میں یقیناً یہ کہتا رہا ہوں کہ ہمارے فرض کے سامنے دو ہی راہیں ہیں؛ گورنمنٹ نا انصافی اور حق تلفی سے باز آ جائے، اگر باز نہیں آ سکتی تو مٹا دی جائے گی۔ میں نہیں جانتا کہ اس کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے ؟ یہ تو انسانی عقائد کی اتنی پرانی سچائی ہے کہ صرف پہاڑ اور سمندر ہی اس سے کم عمر کہے جا سکتے ہیں۔
فوٹو بہ شکریہ : وکی پیڈیا
سن 1922 میں مولانا ابوالکلام آزاد کے خلاف کلکتہ کی ایک عدالت میں سیڈیشن قانون کے تحت ایک مقدمہ چلایا گیا تھا۔ مولانا پر الزام تھا کہ انہوں نے جولائی 1921 میں اپنی دو تقاریر میں حکومت وقت یعنی برطانیہ حکومت کے خلاف لوگوں کو اکسانے کا کام کیا ہے۔اس الزام کا اقرار کرتے ہوئے مولانا نے عدالت میں ایک طویل تحریر پیش کی تھی ۔ جس کے بارے میں مہاتما گاندھی نے اپنے انگریزی رسالے ینگ انڈیا میں مولانا کے اس تحریری بیان کو ہندوستانی قومیت کا بہترین تھیسس قرار دیا تھا۔ مولانا کا یہ تحریری بیان قول فیصل میں موجود ہے، جس کے کچھ اہم اقتباسات یہاں پیش کیے جارہے ہیں ۔(ادارہ)
استغاثہ کی جانب سے میری دو تقریریں ثبوت میں پیش کی گئی ہیں جو میں نے پہلی اور پندرھویں جولائی کو مرزا پور پارک کے جلسے میں کی تھیں۔ اس زمانہ میں گورنمنٹ بنگال نے گرفتاریوں کی طرف پہلا قدم اٹھایا تھا اور چار مبلغین خلافت پر مقدمہ چلا کر سزائیں دلائی تھیں۔ میں اس وقت سفر سے بیمار واپس آیا تھا، میں نے دیکھا کہ لوگوں میں بے حد جوش پھیلا ہوا ہے اور ہر طرح کے مظاہرے کے لیے لوگ بےقرار ہیں، چونکہ میرے خیال میں گرفتاریوں پر مظاہرہ کرنا نان کوآپریشن کے اصول کے خلاف تھا، اس لیے میں نے ہڑتال اور جلوس یک قلم روک دیے۔ اس پر عوام کو شکایت ہوئی تو میں نے یہ جلسے منعقد کئے اور لوگوں کو صبر و تحمل کی نصیحت کرتے ہوئے سمجھایا کہ نان وایلنس، نان کوآپریشن کے اصول میں یہ بات داخل ہے کہ گرفتاریوں پر صبر و سکون کے خلاف کوئی بات نہ کی جائے۔ اگر فی الواقع ان گرفتاریوں کا تمہارے دل میں درد ہے تو چاہیے کہ اصلی کام کرو اور بیرونی کپڑا تا کر دیسی گاڑھا پہن لو۔
استغاثہ نے جو نقل پیش کی ہے، وہ نہایت ناقص، غلط اور مسخ شدہ صورت ہے اور محض بے جوڑ اور بعض مقامات پر بے معنی جملوں کا مجموعہ ہے جیسا کہ اس کے پڑھنے سے ہر شخص سمجھ لے سکتا ہے۔ تاہم میں اس کے غلط اور بے ربط جملوں کو چھوڑ کر (کیونکہ اس کے اعتراف سے میرا ادبی ذوق اِبا کرتا ہے ) باقی وہ تمام حصہ تسلیم کر لیتا ہوں جس میں گورنمنٹ کی نسبت خیالات کا اظہار ہے، یا پبلک سے گورنمنٹ کے خلاف جد و جہد کی اپیل کی گئی ہے۔
استغاثہ کی جانب سے صرف تقریریں پیش کر دی گئی ہیں، یہ نہیں بتلایا ہے کہ ان کے کن جملوں کو وہ ثبوت میں پیش کرنا چاہتا ہے ؟ یا اس کے خیال میں ‘مائی ڈیئر برادران’سے لےکر آخر تک سب 124-الف ہے ؟ میں نے بھی دریافت نہیں کیا کیونکہ دونوں صورتیں میرے لیے یکساں ہیں، تاہم ان نقول کو دیکھتا ہوں تو استغاثہ کے خیال کے مطابق زیادہ سے زیادہ قابلِ ذکر جملے حسبِ ذیل ہیں؛
‘ایسی گورنمنٹ ظالم ہے جو گورنمنٹ نا انصافی کے ساتھ قائم ہو۔ ایسی گورنمنٹ کو یا تو انصاف کے آگے جھکنا چاہیے یا دنیا سے مٹا دینا چاہیے۔ ‘
‘اگر فی الحقیقت تمہارے دلوں میں اپنے گرفتار بھائیوں کا درد ہے تو تم میں سے ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ آج سوچ لے۔ کیا وہ اس بات کے لیے راضی ہے کہ جس جابرانہ قوت نے انہیں گرفتار کیا ہے وہ اس براعظم میں اسی طرح قائم رہے جس طرح ان کی گرفتاری کے وقت تھی؟’
‘اگر تم ملک کو آزاد کرانا چاہتے ہو تو اس کا راستہ یہ ہے کہ جن چالاک دشمنوں کے پاس خونریزی کا بے شمار سامان موجود ہے، انہیں رائی کے برابر بھی اس کے استعمال کا موقع نہ دو اور کامل امن و برداشت کے ساتھ کام کرو…’
‘بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جب تقریروں میں کوئی ایسی بات کہی جاتی ہے تو اس سے مقرر کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اپنے بچاؤ کا سامان کر لے ورنہ اس کی دلی خواہش یہ نہیں ہوتی۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جو لوگ آج تمہارے لیے کام کر رہے ہیں، تم میں سے کوئی آدمی بھی یہ ماننے کے لیے تیار نہ ہو گا کہ وہ جیل جانے یا نظر بند ہونے سے ڈرتے ہیں۔ (پس)اگر وہ یہ کہتے ہیں کہ امن و نظم کے ساتھ کام کرنا چاہیےتو ان کا مطلب یہ نہیں (ہو سکتا) کہ اس ظالمانہ گورنمنٹ (کے ساتھ) وفاداری کرنی چاہتے ہیں۔ جو گورنمنٹ، اس کی طاقت اور (اس کا) تخت آج دنیا میں سب سے بڑا گناہ ہے، یقیناً وہ اس گورنمنٹ کے وفادار نہیں ہو سکتے۔’
سرورق قول فیصل، فوٹو بہ شکریہ،ریختہ ڈاٹ او آرجی
اس کے بعد میں نے کہا ہو گا، مگر کاپی میں نہیں ہے۔
‘وہ تو صرف اس لیے یہ کہتے ہیں کہ خود تمہاری کامیابی با امن رہنے پر موقوف ہے۔ تمہارے پاس وہ شیطانی ہتھیار نہیں ہیں جن سے یہ گورنمنٹ مسلح ہے۔ تمھارے پاس صرف ایمان ہے، دل ہے، قربانی کی طاقت ہے۔ تم انہی طاقتوں سے (اصل میں ‘ہتھیاروں سے’ ہو گا) کام لو۔ اگر تم چاہو کہ اسلحہ کے ذریعہ فتح کرو، تو تم نہیں کر سکتے۔ آج امن و سکون سے بڑھ کر (تمھارے لیے ) کوئی چیز نہیں۔’
‘اگر تم صرف چند گھڑیوں کے لیے گورنمنٹ کو حیران کرنا چاہتے ہو تو اس کے لیے میرے پاس بہت سے نسخے ہیں۔ اگر خدانخواستہ میں اس گورنمنٹ کا استحکام چاہتا تو وہ نسخے بتلا دیتا…
یقیناً میں نے کہا ہے ‘موجودہ گورنمنٹ ظالم ہے’لیکن اگر میں یہ نہ کہوں تو اور کیا کہوں ؟ میں نہیں جانتا کہ کیوں مجھ سے یہ توقع کی جائے کہ ایک چیز کو اس کے اصل نام سے نہ پکاروں ؟ میں سیاہ کو سفید کہنے سے انکار کرتا ہوں۔
میں کم سے کم اور نرم سے نرم لفظ جو اس بارے میں بول سکتا ہوں یہی ہے، ایسی ملفوظ صداقت جو اس سے کم ہو، میرے علم میں کوئی نہیں۔
میں یقیناً یہ کہتا رہا ہوں کہ ہمارے فرض کے سامنے دو ہی راہیں ہیں؛ گورنمنٹ نا انصافی اور حق تلفی سے باز آ جائے، اگر باز نہیں آ سکتی تو مٹا دی جائے گی۔ میں نہیں جانتا کہ اس کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے ؟ یہ تو انسانی عقائد کی اتنی پرانی سچائی ہے کہ صرف پہاڑ اور سمندر ہی اس سے کم عمر کہے جا سکتے ہیں۔ جو چیز بری ہے اسے یا تو درست ہو جانا چاہیے یا مٹ جانا چاہیے۔ تیسری بات کیا ہو سکتی ہے ؟ جب کہ میں اس گورنمنٹ کی برائیوں پر یقین رکھتا ہوں تو یقیناً یہ دعا نہیں مانگ سکتا کہ درست بھی نہ ہو اور اس کی عمر بھی دراز ہو!
میرا اعتقاد ہے کہ آزاد رہنا ہر فرد اور ہر قوم کا پیدائشی حق ہے۔ کوئی انسان یا انسانوں کی گھڑی ہوئی بیوروکریسی یہ حق نہیں رکھتی کہ خدا کے بندوں کو اپنا محکوم بنائے۔ محکومی اور غلامی کے لیے کیسے ہی خوش نما نام کیوں نہ رکھ لیے جائیں لیکن وہ غلامی ہی ہے اور خدا کی مرضی اور اس کے قانون کے خلاف ہے۔ پس میں موجودہ گورنمنٹ کو جائز حکومت تسلیم نہیں کرتا اور اپنا ملکی، مذہبی اور انسانی فرض سمجھتا ہوں کہ اس کی محکومی سے ملک اور قوم کو نجات دلاؤں۔
یہ مضمون11 نومبر 2019کو شائع کیا گیا تھا۔