پولیس نے 17 جنوری کو ریاست کے دوسینئرصحافیوں فرنٹیر منی پور نیوز پورٹل کے ایگزیکٹو ایڈیٹرپاؤجیل چاؤبا اور ایڈیٹر ان چیف دھیرین ساڈوکپام کو پورٹل پر چھپے ایک مضمون کے سلسلے میں ایف آئی آر درج کرتے ہوئے حراست میں لیا تھا۔ ان پریو اے پی اے اور سیڈیشن کی دفعات لگائی گئی ہیں۔
نئی دہلی: پولیس کے ذریعے رات بھر حراست میں رکھے جانے کے بعد ریاست کے دو سینئرصحافیوں فرنٹیر منی پور آن لائن نیوز پورٹل کے ایگزیکٹو ایڈیٹر پاؤجیل چاؤبا اورایڈیٹر ان چیف دھیرین ساڈوکپام کو رہا کر دیا گیا ہے۔گزشتہ 17 جنوری کی شام امپھال ویسٹ ڈسٹرکٹ کے سنگ امیئی تھانے کے ایک افسر پی سنجوئے سنگھ کی جانب سے درج ایف آئی آر کے بعد ان دونوں کو حراست میں لیا گیا تھا۔
گزشتہ 18 جنوری کو ان کی رہائی کے بعد اس تھانے کے انسپکٹر سنجوئے پی نے دی وائر کو بتایا،‘انہیں حراست میں لیا گیا تھا، گرفتار نہیں کیا گیا تھا۔ پوچھ تاچھ کے بعد انہیں رہا کر دیا گیا ہے، لیکن کیس بند نہیں ہوا ہے۔ اب تک ہم اس آرٹیکل کے رائٹر تک نہیں پہنچے ہیں، جو دی فرنٹیر منی پور میں شائع ہوا تھا۔’
انسپکٹر نے بتایا کہ مدیران نے انہیں دیےتحریری بیان میں کہا ہے کہ یہ ایک چوک تھی اور وہ اس مضمون کی تصدیق نہیں کر سکے ۔ اس خط کی ایک کاپی صحافیوں کے ایک گروپ کے ذریعے وزیرعلیٰ این بیرین سنگھ کو بھی سونپی گئی ہے۔ جرنلسٹ یونین کے کچھ صحافیوں نے اس پر بطور گواہ دستخط بھی کیے ہیں۔
گزشتہ 17 تاریخ کو پولیس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ 8 جنوری کو د ی فرنٹیر منی پور پر چھپے مضمون کے رائٹر ایم جوائے لوانگ کے ساتھ ‘نیوز پورٹل کے فیس بک پیج کے مدیران پر’یواےپی اے اور سیڈیشن کی دفعا ت کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے۔
سنگھ کی جانب سے درج ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ انہوں نے 17 جنوری کی دوپہر ‘ریویلیوشنری جرنی ان اے میس’عنوان سے ایک مضمون دیکھا، جس کے کچھ وقت بعد ہی رائٹر لوانگ اورمدیران کے خلاف ‘سرکار کے خلاف نفرت بھڑ کانے، مجرمانہ طور پر سازش اور غیرقانونی تنظیم کے ساتھ ہمدردی رکھنے والے کے طور پرعوامی طور پر شرپسندی کے ارادے سے بیان دینے، جو آئی پی سی کی دفعہ124 اے، 120 بی، 505 بی/34 اوریو اے پی اے ایکٹ کی دفعہ39 کے تحت قابل سزا ہے، کےالزام لگاتے ہوئے ایف آئی آر درج کی گئی۔
حالانکہ پولیس چاؤبا کے گھر انہیں لینے17 جنوری کی صبح ہی پہنچ گئی تھی، جب تک یہ ایف آئی آر لکھی بھی نہیں گئی تھی۔ حالانکہ انہوں نے پولیس کے ساتھ جانے سے منع کر دیا تھا اور خود کچھ گھنٹوں بعد تھانے پہنچے تھے، جس کے بعد انہیں حراست میں لے لیا گیا تھا۔
اس وقت پولیس کی جانب سےاس بارے میں کچھ واضح طور پرنہیں بتایا گیا تھا کہ انہیں گرفتار کیا گیا ہے یا پوچھ تاچھ کے لیے حراست میں لیا گیا ہے۔دلچسپ پہلو یہ ہے کہ جس مضمون کو لےکر تنازعہ کھڑا ہوا ہے، وہی مضمون امپھال ٹائمس اور کانگلا پاؤ میں بھی شائع ہوا تھا، لیکن ایف آئی آر میں ان کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
اکتوبر 2020 میں کانگلا پاؤ میں میئی تیئی زبان میں میں شائع ہوئے اس مضمون کو امپھال ٹائمس نے 3 جنوری اور فرنٹیر منی پور پورٹل نے آٹھ جنوری کو چھاپا تھا۔ پورٹل کو یہ مضمون ای میل سے ملا تھا۔چاؤبا اور دھیرین کو حراست میں لیا جانا ریاست کے ایک اورصحافی کشورچند وانگ کھیم کی این ایس اے اور سیڈیشن جیسے کئی سخت قوانین کے تحت ہوئی گرفتاری کی یاد دلاتا ہے۔
چاؤبا ریاست کی صحافت میں ایک جانا پہچانا نام ہے اور امپھال فری پریس کے لیے انہوں نے کئی اہم رپورٹس کی ہیں، جن میں سے ایک حال ہی میں ریاست میں پولیس کے ذریعےکیے جا رہے فرضی انکاؤنٹر کے بارے میں تھی۔ دھیرین امپھال فری پریس کے سابق ایڈیٹر ان چیف ہیں۔
حال ہی میں فرنٹیر منی پور منشیات کی اسمگلنگ کے سنسنی خیز معاملے میں وزیر اعلی بیرن سنگھ کے قریبی ساتھی سے متعلق تفصیل سےرپورٹس کی ہیں۔ ریاست کی ایک پولیس افسر تھوؤناؤجم برندہ(ٹی برندہ) نے ہائی کورٹ میں دیے گئے حلف نامے میں کہا تھا کہ ایک شخص لکھاؤسی زو کو چھوڑنے کو لےکر وزیر اعلیٰ نےدباؤ بنایا تھا۔
زو کو پولیس نے اس کے گھر سے 27 کروڑ روپے کی قیمت کی ڈرگس کے ساتھ گرفتار کیا تھا، جس کے بعد گزشتہ دسمبر میں اسے خصوصی عدالت نے بری کر دیا۔ اس کے فوراً بعد برندہ نے وزیراعلیٰ کی جانب سے انہیں ریاست کے ڈرگس مافیا سے لڑنے کو لےکر ملا پولیس میڈل واپس کر دیا تھا۔