منی پور کے جیری بام ضلع میں 6 جون کو ایک شخص کے وحشیانہ قتل کے بعد تشدد پھوٹ پڑا تھا، جہاں ایک مشتعل ہجوم نے دو پولیس چوکیوں، محکمہ جنگلات کے ایک دفتر اور کم از کم 70 گھروں کو نذر آتش کر دیا تھا، تشدد کے بعد تقریباً 2000 لوگوں نے آسام میں پناہ لی ہے۔
علامتی تصویر: X/@manipur_police
نئی دہلی: منی پور کے جیری بام ضلع میں تشدد کے نتیجے میں تقریباً 2000 لوگوں کو نقل مکانی کے لیے مجبور ہو نا پڑا ہے، جس کی وجہ سے سکیورٹی فورسز نے آسام کے پڑوسی ضلع کچھار کو ہائی الرٹ پر رکھا ہے۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، آسام کے لکھی پور انتخابی حلقہ سے ایم ایل اے کوشک رائے – جو جیری بام سے متصل ہے – نے اندازہ لگایا کہ تقریباً 1000 لوگوں نے کچھار میں پناہ لی ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
ان کے مطابق، ان میں سے زیادہ تر لوگ کُکی اور ہمار ہیں – یہ دونوں ہی بڑے زو قبیلے کا حصہ ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ گروپ میں میتیئی کمیونٹی کے لوگ بھی ہیں۔
انہوں نے کہا، ‘ہم نے ضلع کلکٹر اور ایس پی کے ساتھ سوموار کو لکھی پور میں رہنے والی مختلف کمیونٹی تنظیموں کے ساتھ بیٹھک کی، تاکہ اس بات پر زور دیا جا سکے کہ منی پور میں تشدد کو پھیلنے نہیں دیا جانا چاہیے۔ ہمارے یہاں بہت متنوع آبادی ہے – بنگالی، ہندی بولنے والے، بنگالی اور منی پوری مسلمان، بہاری، ڈماس، ہمار، کُکی، کھاسی اور دیگر… ایسے لوگ ہیں جنہوں نے یہاں پناہ لی ہے، لیکن جو بھی ہو، آسام کو متاثر نہیں ہونا چاہیے۔’
دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق، کوشک رائے نے کہا کہ منی پور سے بے گھر ہونے والوں کے لیے کوئی باقاعدہ کیمپ نہیں بنایا گیا ہے۔ صرف علاقے میں کسی بھی قسم کے تشدد کو روکنے کے لیے علاقے کی مختلف برادریوں کے ساتھ امن اجلاس منعقد کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
رائے نے کہا، ‘جو لوگ منی پور سے آئے ہیں انہیں یہاں محفوظ طریقے سے رہنے دیا جا رہا ہے۔ مقامی انتظامیہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے تمام اقدامات کر رہی ہے کہ یہاں کوئی تشدد نہ ہو۔’
سرحدی علاقوں کےلوگوں نے بتایا کہ میتیئی اور کُکی زو لوگ کچھار ضلع میں اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کے ساتھ رہ رہے بے گھروں میں سےہیں۔
دریں اثناء کچھار کے ایس پی نمل مہتا نے کہا کہ لکھی پور سب ڈویژن میں سیکورٹی بڑھا دی گئی ہے اور وہاں اسپیشل کمانڈوز کو بھی تعینات کیا گیا ہے۔
جیری بام ضلع کے ہمار میزو وینگ کے رہنے والے ایک شخص، جو اب کچھار کے گاؤں ہمارکھاوالین میں رہ رہے ہیں اور اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتے اوران لوگوں میں سے تھے جو تشدد کے بعد اپنے خاندان کے ساتھ بھاگ گئے۔ انہوں نے کہا کہ وہ 6 جون کی رات کو جیری ندی پار کرنے کے لیے کشتی سے گئے تھے۔ جب تک وہ اپنے گھر سے بھاگے نہیں، تب تک ان کا خاندان ریاست میں جاری تنازعات کے باوجود جیری بام میں ہی رہا۔
انہوں نے کہا، ‘(پناہ لینے والوں کی تعداد) بڑھ رہی ہے۔ اس وقت یہاں تقریباً 400 لوگ ہیں۔ ہمیں نہیں پتہ کہ ہمارے لیے واپس جانا کب ممکن ہو گا۔’
ضلع انتظامیہ کے مطابق، سوموار تک 918 لوگ جیری بام ضلع میں بنائے گئے چھ امدادی کیمپوں میں رہ رہے ہیں، جو اسپورٹس کمپلیکس اور اسکولوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر میتیئی ہیں، جنہیں 8 جون کو ان کے کئی گھروں کو جلا دیے جانے کے بعد پولیس اور آسام رائفلز نے کیمپوں منتقل کیا تھا۔
ان میں مدھو پور کی سبھیتا اوکرام بھی شامل ہیں۔ اوکرام فی الحال جیری بام کے ایک اسپورٹس کمپلیکس میں ریلیف کیمپ میں رہ رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا، ‘ہم جمعرات کو ہی اپنے گاؤں سے نکلے تھے، کیونکہ ہم نے سنا تھا کہ عسکریت پسندوں نے گاؤں کو گھیرے میں لے لیا ہے۔ ہم نے بوروبیکرا تھانے میں پناہ لی۔ لیکن اس کے بعد ہمیں خبر ملی کہ ہمارے گھروں کو آگ لگائی جا رہی ہے اور ہمیں ریلیف کیمپ میں لایا گیا ہے۔ اب ہم نہیں جانتے کہ ہم واپس جا سکیں گے یا نہیں۔’
معلوم ہو کہ
جیری بام میں 6 جون کو اس وقت کشیدگی پھیل گئی جب نامعلوم حملہ آوروں نے ایک شخص کو اغوا کر کے قتل کر دیا اور اس کی سرکٹی ہوئی لاش برآمد ہوئی۔ اس کے بعد مقامی لوگوں نے قتل کے خلاف احتجاج کیا اور کچھ گھروں کو آگ لگا دی تھی۔
دی ہندو کے مطابق، سنیچر (8 جون) کو نامعلوم شرپسندوں نے جیری بام میں دو پولیس چوکیوں، محکمہ جنگلات کے ایک دفتر اور کم از کم 70 مکانات کو آگ لگا دی، جس سے پڑوسی ریاست میں کشیدگی پھر سے پھیل گئی، جہاں پچھلے سال مئی سے نسلی تشدد کا سلسلہ جاری ہے۔
واضح ہو کہ منی پور میں اکثریتی میتیئی کمیونٹی اور کُکی-زو آدی واسی برادریوں کے درمیان نسلی تنازعہ گزشتہ سال 3 مئی کو شروع ہوا تھا ۔ اس تنازعے میں اب تک 220 سے زائد افراد ہلاک، ہزاروں زخمی اور کم از کم 50000 اندرونی طور پرنقل مکانی کو مجبور ہو چکے ہیں۔
منی پور کی آبادی میں میتیئی لوگوں کی تعداد تقریباً 53 فیصد ہے اور وہ زیادہ تر وادی امپھال وادی میں رہتے ہیں، جبکہ آدی واسی جن میں ناگا اور کُکی برادریوں شامل ہیں۔ 40 فیصد ہیں اور زیادہ تر پہاڑی اضلاع میں رہتے ہیں۔