مالدیپ کے نومنتخب صدر محمد معیزو نے کہا کہ وہ صدارتی عہدہ سنبھالنے کے ایک ہفتے کے اندر ملک میں تعینات ہندوستانی فوج کو ہٹانا چاہیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر مالدیپ کی سرحد پر غیر ملکی فوجی تعینات ہوتے ہیں تو اس کی آزادی کے بارے میں شدید شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں۔ معیزو 17 نومبر کو صدارتی عہدہ سنبھالیں گے۔
مالدیپ کے نومنتخب صدر محمد معیزو۔ (تصویر بہ شکریہ: X/@Mمعیزو)
نئی دہلی: مالدیپ کے نومنتخب صدر محمدمعیزو نے کہا ہے کہ وہ صدارتی عہدہ سنبھالنے کے پہلے ہفتے میں ہی مالدیپ سے ہندوستانی فوج کو ہٹانا چاہیں گے۔
رپورٹ کے مطابق، معیزو نے کہا کہ وہ اپنی انتخابی کامیابی کے فوراً بعد ہندوستانی ہائی کمشنر سے ملاقات کے دوران نئی دہلی کو اپنی خارجہ پالیسی کا اشارہ دے چکے ہیں۔
پروگریسو پارٹی آف مالدیپ اور پی این سی کے اپوزیشن اتحاد کے امیدوارمعیزو نے گزشتہ ماہ ہوئے صدارتی انتخابات کے دوسرے اور آخری مرحلے میں54 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔ اپنی مہم کے دوران اور نتائج کے بعد، انہوں نے بار بار مالدیپ میں تعینات کسی بھی ہندوستانی غیرملکی فوج کو ہٹانے کا وعدہ کیا تھا۔ یہ اپوزیشن کی انتخابی مہم کا حصہ تھا، جس میں اس نے سابقہ محمد صالح انتظامیہ پر نئی دہلی کے ساتھ ملی بھگت سے کام کرنے کا الزام لگایا تھا۔
ووٹنگ کے فوراً بعد مالدیپ میں ہندوستانی ہائی کمشنر منو مہاور نے 4 اکتوبر کو
نومنتخب صدر سے ملاقات کی اور انہیں ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کا ایک خط سونپا۔ اس میٹنگ کے مالدیپ کے ریڈ آؤٹ میں ہندوستانی فوج کی موجودگی پر تنازعہ کا ذکر نہیں کیا گیا تھا،بلکہ لکھاتھاکہ معیزو’خودمختاری کے احترام کی بنیاد پر ہندوستان کے ساتھ تعلقات بحال کرنا چاہتے ہیں۔’
الجزیرہ ٹیلی ویژن کو دیے گئے ایک حالیہ
انٹرویو میں معیزو نے کہا کہ انہوں نے ذاتی طور پر یہ معاملہ ہندوستان کے ساتھ اٹھایاتھا۔
انہوں نے کہا تھا کہ ‘کچھ دن پہلے میں نے انڈین ہائی کمشنر سے ملاقات کی تھی اور اس ملاقات کے دوران ہی میں نے کہا تھا کہ ہمیں یہ کام ترجیحات کے ساتھ کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اس کا مثبت نوٹس لیا اور کہا کہ وہ اس پر آگے بڑھنے کے لیے ہمارے ساتھ مل کر کام کریں گے۔’
بتادیں کہ 17 نومبر کو معیزوصدارتی عہدے کاحلف اٹھائیں گے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ ہندوستان سے فوج واپس بلانے کی درخواست کب کریں گے تو انہوں نے کہا، ‘یقینی طور پر پہلے دن۔’
اس کے بعد فوج کے انخلا کی آخری تاریخ کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر انہوں نے جواب دیا،’اگر یہ پہلے ہفتے میں ممکن ہو، یہ ہمارے لیے بہت سنجیدہ معاملہ ہے۔’
انہوں نے کہا کہ اگر مالدیپ کی سرحد پر غیر ملکی فوج تعینات ہوتے ہیں تو اس کی آزادی کے بارے میں شدید شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں۔
نومنتخب صدر نے کہا کہ ‘ہم صدیوں سے بہت پرامن ملک رہے ہیں۔ ہماری سرزمین پر کبھی کوئی غیر ملکی فوج نہیں تھی۔ ہم بہت چھوٹا ملک ہیں۔ ہمارے پاس کوئی بڑا فوجی ڈھانچہ نہیں ہے اور اگر ہماری سرزمین پر کوئی غیر ملکی فوج نظر آئے تو ہم خود کو محفوظ محسوس نہیں کرتے۔’
قابل ذکر ہے کہ اس سے قبل محمد صالح انتظامیہ نے باربار کہا تھا کہ ہندوستانی فوج کی جانب سے کوئی فوجی آپریشن نہیں کیا جا رہا ہے اور طبی ہنگامی صورتحال کے لیےدیے گئے ہیلی کاپٹروں کو چلانے کے لیے صرف چند سکیورٹی اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔
ہندوستانی فوج کی مبینہ موجودگی کا تنازعہ سب سے پہلے پی پی ایم کے رہنما عبداللہ یامین نے اپنی صدارت کے آخری چند ماہ کے دوران اٹھایا تھا۔ ہندوستان نے صدر یامین کے فوجی انخلاء کے مطالبے پر اعتراض کیا تھا لیکن انہیں جلد ہی 2019 کے انتخابات میں بے دخل کر دیا گیا۔
نومنتخب صدر نے کہا کہ ‘صدر ابراہیم محمد صالح نے ہندوستانی فوج کی موجودگی پر رضامندی ظاہر کی، لیکن انہوں نے اس موجودگی کی نوعیت کا انکشاف نہیں کیا، جس کی وجہ سے شہری انہیں اب مالدیپ میں نہیں دیکھنا چاہتے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام نے موجودہ انتظامیہ کو منتخب نہیں کیا۔’
انہوں نے یہ بھی کہا کہ مالدیپ میں تعینات ہندوستانی فوج کی تعداد کے حوالے سے تضاد ہے جن کی تعداد ہزاروں سے لے کر سینکڑوں تک بتائی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا، ‘ہمیں نہیں معلوم کہ وہاں کتنے فوجی ہیں کیونکہ جب میڈیا معلومات مانگتا ہے تو اسے سنسر کر دیا جاتا ہے۔’
معیزو نے امید ظاہر کی کہ جب وہ صدارتی عہدہ سنبھالیں گے تو ہندوستانی فوج کی تعداد صرف ’10 یا 20′ ہوگی، لیکن انہوں نے مزید کہا کہ یہ بھی کم نہیں ہے۔
انہوں نے الجزیرہ کو بتایا کہ ‘میں اس بات کو یقینی بناؤں گا کہ ہم ہندوستانی حکومت کے ساتھ سفارتی طور پر بات کرنے کا راستہ تلاش کریں تاکہ انہیں جلد از جلد ہماری سرزمین سے ہٹایا جا سکے۔’
ہندوستان کے ساتھ عمومی فوجی تعاون کے بارے میں ایک اور سوال پر انہوں نے اسے جاری رکھنے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا، ‘مختلف ممالک کے ساتھ فوجی تعاون ہمیشہ سے رہا ہے۔’
انہوں نے کہا کہ وہ ہندوستان کے ساتھ توازن پیدا کرنے کے لیے چین کے ساتھ فوجی تعاون بڑھانا پسند نہیں کریں گے۔
یہ دیکھتے ہوئے کہ مالدیپ کے غیر ملکی قرضوں کا نصف ہندوستان سے لیاگیا ہے، معیزو نے کہا کہ انہوں نے ہندوستانی سفیر سے اس پر بھی بات کی تھی، جو اس کے بارے میں مثبت تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ری — فنانس کی ضرورت ہے اور اگر ممکن ہو تواسے معاف کر دیے جانے کی۔’
یہ پوچھے جانے پر کہ جب مالدیپ قرض معافی کا مطالبہ کر رہا ہے تو کیا ہندوستان کو اپنی فوج کو واپس بلانے سے کوئی چھوٹ ملے گی، معیزو نے جواب دیا، ‘ہائی کمشنر کے ساتھ میری پہلی ملاقات میں انہوں نے واضح طور پریہ کہہ دیا ہے۔’
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہندوستان اپنے ترقیاتی تعاون یا سرمایہ کاری کو کم کرنے پر مائل نظر نہیں آتا۔ معیزو نے کہا، ‘مجھے نہیں لگتا کہ وہ ایسا کریں گے۔ وہ سیاحت کے شعبے میں سرمایہ کاری کے لیے مزید قرض دینے میں دلچسپی لے سکتے ہیں۔’
یہ کہتے ہوئے کہ مالدیپ کے ہندوستان کے ساتھ ہمیشہ اچھے تعلقات رہے ہیں، انہوں نے کہا، ‘میں نہیں چاہتا کہ اس میں کوئی تبدیلی آئے۔ یہ صرف خودمختاری کا مسئلہ ہے…میں ہندوستان سے ترقیاتی تعاون کے بارے میں یقینی طور پر مثبت رہوں گا۔’
انہوں نے یہ بھی کہا کہ مالدیپ دوسرے ممالک کی طرح چین کے ساتھ قریبی تعلقات کا خواہاں ہے، لیکن انہوں نے مزید کہا کہ بیجنگ نے کبھی بھی اپنے تعاون کا اظہار اس طرح نہیں کیا جس سے مالدیپ کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہو یا مالدیپ کی خودمختاری پر اثر پڑے۔
اس سے قبل معیزو کی جانب سے ہندوستانی فوج کا معاملہ اٹھانے کے بعد ہندوستانی وزارت خارجہ نے سیکورٹی چیلنجز پر گہرائی سے کام کرنے کی بات کہی تھی۔