سانسد آدرش گرام یوجنا کے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے بنائی گئی ایک کمیٹی نے کہا ہے کہ اس کے لیے کوئی مخصوص فنڈ نہیں ہے اور اراکین پارلیامنٹ نے بھی اس میں کوئی خاص دلچسپی نہیں دکھائی ہے، جس کی وجہ سےاسکیم کافی متاثر ہوئی ہے۔
نئی دہلی: وزیر اعظم نریندر مودی کی خصوصی اسکیم ‘سانسد آدرش گرام یوجنا’ کا کوئی براہ راست اثر مرتب نہیں ہوا اور نہ ہی مطلوبہ ہدف کی تکمیل ہوئی۔رورل ڈیولپمنٹ ڈپارٹمنٹ کے منصوبوں کے مظاہرے سے متعلق ایک رپورٹ میں یہ جانکاری دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس اسکیم کاجائزہ لیا جانا چاہیے۔
سانسد آدرش گرام یوجنا (ایس اےجی وائی)کااعلان مودی نے 15 اگست 2014 کو وزیر اعظم کے طور پر یوم آزادی کےاپنےپہلے خطاب میں کیا تھا۔اس اسکیم کے تحت ہر رکن پارلیامان کو گاؤں کو گود لےکر اس کو’آدرش گرام ‘کے طور پر فروغ دینا تھا۔ اسکیم کی شروعات 11 اکتوبر 2014 کو ہوئی تھی۔
مرکز نے دیہی ترقیات کی وزارت کے تحت مختلف فلاحی منصوبوں کےنفاذ اور ان کے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے ایک کامن ریویومشن (سی آرایم) کی تشکیل کی تھی۔اپنی رپورٹ میں سی آر ایم نے کہا ہے کہ ایس اےجی وائی کے لیے کوئی مخصوص فنڈنہیں ہے، جس سےاسکیم پر برا اثر پڑا ہے۔ کسی اور مد کی رقم کے ذریعے اس کے لیے فنڈاکٹھاکیاجاتا ہے۔
سی آر ایم کے مطابق اس کی ٹیم نے ریاستوں کا دورہ کیا اور انہیں اس منصوبے کا کوئی ‘خاص اثر’نظر نہیں آیا۔سی آر ایم نے کہا کہ اس اسکیم کے تحت اراکین پارلیامنٹ کے ذریعےگود لیے گئے گاؤں میں بھی اراکین پارلیامنٹ نے اپنےعلاقائی ترقیاتی فنڈ سے اس کے لیے مطلوبہ رقم مختص نہیں کی۔
سی آر ایم نے ایک رپورٹ میں کہا، ‘کچھ معاملوں میں جہاں رکن پارلیامان فعال ہیں، کچھ بنیادی ترقیاتی کام ہوا ہے، لیکن اس اسکیم کا کوئی براہ راست اثر نہیں پڑا ہے۔’سی آر ایم کے مطابق ایسے میں ان گاؤں کو ‘آدرش گرام’نہیں کہا جا سکتا اور اس اسکیم کاجائزہ لیاجانا چاہیے۔
انہوں نے کہا، ‘سی آر ایم کی رائے ہے کہ یہ اسکیم اپنی موجودہ صورت میں مطلوبہ مقاصدکی تکمیل نہیں کرتی۔ یہ سفارش کی جاتی ہے کہ وزارت اس کادائرہ اثر بڑھانے کے لیے منصوبے کاتجزیہ کر سکتی ہے۔’سبکدوش آئی اے ایس افسر راجیو کپور کی سربراہی میں سی آر ایم کے 31 رکنی ٹیم نے نومبر میں آٹھ ریاستوں کے 21 اضلاع کے 120 گاؤں کا دورہ کیا تھا۔
ان آٹھ ریاستوں میں چھتیس گڑھ، کیرل، مدھیہ پردیش، منی پور، میگھالیہ، اڑیسہ، راجستھان اور اتر پردیش شامل ہیں۔ انڈین ایکسپریس کے مطابق کمیٹی نے گاؤں کی بدتر حالت کو بیان کرنے کے لیے کچھ مثالیں بھی دی ہیں۔مثلاً مدھیہ پردیش کے کھنڈوا ضلع کے آرود گاؤں میں اسکیم کے تحت کل 118 طرح کے کام کرائے جانے تھے لیکن ابھی تک صرف 60 فیصدی کاموں کو ہی پورا کیا جا سکا ہے اور باقی کام فنڈ کی کمی کی وجہ سے التوا میں ہے۔
وہیں کیرل کے کلیکڑ گرام پنچایت میں مشن کی ٹیم کواسکیم کے تحت کوئی خاص حصولیابی دکھائی نہیں دی۔ پھر بھی اس گاؤں کو ایس اےجی وائی کے تحت بڑی حصولیابی کے طور پر دکھایا جاتا ہے۔اتر پردیش کے الہ آباد ضلع کے ایک گاؤں کا دورہ کرنے پر ٹیم نے کہا، یہ المیہ ہی ہے کہ آدرش گرام میں کھلے میں قضائے حاجت سے آزادی نہیں ملی ہے۔
یوپی کے ہی ہردوئی ضلع کے ایک آدرش گاؤں کا دورہ کرنے کے بعد کمیٹی نے کہا، ‘مجموعی طور پراسکیم کا یہاں کوئی خاص اثر نہیں پڑا ہے۔’سی آر ایم نے کہا کہ ان جگہوں پر اچھا کام ہوا ہے جہاں پر اراکین پارلیامنٹ نے اسکیم میں دلچسپی دکھائی ہے اور ایم پی فنڈکے تحت مطلوبہ رقم مختص کی ہے۔
کمیٹی نے متعلقہ وزارت کے تحت تمام فلاحی منصوبوں کے جائزہ اور بہتر عمل آوری کے لیے مشورے دیے ہیں۔ سی آر ایم میں ماہر تعلیم اورتحقیقی اداروں کے رکن بھی شامل ہیں۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)