شمال–مشرق میں ذات پات کے تنازعے کی سماجی اور ثقافتی جڑیں گہری ہیں۔ منی پور میں جاری افراتفری اور انتشار نسلی سیاسی عزائم سے وابستہ ہیں۔ بدقسمتی سےشمال–مشرق ہندوستان میں دہائیوں پرانی علیحدگی پسندتحریکوں کے درمیان ذات پات کی تقسیم کو تقویت پہنچانے میں مذہب نے ایک بڑھتا ہوا رول نبھانا شروع کر دیا ہے۔
منی پور میں 3 مئی کو ہونے والے پرتشدد فرقہ وارانہ اور نسلی کشیدگی کے باعث تصادم کے تین ہفتےبعدبھی حالات کشیدہ ہیں۔ 10 سے زائد اضلاع میں گھروں، گاڑیوں، سرکاری اور نجی املاک پر حملے اور ان کو آگ کے حوالے کرنے کی شاہدغیرمعمولی پرتشدد جھڑپوں کی باقیات اب بھی موجود ہیں۔
پہاڑی اضلاع میں رہنے والے میتیئی برادری کے لوگ وادی کی جانب نقل مکانی کر رہے ہیں اور امپھال میں آباد کُکی زومی برادری کے لوگ پہاڑی اضلاع کی طرف نقل مکانی کر رہے ہیں۔
میتیئی اور کُکی لوگوں کے درمیان کافی عرصے سے تناؤ چل رہا ہے۔ لیکن ‘ آل ٹرائبل اسٹوڈنٹس یونین آف منی پور (اے ٹی ایس یو ایم) کے ذریعے چوڑا چاند پور میں منعقد ‘آدی واسی یکجہتی مارچ’ میتیئی برادری کو شیڈول ٹرائب (ایس ٹی) کےزمرے میں شامل کیے جانے کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے حالیہ جھڑپوں کے لیے ایک چنگاری تھی۔ چوڑا چاند پور منی پور کا دوسرا شہر ہے، جس میں بنیادی طور پرکُکی کمیونٹی کی آبادی ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، اب تک 70 سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں، سینکڑوں زخمی ہیں اور ہزاروں بے گھرہو کر ریاست بھر کے امدادی کیمپوں میں پناہ لینے کو مجبور ہیں۔
منی پور کے وزیر تعلیم ایچ بسنت کمار نے کہا ہے کہ تقریباً 4747 اسکولی طلبا بے گھر ہوگئے ہیں۔ فوج اور نیم فوجی دستوں کی جانب سے کرفیو نافذ کیا جا رہا ہے۔ انٹرنیٹ معطل ہے۔ دکانیں، اسکول اور دفاتر تاحال بند ہیں۔
منی پور میں شہریوں کے قومی رجسٹر (این آر سی) کو فوری طور پر نافذ کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے این ایچ – 102 کے ساتھ وادی امپھال میں سنیچر (20 مئی) کو ہزاروں میتیئی لوگوں نے ایک میگا ریلی میں شرکت کی۔ ‘منی پور میں کُکی کے لیے کوئی جگہ نہیں’، ‘منی پور کی علاقائی سالمیت کو مت توڑو’، ‘منی پور میں این آر سی لاگو کرو’ جیسے نعرے لگائے گئے۔ اس کشیدہ صورتحال کے درمیان ہفتے کے آخر میں تازہ تشدد کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
میتیئی زیادہ تر ہندو ہیں ، جو وادی امپھال میں اور اس کے آس پاس آباد ہیں اور آدی واسی اکثریتی پہاڑیوں میں زمین نہیں خرید سکتے، لیکن ناگا اور کُکی آدی واسی ریاستی دارالحکومت میں زمین خرید سکتے ہیں۔
اس پیچیدہ آبادیاتی اختلاط میں پڑوسی ملک میانمار سے غیر قانونی تارکین وطن کی آمد کی وجہ سے آبادیاتی تبدیلیوں کے بارے میں خدشات ہیں۔
زیادہ تر میتیئی جنرل کٹیگری میں آتے ہیں۔ ان میں سے ایک چھوٹا سا طبقہ یا تو شیڈول کاسٹ (ایس سی) یا دیگر پسماندہ طبقات (اوبی سی) سے تعلق رکھتا ہے۔
پہاڑی قبائل کے اعتراضات میتیئی کو ایس ٹی کے زمرے میں شامل کرنے پر غور کرنے کے ارد گرد گھومتے ہیں۔ کُکی اور ناگا برادریوں نے شیڈولڈ ٹرائب کے زمرے میں میتیئی کو شامل کرنے کے مطالبے پر اعتراض کیا ہے، یہ دلیل دیتے ہوئے کہ عددی طور پر بڑے اور معاشی طور پر مضبوط میتیئی تمام سرکاری فوائد غصب کرنے اور پہاڑی علاقے پر قبضہ کرنے کے لیےاورزیادہ طاقتور ہو جائیں گے۔
دوسری طرف میتیئی کمیونٹی، 2012 سے ایس ٹی درجے کا مطالبہ کر رہی ہے، یہ دلیل دیتے ہوئے کہ 1949 میں منی پور کے ہندوستان کے ساتھ انضمام سے پہلے انہیں ایک قبیلے کے طور پر تسلیم کیا گیا تھا، لیکن ہندوستان کے ساتھ انضمام کے بعد ان کی پہچان کھو گئی ۔
میتیئی کو لگتا ہے کہ وہ اپنی آبائی زمین میں آہستہ آہستہ حاشیے پر آگئے ہیں۔ کمیونٹی کا خیال ہے کہ پہاڑی اضلاع میں غیر قانونی تارکین وطن کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ غیر قانونی امیگریشن واضح ہے۔ ‘نئی کُکی’ لوگ منی پوری میتیئی زبان کو سمجھنے اور بولنے سے قاصر ہیں، کیونکہ وہ میانمار سے ہیں۔’
یہ امر تشویشناک ہے کہ کچھ سماج دشمن عناصر اقلیتی عیسائی کُکی اور اکثریتی ہندو میتیئی کے درمیان اس نسلی تصادم کو فرقہ وارانہ بیانیہ کا رنگ دے کر پیچیدہ اور مذہبی طور پر اشتعال انگیز بنا رہے ہیں۔
اس دوران وزیر اعلیٰ این بیرین سنگھ نے الزام لگایا ہے کہ میانمار میں مقیم منشیات کے مالکان (ڈرگ لارڈس) اور منی پور کی کُکی اکثریتی پہاڑیوں میں افیون کاشت کرنے والے اس تشدد کے ذمہ دار ہیں، جس نے ریاست کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
‘سیٹیلائٹ امیجری نے منی پور کے جنگلات اور پہاڑیوں میں بڑے پیمانے پر افیون کی کاشت کا پتہ لگایا ہے‘ جسے چیف منسٹر کی ‘منشیات کے خلاف مہم’ کے ایک حصے کے طور پر نشانہ بنایا گیا تھا۔ ریاست کا کہنایہ ہے کہ منشیات فروشوں نے ریاست میں بدامنی پھیلانے کی سازش کی کیونکہ افیون کی کاشت اور منشیات کی تجارت متاثر ہوئی تھی۔
قابل ذکر ہے کہ 3 مئی اور اس کے بعد کے تشدد نے ایک بار پھر منی پور اور میزورم میں کُکی آبادی والے پہاڑی اضلاع کے لیےعلیحدہ انتظامیہ کا مطالبہ اٹھایا ہے، جس کی تجویز پہلی بار 1960 کی دہائی میں میزو شورش کے عروج پر پیش کی گئی تھی۔
دس قبائلی ایم ایل اے نے مرکز سے اپنی برادری کے لیے الگ انتظامیہ بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ وزیر اعلیٰ بیرین سنگھ نے اس خیال کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ منی پور کی علاقائی سالمیت کا ہر قیمت پر تحفظ کیا جائے گا، اور میزورم کے وزیر اعلیٰ زورامتھنگا نے کہا ہے کہ ان کی ریاست منی پور کے اندرونی معاملات میں براہ راست مداخلت نہیں کر سکتی۔
منی پور کا دورہ کرنے والے کانگریس کے وفد نے منی پور میں تشدد پر وزیر اعظم نریندر مودی کی خاموشی کے بارے میں سوال اٹھایا ہے۔
سنیچر کواین ایچ–102 کے ساتھ امپھال وادی میں ہزاروں میتیئی لوگوں نے ایک میگا ریلی میں شرکت کی اور وزیر اعظم کے نام ایک میمورنڈم پیش کیا، جس میں منی پور میں کُکی باغیوں کے ساتھ آپریشن کی معطلی (ایس او او) معاہدے کو منسوخ کرنے اور منی پور میں نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (این آر سی) کو فوری طور پر نافذ کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
این آر سی آخری بار آسام میں کیا گیا تھا، جہاں بہت سے لوگوں نے الزام لگایا کہ ان کو غیر ملکی کے طور پر غلط پہچان دی گئی ہے۔ انہیں ریلیف کے لیے غیر ملکیوں کے ٹربیونلز اور عدالتوں میں جانا پڑا۔
بدقسمتی سےشمال–مشرق ہندوستان میں دہائیوں پرانی علیحدگی پسند عسکری تحریکوں کے درمیان ذات پات کی تقسیم کو تقویت پہنچانے میں مذہب نے بڑھتا ہوا رول ادا کرنا شروع کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر پاکستانی پروپیگنڈہ ہینڈل نے ان غلط فہمیوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔
بین الاقوامی میڈیا میں منی پور میں ہونے والے واقعات کی کوریج حکومت ہند کے خلاف قابل مذمت رہی ہے۔ دی گارڈین نے رپورٹ کیا کہ ‘منی پور کے تشدد نے ہندوستان میں ایک علیحدہ ریاست کے مطالبات کو ہوا دی ہے’، سی این این نے کہا کہ ‘ہندو-قوم پرست حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے ‘دیکھتے ہی گولی مارو’ کے احکامات جاری کیے ہیں۔
اس دوران ریاست میں الزام تراشی کا کھیل زوروں پر ہے۔ اقلیتی کُکی پہاڑی قبائل میں میتیئی قوم پرستی اور شناخت کو مضبوط کرنے کے خلاف پیش گوئی کا احساس بڑھتا جا رہا ہے۔ میتیئی لوگوں میں، کُکی کے زیر تسلط معطل عسکریت پسند تنظیموں کی معلوم موجودگی تشویش کا باعث ہے۔
شمال–مشرق میں ذات پات کے تنازعے کی سماجی اور ثقافتی جڑیں گہری ہیں۔ موجودہ افراتفری اور انتشارنسلی سیاسی عزائم سے وابستہ ہے اور جب تک انتہائی تفرقہ انگیز سیاست کو حل کرنے کے لیے اقدامات نہیں کیے جاتے، تب تک نقل مکانی اور خصوصی مادر وطن کے تصورات اس خطے میں مثالیت پسندی کی مثال بن جائیں گے۔
(ویشالی اسٹریٹجک اور اقتصادی امور کی تجزیہ کار ہیں۔ انہوں نے تقریباً ایک دہائی تک قومی سلامتی کونسل کے سکریٹریٹ کے ساتھ کام کیا ہے۔)