محبوبہ مفتی کی چھوٹی بیٹی التجا مفتی نے وزیر داخلہ امت شاہ کو لکھے خط میں کہا ہے کہ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ مجھے کشمیریوں کی آواز بلند کرنے کے لیے کیوں سزا دی جارہی ہے ۔ کیا کشمیریوں کے درد ، استحصال اور غصے کا اظہار کرناجرم ہے۔
نئی دہلی : جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 ہٹائے جانے کے بعد سے پیپلس ڈیموکریٹک پارٹی کی رہنما اور جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی چھوٹی بیٹی التجا جاوید کو نظر بند رکھا گیا ہے ۔ وہ 5 اگست سے سرینگر میں اپنے گپکر روڈ واقع گھر میں نظر بند ہیں ۔دی وائر کے بانی مدیر سدھارتھ وردراجن نے 7 اگست کو التجا سے ان کے گھر پر ملنے کی کوشش کی تھی لیکن ان کے گھر کے باہر سادہ لباس میں تعینات پولیس اہلکاروں نے کہا کہ یہ ممکن نہیں ہے کیوں کہ اوپر سے حکم آئے ہیں کہ التجا مفتی سے کسی کو بھی ملنے نہیں دیا جائے ۔
حالاں کہ التجا ایک معتمد کے ذریعے وزیر داخلہ امت شاہ کو مخاطب کرتے ہوئے ایک خط 15 اگست کو دی وائر کو بھیجنے میں کامیاب رہیں ۔ اس خط میں التجا وزیر داخلہ امت شاہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ، میرے پاس اس خط کو لکھنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا کیوں کہ میں نے کئی بار اپنی حراست کی وجہ کو جاننا چاہا۔ امید ہے اور دعا کرتی ہوں کہ اپنے بنیادی حقوق کے بارے میں سوال پوچھے جانے کو لے کر مجھے سزا نہیں دی گئی ہے اور اس کے لیے مجھے گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔ کشمیر سیاہ بادلوں میں گھرا ہوا ہے اور مجھے آواز اٹھانے والے سمیت یہاں کے لوگوں کے تحفظ کا خوف ہے۔
انہوں نے آگے لکھا ہے کہ ، ہم کشمیری 5 اگست 2019 کو آرٹیکل 370ہٹائے جانے کے یکطرفہ فیصلے کے بعد سے ہی مایوس ہیں ۔ میری والدہ اور جموں وکشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کو اسی دن کئی دوسرے لوگوں کے ساتھ حراست میں لیا گیا ۔ کرفیو لگے ہوئے دس دن سے زیادہ ہوگئے ہیں ۔ وادی میں خوف کا ماحول ہے کیوں کہ سبھی طرح کے مواصلاتی نظام بند ہیں ۔ آج جب ملک آزادی کا جشن منا رہا ہے ، کشمیریوں کو ان کے حقوق انسانی سے محروم کر کے پنجرے میں قید جانوروں کی طرح رکھا گیا ہے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ ، بد قسمتی سے کچھ وجہوں سے مجھے بھی گھر میں نظر بند رکھا گیا ہے اور اس کی وجہ کیا ہے ، یہ آپ کو معلوم ہوگا ۔ ہمیں یہ بھی نہیں بتایا جاتا ہے کہ ہم سے ملنے آنے والے کو دروازے سے ہی لوٹا دیا جاتا ہے اور مجھے بھی گھر سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہے ۔ میں حالاں کہ کسی سیاسی پارٹی سے جڑی ہوئی نہیں ہوں لیکن ہمیشہ سے قانون کی پیروی کرنے والی شہری ہوں ۔ حالاں کہ سکیورٹی اہلکاروں نے کئی میڈیا پورٹل اور اخباروں کو دیے گئے انٹرویو کو میری گرفتار ی کی وجہ بتایا ہے ۔ حقیقت میں میڈیا سے دوبارہ بات کرنے پر مجھے سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکی دی گئی ہے۔
خط میں کہا گیا ہے ، میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ مجھے کشمیریوں کی آواز بلند کرنے کے لیے کیوں سزا دی جارہی ہے ۔ کیا کشمیریوں کے درد ، استحصال اور غصے کا اظہار کرنا جرم ہے؟ میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ کن قوانین کے تحت مجھے حراست میں رکھا گیا ہے اور مجھے کب تک حراست میں رکھا جائے گا؟ کیا مجھے اس کے لیے کوئی قانونی قدم اٹھانے کی ضرورت ہے؟انہوں نے کہا ، ہمارے ساتھ اس طرح سے برتاؤ کیا جانا دم گھوٹنے والا اور ذلت آمیز ہے ۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں کسی شہری کو کسی طرح کے استحصال کے خلاف آواز اٹھانے کا حق نہیں ہے؟ ستیہ میو جیتے نے ہمارے ملک کے جذبے اور اس کے آئین کو واضح کیا ہے ۔ یہ ایک المیہ ہے کہ سچ بولنے کے لیے میرے ساتھ کسی جنگی مجرم کی طرح سے سلوک کیا جارہا ہے۔