دی وائر ہندی کے دو سال مکمل ہونے پرمنعقد پروگرام دی وائر ڈائیلا گس میں ہندی کے ایگزیکٹو ایڈیٹر برجیش سنگھ کے کلیدی خطبےسے اہم اقتباسات ۔
دو سال پہلے ایک چھوٹی سی ٹیم اور بڑے خوابوں کے ساتھ ہم نے’دی وائر ہندی’کی شروعات کی۔ اب تک کا تجربہ کیسا رہا؟ ہم نے کیا کیا، نہیں کیا اس پر گفتگو کرنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ ‘دی وائر ہندی’کی شروعات کس دور میں ہوئی۔دراصل ہم جس ماحول میں کام کر رہے ہیں اس کے بارے میں بات کرنا ضروری ہے۔یہ وہ دور ہے جہاں میڈیا سرکاری اور درباری بن گیا ہے۔اس کی پہچان گودی میڈیا اور بھجن منڈلی کے طور پر ہو رہی ہے۔ ہم اس دور میں ہیں، جہاں میڈیا خود جمہوریت کے لئے خطرہ بن گیا ہے۔ وہ عوام کے خلاف کھڑا ہے۔ شہریوں کے خلاف سازشیں کر رہا ہے۔
نیوز چینلوں کو دیکھیں تو وہاں دن رات ہندو-مسلم اور مندر-مسجد کی زہریلی ڈبیٹ چل رہی ہے۔ لوگوں کو وطن پرست اور غدار وطن ہونے کا سنددیا جا رہا ہے۔میڈیا کا بڑا حصہ اپنا فرض، اپنی ذمہ داری سے منھ موڑکر سماج میں زہر گھولنے میں لگا ہوا ہے۔ وہ شہری نہیں فسادی تیار کرنے کے لئے جی-توڑ محنت کر رہا ہے۔میڈیا ان دنوں عوام کے لئے جدو جہد کرنے والوں کو بنا حقائق کے ایک سانس میں نکسلی، غدار اور غدار وطن بتاتا ہے۔ اقتدار کے ساتھ بغلگیر ہونے میں اس کو ذرا بھی شرم محسوس نہیں ہوتی۔ ظلم کرنے والوں سے سوال پوچھنے کی جگہ مظلوم پر ظلم کر رہا ہے۔
یہ وہ دور ہے جہاں حکومت اور کسی پارٹی کے ترجمان اور صحافی کا فرق مٹ گیا ہے۔ میڈیا 24 گھنٹے فرقہ پرستی کی بھٹی جلاکر بیٹھا ہے۔ عوام کے مدعے کچھ اور ہیں اور میڈیا میں کچھ اور چل رہا ہے۔یہ دور فیک نیوز یعنی فرضی خبروں کا بھی ہے۔ آج فیک نیوز کا ایک پورا نظام قائم ہو گیا ہے۔ ٹرولس کا ایک سوچا-سمجھا نظام تیار کیا گیا ہے۔ فیک نیوز اور ٹرولنگ اب استثنیٰ نہیں بلکہ اہم رجحان کے سیاسی منصوبہ کا حصہ بن گیا ہے۔
عجیب و غریب نام والے سوشل میڈیا اکاؤنٹ ہی نہیں بلکہ مین اسٹریم میڈیا کا بڑا حصہ فیک نیوز پھیلانے میں لگا ہوا ہے۔حکومت کے وزیر فیک نیوز پھیلاتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ ریپ اور قتل کی دھمکی دینے والوں کو حکومت کے وزیر اور یہاں تک کہ وزیر اعظم بھی فالو کرتے ہیں۔ایک بزرگ صحافی کے قتل کو ایک آدمی کتیا کی موت بتاتا ہے جس کو وزیر اعظم ٹوئٹر پر فالو کرتے ہیں۔ وزیر اعظم ایسے لوگوں سے کیوں اور کیسے جڑے ہیں یہ ایک سوال تو ہے ہی، سب سے شرمناک صورت حال یہ ہے کہ سوال اٹھنے کے بعد بھی وہ اس کو ان فالو نہیں کرتے۔
میڈیا میں ایسی کئی خبریں آئی ہیں کہ وزیر اعظم سوشل میڈیا پر جن لوگوں سے جڑے ہیں، ان میں سے کئی اکاؤنٹس ایسے ہیں جو عدم اتفاق کرنے والوں کوریپ اور قتل سمیت تمام طرح کی دھمکیاں دیتے رہتے ہیں۔اب آپ یہ سوچیے کہ اس طرح کے مجرمانہ اور غیرسماجی عناصر کو اگر 130 کروڑ کی آبادی والے ملک کا وزیر اعظم فالو کرےگا تو اس سے ان کی گستاخی میں اضافہ نہیں ہوگا اور حوصلہ نہیں بڑھےگا تو اور کیا ہوگا۔ یہ کس طرح کے رجحان کو اقتدار بڑھاوا دے رہا ہے؟
اسی لئے میں کہتا ہوں کہ ایسے وقت میں’دی وائر ‘ کا ہونا بےحد اہم واقعہ ہے۔
میں نے سوچا کہ ان دو سالوں میں ہم نے ایسا کیا خاص کیا۔ مجھے لگتا ہے ہم نے کچھ قابل ذکر نہیں کیا ہے۔ ہم نے بس وہی کیا جو ہر میڈیا ادارہ اور ہر صحافی کو کرنا چاہیے۔ سچ بولیے، کمزور اور مظلوموں کے ساتھ کھڑے رہیے اور اقتدار سے سوال پوچھیے۔ ہمارے لئے تو یہی صحافت ہے اور پچھلے دو سالوں میں ہم نے یہی کیا ہے۔گزشتہ دو سالوں میں’دی وائر ہندی’نے دوردراز کے گاؤں کی بات کی دلتوں، آدیواسیوں، پسماندہ، مظلوموں، غریبوں اوراستحصال کی بات کی خواتین اور اقلیتوں کی بات کی کسانوں اور طالب علموں کی بات کی حق اوراختیار کی بات کی۔
آئین اور اس پر ہو رہے حملوں کی بات کی۔ اداروں کے ساتھ کئے جا رہے کھلواڑ کی بات کی۔ اقتدار، اقتدار سے جڑے اور اقتدار سے نفع حاصل کرنے والوں سے سوال کئے۔بڑی تعداد میں گراؤنڈ رپورٹ کیں جن کا چلن میں اسٹریم میڈیا سے تقریباً ختم ہو گیا ہے اور آن لائن میڈیا’اپس مومینٹ’اور’جانکے رہ جائیںگے دنگ’جیسی کہانیاں رچنے میں مصروفیت کی وجہ سے اس کی طرف دیکھ ہی نہیں پاتا۔سماج کے مختلف طبقوں کے مدعے، ان کے مسائل اور آواز جس کومین اسٹریم میڈیا جگہ نہیں دیتا، اس کو پرزور طریقے سے ہم نے اٹھانے کی کوشش کی ہے۔
ہم نے اس ذہنیت کو توڑنے کی کوشش کی کہ ترقی کی خبریں، کسانوں کی خبریں، آدیواسی اور محروم طبقوں کی خبریں، غذائی قلت، غریبی، استحصال سے جڑی خبریں پڑھی نہیں جاتیں۔’ دی وائر ہندی’ کی رپورٹس کو آف لائن اور آن لائن ملے رد عمل نے یہ ثابت کیا کہ ملک میں ان خبروں کو پڑھنے والوں کا ایک بڑاطبقہ ہے۔
لیکن یہ سفر بہت آسان نہیں رہا۔ ‘دی وائر ‘اپنی عوام پسند صحافت کی قیمت بھی چکا رہا ہے۔ آج ‘دی وائر گروپ ‘کے اوپر ہزاروں کروڑ روپے کی ہتک عزت کے مقدمہ کئے جا چکے ہیں۔ اس کو ڈرانے، دھمکانے اور روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے، لیکن ان تمام چیلنج کے باوجود ‘دی وائر ‘نے صحافت کے اصولوں اور قدروں سے سمجھوتہ نہیں کیا۔’ دی وائر ‘یہ سب اس لئے کر پا رہا ہے کیونکہ اس کی طاقت ملک کے عام شہری ہیں۔ وہ شہری جو اپنی چھوٹی سی کمائی کے ایک حصے سے’دی وائر ‘کا تعاون اور حمایت کرتے ہیں۔ اس کی صحافت کو بنائے رکھنے میں اس کی اقتصادی مدد کرتا ہے۔ بڑی تعداد میں ایسے شہری’دی وائر ‘ کی صحافت کو بچائے رکھنے میں اپنی خدمات دے رہے ہیں۔
قارئین کی حمایت کی بات پر مجھے ایک ای میل کی یاد آ رہی ہے، جو الٰہ آباد میں پڑھائی کر رہے ایک طالب علم نے بھیجا تھا۔ انہوں نے لکھا تھا، آپ لوگ اچھا کام کر رہے ہیں۔ میں ابھی پڑھائی کر رہا ہوں۔ جب میری نوکری لگ جائےگی تو پہلی تنخواہ میں دی وائر کو ڈونیٹ کروںگا۔ آپ لوگ ایسے ہی اچھا کام کرتے رہیےگا۔ ” دی وائر ‘سے ایک نوجوان کی یہ امید اور محبت ہی وہ دھاگاہے جو ہمیں اپنی ذمہ داری سے کبھی الگ نہیں ہونے دیتا ہے۔
آزاد پبلک فنڈیڈ میڈیا آج جمہوریت کی ضرورت ہے۔ آج جس طرح کے کارپوریٹ اور سرکاری دباؤ میں میڈیا کام کر رہا ہے اس کا حل پبلک فنڈیڈ میڈیا ہی ہے۔حکومتیں آتی ہیں، جاتی ہیں ایسے میں سیاستدانوں کو بھی یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایماندار اور غیر جانبدارانہ میڈیا ان کے بھی مفاد میں ہے۔ ایسا نہیں چلےگا کہ جب آپ وپوزیشن میں ہوتے ہیں تو آپ کو انقلابی میڈیا چاہیے اور جب اقتدار میں ہوں تو درباری میڈیا۔
ہم امید کرتے ہیں کہ ان دو سالوں کے دوران ہمارے قارئین نے جس طرح ہماری حمایت کی آگے بھی اسی طرح ہمارا تعاون کرتے رہیںگے۔
The post ’ ہم اس دور میں ہیں، جہاں میڈیا خود جمہوریت کے لئے خطرہ بن گیا ہے‘ appeared first on The Wire - Urdu.