معاملہ مرادآباد کا ہے، جہاں گوشت لے جا رہے ایک میٹ بیچنے والےکو گئورکشا واہنی کے اہلکاروں کی قیادت والے گروپ نے روک کر مارپیٹ کی اور گائے اسمگلر بتاتے ہوئے پولیس کو سونپ دیا۔ بعد میں متاثرہ شخص کو چھوڑتے ہوئے حملہ آوروں کے خلاف معاملہ درج کیا گیا۔ واقعہ کے بعد بھارتیہ گئورکشا واہنی نے دعویٰ کیا ہے کہ ملزم کاان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
شاکر کو پیٹتے حملہ آور۔ (بہ شکریہ: ویڈیوگریب/سوشل میڈیا)
نئی دہلی: اتر پردیش کے مرادآباد میں اتوار کو ایک مبینہ گئورکشک کی قیادت میں کچھ لوگوں کے ذریعے مسلمان گوشت بیچنے والے کو پیٹنے کا معاملہ سامنے آیا ہے۔
این ڈی ٹی وی کے مطابق ، متاثرہ شخص محمد شاکر کے اہل خانہ کی تحریر پر پولیس نے اس گروپ کے خلاف معاملہ درج کیا ہے، لیکن ایک اور ایف آئی آر جو پولیس نے خود دائر کی ہے، اس میں شاکر کا نام بطورملزم درج کیا گیا ہے۔
دینک جاگرن کی خبر کے مطابق ،اتوار کو شاکر کو گئورکشا واہنی کےاہلکاروں نے بری طرح پیٹنے کے بعد انہیں گائے کا اسمگلر بتاتے ہوئے پولیس کے حوالے کر دیا تھا، جہاں پولیس نے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرتے ہوئے حراست میں لے لیا تھا۔
بعد میں شاکر کو چھوڑ دیا گیا اور ان کے اہل خانہ کے مطابق وہ اب گھر پر ہیں۔ اخبار کے مطابق ، کٹگھر کے رہنےوالے منوج سنگھ گئورکشا واہنی کے نائب صدر ہیں اور پچھلے کچھ وقتوں سے گوشت بیچنے والوں کے خلاف مہم چلا رہے ہیں۔
اتوار کو انہوں نے کٹگھر تھانہ حلقہ کے گوٹ گاؤں میں نرکھیڑاکے شاکر کو اپنے ساتھیوں کے ساتھ پکڑکر گوگوشت کی اسمگلنگ کا الزام لگاتے ہوئے لاٹھی سے پیٹا اور پولیس کو بلاکر شاکر کو اسے سونپ دیا۔
شاکر کے گھروالوں کی شکایت پر درج ہوئی ایف آئی آر میں ٹھاکر کے ساتھ پانچ دیگر لوگ پردیپ، بابو، گلشن عرف گلی، سمت اور وجئے کے ساتھ کچھ نامعلوم لوگوں کے نام ہیں۔ این ڈی ٹی وی کے مطابق ان میں سے چار لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے جبکہ باقی فرار ہیں۔
ادھر شاکر کے پاس سے ضبط کیے گئے گوشت کی شروعاتی جانچ میں یہ بھینس کا میٹ بتایا گیا ہے۔ کٹگھر تھانہ انچارج گجیندر سنگھ نے بتایا کہ شاکر کے پاس سے ملا 50 کیلو میٹ بھینس کا ہے۔ مرادآباد میں بنا لائسنس اتنی مقدار میں گوشت نہیں لے جایا سکتا۔ اسی قانون کی خلاف ورزی کرنے کے معاملے میں ان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
واقعہ کا ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر شیئر کیا جا رہا ہے، جہاں لوگوں کا یہ گروپ اسکوٹر پر بھینس کا گوشت لے جا رہے شاکر کو روکتا ہے اور ان سے پچاس ہزار روپے مانگتا ہے۔ ٹھاکر اور دیگر لوگ شاکر کو گھیرےنظر آتے ہیں اور جب وہ زمین پر گرتا ہے تب اسے لاٹھیوں سے مارتے ہیں۔
ٹھاکر نے مقامی میڈیا کو دیے بیان میں کہا کہ وہ شاکر کو روکنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن انہوں نے اپنی گاڑی سے انہیں ٹکر مار دی۔ انہوں نے کہا، ‘کسی کو دو لاٹھی مارنا جرم ہے، لیکن کسی کو جان سے مارنے کی کوشش کرنا نہیں ہے؟ میں گئوکشی روکنے کی کوشش کر رہا ہوں لیکن پولیس مجھے دھمکا رہی ہے۔ انتظامیہ مجھے پولیس ٹیم دے…میں اس ریکیٹ کا بھنڈاپھوڑ کروں گا۔’
ادھراس معاملہ کے سامنے آنےکے بعد بھارتیہ گئورکشا واہنی نے دعویٰ کیا ہے کہ ٹھاکر اب ان سے وابستہ نہیں ہیں اور انہیں چھ مہینے پہلے ہی تنظیم سے ہٹا دیا گیا تھا۔
واہنی کے قومی صدرراکیش سنگھ پر ہار نے
د ی کوئنٹ کو بتایا،‘منوج ٹھاکر کو غلط سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی وجہ سے چھ مہینے پہلے تنظیم سے نکال دیا گیا تھا۔ لوگوں نے ان پر وصولی کرنے کے کئی الزام لگائے تھے۔ مرادآباد کے ہمارے مقامی نمائندوں نے بھی ہمیں اس بارے میں بتایا تھا۔ لگتا ہے اب ہمیں دور کرنے کے لیے ان کے تنظیم سے الگ ہونے کی ایک الگ پریس ریلیز جاری کرنی ہوگی۔ ہم نے انہیں سمجھایا لیکن وہ نہیں سنتے۔’
دینک جاگرن کے مطابق، مارپیٹ کا ویڈیو وائرل ہونے کے بعد ایس ایس پی پربھاکر چودھری نے ٹھاکر کے خلاف کارروائی کے حکم دیے ہیں۔ اخبار کے مطابق ، گزشتہ کچھ دنوں سے گئورکشا واہنی کے لوگوں کے خلاف لگاتار غیرقانونی طور پررقم وصولی کی شکایتیں آ رہی تھیں۔
مرادآباد سے سماجوادی پارٹی کے ایم پی ایس ٹی حسن نے ٹھاکر اور ان کے ساتھیوں کے خلاف کارروائی کی مانگ کی ہے۔ انہوں نے کہا، ‘میں نے سنا ہے کہ اس نے فیکٹری سے میٹ خریدا تھا اور اس کے پاس رسید بھی تھی۔ پھر بھی اس پر حملہ کیا گیا۔ گئوکشی کے نام پر اس طرح کی نفرت پر روک لگنی چاہیے۔ اوپر والے کا شکر ہے کہ اس شخص کی جان نہیں گئی۔’