اتر پردیش کے مرزا پور ضلع کے رہنے والے صحافی پون جیسوال منہ کے کینسر میں مبتلا تھے۔ اگست 2019 میں ضلع کے ایک سرکاری اسکول میں بچوں کو دوپہر کے کھانے میں ‘نمک روٹی’ دیے جانے کے معاملے کو اجاگر کرنے کے بعد وہ سرخیوں میں آئے تھے۔ حالاں کہ اس خبر کے سامنے آنے کے بعد ضلع انتظامیہ نے ان کے خلاف ہی ایف آئی آر درج کرا دی تھی۔
پون جیسوال۔ (فوٹوبہ شکریہ: فیس بک)
نئی دہلی: اترپردیش کے مرزا پور ضلع کے رہنے والے صحافی پون جیسوال کا جمعرات کی صبح انتقال ہوگیا۔ وہ کینسر کے مرض میں مبتلا تھے۔ وارانسی کے ایک اسپتال میں ان کا علاج چل رہا تھا۔
اگست 2019 میں ضلع کے ایک سرکاری اسکول میں
بچوں کو دوپہر کے کھانے میں ‘نمک روٹی’ دیے جانے کے معاملے کو اجاگر کرنے کے بعد وہ سرخیوں میں آئے تھے۔ حالاں کہ اس خبر کے سامنے آنے کے بعد ضلع انتظامیہ نے ان کے خلاف ہی
ایف آئی آر درج کرا دی تھی۔ تاہم بعد میں انہیں اس معاملے میں کلین چٹ مل گئی تھی۔
اس وقت کانگریس جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے بھی مڈ ڈے میل میں بچوں کو نمک روٹی پیش کیے جانے کا ویڈیو ٹویٹ کیا تھا۔
قابل ذکر ہے کہ اگست 2019 میں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوا تھا، جس میں مرزا پور ضلع کے جمال پور علاقے میں واقع ایک سرکاری اسکول میں پہلی سے آٹھویں جماعت کےتقریباً 100 طلبا کو مڈ ڈے میل کے طور پر روٹی اور نمک دیا گیاتھا۔ ویڈیو میں بچوں کو اسکول کے برآمدے میں فرش پر بیٹھ کر نمک کے ساتھ روٹیاں کھاتے دیکھا گیا تھا۔
اپنے اخبار جن سندیش ٹائمز کے لیے رپورٹنگ کرنے والے صحافی پون جیسوال نے یہ ویڈیو بنایا تھا، جس کے وائرل ہونے کے بعد جان بوجھ کر دھوکہ دہی سے ویڈیو بنانے اور اسے وائرل کرکے سرکاری کام میں رکاوٹ ڈالنے کے الزام میں ان کے خلاف انتظامیہ نے مقدمہ درج کرا دیا تھا۔
نیوز لانڈری کی رپورٹ کے مطابق، تقریباً ایک ماہ قبل صحافی پون جیسوال نے عام آدمی پارٹی کے رکن پارلیامنٹ سنجے سنگھ کو وہاٹس ایپ پر اپنی بیماری کی اطلاع دی تھی۔ تب انہوں نے لکھا تھاکہ اب ان کے پاس روزانہ کی دوائیاں خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔
اس کے بعد سنجے سنگھ نے ٹوئٹ کر کے لوگوں سے پون جیسوال کی مدد کرنے کی اپیل کی تھی۔ سنجے سنگھ نے فوری طور پر ایک لاکھ روپے کی مدد فراہم کی تھی اور مزید مدد کا یقین دلایا تھا۔ اس کے بعد کئی صحافیوں نے بھی ان کی مدد کی تھی۔
ان کی موت کی جانکاری کے بعد سنجے سنگھ نے ٹوئٹ کیا اور کہا، اسکول میں بچوں کو نمک روٹی ملنے کی خبر شائع کرکے قومی سطح پر اپنی جرأت مندانہ صحافت کے لیے معروف پون جیسوال جی کا کینسر کی طویل بیماری کے بعد آج انتقال ہوگیا۔ خدا ان کی روح کو سکون دے اور ان کے لواحقین کو یہ صدمہ برداشت کرنے کی طاقت دے۔
نوبھارت ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، پچھلے سال پون کو منہ کے کینسر کی تشخیص کے بعد خاندان بڑی مصیبت میں تھا۔ گھر کی تمام جمع پونجی ان کے علاج میں خرچ ہو گئی۔ ماں اور بیوی نے اپنے زیورات بیچ دیے، اس کے بعد بھی وہ اپنے علاج کے لیے مطلوبہ رقم نہیں جمع کر سکے۔
پون کو پچھلے سال منہ میں کچھ دقت ہوئی تھی۔ پھر وارانسی میں ڈاکٹروں کے مشورے پر بایوپسی کی گئی تو منہ کا کینسر نکلا۔ پون نے کینسر سے لڑنے کا فیصلہ کیا۔ ستمبر 2021 میں ان کا آپریشن بھی ہوا تھا۔ جب وہ مہینوں تک ہسپتال میں داخل رہنے کے بعد واپس آئے تو مرض ایک بار پھر بڑھ گیا۔
رپورٹ کے مطابق، اس سال مارچ میں جب پون کو مسئلہ ہوا تو انہوں نے دوبارہ ڈاکٹر کو دکھایا۔ جانچ میں انفیکشن کے گلے تک پہنچنے کا پتہ چلا۔ ڈاکٹروں کے مشورے پر دوبارہ آپریشن کیا گیا۔ مالی اعتبار سے ٹوٹ چکے پون کی مدد کے لیے کچھ صحافی آگے آئے لیکن انہیں بچایا نہ جا سکا۔
ستمبر 2019 میں دی وائر کو دیے گئے ایک انٹرویو میں پون نے بتایا تھا کہ، خبر چھپنے کے تقریباً 10 دن بعد 31 اگست کی رات کو کلکٹر کی ہدایت پربی ایس اے دفتر کے ذریعے میرے، میرے سورس اور ایک سینئر معاون کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا کہ ہم نے سازش کے تحت ویڈیو تیار کروایا ہے۔
صحافت میں اپنے داخلے کے بارے میں بتاتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ، میں مرزاپور کے اہرورا قصبے کا رہنے والا ہوں۔ میں نے یہاں کے ونستھلی مہاودیالیہ سے پڑھائی کی ہوئی ہے اور میں بی کام فیل ہوں۔ میرے شناسا کئی لوگ صحافی تھے اور ان کے ساتھ جاکر میں ویڈیو بناتا تھا، کوریج کرتا تھا اور اس طرح سے آہستہ آہستہ میں اس لائن میں آ گی
اس انٹرویو میں انہوں نے بتایا تھاکہ ان کے خاندان میں چھ بہنیں اور پانچ بھائی ہیں۔ ان کے والد اسٹیشنری کی دکان چلاتے ہیں۔ اسی کے بغل میں وہ موبائل کی دکان چلاتے تھے۔
شروعاتی دور میں چار سال تک میں بی جے پی کے مقامی یووا مورچہ کا جنرل سکریٹری رہا ہوں، لیکن صحافت میں آنے کے بعد میں نے یہ سب چھوڑ دیا۔
انہوں نے بینک سے دو لاکھ روپے کا لون لےکر موبائل کی دکان بھی کھولی تھی۔وہ جن سندیش کے لیے کام کرنے کے علاوہ الکٹرانک میڈیا سے بھی وابستہ تھے۔ وہ دہلی کے بڑے میڈیا اداروں کے صحافیوں کے لیےسورس یا معاون کے طور پر کام کرتے تھے۔
دی وائر میں شائع پون جیسوال کا مکمل انٹرویو پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔