سی اے جی کی ایک رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ ریاست میں بچوں، لڑکیوں، حاملہ خواتین اور دودھ پلانے والی ماؤں میں تقسیم کیے جانے والے ٹیک ہوم راشن میں کروڑوں روپے کا غبن کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ نیوٹریشن کی کوالٹی بھی اسٹینڈرڈ سے نیچے پائی گئی ہے۔ غور طلب ہے کہ اس وزارت کا چارج خود وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان کے پاس ہے۔
مدھیہ پردیش میں کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل آف انڈیا (سی اے جی) کی رپورٹ میں ریاست میں خواتین اور بچوں کے لیے غذائیت سے متعلق پروگرام میں بڑے پیمانے پر بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔
سی اے جی کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ٹیک ہوم راشن (ٹی ایچ آر) کے چھ پروڈکشن یونٹس سے کروڑوں روپے کے غذائیت سے متعلق خوراک میں بے ضابطگیاں ہوئی ہیں۔ مثال کے طور پر، جن ٹرکوں سے اس راشن کے نقل و حمل کی بات کہی جا رہی ہے، ان کے نمبروں کی جانچ کرنے پر پتہ چلا کہ وہ دراصل موٹر سائیکل، کار اور آٹو کے طور پر آر ٹی او میں رجسٹرڈ ہیں۔
غور طلب ہے کہ 1975 میں حکومت ہند نے انٹیگریٹڈ چائلڈ ڈیولپمنٹ اسکیم (آئی سی ڈی ایس) کو متعارف کرایا تھا۔ جس کے تحت سپلیمینٹل نیوٹریشن پروگرام (ایس این پی ) بھی چلایا جانا تھا، ٹیک ہوم راشن (ٹی ایچ آر) بھی اسی کا ایک حصہ تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹی ایچ آر کا بنیادی مقصد چھ ماہ سے تین سال کی عمر کے بچوں، حاملہ خواتین اور دودھ پلانے والی ماؤں اور 11 سے 14 سال کی عمر کی ان لڑکیوں کی غذائی ضروریات کو پورا کرنا تھا جنہوں نے کسی بھی وجہ سے اسکول چھوڑ دیا تھا۔
تاہم، اسی ٹیک ہوم راشن کے آڈٹ میں سی اے جی کو سنگین بے ضابطگیاں ملیں جو اس کے مقصد کی تکمیل پر سنگین سوال اٹھاتی ہیں۔
دی وائر کے پاس دستیاب 33 صفحات کی رپورٹ کے نتائج کو 10 پوائنٹس میں سمجھاتے ہوئے سی اے جی نے کہا ہے کہ حکومت ہند اور مدھیہ پردیش سرکار نےاسکولی تعلیم سے باہر کی لڑکیوں میں ٹی ایچ آر ڈسٹری بیوشن کے لیے ان کی شناخت کرنے کی غرض سے 2018 تک سروے مکمل کرنے کی ہدایت دی تھی،لیکن محکمہ فروری 2021 تک سروے مکمل نہیں کر سکا۔وہیں، مختلف محکموں کے سروے میں ان لڑکیوں کی تعداد میں بڑا فرق پایا گیا اور اسی بنیاد پرٹیک ہوم راشن بھی تقسیم ہوتا ہوا دکھایا گیا۔
مثال کے طور پر، آڈٹ میں بتایا گیا کہ 8 اضلاع کے 49 آنگن واڑی مراکز میں اسکولی تعلیم سے باہر کی حقیقت میں صرف 3 لڑکیوں کا اندراج کیا گیا تھا، لیکن خواتین اور بچوں کی ترقی کے محکمے (ڈبلیو سی ڈی) نے ایم آئی ایس پورٹل میں 63748 طالبات کا رجسٹریشن دکھا دیااور 2018 –21 کے دوران 29104 کو ٹیک ہوم راشن کی تقسیم کا بھی دعویٰ کر دیا۔
اسےفرضی ڈسٹری بیوشن قرار دیتے ہوئے سی اے جی نے 110.83 کروڑ روپے کے نقصان کا اندازہ لگایا ہے۔
سی اے جی کی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ ٹی ایچ آر پروڈکشن پلانٹس نے پیداوار کو بڑھا چڑھا کر دکھایا، یہاں تک کہ پلانٹ کی صلاحیت سے بھی زیادہ پیداوار دکھائی گئی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پلانٹ کے اہلکاروں نے فرضی پیداواردکھایا۔ اس کی لاگت 58 کروڑ روپے بتائی گئی ہے۔
باری، دھار، منڈلا، ریوا، ساگر اور شیو پوری کے چھ پلانٹوں کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہاں 4.95 کروڑ روپے کا 821.558میٹرک ٹن ٹیک ہوم راشن سپلائی کیا گیا، جبکہ جس تاریخ کو چالان جاری کیا گیا تھا اس دن اسٹاک ہی نہیں تھا۔
وہیں، چھ ٹی ایچ آر پروڈکشن یونٹس نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے 6.94 کروڑ روپے کی 1125.64 ایم ٹی ٹی ایچ آر کی نقل و حمل کی، لیکن متعلقہ ریاستوں کی گاڑیوں کا ڈیٹا بیس چیک کرنے پر یہ بات سامنے آئی کہ اس مقصد کے لیے استعمال ہونے والے ٹرک دراصل موٹر سائیکل، کاراور آٹو کے طور پر رجسٹرڈ تھے اور ڈیٹا بیس میں ٹینکر یا ٹرک کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔
این ڈی ٹی وی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غذائیت کی نقل و حمل میں اسی طرح کی غلطیاں کی گئی ہیں، جیسا کہ بہار کے مشہور چارہ گھوٹالے کی تحقیقات میں پایا گیا ہے۔ اس وقت یہ بات سامنے آئی تھی کہ جانوروں کا چارہ ٹرکوں کے بجائےا سکوٹراور موٹر سائیکل پر کاغذات میں لے جایا گیا تھا۔
سی اے جی نے کہا ہے کہ آٹھ اضلاع میں اس نے پایا کہ چائلڈ ڈیولپمنٹ پروجیکٹ آفیسر (سی ڈی پی او) نے پلانٹس سے 97656 میٹرک ٹن ٹی ایچ آر حاصل کیا۔ تاہم، انہوں نے صرف 86377 میٹرک ٹن آنگن واڑیوں تک پہنچایا۔ بقیہ 10 ہزار میٹرک ٹن سے زیادہ ٹی ایچ آر، جس کی قیمت 62.72 کروڑ روپے تھی، کو ٹرانسپورٹر یا دیگر نے کہیں بھیجا ہی نہیں اور یہ گودام میں بھی دستیاب نہیں تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ،یہ واضح طور پر اسٹاک کے غبن کی نشاندہی کرتا ہے۔
اسی طرح یہ بات بھی سامنے آئی کہ جو اسٹاک سی ڈی پی او کوملا ہی نہیں ، اس کے لیے بھی 1.30 کروڑ روپے ادا کر دیے گئے۔
اس کے علاوہ اسٹاک رجسٹروں کی عدم دیکھ بھال اور ٹی ایچ آر کے نمونوں کو ان کی کوالٹی کی جانچ کے لیے (لیب ٹیسٹنگ) نہ بھیجنے جیسی بے ضابطگیاں بھی سامنے آئی ہیں۔
ساتھ ہی یہ بات بھی سامنے آئی کہ 237 کروڑ روپے کے 38304 میٹرک ٹن ٹیک ہوم راشن میں مطلوبہ غذائیت (نیوٹریشن)نہیں پائی گئی، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے مستحقین کو گھٹیا درجے کا ٹیک ہوم راشن دیاگیا۔
سی اے جی اور محکمہ جاتی افسران کی مشترکہ جانچ سے یہ بات سامنے آئی کہ 2865 ٹی ایچ آر کے پیکٹ شیو پوری اور ساگر ضلع میں ویئر ہاؤس میں پڑے ہوئے تھے، حالانکہ ان کی الاٹمنٹ ریکارڈ میں دکھائی گئی تھی۔
آخر میں کہا گیا ہے کہ جن آٹھ اضلاع میں یہ آڈٹ ہوا، وہاں سی ڈی پی او اور ڈی پی او (ڈیولپمنٹ پروجیکٹ آفیسر) نے آنگن واڑی مراکز کا معائنہ تک نہیں کیا۔
رپورٹ کے مطابق غذائیت سے متعلق خوراک کے حوالے سے یہ صورتحال اس وقت ہے جب 2017-19 کے درمیان مدھیہ پردیش ملک میں سب سے زیادہ نوزائیدہ بچوں کی اموات ہوئی تھی اور ریاست زچگی کی اموات کے معاملے میں ملک میں تیسرے نمبر پر تھی۔
این ڈی ٹی وی کے مطابق، مدھیہ پردیش کے وزیر داخلہ نروتم مشرا نے اس رپورٹ کے بارے میں کہا ہے کہ سی اے جی رپورٹ حتمی نہیں ہے، بلکہ عمل کا ایک حصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کی جانچ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کرتی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ مدھیہ پردیش میں خواتین اور بچوں کی ترقی کی وزارت کا چارج خود وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان کے پاس ہے۔ اس طرح یہ گھوٹالہ ان کی ناک کے نیچے ہی ہوا ہے۔
کاغذوں پر تقسیم ہو گیا 111 کروڑ روپے کا راشن، سی ایم استعفیٰ دیں: کانگریس
سی اے جی کی اس رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کانگریس نے منگل کو الزام لگایا کہ حکومت نے کاغذ پر تقریباً 111 کروڑ روپے کا راشن تقسیم کردیا۔ پارٹی نے اس معاملے میں وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا ہے۔
اندور میں کانگریس کی طرف سے منعقد ایک پریس کانفرنس میں سابق وزیر اور ایم ایل اے جیتو پٹواری نے کہا، میڈیا میں سی اے جی کی خفیہ رپورٹ کے مطابق، ریاست میں کاغذ پر تقریباً 111 کروڑ روپے کا راشن تقسیم کیا گیا۔ اس گھوٹالے کے تحت راشن کی تقسیم میں اس وقت فرضی واڑہ کیا گیا ، جب ریاست میں کووڈ-19 کا شدید قہر تھا۔
انہوں نے مبینہ گھوٹالے پر ریاستی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے الزام لگایا کہ سرکاری راشن کے اسٹاک میں دھاندلی کی گئی ہے اور غذائی قلت کے شکار بچوں تک پہنچنے والے نیوٹریشن کی کوالٹی کی جانچ بھی نہیں کی گئی۔
کانگریس ایم ایل اے نے مطالبہ کیا کہ راشن کی تقسیم میں ان مبینہ بے ضابطگیوں کے سامنے آنے کے بعد وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان کو فوراً اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دینا چاہیے۔
پٹواری نے دعویٰ کیا کہ کسی غیر جانبدار ایجنسی سے تحقیقات کرائی جائے تو مبینہ راشن گھوٹالہ 250-300 کروڑ روپے کا نکل سکتا ہے۔
کانگریس ایم ایل اے نے کہا کہ پارٹی مبینہ راشن گھوٹالہ کے معاملے کو اسمبلی کے آئندہ سرمائی اجلاس میں اٹھائے گی۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)