مرکز کی نریندر مودی حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ ‘سینگول’ ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کو برطانوی ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے 15 اگست 1947 کواقتدر کی منتقلی کی علامت کے طور پرسونپا تھا۔سینگول کونئی پارلیامنٹ میں نصب کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:’سینگول‘ کو نہ کبھی واکنگ اسٹک کے طور پر پیش گیا گیا، اور نہ ہی آنند بھون میں رکھا گیا
این رام نے مزید کہا، ماؤنٹ بیٹن کے بارے میں بہت سی کتابیں ہیں، خاص طور پر وائسرائے اور گورنر جنرل آف انڈیا کے طور پر ان کے مختصر دور کے بارے میں۔ 1968 میں کیمبرج یونیورسٹی کے ٹرنیٹی کالج میں ماؤنٹ بیٹن کا دوسرا جواہر لال نہرو میموریل لیکچر، جس کا عنوان تھا ‘ٹرانسفر آف پاور اینڈ جواہر لال نہرو’، ان تقریبات کا کوئی حوالہ نہیں دیتا، جس کے بارے میں انہوں نے نہرو سے پوچھا ہو۔’ انہوں نے کہا کہ یہ دعویٰ کہ نہرو نے راجا جی سے مدد مانگی تھی اور تھیرووادوتھورائی ادھینم (تمل ناڈو میں واقع ایک شیومٹھ) کے نمائندے ایک خصوصی طیارے میں نئی دہلی گئے اور نہرو سے ملنے سے پہلے ماؤنٹ بیٹن سے ملاقات کی ‘پوری طرح سے من گھڑت کہانی’ ہے۔ انہوں نے کہا، ‘ایسا کوئی طریقہ نہیں تھا کہ ادھینم کا نمائندہ دہلی میں ماؤنٹ بیٹن سے مل سکتا۔ یہ سچ ہے کہ وہ نہرو سے ملے، اس کے ثبوت موجود ہیں۔ لیکن یہ دعویٰ کہ نہرو نے راجا جی سے مشورہ طلب کیا تھا، جنہوں نے پھر تھیرووادوتھورائی ادھینم سے مشورہ کیا،اس کا ثبوت نہیں ہے۔ سینگول کو ومیدی کو بنگارو چیٹی (ایک سنار) نے بنایا تھا۔ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ یہ کیوں اور کب دیا گیا اور کیا اس کا ‘اقتدارکی منتقلی’ سے کوئی تعلق تھا۔ این رام کے مطابق، ‘اس وقت کسی نے اسے اقتدار کی منتقلی نہیں سمجھا تھا۔ برطانوی پارلیامنٹ کے ذریعے منظور کردہ ہندوستانی آزادی ایکٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان 15 اگست کو آزاد ہوا اور ‘اقتدار کی منتقلی’ کا وہ لمحہ آیا، جب ماؤنٹ بیٹن نے نہرو کو وائسرائے کے طور پر وزیر اعظم کے عہدے کاحلف دلایا۔ یہ بحث کرتے ہوئے کہ ادھینم کا نمائندہ ماؤنٹ بیٹن سے کیوں نہیں مل سکتاتھا، این رام نے کہا، ماؤنٹ بیٹن کے 14 اگست کے شیڈول کے مطابق، وہ اقتدار کی منتقلی کی نگرانی کے لیے کراچی کے لیے اڑان بھریں گے اور شام 7 بجے نئی دہلی پہنچیں گے۔اس طرح ایسا کوئی طریقہ نہیں تھا کہ نہرو سے ملنے سے پہلے ادھنیم کا وفد ان سے ملاقات کر سکتا تھا۔ انہوں نے مزید کہا، ’ایک اور دعویٰ ہے کہ ادھینم وفد کے نئی دہلی جانے کے لیے ایک خصوصی پرواز کا انتظام کیا گیا تھا۔ یہ پوری طرح سے من گھڑت کہانی ہے۔ ادھینم نے 29 اگست 1947 کو دی ہندو میں ایک اشتہار دیا تھا، جس کا عنوان تھا ‘ تھروود تھری ادھین کارتھارس کی جانب سے نہرو جی کو سنہرے عصا کی پیشکش’، جس میں تین تصویریں تھیں۔ این رام نے کہا، ‘دی ہندو میں 11 اگست 1947 کو ایک چھوٹی سی خبر شائع ہوئی تھی کہ رات 11 بجے نہرو کو ایک سنہرا عصا پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ حقیقت ہے۔ کیا وہ ہوائی جہاز سے گئے تھے؟ 11 اگست کو مدراس سینٹرل اسٹیشن سے نکلنے سے پہلے گولڈن اسٹک پیش کرنے کے لیے ادھینم کی طرف سے تعینات پارٹی کی ایک تصویر ہے۔ اس میں مسٹر کماراسامی تھمبیرن، منیکا اودھوور، مسٹر کے پی راملنگم پلئی، مسٹر سبیا بھارتھیار اور مسٹر ٹی این راجارتھنم پلئی شامل تھے۔ سینئر صحافی نے نشاندہی کی کہ ادھینم کے موجودہ پجاری نے بھی ایک ویڈیو میں اعتراف کیا ہے کہ اس بات کا کوئی (فوٹوگرافک) ثبوت نہیں تھا کہ ادھینم کے نمائندوں نے ماؤنٹ بیٹن سے ملاقات کی تھی۔ انہوں نے کہا، ‘حکومت کے دعوے کا نچوڑ یہ ہے کہ’ یہ اقتدار کی منتقلی کی پاکیزگی کی علامت ہے’۔ یہاں ہندوستانی آزادی ایکٹ کا کوئی حوالہ نہیں ہے۔ ہندوستان اس وقت جمہوریہ نہیں بنا تھا۔ یہ آئین کے نفاذ کے بعد جمہوریہ بنا تھا۔ نہروجی کی منتخب تصانیف کے مدیر اور مؤرخ مادھون پلٹ نے واضح طور پر کہا تھا کہ نہرو اسے اقتدار کی منتقلی کے طور پر قبول نہیں کر سکتے، کیونکہ اس کا ماؤنٹ بیٹن سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ پریس کانفرنس کے دوران تمل ناڈو کانگریس کمیٹی کے صدر کے ایس الاگیری نے کہا کہ ‘سینگول کوئی فخر کی بات نہیں ہے’۔ انہوں نے کہا، ‘جمہوریت کی خصوصیت راج شاہی کو ہٹانا ہے۔ لوگوں نے جمہوریت کا جشن منایا اور سینگول کو بھی ہٹا دیا گیا۔ سینگول، جوراجاؤں کے ہاتھ میں تھا وہ ‘مقدس’ نہیں تھا اور اسی وجہ سے راج شاہی کو ختم کر دیا گیا، لیکن (وزیر اعظم نریندر) مودی راج شاہی کو پھر سے بحال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور راج شاہی کی علامت کے طور پر انہوں نے ‘سینگول’ کا استعمال کیا ہے۔ تمل ناڈو کانگریس کے نائب صدر اے گوپنا اور سی پی آئی (ایم) لیڈر جی رام کرشنن بھی پروگرام میں موجود تھے۔