متھرا کے نوہ جھیل تھانہ حلقہ کا معاملہ۔ دلہن کے رشتہ داروں کا الزام ہے کہ اتوار کو والمیکی کمیونٹی کی ایک لڑکی کی شادی تھی، جہاں بارات کو آنے سے روکا گیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ براہمنوں کے ذریعے معافی مانگنے کے بعد دونوں فریقوں کے بیچ سمجھوتہ ہو گیا ہے۔
علامتی تصویر فوٹو: رائٹرس
نئی دہلی:اتر پردیش کے متھرا ضلع کے نوہ جھیل تھانہ حلقے کے ایک گاؤں میں کچھ لوگوں نے ایس ٹی کمیونٹی کی لڑکی کی شادی میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی۔ انہوں نے دولہے کی بارات نہیں ‘چڑھنے دی’، جس کے بعد بنا ‘بارات چڑھائے’ ہی شادی ہوئی۔
ٹائمس آف انڈیا کی خبر کے مطابق، پیرگڑھی ٹپا گاؤں کے جاٹو مہیش کمار کی شادی مسمونا گاؤں میں والمیکی سماج کی ایک لڑکی کے ساتھ اتوار کو ہونی تھی۔ پولیس نے بتایا کہ اسی دوران کچھ براہمنوں نے دولہے کی بارات نکلنے نہیں دی۔
بارات کے ساتھ رہے دلہن کے رشتہ داروں نے بتایا کہ انہوں نے شادی کی جگہ سے کچھ 500 میٹر پہلے ایک ٹریکٹر ٹرالی دیکھی، جس سے راستہ روکا گیا تھا۔دلہن کے چچا وجیندر سنگھ نے کہا، ‘ ہم نے براہمنوں سے درخواست کی کہ وہ ٹریکٹر ٹرالی ہٹا لیں اور بارات کو نکلنے دیں لیکن انہوں نے ہماری ذات کو لےکر گالی دی اور فیملی کے لوگوں کے ساتھ بدتمیزی کی۔ ‘
انہوں نے بتایا کہ اس کے بعد انہوں نے 100 نمبر پر فون کیا۔ اس پر براہمن کمیونٹی کے لوگوں نے ٹریکٹر ٹرالی ہٹا لی لیکن ان میں سے کچھ نوجوانوں نے ڈی جے کو بند کرا دیا اور بارات کے ساتھ آئے بینڈ والوں کا سامان چھین لیا۔سنگھ نے کہا، ‘ ان کی اس اشتعال انگیزی کا ہم جواب دے سکتے تھے لیکن شادی کی وجہ سے ہم نے کچھ نہیں کیا اور بغیر بارات اور ڈی جے کے ہی لڑکے والے لڑکی کے گھر پہنچے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ گاؤں میں زیادہ تر آبادی جاٹو کمیونٹی کی ہے اور کچھ ہی گھر براہمنوں کے ہیں۔سنگھ نے آگے بتایا، ‘ سوموار کو ہم تھانے میں شکایت درج کرانے پہنچے لیکن سبھی لوگ وزیر اعظم نریندر مودی کے ورنداون میں ہونے والی ریلی میں مصروف تھے اس لئے ہم واپس لوٹ گئے۔ حالانکہ جب ہم دوبارہ پہنچے تو پولیس نے بیچ بچاؤ کیا۔ براہمن فیملی کے معافی مانگنے پر سمجھوتہ ہو گیا۔ ‘
نوہ جھیل تھانہ انچارج شیام سنگھ نے کہا کہ معاملہ ختم ہو گیا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ براہمنوں نے بارات کو روکا نہیں تھا بلکہ تیز آواز میں موسیقی بجانے پر اعتراض کیا تھا کیونکہ ان کے بچوں کا امتحان تھا۔
اس سے پہلے دلت کمیونٹی کی بارات روکے جانے کا ایک دوسرا معاملہ گزشتہ سال کاس گنج میں سامنے آیا تھا۔ اپریل مہینے کی شروعات میں دلت جوڑے کی شادی میں گھوڑے پر چڑھنے کو لےکر تنازعہ ہوا تھا۔ 20 اپریل کو ہونے والی نظام پور گاؤں میں شادی میں دولہے کے گھوڑی سے بارات لانے کو لےکر گاؤں کی اشرافیہ کمیونٹی کے لوگوں نے اعتراض کیا تھا۔
نظام پور کی سرپنچ شانتی دیوی نے کہا تھا کہ نظامپور میں ٹھاکر کمیونٹی کے گھروں کے سامنے سے کبھی بھی دلت اور جاٹو کی بارات نہیں گئی۔ پھر کیسے اونچی ذاتوں کے گھروں کے سامنے سے دلتوں کی بارات جا سکتی ہے؟پولیس اور انتظامیہ کے ذریعے بارات کی اجازت نہ ملنے سے دولہے نے اس تنازعےکی وجہ الٰہ آباد ہائی کورٹ کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا تھا، جس کے بعد شرطوں کے ساتھ اجازت دے دی گئی تھی۔
مارچ 2018 میں گجرات کے بھاونگر میں ایک 21 سالہ نوجوان پردیپ راٹھوڑ کو
گھوڑے کی سواری کرنے کی وجہ سے مبینہ طور پر پیٹ-پیٹکر مار ڈالا گیا تھا۔جبکہ اپریل مہینے میں بھیلواڑہ کے گووردھن پور گاؤں میں
دلت دولہے کو گھوڑی چڑھنے پر پیٹا گیا تھا اور اسی گاؤں کے کچھ لوگوں نے اس کو گھوڑی سے اترنے کے لئے مجبور بھی کیا تھا۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)
The post
اتر پردیش: اشرافیہ نے نہیں نکلنے دی دلت کی بارات appeared first on
The Wire - Urdu.