آسام کے شیوساگر سےایم ایل اے اکھل گگوئی نےجیل سے رہا ہونے کے بعد پہلی بار اپنے انتخابی حلقے کا دورہ کیا۔ گگوئی نے این آئی اے کی خصوصی عدالت کے ذریعےجانچ ایجنسی کی جانب سے لگائے گئےتمام الزامات سے انہیں بری کرنے کو ‘تاریخی’قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کا معاملہ ثبوت ہے کہ یو اے پی اے اور این آئی اے ایکٹ کا بڑے پیمانے پر غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔
آسام کے شیوساگر سےایم ایل اے اکھل گگوئی (فوٹو: پی ٹی آئی)
نئی دہلی:آسام کے آزاد ایم ایل اے اکھل گگوئی نے جمعہ کو کہا کہ صوبے میں شہریت قانون (سی اے اے)کے خلاف تحریک کو دوبارہ زندہ کیا جائےگا اور وہ ترقی کے لیے تحریک جاری رکھیں گے۔جیل سے رہا ہونے کے ایک دن بعد گگوئی نے دعویٰ کیا کہ جب وہ جیل میں بند تھے تب تحریک کے رہنماؤں نے صوبے کے لوگوں کو دھوکہ دیا۔
گزشتہ دنوں این آئی اے کی خصوصی عدالت نے شیوساگر سےایم ایل اے اکھل گگوئی اور ان کے تین ساتھیوں کو دسمبر 2019 میں آسام میں شہریت قانون کے خلاف پرتشدد مظاہرہ میں مبینہ رول کے لیے یو اے اپی اے کے تحت تمام
الزامات سے بری کر دیا ہے۔
گگوئی اور ان کےساتھی یو اے پی اے1967کے تحت دو معاملوں میں ملزم تھے۔ آزادایم ایل اے اور ان کے دو دیگر ساتھیوں کو پہلے معاملے میں 22 جون کو الزامات سے بری کر دیا گیا تھا۔
گوگوئی نے اپنے انتخابی حلقے شیوساگر کے لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا، ‘اب جب میں باہر آ گیا ہوں، تو میں لوگوں کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ سی اےاے مخالف تحریک پھر شروع ہوگی۔ کسی(غیرقانونی)غیرملکی کو صوبے میں رہنے کی اجازت نہیں دی جائےگی۔’
دسمبر2019 میں سی اے اے کے خلاف پرتشدد مظاہرہ میں مبینہ رول کی وجہ سے گگوئی کو تقریباً19 مہینے جیل میں رہنا پڑا۔ انہوں نے شیوساگر سیٹ سے اسمبلی انتخا ب جیل میں رہتے ہوئے لڑا اور جیت حاصل کی تھی۔ نو تشکیل شدہ رائےجور دل کے بانی اکھل گگوئی کو 57219 ووٹ ملے تھے۔ وہ صوبے میں جیل سے انتخاب جیتنے والے پہلے شخص ہیں۔
رائےجور دل کے صدر چنے جانے کے بعد گگوئی پہلی بار اپنے انتخابی حلقے میں پہنچے۔ انہوں نے کہا، ‘میں تحریک کے راستےایم ایل اے بنا۔ میں اب تحریک سے منھ نہیں موڑ رہا ہوں۔’گگوئی نے کہا، ‘میں سرکار کو واضح لفظوں میں کہنا چاہتا ہوں کہ میں نےسرینڈر نہیں کیا ہے۔ میری تحریک کی زبان نے اب ایک نئی جہت حاصل کرلی ہے۔ یہ زیادہ وسیع ہوچکی ہے۔
انہوں نےالزام لگایا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی)کی قیادت والی ریاستی سرکار صوبے کے لوگوں کی مشکلات کے لیےحساس نہیں ہے۔انہوں نے کہا، ‘میں اسمبلی میں بڑے باندھوں اور ٹول گیٹ کا معاملہ اٹھاؤں گا۔ اگر سرکار مناسب ردعمل ا دینے میں ناکام رہی تو ہمیں احتجاج کا راستہ منتخب کرنا ہوگا۔’
گوہاٹی سے تقریباً400 کلومیٹر دور شیوساگر کے راستے میں گگوئی کو کئی جگہ رکنا پڑا کیونکہ ان کے حامی اورمقامی لوگ ان کے استقبال کے لیے قطارمیں کھڑے تھے۔
گگوئی نے کہا،‘جیل جا چکے میرے جیسے شخص کے لیے لوگوں کا یہ پیار ثابت کرتا ہے کہ مجھے غلط طریقے سے بند کیا گیا۔ بی جے پی نے مجھے سلاخوں کے پیچھے رکھا اور دوسری بار جیت گئی، لیکن یہ پھر نہیں ہوگا۔ 2026 میں ایک نئی سرکار بنائی جائےگی۔ آج سے ‘بھاجپا ہٹاؤ’ تحریک شروع ہوتی ہے۔’
انتخاب جیتنے کے بعد گگوئی کا یہ پہلا شیوساگر دورہ تھا۔ شیوساگر کی ترقی کو یقینی بنانے کا وعدہ کرتے ہوئے،ایم ایل اے نے کہا، ‘جب تک ایسا نہیں ہوتا، میں وزیر اعلیٰ یا کسی اور وزیرکو سکون سے نہیں رہنے دوں گا۔’
گگوئی نے این آئی اے کی خصوصی عدالت کے ذریعےجانچ ایجنسی کی جانب سے لگائے گئے تمام الزامات سے انہیں بری کرنے کو ‘تاریخی ’ قرار دیتے ہوئےجمعہ کو کہا کہ ان کا معاملہ ثبوت ہے کہ یواےپی اے اور این آئی اے یکٹ کا بڑے پیمانے پر غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔
گگوئی نے این آئی اے کو بی جے پی کے زیر قیادت مرکزی حکومت کا ‘سیاسی ہتھیار’ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ ان لوگوں کے لیے میل کا پتھر ثابت ہوگا جنہیں انسداد دہشت گردی کے ان دو قوانین کامبینہ غلط استعمال کرکےفتار کیا گیا ہے۔
شہریت قانون (سی اےاے)مخالف کارکن گگوئی نے 567 دنوں کے بعد ہوئی رہائی کے بعد کہا، ‘میرا معاملہ یو اے پی اے اور این آئی اے ایکٹ کے بڑے پیمانے پر غلط استعمال کو ثابت کرتا ہے۔ یہ فیصلہ ان لوگوں کے لیے میل کا پتھر ثابت ہوگا، جنہیں ان دو قوانین کا غلط استعمال کرکے گرفتار کیا گیا ہے۔’
انہوں نے کہا کہ این آئی اے کی خصوصی عدالت کا فیصلہ تاریخی ہے، کیونکہ یہ این آئی اے کا پردہ فاش کرتا ہے جو سی بی آئی اور ای ڈی) کی طرح ‘سیاسی ایجنسی’ بن گئی ہے۔انہوں نے کہا، ‘یہاں تک کہ جمعرات کو بھی این آئی اے نئے معاملے درج کرنا چاہتی تھی، لیکن اپیل کے ساتھ جب وہ عدالت گئی تب تک فیصلہ آ چکا تھا۔’
این آئی اے کے ذریعے29 جون کو جمع ایڈیشنل چارج شیٹ پر گگوئی نے کہا، ‘ہنی ٹریپ، گائے کی اسمگلنگ اور ماؤنواز کیمپ میں ٹریننگ کے فرضی الزام لگائے’ گئے۔
رائے جور دل کے سربراہ گگوئی نے الزام لگایا کہ این آئی اے نے آر ایس ایس یا بھارتیہ جنتا پارٹی میں شامل ہونے پر
فوراً ضمانت دینے کی پیشکش کی تھی۔ اسی طرح کے الزام انہوں نے مئی میں جیل سے لکھی چٹھی میں بھی لگائے تھے۔
انہوں نے دعویٰ کیا،‘جب انہوں نے مجھے حراست میں لیا تو صرف یہ پوچھا کہ کیا میں آر ایس ایس میں شامل ہونا چاہوں گا۔ ایک بار بھی انہوں نے ماؤنواز سے مبینہ تعلق کے بارے میں نہیں پوچھا۔ میرے سی آئی او ڈی آر سنگھ نے کبھی لال باغیوں (ماؤنوازوں)کے بارے میں پہلے کبھی بات نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ اگر میں آر ایس ایس میں شامل ہوتا ہوں تو 10 دن کے اندر مجھے رہا کر دیا جائےگا۔’
گگوئی نے کہا، ‘جب میں نے اس کامنفی جواب دیا، تب انہوں نے مجھے بی جے پی میں شامل ہونے اور وزیربننے کی پیشکش کی۔ میں نے اس پیش کش کو بھی ٹھکرا دیا۔ اس پر انہوں نے کہا کہ میں اگلے 10 سال تک جیل میں رہوں گا۔’
انہوں نے کہا کہ این آئی اے کی خصوصی عدالت کا فیصلہ عدلیہ میں‘اہم موڑ’ہے اور یہ دکھاتا ہے کہ ‘عدلیہ کا دباؤ’مستحکم نہیں ہوتا۔
بتا دیں کہ گگوئی کو 12 دسمبر 2019 کو جورہاٹ سے گرفتار کیا گیا تھا۔ اس دوران صوبے میں شہریت قانون کی مخالف پورے شباب پر تھی۔ گگوئی کی گرفتاری نظم ونسق کے مد نظر احتیاط کے طور پر ہوئی تھی اور اس کے اگلے دن ان کے تین ساتھیوں کو حراست میں لیا گیا تھا۔ گزشتہ ایک جولائی کو انہیں رہا کیا گیا ہے۔
اس سے پہلےگزشتہ 29 جون کو این آئی اے عدالت سے دو دن کے پیرول پر رہا کیے گئے اکھل گگوئی جورہاٹ میں اپنی بیمار ماں سے ملے تھے۔ اس دوران انہوں نے الزام لگایا تھا کہ آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا شرما انہیں سلاخوں کے پیچھے رکھنے کے لیے سازش کر رہے ہیں اور ایسا کرنے کے لیے این آئی اے پر ‘زبردست دباؤ’ڈال رہے ہیں۔
انہوں نے کہا تھا، ‘وزیر اعلیٰ سے میری گزارش ہے کہ انہیں اتر پردیش جیسی سیاست یہاں نہیں کرنی چاہیے۔ آسام میں جمہوری قدروں پر مبنی سیاست کو فرقہ واریت میں تبدیل نہیں کرنا چاہیے۔’
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)