رتلام ضلع کے راوٹی کا معاملہ۔سوشل میڈیا پر وائرل ایک ویڈیو میں ایک شخص لاؤڈ اسپیکر سے اذان دینےکے معاملے پر اعتراض کرتے ہوئے یہ کہتا ہوا نظر آ رہا ہے کہ اس نے مسجد کے سامنے والی عمارت پر لاؤڈ سپیکر لگادیا ہے اور جب جب اذان دی جائے گی، لاؤڈ اسپیکر سے تیز آواز میں میوزک بجا یا جائے گا۔
مدھیہ پردیش کے رتلام میں اذان پر اعتراض کرتاہندو جاگرن منچ کا رکن۔(تصویر: اسکرین گریب)
نئی دہلی: سوشل میڈیا پر ان دنوں ایک ویڈیو وائرل ہے، جس میں دائیں بازو کے ایک گروپ سے تعلق رکھنے والا شخص کچھ لوگوں کے ساتھ مسجد کے باہر کھڑا ہے اور مسجد میں لاؤڈ اسپیکر سے دی جانے والی اذان کے سلسلے میں اعتراض کر رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، یہ ویڈیو مدھیہ پردیش کے رتلام ضلع کے راوٹی کا ہے۔
اس 30 سیکنڈ کےویڈیو میں وہ یہ کہتے ہوئے نظر آرہا ہے کہ ، راوٹی کی مسجد میں اذان کے سلسلے پولیس کو عرضی دینے کے بعد بھی لاؤڈ اسپیکر سے اذان دی گئی۔ ہم نے ایک طریقہ تلاش کیا ہے۔ ہم نے مسجد کےسامنے والی عمارت میں لاؤڈ سپیکر لگائے ہیں، جب جب اذان ہو گی ہم لاؤڈ سپیکر سے بلند آواز میں میوزک بجائیں گے۔ اس ویڈیو کو وائرل کیجیے،یہ پیغام پورے ہندوستان میں جاناچاہیے۔
بتایا جا رہا ہے کہ یہ ویڈیو31 جنوری کو شوٹ کیا گیا تھا۔ اس وائرل ویڈیو میں یہ نوجوان کہہ رہا ہے کہ انہوں نے پولیس کو اذان کے حوالے سے ایک درخواست (میمو) دی تھی، لیکن اسے نظر انداز کر دیا گیا، جس کی وجہ سے اسے اذان کا جواب دینے کے لیے مسجد کے سامنے لاؤڈ سپیکر لگانا پڑا۔
یہ ویڈیو آر ایس ایس سے وابستہ ہندو جاگرن منچ کی جانب سے لاؤڈ اسپیکر سے اذان پر پابندی کے مطالبہ کے سلسلے میں 29 جنوری کو رتلام ضلع کے راوٹی پولیس اسٹیشن میں عرضی دینے کے دو دن بعد کا ہے۔
یہ ویڈیو راتوں رات وائرل ہو گیا تھا۔ دوسرے دن رتلام پولیس گاؤں پہنچی اور مسلمانوں سے مسجد کی چھت پرلگائے گئے لاؤڈ اسپیکر کی آواز کو کم کرنے کی اپیل کی۔ اس کے ساتھ ہی پولیس نے مسجد کے سامنے والی عمارت پر مقامی لوگوں کی طرف سے لگائے گئے لاؤڈ سپیکر کو بھی ہٹا دیا۔
راوٹی پولیس اسٹیشن کے ٹاؤن انسپکٹر رام سنگھ نے دی وائر کو بتایا،ہم نے گاؤں والوں سے بات کی ہے اور دونوں کمیونٹی سے امن و امان برقرار رکھنے کی اپیل کی ہے۔معاملہ پرامن طریقے سے حل ہو گیا ہے ، اس لیے اس متنازعہ ویڈیو بنانے والے نوجوان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
ہندو جاگرن منچ کے مالوا صوبے کے سربراہ آشیش بسو نے دی وائر کو بتایا،راوٹی واحد پولیس اسٹیشن نہیں ہے، جہاں مساجد سے لاؤڈ اسپیکر ہٹانے کا مطالبہ کرتے ہوئےدرخواستیں دی گئی تھیں۔ 29 جنوری سے 2 فروری 2022 کے درمیان، ہندو جاگرن منچ نے مدھیہ پردیش کے مالوا علاقے کے 15 اضلاع کے تمام 310 تھانوں میں دو صفحات پر مشتمل درخواست جمع کرائی ہے۔
دریں اثنا مالوا علاقہ میں اس طرح کے کئی واقعات پیش آئے ہیں جہاں ہندو جاگرن منچ کے پچاس سے زائد لوگوں نے مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر رتلام، کھنڈوا، بروانی، دھار اور اُجین کے پولیس اسٹیشنوں کو مساجد میں لاؤڈ اسپیکر لگانے پر پابندی لگانے کی اپیل کی ہے۔
ان کو حوالے کرنے سے پہلے ہندو جاگرن منچ کے لوگوں نے پولیس اور کارکنوں کے سامنے دو صفحات کا یہ میمو پڑھا۔
دی وائر سے بات کرتے ہوئے دھار کے ضلع کے پولیس سپرنٹنڈنٹ آدتیہ پرتاپ سنگھ نے کہا، یہ معاملہ میرے علم میں آیا ہے کہ مختلف تھانوں میں میمو دیے گئے ہیں اور چونکہ یہ ایک متنازعہ معاملہ ہے، ہم اس کے قانونی پہلوؤں کو دیکھ رہے ہیں۔
دو صفحات پر مشتمل اس میمو میں ہندو جاگرن منچ نے دعویٰ کیا ہے کہ بغیر کسی منظوری کے دن میں پانچ بار لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے اذان دی جاتی ہے، لیکن مذہبی پروگراموں اور تہواروں کے دوران پنڈال لگانے کے لیے ہندوؤں کو مختلف دفاتر سے منظوری لینی پڑتی ہے۔
میمو میں
سعودی عرب کے جون 2021 کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا ہے، جس میں ضرورت سے زیادہ شور کی شکایتوں کے بعد مسجد کے لاؤڈ اسپیکر کی آواز کو کم کیا گیا تھا۔
ہندو جاگرن منچ کی جانب سے پولیس کے سپردکیا گیا میمو۔
میمو میں کہا گیا کہ جب سعودی عرب جیسے اسلامی ملک میں لاؤڈ اسپیکر کے استعمال پر پابندی لگائی جا سکتی ہے تو ہندوستان میں یہ کیوں نہیں ہو سکتا۔ اسے فوراً روکا کاجانا چاہیے۔
ہندو جاگرن منچ کے علاوہ، 16 جنوری کو اندور کے وکیلوں کے ایک گروپ نے جونی پولیس اسٹیشن سمیت شہر کے مختلف تھانوں میں میموسونپے، جس میں مساجد سے لاؤڈ اسپیکر ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ 24 جنوری کو دائیں بازو کے گروپوں کے ارکان نے اسی طرح کا ایک میمواندور کے راؤجی بازار پولیس اسٹیشن کو بھیجا، جس میں دعویٰ کیا گیا کہ انہیں اذان سے پریشانی ہو رہی ہے اور اگر اسے بند نہ کیا گیا تو ہندو نہ صرف اذان کے دوران بلند آواز میں موسیقی بجائیں گے بلکہ’علاقے کے مسلمانوں پر تشدد بھی کریں گے۔’
جیسا کہ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے، دائیں بازو کے گروپ کے ایک رکن کو راؤجی بازار تھانے کے ٹاؤن انسپکٹر سے کہتے سنا جا سکتا ہےکہ ، یہ ایک شروعات ہے، یہ ایک قومی مسئلہ بننے جا رہا ہے۔ اس کو سنجیدگی سے لیجیے۔
اندور کے راؤجی بازار پولیس اسٹیشن میں واقعہ کے بارے میں پوچھے جانے پر ہندو جاگرن منچ کے آشیش بسو نے کہا کہ ، یہ میمو وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل نے دیا تھا، ہندو جاگرن منچ نے نہیں دیا۔
تاہم، وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) اور بجرنگ دل مدھیہ پردیش کے رہنما راجیش تیواری نے اذان کے خلاف ایسی کسی مہم سے انکار کیا ہے۔
جب ان سے اندور راؤجی واقعہ، جس میں وی ایچ پی اور بجرنگ دل کے لوگ ویڈیو میں میمو دیتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں،کے بارے میں پوچھا گیاتو انہوں نے کہا،میں نے ویڈیو نہیں دیکھا ہے اس لیے میں اس پر تبصرہ نہیں کر سکتا۔
بسو نے تاہم انکشاف کیا کہ اذان کے خلاف مہم ایسے وقت میں کیوں شروع کی گئی جب پانچ ریاستوں میں انتخابات ہو رہے ہیں۔ بسو نے کہا، یہ فیصلہ اعلیٰ حکام کی طرف سے آیا ہے۔ دھار ضلع کے ترک باگری گاؤں کے مسلمانوں نے مذہبی تقریبات کے دوران تیز آواز میں موسیقی بجانے کے سلسلے میں پولیس سے شکایت کی تھی،جس کے بعد پولیس نے منتظمین کو دھمکیاں دی تھیں۔
بسو کے اس دعوے کی کہ اذان کے خلاف ہندو جاگرن منچ کی اس مہم کا موجودہ انتخابات سے کوئی تعلق نہیں ہے، تردید کرتے ہوئےاندور شہر کے قاضی عشرت علی نے کہا، اذان کے خلاف اس مہم کو پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخاب اور مدھیہ پردیش میں آنے والے پنچایتی انتخابات سے پہلے فرقہ وارانہ آگ بھڑکانے کے ارادے سے شروع کیا گیا۔
انہوں نے کہا، اذان مسجد سے کیا جانے والاصرف ایک اعلان ہے، جس سے لوگوں کو نماز کے بارے میں یاد دلایا جاتا ہے اور یہ دو سےتین منٹ میں ختم بھی ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ہندوستانی آئین کا آرٹیکل 25 ہر شہری کو اپنی پسند کے مذہب پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کا حق دیتا ہے۔
بتادیں کہ 2011 کی مردم شماری کے مطابق مدھیہ پردیش میں مسلمانوں کی آبادی سات فیصد سے بھی کم ہے۔ ان میں سے 80 فیصد سے زیادہ آبادی ریاست کے مالوا نیمار علاقے میں رہتی ہے۔