منی پور کا دورہ کرنے کے بعد ایڈیٹرز گلڈ کی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے رپورٹ میں ‘انٹرنیٹ پابندی’ کو غلطی قرار دیتے ہوئےکہا تھا کہ تشدد کے دوران منی پور کا میڈیا ‘میتیئی میڈیا’ بن گیا تھا۔ اب سی ایم این بیرین سنگھ کا کہنا ہے کہ حکومت نے گلڈ کےممبران کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے، جو ‘ریاست میں اور تصادم پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔’
نئی دہلی: منی پور پولیس نے ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا (ای جی آئی) کی اس فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے، جس نے منی پور کا دورہ کرنے کے بعد ریاست میں جاری نسلی تشدد کی میڈیا کوریج پر
ایک رپورٹ شائع کی تھی۔
رپورٹ کے مطابق، ایف آئی آر میں پہلے انفارمیشن ٹکنالوجی (آئی ٹی) ایکٹ کی وہ دفعہ 66 اے لگائی گئی تھی، جسے سپریم کورٹ نے 2015 میں منسوخ کر دیا تھا۔
اس کے بعد سے کئی بار عدالت نے ریاستوں کی پولیس سے
کہا ہے کہ وہ اس دفعہ کے تحت لوگوں پر الزامات عائد کرنا بند کر دیں، لیکن پولیس نے ابھی تک اس پر توجہ نہیں دی ہے۔ منسوخ شدہ دفعہ کے تحت، ‘قابل اعتراض’ مواد آن لائن پوسٹ کرنے والے فرد کو تین سال تک کی جیل ہو سکتی ہے اور جرمانہ بھی لگایا جا سکتا ہے۔
اس دفعہ کو اب ہٹا دیا گیا ہے،ساتھ ہی ٹیم کے خلاف بدعنوانی کی روک تھام کے ایکٹ کی ایک دفعہ کے علاوہ گروپوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینے، عبادت گاہ کو نقصان پہنچانے یا اس کی بے حرمتی کرنے، کسی بھی بیان سے عوامی طور پر شرپسندی کو بھڑکانے اور جان بوجھ کر مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا ارادہ رکھنے سے متعلق دفعات لگائی گئی ہیں۔
سی ایم
این بیرن سنگھ کا کہنا ہے کہ ریاستی حکومت نے ‘ایڈیٹرز گلڈ کے ارکان کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے، جو منی پور میں اور زیادہ تصادم پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔’
ایف آئی آر میں رپورٹ کے مصنفین- سیما گہا، بھارت بھوشن اور سنجے کپور اور ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا کی صدر سیما مصطفیٰ کے نام شامل ہیں۔
ایف آئی آر امپھال ویسٹ میں رہنے والے ایک ‘سماجی کارکن’ نگنگوم شرت کی طرف سے درج کرائی گئی شکایت پر مبنی ہے اوراس میں فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں شامل ایک فوٹو کیپشن کا حوالہ دیا گیا ہے۔
شکایت میں کہا گیا ہےکہ کیپشن میں لکھا تھا کہ کُکی برادری سے تعلق رکھنے والے گھر سے دھواں نکل رہا تھا – لیکن حقیقت میں یہ ایک فوریسٹ افسر کا گھر تھا۔ اس کی بنیاد پر شکایت کنندہ نے فرض کیا کہ یہ رپورٹ مکمل طور پر جھوٹی ہے اور ‘کُکی عسکریت پسندوں کی جانب سے اسپانسرڈ’ ہے۔
دوسری جانب ایڈیٹرز گلڈ نے کیپشن میں غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے ٹوئٹر پر کہا تھاکہ ‘فوٹو ایڈیٹنگ میں ہونے والی غلطی پر ہمیں افسوس ہے۔’
احتجاج شروع
دریں اثنا، پریس کلب آف انڈیا نے ایف آئی آر کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے اس اقدام کے خلاف ایک بیان جاری کیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ‘ریاستی حکومت کا یہ طریقہ ملک کے اعلیٰ میڈیا ادارے کو دھمکانے کے مترادف ہے۔’
بیان میں کہا گیا ہے، ‘ایسے وقت میں جب تشدد سے متاثرہ منی پور حکومت کی انتہائی توجہ کا متقاضی ہے، ریاستی حکومت کی طرف سے اس طرح کی کارروائی سے صورتحال مزید خراب ہو جائے گی اور اسے سچائی کو چھپانے کی ایک دانستہ کوشش کے طور پر دیکھا جائے گا۔ریاست میں امن کی بحالی کے لیے اقدامات کرنے کے بجائے یہ سچ سامنے لانے والے کو سزا دینے کے مترادف ہے۔’
گلڈ کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں کیا تھا؟
ایڈیٹرز گلڈ کی
رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ منی پور سے آنے والی کئی خبریں اور رپورٹ ‘یکطرفہ’ تھیں۔ گلڈ کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ امپھال کا مقامی میڈیا’ میتیئی میڈیا بن گیا تھا’۔
رپورٹ میں کہا گیاتھا،’نسلی تشدد کے دوران منی پور کے صحافیوں نے یکطرفہ رپورٹیں لکھیں۔ عام حالات میں، رپورٹس کومدیران، یا مقامی انتظامیہ، پولیس اور سیکورٹی فورسز کے بیورو چیف کے ڈریعے کراس چیک کیا جاتا ہے اور دیکھا جاتا ہے، حالانکہ تشدد کے دوران ایسا کر پانا ممکن نہیں تھا۔’
مزید کہاگیا ہے، ‘یہ میتیئی میڈیا بن گیا تھا … ایسا لگتا ہے کہ تصادم کے دوران منی پور میڈیا کے مدیران نے ایک دوسرے سے مشورہ کرکے اور مشترکہ بیانیے پر اتفاق کرتے ہوئے کام کیا، جیسے کہ کسی واقعے کی رپورٹنگ کے لیے یکساں زبان پر اتفاق، زبان کا مخصوص استعمال یا کسی واقعے کی رپورٹنگ نہیں کرنا۔ گلڈ ٹیم کو بتایا گیا کہ ایسا اس لیے کیا گیا کیونکہ وہ پہلے سے غیر مستحکم صورتحال کو مزید بھڑکانا نہیں چاہتے تھے۔’
ٹیم نے ریاست میں انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن پربھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس نے ‘صورتحال کو مزید خراب کیا’ اور ‘میڈیا پر اس کا اثر پڑاکیا کیونکہ بغیر کسی مواصلاتی لنک کے جمع کی گئی مقامی خبریں صورتحال کا کوئی متوازن نظریہ پیش کرنے کے لیے کافی نہیں تھیں۔
معلوم ہو کہ یہ دوسری ایسی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم ہے جس کے خلاف منی پور پر رپورٹ شائع کرنے کے بعد قانونی کارروائی کا مشاہدہ کیا گیا ہے۔
جولائی میں،سماجی کارکنوں—اینی راجہ، نشا سدھو اور دکشا دویدی کے خلاف ایک مقدمہ درج کیا گیا تھا، جو ریاست میں پہنچی نیشنل فیڈریشن آف انڈین ویمن کی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کا حصہ تھیں۔ انہوں نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ منی پور تشدد ‘سرکاری اسپانسرڈ تشدد’ تھا۔