کرناٹک میں فرقہ وارانہ واقعات مثلاً؛ حجاب ، ہندو مذہبی مقامات پر مسلمانوں کو کاروبار کرنے کی اجازت نہ دینا یا حلال گوشت کے تنازعہ کے پیش نظر بایوکان کمپنی کی سربراہ کرن مجمدار شا نے وزیر اعلیٰ سے اپیل کی ہے کہ وہ مذہب کی بنیاد پر تفریق کے اس معاملے کو حل کریں۔ اس پر وزیر اعلیٰ بومئی نے کہا ہے کہ اس طرح کے ایشو پر عوامی فورم پر جانے سے پہلے سب کو تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
کرن مجمدار شا۔ (فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر)
نئی دہلی: کرناٹک میں ‘ مذہبی اختلافات’ کو حل کرنے کے لیے بایوکان کی سربراہ کرن مجمدار شا کی اپیل کے پس منظر میں وزیر اعلیٰ بسوراج بومئی نے جمعرات کو سماج کے تمام طبقات سے اپیل کی ہے کہ وہ کسی بھی سماجی مسئلے کو لے کر عوامی فورم پرجانے سے پہلےتحمل سے کام لیں، کیونکہ ان مسائل کو آپسی بات چیت اور صلاح مشورےسے حل کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کرناٹک امن اور ترقی کے لیے جانا جاتا ہے اور اس کو قائم رکھنے میں سب سے تعاون کرنے کو کہا ہے۔ انہوں نے لوگوں کی توجہ کرن مجمدار شا کی تشویش کی طرف بھی مبذول کروائی، جس میں انہوں نے (مجمدار شا) کہا ہےکہ ایک ایسی ریاست میں جو ہمیشہ اقتصادی ترقی کی راہ پر گامزن رہی ہے، اگر انفارمیشن ٹکنالوجی، بایو ٹکنالوجی اور سائنس اینڈ ٹکنالوجی ( آئی ٹی/ بی ٹی ) سیکٹرفرقہ وارانہ ہو جاتے ہیں تو یہ عالمی قیادت کو تباہ کر دے گا۔
وزیر اعلیٰ کو ٹیگ کرتے ہوئے انہوں نے ٹوئٹ کیا،کرناٹک نے ہمیشہ اقتصادی ترقی کو فروغ دیا ہے اور ہمیں فرقہ واریت کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ اگرآئی ٹی /بی ٹی کا سیکٹر اس کی زد میں آجاتا ہے تو یہ ہماری عالمی قیادت کو تباہ کر دے گا۔ بسوراج بومئی (وزیر اعلیٰ) براہ کرم مذہب کی بنیاد پر تفریق کے اس معاملے کو حل کریں۔
انہوں نے یہ ٹوئٹ سالانہ ہندو میلے کے دوران غیر ہندو تاجروں اور دکانداروں کو مندر کے ارد گرد کاروبار کرنے سے پابندی کے تناظر میں کیاتھا۔
ایک اور ٹوئٹ میں انہوں نے کہا تھا، بدقسمتی سے مفاد پرستی اس ایشو کو سیاسی جماعتوں کے حوالے کر رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ہمارے وزیر اعلیٰ اس معاملے کو پرامن طریقے سے حل کر لیں گے۔ میں کنڑ ہوں اور میں ان پیش رفت کو معاشی ترقی سے الگ ہوتے نہیں دیکھنا چاہتی۔ تمام جماعتوں کو اس سمت میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔
ٹوئٹ کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر اعلیٰ بومئی نے کہا، ریاست میں بہت سے مسائل زیر غور ہیں۔ یونیفارم کے معاملے پر ہائی کورٹ نے فیصلہ کردیا ہے۔ دیگر مسائل پر متعلقہ لوگوں سے میری اپیل ہے کہ ہم اتنے سالوں سے اپنے عقائد کی بنیاد پر اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔ امن و امان کے قیام میں سب کو تعاون کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا، کرناٹک امن اور ترقی کے لیے جانا جاتا ہے اور ہر کسی کو تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور یہ دیکھنا چاہیے کہ یہ (امن و امان) متاثر نہ ہو۔ لہٰذا ہر کسی کو عوامی فورم پر جانے سے پہلے (ایسے معاملے پر) تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
اس کے بعد ایک اور ٹوئٹ میں شا نے کہا، ہمارے وزیر اعلیٰ بسوراج بومئی کی تعریف کرتی ہوں اور سماج کے تمام طبقات سے سماجی مسائل پر عوامی سطح پر جانے سے پہلے تحمل سے کام لینے کی اپیل کرنے کے لیےتہہ دل سے ان سے اتفاق کرتی ہوں، کیونکہ ان کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جاسکتا ہے۔
بی جے پی نے کرن مجمدار شا کو نشانہ بنایا
لیکن وزیر اعلیٰ سے الگ بی جے پی شا پر ذاتی الزامات لگا کر حملہ آور ہے۔
بی جے پی نے شا پر جوابی حملہ کرتے ہوئے ان پر ذاتی اور ‘سیاسی رنگ’ والےخیالات مسلط کرنے اور انہیں انفارمیشن ٹکنالوجی اور بایو ٹکنالوجی کے سیکٹرمیں ہندوستان کی قیادت کے ساتھ جوڑنے کا الزام لگایا۔
بی جے پی کےآئی ٹی سیل انچارج امت مالویہ نے شا کی نکتہ چینی کرتے ہوئے ٹوئٹ کیا اور اصولوں کا ایک صفحہ بھی پوسٹ کیا، جو کانگریس کی حکومت میں تیار کیا گیا تھا۔
اس صفحہ کے ایک حصے کو نشان زد کیا گیا ہے،جس میں کہا گیا ہے کہ ،اداروں کے آس پاس کی کوئی جائیداد بشمول زمین، عمارتیں اور دیگر جگہیں غیر ہندوؤں کو لیز پر نہیں دی جائے گی۔
مالویہ نے ٹوئٹ کیا،یہ دیکھ کراچھا لگا کہ کرن شا کرناٹک میں مذہبی تفریق کے ایشوپربیدار ہوئیں۔ کیا انہوں نے اس وقت کچھ کہا، جب لڑنے کے لیے تیار ایک اقلیت نے حجاب کو تعلیم پر ترجیح دینے کی بات کہی یا کانگریس نے ہندو اداروں کے لیےایسےقوانین بنائے جو غیر ہندوؤں کو منع کرتے تھے؟ انہوں نے کانگریس کے منشور کی تیاری میں ان کی مدد کی۔ بتائیے؟
انہوں نے کہا،یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ شا جیسے لوگ اپنے ذاتی اور سیاسی رنگ والے خیالات مسلط کرتے ہیں اور انہیں انفارمیشن ٹکنالوجی اور بایو ٹکنالوجی کے سیکٹرمیں ہندوستان کی قیادت کے ساتھ جوڑتے ہیں۔ایسا ہی کچھ ایک بار راہل بجاج نے گجرات کے لیے کہا تھا، جو آج آٹوموبائل مینوفیکچرنگ کا مرکز ہے۔ اعداد و شمار دیکھیے۔
بتا دیں کہ بی جے پی کے قومی جنرل سکریٹری سی ٹی روی کمار نے بھی منگل کو حلال مصنوعات کو ‘اقتصادی جہاد’ قرار دیا تھا۔
انہوں نے کہا تھا کہ حلال ایک اقتصادی جہاد ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے جہاد کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے تاکہ مسلمان دوسروں کے ساتھ تجارت نہ کر سکیں۔ یہ نافذ ہو چکا ہے۔ جب وہ سوچتے ہیں کہ حلال گوشت استعمال نہیں ہو چاہیے تو یہ کہنے میں کیا حرج ہے کہ اس کا استعمال نہیں ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا تھا کہ حلال گوشت ان کے خدا کو پیش کیا جاتا ہے، اس لیے وہ (مسلمان) اسے پسند کرتے ہیں، لیکن ہندوؤں کے لیے یہ کسی کا بچا ہوا (جوٹھا) ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ حلال کو ایک منظم طریقے سے تیار کیا گیا ہے تاکہ اسے صرف مسلمانوں سے خریدا جائے دوسروں سے نہیں۔
شا کوصنعتی دنیا کی حمایت
تاہم اس دوران شا کو انڈسٹری کے دیگر بڑےناموں نے بھی سپورٹ کیا ہے۔
بایو کان چیف کے ٹوئٹ سے پیدا ہونے والےاس تنازعہ کا جواب دیتے ہوئےیولو بائیکس کے شریک بانی آر کے مشرا نے
انڈین ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے شا سے اتفاق کیا۔ انہوں نے کہا، انہوں نے ٹھیک کہا۔ ہم سب کو مل کر کام کرنا ہوگا تاکہ یہ ہاتھ سے نہ نکل جائے۔
بتادیں کہ یولو بائیکس نام کا ایک سٹارٹ اپ شہر میں الکٹرک بائیک کی خدمات فراہم کراتا ہے۔
آرین کیپیٹل پارٹنرز کے چیئرمین اور انفوسس کے سابق چیف فنانشل آفیسر ٹی وی موہن داس پئی نے کہا کہ اختلافات کو دور کرنے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برباد ہونے سے روکنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا،تمام مذہبی اداروں کو یہ فیصلہ کرنے کا حق ہے کہ کون ان کے احاطے میں دکانیں لگا سکتا ہے یا کاروبار کر سکتا ہے۔ بہت سے ہندو مندروں میں مسلمان تجارت کرتے تھے۔ پاپولر فرنٹ آف انڈیا اور دیگر اسلامی بنیاد پرست تنظیموں کے اکسانے پر حجاب کے معاملے پر ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف احتجاج میں جب انہوں نےدکانیں بند کیں تو انہوں نے مندر کے حکام کا بھروسہ توڑا۔ اس سے مندر انتظامیہ ناراض ہوگئی جس نے فیصلہ کیا کہ تہواروں کے دوران انہیں (مسلمانوں) مندر کے احاطے میں جگہ نہیں دی جائے گی۔
موہن داس پئی نے مزید کہا، دونوں برادریوں کو اختلافات ختم کرنے چاہیے اور پی ایف آئی جیسے بنیاد پرستوں کو فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ حکومت کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ہر ایک کے کاروبار کرنے کے حق کا تحفظ کیا جائے۔
وہیں، بایو میڈیکل فرم اسکینر ٹکنالوجی کے بانی وشوا پرساد الوا نے کہا، ہم نے حال ہی میں کئی کمپنیوں کو بعض گروہوں کی طرف سے پیدا کی جارہی پریشانیوں سے دوچار ہوتے دیکھا ہے جو مذہبی رسومات کے لیے کام کے اوقات میں نماز کے لیے خصوصی کمروں اور بریک کامطالبہ کر رہے ہیں، لیکن لوگ اپنے بھگوان کی تلاش میں زیادہ مذہبی اور متشدد ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ کسی خاص مذہب کے تاجروں پر پابندی لگا کر انتقام لینا کسی بھی صورت میں درست نہیں ہے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)