول بھی کہا جاتا ہے۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ اکبر کی حکومت سے وابستہ زیادہ تر لوگ حتیٰ کہ ان کے اکثر درباریوں نے بھی دین الٰہی سے ناطہ نہیں جوڑا۔ مان سنگھ اور رحیم جیسی اکبر کی بہت پیاری ہستیوں نےبھی نہیں۔ لیکن اپنی حکومت کے زور پر اکبر نے کبھی کسی پر دباؤ نہیں ڈالا کہ وہ اسے قبول کرے۔ اور نہ ہی اس کے لیے کوئی سختی کی گئی۔
اس کے برعکس انہوں نے مذہبی رواداری کی ایک بڑی مثال اس وقت پیش کی جب پرتگال میں قرآن کی توہین پر ناراض ان کی والدہ بیگم حمیدہ بانو نے ان سے ملک میں بائبل کی اس سے بھی بڑی توہین کرنے کو کہا۔ لیکن انہوں نے یہ کہتے ہوئے اپنی ماں کی بات کو ٹال دیا کہ پرتگالیوں کاقرآن کی توہین کرنا غلط تھا، تومجھ جیسے بادشاہ کے لیےبرائی کا بدلہ برائی سے لینا اچھا نہیں ہوگا، کیونکہ کسی بھی مذہب کی توہین کرنا بالآخر خدا کی توہین کرنا ہے۔
یہاں ایک لمحے کے لیے توقف کرتے ہوئے یہ بات بھی ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ چھترپتی شیواجی اور اورنگ زیب کی ‘دشمنی’ کو ان دنوں ہندوتوا کے علمبردار بہت زیادہ طول دے رہے ہیں، وہ اورنگ زیب سے خط و کتابت کرتے تھے اور اکبر کے بارے میں بہت اچھے خیالات رکھتے تھے۔ رائے آنند کرشن نے اپنی کتاب ‘اکبر’ میں یدوناتھ سرکار کی کتاب کےحوالے سےشیواجی کا اورنگ زیب کو لکھاایک خط نقل کیاہے، جس میں اکبر کو جگت گرو اور ہندوؤں اور مسلمانوں کو ایک بتاتے ہوئے لکھا گیا ہے؛
بادشاہ اکبر نے اس بڑی ریاست کو باون سال تک اس خوبی اور عمدگی سے چلایا کہ تمام فرقوں کے لوگوں کو خوشی اور مسرت ملی۔ کیا عیسائی، کیا بھوسائی، کیا داؤدی، کیا فلکیے، کیا نصیریے، کیا دہریے، کیا برہمن اور کیاسیوڑے، سب پران کی مہربانی ایک جیسی تھی۔ اسی صلح کل کے سلوک کی وجہ سے سب نے انہیں جگت گرو کا خطاب دیا تھا۔ اس اثر کی وجہ سے وہ (اکبر) جہاں بھی دیکھتے تھے فتح ان کے سامنے کھڑی ہو جاتی تھی۔
اس خط کی روشنی میں ہندی کے سینئر شاعر بودھی ستوا اپنے ایک تبصرے میں پوچھتے ہیں کہ جو لوگ شیواجی کے نام پر سیاست کر رہے ہیں وہ ان کی اس رائے سے کتنی واقفیت رکھتے ہیں؟ لیکن اگر تھوڑا سا بھی نہ رکھیں تب بھی اس تاریخی حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اکبر کے ہم عصر ہونے کے باوجود سنت تلسی داس اور سنت سورداس نے اکبر کے بارے میں کوئی منفی بات نہیں کہی۔
کیا اس کا یہ مطلب نہیں کہ انہوں نے بھی محسوس کرلیا تھا کہ تمام مذاہب کا ایک ہی مقصد ہے اور ان میں دشمنی کا کوئی حاصل نہیں ہے۔ سنت تلسی داس تو ‘مانگی کے کھیبو، مسیت کو سوئیبو’ تک پہنچ گئےتھے۔
سوال ہے کہ جب یہ اہم بات اکبر کے زمانے میں یعنی سولہویں صدی میں ہی سمجھ لی گئی تھی کہ اس کثیر لسانی، کثیر المذاہب ملک میں صلح، مفاہمت، ہم آہنگی، اور امن کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے، تو اس کوآج کیوں نہیں سمجھا جا سکتا؟اس لیے کہ کچھ لوگ اپنے سیاسی مفادات کے لیےاس کو سمجھنےکی راہ روکنے کے لیے کچھ بھی اٹھا نہیں رکھ رہے؟ کیوں بھلا؟
(کرشن پرتاپ سنگھ سینئر صحافی ہیں۔)