کشمیری صحافی کو ضمانت، عدالت نے کہا – ثبوت نہیں، این آئی اے کی جانب سے لگائے گئے الزامات قیاس آرائیوں پر مبنی

اکتوبر 2021 میں سری نگر کے فوٹو جرنلسٹ محمد منان ڈار کو این آئی اے نے دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ دہلی کی ایک عدالت نے ان کو ضمانت دیتے ہوئے کہا کہ محض کچھ پوسٹرز، بینرز یا دیگر قابل اعتراض مواد کی موجودگی دہشت گردانہ سرگرمیوں کا مقدمہ بنانے کے لیے کافی نہیں ہے۔

اکتوبر 2021 میں سری نگر کے فوٹو جرنلسٹ محمد منان ڈار کو این آئی اے نے دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ دہلی کی ایک عدالت نے ان کو ضمانت دیتے ہوئے کہا کہ محض کچھ پوسٹرز، بینرز یا دیگر قابل اعتراض مواد کی موجودگی دہشت گردانہ سرگرمیوں کا مقدمہ بنانے کے لیے کافی نہیں ہے۔

رہائی کے بعد محمد منان ڈار ۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

رہائی کے بعد محمد منان ڈار ۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

دہشت گردی کے الزام میں نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) کے ذریعے گرفتار کیے گئے سری نگر کے  صحافی کو ایک سال سے زیادہ عرصے کے بعد منگل (3 جنوری) کی شام کو تہاڑ جیل سے رہا کر دیا گیا۔ ضمانت کےفیصلے میں، دہلی کی پٹیالہ ہاؤس کورٹ نے ان کے خلاف الزامات کو ‘تخیل محض ‘ یعنی افسانہ قرار دیا۔

سری نگر کے بٹ مالو کے رہنے والے محمد منان ڈار، جو ایک فری لانس فوٹو جرنلسٹ کے طور پر کام کرتے تھے، کو این آئی اے نے اکتوبر 2021 میں ان کے بھائی حنان ڈار سمیت 12 لوگوں کے ساتھ گرفتار کیا تھا۔ یہ گرفتاریاں ان ٹارگیٹیڈ حملوں کے ایک سلسلے کے بعد ہوئیں جن میں اقلیتی برادریوں کے ارکان اور تارکین وطن مزدوروں کو مشتبہ دہشت گردوں نے گولی مار کر ہلاک کر دیاتھا۔

منان ڈار کے خاندان کے ایک رکن نے دی وائر کو بتایا کہ انہیں منگل (3 جنوری) کی رات تقریباً 9 بجے جیل سے رہا کیا گیا۔

عدالت نے سوموار (2 جنوری) کو سنائے  گئے اپنے ضمانتی حکم نامے میں کہا کہ منان کے خلاف مرکزی ایجنسی کے ثبوت یہ ثابت کرنے کے لیے ‘کافی نہیں ہیں’ کہ وہ ہندوستانی آئین سے دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد دہلی سمیت جموں و کشمیر ریاست اور ہندوستان کے دیگر حصوں میں پرتشدد دہشت گردانہ سرگرمیوں کو انجام دینے کی سازش کا حصہ تھے۔

ایجنسی نے کہا تھا کہ ‘اکتوبر 2021 میں وادی میں ٹارگٹ کلنگ کی سازش’ کشمیر میں سرگرم دہشت گرد تنظیموں کی ایک امبریلا تنظیم پاکستان کے یونائیٹیڈجہاد کونسل کے سربراہ سید صلاح الدین، کشمیر کے رہائشی (جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پاکستان میں رہ رہے ہیں) بشیر احمد پیر اور امتیاز کنڈو اور حزب المجاہدین، لشکر طیبہ، البدر اور دیگر نامعلوم دہشت گرد تنظیموں کے نامعلوم کمانڈروں نے کی تھی۔

ایجنسی نے آئی پی سی کی دفعہ 120بی، 121اے، 122 اور 123 اور غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ 1967 کی دفعہ 18، 18اے، 18بی، 30 اور 39 کے تحت سال 2021 میں مقدمہ درج کیا تھا۔ اس معاملے میں گزشتہ سال این آئی اے عدالت میں چارج شیٹ داخل کی گئی تھی۔

عدالت نے فیصلہ سنایا کہ عدالت میں پیش کیے گئے شواہد اور گواہوں کے بیانات یہ ثابت کرنے کے لیے ناکافی ہیں کہ منان کسی دہشت گردی کی کارروائی میں ملوث تھے۔

اپنی چارج شیٹ میں، ایجنسی نے گواہوں اور منان کے فون سے برآمد ہونے والے ڈیٹا کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ 23 سالہ منان – جن کی  گرفتاری سے قبل سری نگر کی کلسٹر یونیورسٹی میں انٹیگریٹڈ جرنلزم اینڈ ماس کمیونی کیشن کورس کے 2022 بیچ میں شامل ہونے کے لیے منتخب کیا گیا تھا – ‘ایک فوٹو جرنلسٹ کی آڑ میں’ دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ سیکورٹی فورسز اور کشمیر میں ان کی تعیناتی کے بارے میں جانکاری شیئر کر رہے تھے۔

ایک فوٹو جرنلسٹ کے طور پر جولائی 2021 میں سری نگر انکاؤنٹر کے بعد منان کی لی گئی ایک تصویر گارڈین کے ‘ٹوینٹی فوٹوگرافس آف دی ویک’ سیکشن میں شامل کی گئی تھی۔

تاہم، ایجنسی نے عدالت کو بتایا کہ مارے گئے عسکریت پسندوں کی تصاویر اور پوسٹرز، محکمہ تعلیم کے اہلکاروں اور طلبہ کو یوم آزادی کی تقریبات میں شامل نہ ہونے کی دھمکی دینے والے عسکریت پسند تنظیموں کے بیان اور مارے گئے دہشت گردوں کو ‘شہید’ قرار دینے والے ٹیلی گرام چیٹ منان کے فون میں پائے گئے، جو دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ان کے ملوث ہونے کی وضاحت کرتے ہیں۔

تاہم، عدالت نے سپریم کورٹ کے تھواہا فصل بنام یونین آف انڈیا، 2021 کے کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ‘دہشت گردانہ سرگرمیوں کا مقدمہ بنانے کے لیے محض چند پوسٹرز، بینرز یا دیگر قابل اعتراض مواد کا ہونا کافی نہیں ہے’۔

این آئی اے کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے عدالت نے کہا کہ ‘الزامات کی حمایت میں براہ راست ثبوت ہونا چاہیے’۔

عدالت نے کہا کہ محض قیاس آرائی یا نامکمل شواہد اس طرح کے حقائق کو قائم کرنے کے لیے کافی نہیں ہو سکتے، انہوں نے مزید کہا کہ گواہوں کے بیانات دہشت گردانہ سرگرمیوں میں منان کے ملوث ہونے کو ثابت کرنے کے لیے فیصلہ کن نہیں ہیں۔

ایجنسی نے یہ بھی الزام لگایا کہ نوجوان فوٹو جرنلسٹ ایک ‘ہائبریڈ کیڈر’ کا حصہ تھے، جس کا مقصد اقلیتوں، سیکورٹی فورسز، سیاست دانوں اور دیگر اہم افراد کی ٹارگٹ کلنگ جیسے چھوٹے پیمانے کے حملوں کو انجام دے  کر بدامنی اور دہشت پھیلانا تھا۔

تاہم، عدالت نے کہا کہ کسی دہشت گرد تنظیم کےساتھ کسی شخص کا تعلق بھی غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ کی دفعہ 38 (دہشت گرد تنظیم کی رکنیت سے متعلق جرم) قائم کرنے کے لیے کافی نہیں ہے اور مزید کہا کہ دہشت گرد تنظیم کی حمایت کرنا بھی دفعہ 39 (دہشت گرد تنظیم کو دی گئی حمایت سے متعلق جرم) کے تحت ملزم بنانے کےلیے کافی نہیں ہے۔

عدالت نے کہا، ‘ایسوسی ایشن اور حمایت دہشت گرد تنظیموں کی سرگرمیوں کو آگے بڑھانے کی نیت سے ہونی چاہیے۔ اس طرح کے ارادے کا اندازہ دہشت گرد تنظیم کی سرگرمیوں میں ملزم کی فعال شرکت سے لگایا جا سکتا ہے اور فیصلہ سنایا کہ ‘ملزم کے خلاف لگائے گئے الزامات قابل یقین اور سچے نظر نہیں آتے۔’

استغاثہ کے گواہوں اور منان کے فون کے فرانزک تجزیے کا حوالہ دیتے ہوئے ایجنسی نے الزام لگایا تھا کہ نوجوان فوٹو جرنلسٹ کو ‘شدت پسند’ بنادیا گیا ہے اور وہ ‘دہشت گرد تنظیموں کے لیے انڈر گراؤنڈ کارکن کے طور پر کام کر رہا تھا۔’ ایجنسی نے عدالت کو بتایا تھا،وہ فوج/پولیس والوں پر پتھراؤ کی ترغیب دینے کے لیے نوجوانوں کو مسجد(نامعلوم) میں مولوی کےشدت پسند لیکچرز میں شرکت کرتا تھا۔

قبل ازیں ضمانت کی سماعت کے دوران وکیل پنکج تمنا اور پریہ وتس کی سربراہی میں دفاعی فریق  نے عدالت کو بتایا کہ منان کو ایجنسی نے دو ہفتوں تک ‘غیر قانونی طور پر حراست میں’ رکھا اور اس کے بعد 22 اکتوبر 2021 کو ان کی گرفتاری دکھائی  اور ان کے خلاف الزامات قیاس آرائیوں پر مبنی ہیں اور ان میں کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے۔

دفاعی فریق  نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ ایجنسی کے پاس منان کو جموں و کشمیر میں کسی بھی پرتشدد واقعے سے جوڑنے کے لیے ‘کوئی مادی ثبوت’ نہیں ہے۔ عدالت نے دلائل سننے کے بعد سوموار کو منان کےملک سے باہر جانے پر روک لگاتے ہوئے 50 ہزار روپے کے مچلکے  پرضمانت دے دی۔

اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔