مرکزی حکومت کی جانب سے 17 اکتوبر کو تمام وزارتوں کو جاری کردہ ایک سرکلر میں کہا گیا ہے کہ وہ ملک کے تمام اضلاع کے سرکاری افسران کے نام فراہم کریں، جنہیں مودی کی ‘گزشتہ نو سالوں کی حصولیابیوں کو دکھانے / جشن منانے’ کی ایک مہم کے لیے ‘ڈسٹرکٹ رتھ انچارج (خصوصی افسر)’ کے طور پر تعینات کیا جائے گا۔
وزیر اعظم نریندر مودی 12 اکتوبر کو الموڑہ کے جاگیشور دھام میں۔ (تصویر بہ شکریہ: پی آئی بی)
نئی دہلی: چیک-فرانسیسی ناول نگار میلان کنڈیرا نے لکھا ہے کہ،’ اقتدار کے خلاف ایک آدمی کی جدوجہد فراموشی کے خلاف یادداشت کی جدوجہد ہے۔’ نریندر مودی حکومت کی جانب سے 17 اکتوبر کو تمام وزارتوں کو جاری کیا گیا سرکلر کنڈیرا کے مذکورہ قول کی ہی ترجمانی ہے۔
سرکلر میں واضح طور پر کہا گیا ہے؛ ملک کے تمام 765 اضلاع میں گرام پنچایت سطح تک جوائنٹ سکریٹری/ڈائریکٹر/ڈپٹی سکریٹری سطح کے افسران کو 20 نومبر 2023 سے 25جنوری 2024کے درمیان مودی حکومت کی ‘گزشتہ نو سالوں کی حصولیابیوں’ کو دکھانے/جشن منانے کے لیے ‘ڈسٹرکٹ رتھ انچارج (خصوصی افسر)’ کے طور پر تعینات ہونے کے لیے نامزد کریں۔
مرکزی حکومت میں سابق سکریٹری ای اے ایس شرما نے 21 اکتوبر کوالیکشن کمیشن آف انڈیا (ای سی آئی) کو فوری مداخلت کرنے اور اس فیصلے کو منسوخ کرنے کے لیے خط لکھا۔ ان کا کہنا تھا کہ،’مجھے جو جانکاری ملی ہےاس کے مطابق، مذکورہ ہدایات اس وقت جاری کی گئی تھیں جب ماڈل کوڈ آف کنڈکٹ (ضابطہ اخلاق) نافذ ہوچکا تھا، اس طرح ایسا کرنا ڈھٹائی کے ساتھ اس کی خلاف ورزی ہے،کیونکہ یہ مخالف سیاسی جماعتوں کے مقابلے این ڈی اے حکومت کو فائدہ پہنچانے کی قواعد ہے، جو انتخابات کو متاثر کرنے والی سرگرمیوں کے لیے سرکاری مشینری کا غلط استعمال ہے۔’
وزارت دفاع سمیت تمام وزارتوں نے انتخابات سے قبل بی جے پی حکومت کی مہم کے لیے افسران کو ‘رتھ انچارج’ کے طور پر نامزد کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔ اس کے بارے میں ای اے ایس شرما نے مزید کہا، ‘یہ تشویشناک ہے کہ این ڈی اے حکومت کی حصولیابیوں کو دکھانے کے لیے دفاعی فورسز کے افسران کو غلط طریقے سے تعینات کیا جا رہا ہے۔ یہ مستقبل کے لیے اچھا نہیں ہے۔’
ایک اور سابق آئی اے ایس افسر ایم جی دیوشیام نے شرما کے خط کی حمایت کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو خط لکھا ہے۔ الیکشن کمیشن نے ابھی تک ان خطوط کا کوئی جواب نہیں دیا ہے۔
سابق کابینہ سکریٹری بی کے چترویدی نے دی وائر سے کہا،’یہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔ میں نے اپنے پورے سول سروس کےکیرئیر میں ایسا کچھ نہیں دیکھا۔ اسے سول اور دفاعی خدمات کو سیاست میں گھسیٹنے کے طور پر دیکھا جائے گا۔ حکومت کے پاس پبلسٹی ڈپارٹمنٹ ہیں جن کا کام اس کی حصولیابی کی تشہیر کرنا ہے۔ 2024 کے لوک سبھا انتخابات سے قبل ریاستوں میں ہونے والے انتخابات کے پیش نظر خصوصی مہم میں اعلیٰ سرکاری ملازمین اور دفاعی اہلکاروں کواستعمال کرنا بالکل غلط ہے۔’
پلاننگ کمیشن کے سابق رکن این سی سکسینہ کہتے ہیں، ‘[میں نے] سول سرونٹس سے منسلک ایسا پبلسٹی پروگرام کبھی نہیں دیکھا۔ یہ سول سروس اور سیاست کے درمیان فرق کو معدوم کر رہا ہے۔ ایک جانب این ایس ایس او اوراین ایف ایچ ایس جیسے حکومتی کارکردگی کی پیمائش کرنے والے تمام ڈیٹا سسٹم کو کمزور کیا جا رہا ہے، جیسا کہ
این ایف ایچ ایس کے سربراہ کے حالیہ استعفیٰ میں مشاہدہ کیا گیا، وہیں دوسری جانب حکومت کی کارکردگی کو مشتہرکرنے کے لیےایسےپروگرام ترتیب دیے جا رہے ہیں۔’
کانگریس نے بھی سوال اٹھائے
گزشتہ 17 اکتوبر کے سرکلر پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کانگریس کے ترجمان جئے رام رمیش اور پون کھیڑا نے 21 اکتوبر کو ٹوئٹر (اب ایکس ) پر مودی حکومت کے اقدام پر سوال اٹھایا۔ اتوار کو پارٹی کے صدر ملیکارجن کھڑگے نے وزیر اعظم کو ایک خط لکھ کر ‘نوکر شاہوں اورفوج کو پورے طور پرسیاست میں گھسیٹنے’ کا مسئلہ اٹھایا، جن کے مطابق،انہیں’ہر وقت آزاد اور غیر سیاسی رکھا جانا چاہیے۔’
انہوں نے کہا، ‘یہ سنٹرل سول سروسز (کنڈکٹ) رولز، 1964 کی واضح طور پرخلاف ورزی ہے، جس میں یہ ہدایت دی گئی ہے کہ کوئی بھی سرکاری ملازم کسی بھی سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے گا۔ اگرچہ سرکاری اہلکاروں کے لیے معلومات پھیلانا قابل قبول ہے، لیکن ان سے ‘جشن منانے’ اور حصولیابیوں کی ‘نمائش’ کرنے کے لیے کہنا انھیں حکمراں جماعت کے سیاسی کارکنوں میں بدل دیتا ہے۔’
انہوں نے مزید کہا کہ فوجیوں کے ‘سرکاری اسکیموں کے ایجنٹ بننے کو مسلح افواج کو سیاست میں گھسیٹنے کی جانب ایک خطرناک قدم’ کے طور پر دیکھا جائے گا۔
تاریخ کیا کہتی ہے؟
ایسا لگتا ہے جیسے کانگریس اس تاریخ کو یاد کر رہی ہے جسے بی جے پی فراموش کرنے پر آمادہ ہے۔ اگر ہم آزاد ہندوستان کی سیاسی تاریخ کو یاد کریں تو ایک اہم واقعہ 1975 کا ہے۔
غور طلب ہے کہ 12 جون 1975 کو الہ آباد ہائی کورٹ نے اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو کانگریس پارٹی کی انتخابی مہم میں سرکاری مشینری کے غلط استعمال کا قصوروار پایا، جس کی وجہ سے وہ مسلسل چھ سال تک کسی بھی انتخاب میں حصہ لینے کے لیے نااہل قرار دی گئیں۔
کرسٹوفر جیفرلو اور پرتیناو انل ‘
انڈیاز فرسٹ ڈکٹیٹرشپ- دی ایمرجنسی (1975-77)‘ میں لکھتے ہیں،’ان کے خلاف الزام یہ تھا کہ انھوں نے ‘انتخابی فائدے کے لیے’ کانگریس کے کام کاج کی نگرانی کرنے والے اور پی ایم سکریٹریٹ میں ان کے سب سے اہم معاون یش پال کپور کی خدمات کا استعمال کیا تھااور اس طرح سرکاری ملازمین کو ذاتی فائدے کے لیے استعمال کرنے پر پابندی کے انتخابی اصول کو توڑ دیا تھا۔’
مصنفین یہ بھی بتاتے ہیں،’ایک دوسری خلاف ورزی بھی تھی؛مسز گاندھی نے اپنی (انتخابی) ریلیوں کے لیےاسٹیج بنانے کے لیے سرکاری ملازمین، اس بار اتر پردیش کے افسران کا بھی استعمال کیاتھا۔’
عدالت کے فیصلے کا وہ دن اندرا گاندھی اور ان کے گروپ کے لیے دوہرا دھچکا لے کر آیا تھاکیونکہ جون میں اسی دن گجرات کے اہم انتخابات میں کانگریس پارٹی کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ کانگریس (آئی ) نے ان انتخابات میں جنتا مورچہ کے ہاتھوں 182 میں سے 140 سیٹیں گنوا دیں اور پہلی بار ریاست میں اقتدار کھو بیٹھی۔
کتاب میں لکھا ہے، ‘مسز گاندھی نے ایک زوردار مہم چلائی، گیارہ دنوں تک ریاست میں رہیں اور 119جلسوں سے خطاب کیا۔ کسی وزیر اعظم کے لیے ریاستی سیاست میں اتنی گہری دلچسپی لینا شاذ و نادر ہی تھا، لیکن یہ حالات کا تقاضہ تھا؛ احمد آباد اور دیگر گجراتی شہروں میں احتجاجی مظاہروں کی زبردست لہر کی وجہ سےموجودہ وزراء کو استعفیٰ دینا پڑا اور نئے سرے انتخابات کرانے کی پیشکش کی گئی۔ کانگریس کے پاس اپنی عوامی حمایت ظاہر کرنے اور غیر پارلیامانی تحریک کو بدنام کرنے کا بس ایک موقع تھا۔’
خود نریندر مودی، جو اس وقت راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے پرچارک تھے، نے
اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے ‘ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لیے پوری جانفشانی سے کام کرنے کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈالی’، ان کی ویب سائٹ کہتی ہے، گجرات … حقیقت میں ان بہت سے لوگوں کے لیے رول ماڈل بن گیا جو ایمرجنسی کے خلاف تھے۔ یہ گجرات کی نو نرمان تحریک تھی جس نے کانگریس کو یہ احساس دلایا کہ کم از کم گجرات میں ان کی اقتدار کی ہوس زیادہ دیر نہیں چلے گی۔’
تاہم مودی حکومت کا حالیہ سرکلر اس بات کا اشارہ ہے کہ ان کی حکومت اس وقت کو یاد کرنے کے بجائے بھولنے کی کوشش کر رہی ہے۔ مودی کےاپنی پارٹی کےلیے ایک مشکل اسمبلی انتخابات – حالیہ کرناٹک انتخابات —میں مہم چلانے کے لیے ہفتہ بھر کے دورے کو یاد کریں۔ 1975 کی اندرا کی طرح مودی نے 19 ریلیوں اور چھ روڈ شوز سے خطاب کیا، لیکن پھر بھی ان کی پارٹی ہار گئی، بالکل اندرا کی طرح۔
ایک ریٹائرڈ سینئر بیوروکریٹ، جو اب کانسٹی ٹیوشنل کنڈکٹ گروپ کے رکن ہیں، نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہتے ہیں،’یہ حیران کن ہے کہ جب ماڈل کوڈ آف کنڈکٹ (ایم سی سی) نافذ تھا تو مرکز نے ایسا سرکلر جاری کیا۔ یہ ان چار ریاستوں میں لاگو ہے جہاں بی جے پی الیکشن میں جا رہی ہے اور 2024 کے عام انتخابات چند مہینوں میں ہونے والے ہیں۔ یہ آئینی اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہے۔’
انہوں نے مزید کہا، ‘مودی حکومت کے سرکلر کے ذریعےاقتدار کے غلط استعمال کے پیمانے کو دیکھتے ہوئے مسز گاندھی نے 1971 میں جو کچھ کیا وہ ایک معمولی جرم لگتا ہے۔ اور تب بھی ہماری عدلیہ آئین کی خلاف ورزی کے خلاف کھڑی تھی۔’
جیفرلا اور پرتیناو انل نے کتاب میں کہا ہے کہ ‘اخبارات میں اسے ایک چھوٹی سی غلطی قرار دیا گیا تھا کیونکہ کپور نے 7 جنوری1971 کو مسز گاندھی کی مہم پر کام کرناشروع کر دیا تھا، لیکن چھ دن بعد ہی انہوں نے اپنا سرکاری عہدہ چھوڑ دیا اور سرکاری ریکارڈ میں، وہ 25 تک وہ سرکاری بنے رہے۔ مصنفین نے یہ بھی کہا تھا، ‘یہ (فیصلہ) ایک ہی وقت میں چھوٹا تھااور بڑا بھی؛جرم کی نوعیت کی وجہ سے چھوٹا اور اس کے مضمرات کی وجہ سے بڑا۔’
تاہم، سپریم کورٹ کے سینئر وکیل سنجے ہیگڑے سرکاری عہدیداروں کو پارٹی کے احکامات اور سرکاری پروگراموں کو چلانے کے لیے حکومت کے احکامات کے درمیان ایک لطیف فرق دیکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں،’سیاسی نام کے باوجود آخر کار وہ یاترا ایک سرکاری پروگرام ہے اور سرکاری ملازمین کو کوآرڈینیشن کے لیے نامزد کیا جا رہا ہے۔ قانونی طور پر یہ غلط نہیں ہو سکتا۔’
ہیگڑے کا یہ بھی ماننا ہے کہ یہاں اندرا گاندھی کی مثال دینا بھی غلط ہے۔ وہ کہتے ہیں،’الہ آباد ہائی کورٹ نے ان کا الیکشن اس لیے منسوخ کر دیا تھا کہ ایک سرکاری ملازم – یشپال کپور سرکاری ملازمت میں ہونے کے باوجود کچھ دنوں کے لیے ان کے الیکشن ایجنٹ تھے۔ سپریم کورٹ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو مسترد کر دیا تھا۔’
جیفرلا اور پرتینو انل کی کتاب کے مطابق، کپور کی مثال کے علاوہ ہائی کورٹ نے انتخابی کام میں یوپی کے سرکاری ملازمین کے استعمال کا بھی ذکر کیا تھا۔
(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)