معاملہ گنا کے وندنا کانونٹ اسکول کا ہے، جہاں پرنسپل سسٹر کیتھرین واٹولی کے خلاف ایک طالبعلم کو اسمبلی میں سنسکرت کا اشلوک پڑھنے سے روکنے کا الزام لگایا گیا ہے۔ اسکول کا کہنا ہے کہ مذکورہ پروگرام میں طلبہ کو پہلے ہی انگریزی میں بات کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔
مدھیہ پردیش کے گنا میں وندنا کانونٹ اسکول کے سامنے اے بی وی پی کے ارکان۔ (تصویر بہ شکریہ: اسپیشل ارینجمنٹ)
نئی دہلی: راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی اسٹوڈنٹ ونگ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (اے بی وی پی) نے مدھیہ پردیش کے گنا میں ایک نجی اسکول کی پرنسپل کے خلاف مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے الزام میں ایف آئی آر درج کرائی ہے۔
معلوم ہو کہ یہ معاملہ وندنا کانونٹ اسکول کا ہے، جہاں پرنسپل کے عہدے پر فائز سسٹر کیتھرین واٹولی پر ایک طالبعلم کو سنسکرت میں اشلوک پڑھنے سے روکنے کا الزام لگایا گیاہے۔ اسکول کا کہنا ہے کہ اسمبلی کا پروگرام پہلے سے ہی طے تھا اور طلبہ کو انگریزی میں بات کرنے کی پیشگی ہدایت دی گئی تھی۔
حالانکہ یہ واقعہ تقریباً 10 دن پرانا ہے، لیکن حال ہی میں اس معاملے نے اس وقت طول پکڑا، جب ایک اخبار ’
پتریکا‘ نے ’کانونٹ اسکول میں ہندی بولنے پر بچوں کے ہاتھ سے چھینا مائیک‘ کے عنوان سے خبر شائع کی۔
خبر میں بتایا گیا کہ ایک بچے نے گیتا کا ایک اشلوک پڑھا ، یہ سن کر اسکول کی پرنسپل کیتھرین کو غصہ آگیا۔ انہوں نے اس بچے سے مائیک چھین لیا اور کہا کہ یہاں گیتا کا کوئی اشلوک نہیں پڑھا جائے گا۔
اس خبر کے نتیجے میں 22 جولائی کو کوتوالی پولیس اسٹیشن نے بھارتیہ نیائے سنہتا (بی این ایس) کی دفعہ 196 (مذہبی گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا) اور 299 (مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے ارادے سے جان بوجھ کر کیا گیا فعل) کے تحت پرنسپل کیتھرین واٹولی کے خلاف ایف آئی آر درج کی۔
‘طالبعلموں کو انگریزی میں تقریر کرنے کی پیشگی ہدایت تھی’
اسکول کے ایک سینئر ملازم جان میتھیوز (بدلا ہوا نام) نے دی وائر سے بات کرتے ہوئےپرنسپل کے خلاف تمام الزامات کو ‘بے بنیاد اور مضحکہ خیز’ قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ 13 جولائی (سنیچر) کو طلبہ کی کابینہ کی حلف برداری کی تقریب تھی اور نو منتخب ہاؤس کپتانوں کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ سوموار کی دعائیہ اجلاس کے لیے انگریزی میں اسپیچ تیار کریں۔
انہوں نے مزید کہا، ’15 جولائی (سوموار) کو اسکول میں باقاعدہ اسمبلی ہوئی۔ چار ہاؤس کپتانوں میں سے دو کو اس دن اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو ظاہر کرتے ہوئے تقریرکرنے کو کہا گیا۔ جب ایک طالبعلم نے ہندی میں تقریر شروع کی تو سسٹر کیتھرین نے اسے انگریزی میں بات کرنے کی پیشگی ہدایت یاد دلائی گئی جو کہ ایک عام ہدایت تھی۔
اس کے بعد طالبعلم انگریزی میں تقریر کرنے کو تیار نہ ہوا اور اسٹیج سے نکل کر اپنی کلاس میں چلا گیا۔
میتھیوز نے کہا کہ یہ واقعہ اس وقت عام سا ہی واقعہ کا لگ رہا تھا اور اس کا کوئی فوری اثر دیکھنے کو نہیں ملا تھا۔ لیکن جب 20 جولائی کو پتریکا کی خبر سامنے آئی تو اس میں کہا گیا کہ ہندو تنظیموں نے ضلع کلکٹر سے رابطہ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔
اس کے بعد یہ اطلاع بھی سامنے آئی کہ ایک تنظیم 22 جولائی کو اسکول کی طرف ایک ریلی نکالنے جا رہی ہے۔
میتھیوز کے مطابق، ‘اس دن تقریباً 70-80 لوگوں کا ایک ہجوم اسکول پہنچا اور پولیس اور انتظامیہ کی نگرانی میں ڈھائی گھنٹے تک نعرے لگاتا رہا۔ کچھ مظاہرین کوتوالی پولیس اسٹیشن گئے جہاں تیسرے فریق نے ایف آئی آر درج کروائی، جس کی اطلاع ہمیں شام کو ملی۔ تاہم، اس معاملے میں شکایت کنندہ اسٹیج پر موجود بچے یا ان کے والدین نہیں ہیں۔ ممکن ہے دوسرے بچوں نے گھر میں اس واقعے کا ذکر کیا ہو۔‘
اس معاملے میں درج ایف آئی آر میں الزام لگایا گیا ہے کہ سسٹر کیتھرین کی حرکتوں سے ہندو سماج کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے ہیں۔
اے بی وی پی کے ایک رکن کی طرف سے درج ایف آئی آر میں کہا گیا ہے، ‘سسٹر کیتھرین کی جانب سے گیتا کے اشلوک کو شاعری کے طور پر لیبل کرنے سے ہمارے مذہبی جذبات مجروح ہوئے ہیں اور طلباء کو ذہنی پریشانی ہوئی ہے۔ سسٹر کیتھرین کے اس عمل نے طلبہ کے ذہنوں میں نفرت کے بیج بوئے ہیں جس سے ہندو طلبہ اور عام لوگوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔‘
بے حسی کا الزام
دی وائر نے اس معاملے میں اے بی وی پی کے رکن اور شکایت کنندہ سکشم دوبے سے بات کی، جنہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے کئی رشتہ دار اسکول میں پڑھتے ہیں اور اس نے ان سے اس واقعے کے بارے میں شکایت کی۔
دوبے کے مطابق، ‘طالبعلم کو ہندی بولنے سے روکا گیا اور اسے ‘اشلوک’ پڑھنے کے دوران بھی روکاگیا۔اشلوک کو غلط طریقے سے ‘شاعری’ کا نام دیا گیا، جس سے ہمارے مذہبی جذبات مجروح ہوئے۔ 90 فیصد ہندو طالبعلم والے اسکول کا مینجمنٹ کرنے والے کسی دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والی پرنسپل کو ہندو روایات کو سمجھنا چاہیے۔ اور اگر ایسا نہیں ہے تو ان کی تقرری مسئلہ ہے۔ انتظامیہ کو کسی ایسے شخص پر غور کرنا چاہیے جو ہندی میں ماہر ہو اور ہندو برادری سے واقف ہو۔‘
واضح ہو کہ وندنا کانونٹ اسکول ایک عیسائی مشنری اسکول ہے، جس کا مینجمنٹ خصوصی طور پر سسٹرز کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ یہ اسکول اس سال اپنی 50 ویں سالگرہ منا رہا ہے۔
سال 1974 میں قائم ہونے والا یہ اسکول گنا کا پہلا انگلش میڈیم اسکول ہے۔ قیام کے بعد سے کیمپس میں ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ یہ پہلا موقع ہے کہ اس کے ملازمین کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا ہے۔
سوشل میڈیا پر احتجاجی مظاہرہ کے وائرل ویڈیو
اس معاملے سے متعلق سامنے آئے ایک ویڈیو میں اے بی وی پی کے ارکان کو پولیس اور انتظامیہ کی موجودگی میں اسکول کے باہر ہنگامہ کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ ویڈیو میں مردوں کو پرنسپل سسٹر واٹولی کی توہین اور ان کے ساتھ بد سلوکی کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
ویڈیو میں ایک شخص چیخ رہا ہے، ‘ہمیں معلوم ہے کہ جس طالبعلم نےہندی میں بولا تھاآپ کواس پر اعتراض تھا۔ اس پرنسپل کو شاعری اور اشلوک میں فرق ہی نہیں معلوم ۔ یہ اشلوک کو شاعری بول رہی ہیں۔‘
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے ایک اور ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اے بی وی پی کے اراکین اسکول کے احاطے میں داخل ہونے کے بعد ‘جئے شری رام’ کے نعرے لگانے کے لیے طلباء سے اپیل کر رہے ہیں۔
اس معاملے پر ماہر تعلیم اور کارکن شیوانی نے کہا، ‘میں کثیر لسانی معاشرے کو فروغ دینے میں یقین رکھتی ہوں۔ تاہم، اگر والدین اپنے بچوں کے لیے انگریزی میڈیم اسکول کا انتخاب کرتے ہیں، تو تعلیم کی بنیادی زبان انگریزی ہونی چاہیے۔ ہندی کے استعمال پر اے بی وی پی کا اصرار تعلیم سے زیادہ ہندوتوا کو فروغ دینے کے بارے میں لگتا ہے۔ تعلیمی اداروں کو سیاسی مفادات کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، طلبہ کی ضروریات اور مفادات کی کوئی پرواہ نہیں۔ اسکولوں کے ساتھ اس طرح کی سیاست تعلیم کے معیار اور بچوں کے مستقبل کے لیے خطرناک ہے۔‘
اس معاملے میں میتھیوز نے کہا کہ احتجاج کے دن پولیس نے سیکورٹی فراہم کی لیکن انتظامیہ اور ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسر بے بس نظر آئے۔
میتھیوز نے کہا، ‘ایف آئی آر میں مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے اور ہندی پر پابندی لگانے کا الزام لگایا گیا ہے، جو ہندی بولنے والے علاقے میں ناممکن ہے۔ اسکول سرکاری ہدایات کی پیروی کرتا ہے۔ دور دراز علاقے میں ہونے کے باوجود ہمارے اسکول کی اچھی شہرت ہے۔ اس کے بہت سے سابق طلباء ملک اور بیرون ملک اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ یہ کامیابی اسکول کے معیار کی عکاسی کرتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ والدین اپنے بچوں کو یہاں بھیجتے ہیں۔ والدین کم فیس اور معیاری تعلیم کے لیے اس اسکول کا انتخاب کرتے ہیں۔ اگر ہم انگریزی میں نہیں پڑھاتے تو وہ اپنے بچوں کو یہاں داخل نہیں کرواتے۔ ‘
دریں اثنا، نیوز پورٹل
نیوز لانڈری سے بات کرتے ہوئے اے بی وی پی کے ضلع کوآرڈینیٹر پیوش مشرا نے دعویٰ کیا کہ ‘پرنسپل گزشتہ کئی سالوں سے ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث رہی ہیں۔ وہ ہندو مذہب کی توہین کر رہی ہیں۔‘
اے بی وی پی کے الزامات کا جواب دیتے ہوئے میتھیوز نے پوچھا، ‘ملک مخالف’ ہونے کا اصل میں مطلب کیا ہے؟ ابھی ایک ماہ قبل سسٹر کیتھرین اسکول کی پرنسپل بنائی گئی ہیں۔ بغیر کسی ثبوت کے کسی پر ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا لیبل لگانا سنگین ہے۔ احتجاج کے دن، اسکول اپنا باقاعدہ شیڈول چلا رہا تھا جس میں ماہانہ امتحانات بھی شامل تھے۔ ہمارا مشن طلباء کو تعلیم دینا اور ان کی کردار سازی کرنا ہے۔ ضرورت پڑنے پر ہم ان کی غلطیوں کو درست کرتے ہیں اور ان کی رہنمائی کرتے ہیں۔‘
تنازعہ اور دھمکیاں
اے بی وی پی کے رکن اور شکایت کنندہ دوبے کہتے ہیں، ‘ہمیں اس معاملے کے بارے میں رپورٹ ہونے سے پہلے ہی پتہ تھا۔ اگر اسکول اپنی غلطی تسلیم کر لیتا تو معاملے کو سلجھایا جا سکتا تھا۔ ہم نے اسکول کا گھیراؤ نہیں کیا بلکہ وی ایچ پی اور اے بی وی پی کے ساتھ مل کر پرامن احتجاج کیا۔ جب گھنٹوں انتظار کے بعد بھی اسکول کا گیٹ نہیں کھلا تو اے بی وی پی کے لوگوں نے اسکول کو وارننگ دی اور پھر گیٹ کے اوپر سےکود کر اسکول کے احاطے میں داخل ہوگئے۔ اسٹاف کے ساتھ کوئی بدتمیزی نہیں ہوئی اور طلباء بھی پرسکون اور پرجوش رہے۔‘
نیوز لانڈری کی رپورٹ میں پرنسپل کیتھرین کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ اے بی وی پی نے ان سے ہندی میں معافی مانگنے کو کہا ہے۔
سسٹر کیتھرین واٹولی نے کہا، ‘میرا مقصد صرف یہ تھا کہ طلبہ کی انگریزی بولنے کی مہارت کو بہتر بنایا جائے اور کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانا میرا مقصد نہیں تھا۔ لیکن اگر کسی کی دل آزاری ہوئی ہو تو معذرت خواہ ہوں۔ جب میں نے یہ کہا تو وہ مجھے سوری کی جگہ معاف کر دو کہنے کو کہہ رہے تھے۔‘
(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)