دونوں ملکوں کی کشیدگی کے درمیان کینیڈا کی وزیر نے ہندوستان سے وابستہ کینیڈین کاروباریوں کو یقین دلایا ہے کہ ٹروڈو حکومت دونوں ممالک کے درمیان تجارتی اور اقتصادی تعلقات کی حمایت جاری رکھے گی۔
ہندوستان میں جی 20 سربراہی اجلاس کے دوران ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ جسٹن ٹروڈو ۔ (تصویر بشکریہ: Facebook/@JustinPJTrudeau)
نئی دہلی: ہندوستان اور کینیڈا کے درمیان سفارتی تعلقات کا بدترین دور ابھی ختم نہیں ہوا ہے، کیوں کہ کینیڈین میڈیا میں مزید ہندوستانی اہلکاروں کی ملک بدری کی خبریں سامنے آ رہی ہیں۔
سی بی سی نے بدھ (16 اکتوبر) کو بتایا کہ ‘کینیڈا نےجن چھ سینئر سفارت کاروں کو ملک سے باہر جانے کا حکم دیا ہے،
وہ ملک بدر کیے جانے والے آخری ہندوستانی اہلکار نہیں ہو سکتے ‘کیونکہ کینیڈین پولیس کینیڈا میں ‘وسیع پیمانے پر تشدد’ میں ہندوستانی حکومت کے مبینہ طور پرملوث ہونے کے بارے میں اپنی تحقیقات کر رہی ہے۔
سوموار (14 اکتوبر) کو ہندوستان اور کینیڈا نے ایک دوسرے کے چھ سفارت کاروں کو ملک بدر کر دیا تھا، جن میں ہائی کمشنر بھی شامل تھے۔ یہ قدم دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تنازعہ بڑھنے کے بعد اٹھایا گیا تھا۔ تنازعہ کے مرکز میں کینیڈا کے وہ الزامات تھےجن میں اس نے 2023 میں کینیڈا میں خالصتان کے حامی کارکن کے قتل میں ہندوستانی حکومت کے ایجنٹوں کے ملوث ہونے کی بات کہی تھی۔
بتادیں کہ یہ تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب کینیڈین حکومت نے کینیڈا میں ہندوستانی ہائی کمشنر سنجے ورما اور دیگر سفارت کاروں کو خالصتان کے حامی ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کی تحقیقات میں ‘پرسن آف انٹریسٹ’ بنایا۔ جب ہندوستان نے انہیں فراہم کردہ سفارتی تحفظ ہٹانےاور ہندوستانی حکومت کے ایجنٹوں کی طرف سے ‘کینیڈین شہریوں کو نشانہ بنانے کی مہم’ کی کینیڈین حکام کی تحقیقات میں تعاون کرنے سے انکار کر دیا تو ان سب کو ملک بدر کر دیا گیا۔
کینیڈین فریق کا دعویٰ ہے، ‘ان (ملک بدری) نوٹس کے بعد ہندوستان نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے اہلکاروں کو واپس بلائے گا۔’
دونوں ممالک کے درمیان بگڑتے تعلقات کے درمیان سی بی سی نے سوموار کو نامعلوم ذرائع کے حوالے سے کہا کہ ‘ہندوستان کی خفیہ کارروائیوں کے لیے ایک نیٹ ورک کینیڈا میں موجود ہے، حالانکہ وہ (ذرائع) سمجھتے ہیں کہ اس نیٹ ورک کے کچھ اراکین اب گرفتاری کا جوکھم اٹھانے کے بجائے رضاکارانہ طور پر- اور خاموشی سے – واپس چلے جائیں گے۔’
دریں اثنا، بین الاقوامی تجارت کی وزیر میری این جی نے ہندوستان کے ساتھ تعلقات رکھنے والے کینیڈا کے کاروباریوں کو یقین دلایا ہے کہ ٹروڈو حکومت دونوں ممالک کے درمیان تجارتی اور اقتصادی تعلقات کی حمایت جاری رکھے گی۔
این جی نے کہا،’تاہم، ہمیں کینیڈین شہریوں کی حفاظت اور قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنے کی ضرورت کے ساتھ ساتھ اپنے معاشی مفادات پر بھی غور کرنا چاہیے۔ ہم کسی بھی غیر ملکی حکومت کو ہماری سرزمین پر کینیڈین شہریوں کو ڈرانے، دھمکانے یا نقصان پہنچانے کی کوشش کو برداشت نہیں کریں گے۔’
‘ہندوستان کو سفارتی صورتحال کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی’
کینیڈین میڈیا کے ایک حصے نے نہ صرف کینیڈا بلکہ جنوبی ایشیائی آبادی والے دیگر ممالک میں بھی ہندوستانی خفیہ ایجنسی ریسرچ اینڈ اینالیسس ونگ (را) کی سرگرمیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
رابن وی سیئرز نے ٹورنٹو اسٹار میں
لکھا ، ‘اس تباہ کن سفارتی صورتحال کے نتیجے میں ہندوستان کو بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔ اور اگر، جیسا کہ آر سی ایم پی کو واضح طور پر خدشہ ہے، جنوبی ایشیائی نژادکے، کسی اور ملک کے، شہری پر ایک اور حملہ ہوتا ہے، توہندوستان کو ہونے والا نقصان پابندیوں اور سالوں تک قائم رہنے والے شکوک تک بڑھ سکتا ہے۔’
سیئرز نے کہا کہ ،’جی 20 ممالک کی انٹلی جنس ایجنسیاں ،جو آج تک
را کی زیادتیوں پر اپنا غصہ دباتی رہی ہیں ، اب زیادہ سخت نظر آنا چاہیں گی۔’
دریں اثنا، کینیڈا میں
سکھ رہنماؤں نے ہندوستانی سفارت کاروں کی ملک بدری کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ آر سی اپم پی (رائل کینیڈین ماؤنٹیڈ پولیس) کا سوموار کا اعلان اس بات کی تصدیق کرتا ہے جو ہم کئی دہائیوں سے کہہ رہے تھےکہ ہندوستانی حکومت کے ایجنٹ کینیڈا میں مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔
کینیڈا میں خالصتان حمایتی سرگرمی کئی دہائیوں سے دونوں ممالک کے درمیان تنازعہ کا باعث رہی ہے، حالانکہ مودی اور ٹروڈو کی حکومتوں کے دوران تعلقات اپنی نچلی ترین سطح پر پہنچ گئے ہیں۔
گلوب اینڈ میل کے سینئر صحافی کیمپ بیل کلارک نے لکھا کہ
ورما کینیڈا میں اس مشن کے ساتھ آئے تھے کہ ‘اوٹاوا سے ان سکھ-کینیڈین کارکنوں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا جائے جو پنجاب سے الگ خالصتان ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندوستانی حکومت اس مسئلے کو اٹھانا چاہتی تھی، اور اب ہم جانتے ہیں، وہ ٹکراؤ چاہتی ہے۔’
کلارک نے کہا کہ ہندوستان میں خالصتانی انتہا پسندوں کے خیالی خطرے کو مودی حکومت کی طرف سے ہندوستانیوں میں خوف پیدا کرنے کے لیے پھیلائے جا رہےایک بیانیہ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے – خاص طور پر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کے ہندو قوم پرستوں کے درمیان۔
ایک اور کینیڈین کالم نگار نے سکھ انتہا پسندی پر کینیڈا کے سست ردعمل کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہندوستانی حکومت کے اقدامات کا جواز نہیں بنتا۔
صحافی اینڈریو کوئنے نے گلوب اینڈ میل میں لکھا، ‘کینیڈا کی حکومت نے ہندوستان کو تحقیقات کا حصہ بننے کا ہر موقع دیا۔ لیکن اس نے انکار کر دیا۔ اس کے بجائے مودی حکومت نے مطالبہ کیا کہ کینیڈا اسے اپنے ایجنٹوں کی ملی بھگت کے ثبوت پیش کرے۔ اس طرح کے ثبوت بھی اس کے سامنے پیش کیے گئے، پھر بھی اس نے انکار کردیا۔’
وہ مزید سوال اٹھاتے ہیں،’تو کیا اس کے بعد ہمیں یہ مان لینا چاہیے کہ ہائی کمشنر نے پوری طرح سے اپنی پہل پراس منصوبے کو انجام دیااور ان کے اعلیٰ افسران کو اس کا علم نہیں تھا؟’
ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے کوئنے نے
مودی کے دور حکومت میں ہندوستان میں جمہوریت کی نوعیت اور سطح پر سوال اٹھایا ۔
انہوں نےکہا،’یہ کم از کم کسی معاون کا رویہ نہیں ہے۔ نہ ہی یہ کسی بھی لحاظ سے جمہوری ملک کا طرز عمل ہے۔’ انہوں نے کہا کہ ہندوستانی حکومت کے اقدامات اندرون اور بیرون ملک آمرانہ ہیں۔