خصوصی رپورٹ: نئے زرعی قوانین کی مخالفت کے بیچ مرکزی حکومت نے کہا تھا کہ اس کو کافی غوروخوض کے بعد بنایا گیا ہے۔ آر ٹی آئی کے تحت اس سے متعلق دستاویز مانگے جانے پر وزارت زراعت نے سپریم کورٹ میں معاملے کے زیرسماعت ہونے کا حوالہ دیتے ہوئے اس کو عوامی کرنےسے انکار کیا۔ حالاں کہ آر ٹی آئی ایکٹ میں کہیں بھی ایسا اہتمام نہیں ہے۔
وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر۔ (فوٹوبہ شکریہ: پی آئی بی)
نئی دہلی: مودی حکومت کی جانب سے لائے گئے تین متنازعہ زرعی قوانین کے خلاف چل رہے ملک گیر کسان تحریک کے بیچ وزارت زراعت نے ان قوانین سے متعلق فائلوں کوعوامی کرنے سے انکار کر دیا ہے۔خاص بات یہ ہے کہ ایسا کرتے ہوئے وزارت نے جو دلیل دی ہے، اس کاآر ٹی آئی قانون میں کہیں بھی ذکر نہیں ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی،وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر سمیت بی جے پی کے تمام رہنما باربار یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ان قوانین کو مختلف سطحوں پر غوروخوض کے بعد بنایا گیا ہے۔ مرکزی حکومت نے اسی دعوے کے ساتھ سپریم کورٹ میں حلف نامہ بھی دائر کیا ہے۔
اسی تناظر میں دی وائر نے وزارت زراعت میں آر ٹی آئی دائر کرکے تینوں قوانین کسان پیداوارٹریڈ اورکامرس(فروغ اورسہولت)ایکٹ،2020، کسان(امپاورمنٹ اینڈ پروٹیکشن)پرائس انشورنس کنٹریکٹ اور زرعی خدمات بل،2020 اور ضروری اشیا(ترمیمی)بل،2020- سے متعلق تمام فائلوں (خط وکتابت ، فائل نوٹنگس، مشورے ریکارڈز)کی کاپی دینے کی مانگ کی تھی۔
حالانکہ وزارت نے اس کو عوامی کرنے سے انکار کر دیا۔وزارت کے زرعی مارکیٹنگ ڈویژن میں انڈرسکریٹری اورسینٹرل پبلک انفارمیشن آفیسرآشیش باگڑے نے ایسا کرنے کے لیے کورونا کا حوالہ دیا اور کہا کہ اس وقت دستاویز نہیں بھیجے جا سکتے ہیں۔
درخواست دائرکرنے کے تقریباً پانچ مہینے بعد بھیجے اپنے جواب میں باگڑے نے کہا، ‘جہاں تک دستاویزوں کی کاپی مہیا کرانے اور اس کے معائنے کا سوال ہے، تو یہ بتایا جاتا ہے کہ کووڈ 19وبا کی وجہ سےپیدا ہوئے حالات کی وجہ سے ایسا کر پاناممکن نہیں ہے۔’
اتنا ہی نہیں، جب ایسےمن مانے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی گئی، تو حکام نے ایک قدم اور آگے نکل کر غیر قانونی دلیل دےکر دستاویزوں کوعوامی کرنے سے انکار کیا۔ڈویژن کے متعلقہ افسراورڈائریکٹر ایس سریش کمار نے کہا کہ چونکہ ان قوانین کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے اور یہ وہاں پر زیرسماعت ہیں، اس لیے مانگی گئی جانکاری مہیا نہیں کرائی جا سکتی ہے۔
کمار نے اپنے آرڈر میں کہا، ‘یہ مطلع کیا جاتا ہے کہ ان قوانین کو کئی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں چیلنج دیا گیا ہے۔ چونکہ یہ زیر سماعت معاملہ ہے، اس لیے آر ٹی آئی ایکٹ، 2005 کی دفعہ8(1) (بی) کے تحت ان جانکاریوں کو مہیا کرا پاناممکن نہیں ہوگا۔’
زرعی قوانین پر آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت وزارت کا جواب۔
خاص بات یہ ہے کہ آر ٹی آئی ایکٹ میں کہیں بھی یہ نہیں لکھا ہے کہ زیر سماعت معاملوں سے متعلق جانکاری مہیا نہیں کرائی جا سکتی ہے۔ہائی کورٹ اور سینٹرل انفارمیشن کمیشن(سی آئی سی)نے اپنے کئی فیصلوں میں تفصیل سے بتایا ہے کہ پبلک انفارمیشن افسرزیر سماعت معاملے کی دلیل دےکر جانکاری دینے سے بچ نہیں سکتے ہیں۔
کمار نے جس
دفعہ 8(1)(بی)کا ذکر کیا ہے، اس میں صرف اتنا لکھا ہے کہ اگر کوئی کورٹ کسی جانکاری کے انکشاف پرواضح طور پر روک لگاتی ہے، تو وہ جانکاری عوامی نہیں کی جا سکتی ہے۔اس میں
کہا گیا ہے، ‘جانکاری، جس کی اشاعت کو کسی عدالت یا ٹریبونل کی طرف سے واضح طور پربین کیا گیا ہے یا جس کے انکشاف سے عدالت کی توہین ہوتی ہے۔’
جہاں تک زرعی قوانین کا سوال ہے تو سپریم کورٹ نے ایسا کوئی آرڈر جاری نہیں کیا ہے۔ عدالت نے صرف ان قوانین کے عمل پر روک لگائی ہے اور تنازعہ کو سلجھانے کے لیے ایک چار رکنی کمیٹی تشکیل کی ہے۔
کیا کہتے ہیں سی آئی سی کے فیصلے
آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت اپیلوں اور شکایتوں کو سلجھانے والے سب سے اعلیٰ اپیلیٹ ادارے سی آئی سی نے اپنے کئی فیصلوں میں باربار کہا ہے کہ محض زیر سماعت معاملہ ہونے کی بنیاد پر جانکاری دینے سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔
بتادیں کہ 28 نومبر 2016 کو کمیشن نے اپنے
ایک فیصلے میں کہا، ‘شروعات میں ہی یہ صاف کیا جاتا ہے کہ آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت زیرسماعت معاملوں سے متعلق جانکاریوں کےانکشاف پر کوئی روک نہیں ہے۔ صرف انہی معاملوں میں جانکاری دینے سے چھوٹ ملی ہوئی ہے جہاں کورٹ یا ٹربیونل نے کوئی روک لگا دی ہو یا جس کے انکشاف سے عدالت کی توہین ہو۔’
اس فیصلے پر دہلی ہائی کورٹ نے بھی مہر لگائی ہے۔ ستمبر 2010 میں ہائی کورٹ نے
دہلی میونسپل بنام آر کے جین معاملے میں دیے اپنے ایک فیصلے میں کہا تھا، ‘کورٹ کے سامنے کسی معاملے کا زیر سماعت ہونا، آر ٹی آئی ایکٹ کی دفعہ 8(1) کے تحت جانکاری کے انکشاف سے چھوٹ کے دائرے میں نہیں ہے۔’
اسی طرح جون 2006 میں
نانک چندر اروڑہ بنام بھارتیہ سٹیٹ بینک کیس میں دیے اپنے فیصلے میں کمیشن نے کہا تھا کہ ایکٹ میں ایسا کوئی اہتمام نہیں ہے جو کسی معاملے کے کورٹ میں زیر سماعت ہونے پر اس سےمتعلق جانکاریوں کوعوامی کرنے سے روکتا ہے۔
سابق انفارمیشن کمشنر اور جانےمانے آر ٹی آئی کارکن شیلیش گاندھی نے کہا، ‘قانون میں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ زیر سماعت معاملوں سے متعلق جانکاری کو عوامی کرنے سے چھوٹ ہے۔ اس طرح کی چھوٹ کے لیے کورٹ کا کوئی آرڈر ہونا چاہیے، جس میں خاص طور پر کہا گیا ہو کہ یہ جانکاری عوامی نہ کی جائے۔ کورٹ یا ٹربیونل سے ایسا کوئی آرڈر جاری نہ ہونے پر جانکاری ضرور مہیا کرائی جانی چاہیے۔’
انہوں نے کہا کہ اس طرح کا جواب دینا قانون کی خلاف ورزی ہے۔
دیگرعرضیوں کو بھی وزارت کر رہی ہے خارج
زرعی قانون سے جڑے دیگر آر ٹی آئی درخواستوں کو بھی وزارت زراعت خارج کر رہی ہے۔ آر ٹی آئی کارکن انجلی بھاردواج نے زرعی قوانین کو بنانے سے پہلے ہوئے مشورے بات چیت، بیٹھکوں وغیرہ کے منٹس کی کاپی مانگی تھی، لیکن وزارت نے اسے عوامی کرنے سے انکار کر دیا۔
اسی طرح نوئیڈاکےماحولیاتی کارکن وکرانت تو گڑ نے بھی ایسی ہی
ایک آر ٹی آئی درخواست دائر کی تھی، لیکن وزارت نے ہوبہو یہی جواب دیتے ہوئے جانکاری کو عوامی کرنے سے انکار کر دیا۔
پچھلے سال 14 ستمبر 2020 کو لوک سبھا میں تین زرعی قوانین پر بحث کے دوران وزیر مملکت راؤصاحب پاٹل دانوے نے کہا کہ زراعت پر اعلیٰ سطحی کمیٹی کے ذریعے ضروری اجناس ایکٹ میں ترمیم پر چرچہ کی گئی تھی اور انہوں نے اس بل کو منظوری دی تھی۔
چونکہ اس کمیٹی کی رپورٹ عوامی نہیں ہے، اس لیے انجلی بھاردواج نے ایک آر ٹی آئی دائر کرکےمتعلقہ رپورٹ کی کاپی، بیٹھکوں کی تفصیلات، میٹنگ میں شامل ہوئے لوگوں کے نام جیسی کئی جانکاری مانگی تھی۔
حالانکہ حکومت نے یہ جانکاری بھی عوامی کرنے سے منع کر دیا۔ نیتی آیوگ نے کہا کہ اعلیٰ سطحی کمیٹی نے اپنی رپورٹ سونپ دی ہے، لیکن پہلے اسے کمیشن کی 6ویں گورننگ کاؤنسل بیٹھک میں پیش کیا جائےگا، اس کے بعد اسے عوامی کرنے پر غور کیا جائےگا۔
نیتی آیوگ کے اس جواب سے ایک بات صاف ہو جاتی ہے کہ زراعت پر بنی اعلیٰ سطحی کمیٹی کی رپورٹ کا گورننگ کاؤنسل کے تجریے کے بنا ہی حکومت زرعی قوانین لے آئی اور اسے پارلیامنٹ سے پاس کرا دیا۔
حکومت کے اس طرح کے ردعمل سے ایک بڑا سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب خود مرکز اور اس کے مختلف محکمے دعویٰ کر رہے ہیں کہ زرعی قوانین پر بڑے پیمانے پر غوروخوض کیا گیا ہے، تو اس سے جڑے دستاویزوں کو عوامی کرکے ثبوت دینے میں کیاقباحت ہے؟