مذہب، رنگ ونسل اور خون کے سوداگر زندگی کو کس سمت لے جا رہے ہیں؟ اس نئے نظام میں اُن تہذیبی قدروں کے لیے جگہ نہیں ہے، جن کے سائے میں امن وعافیت کے خواب پلتے تھے، جن کی روشنی میں آرزو اور جستجو کے معرکے سَر ہوتے تھے۔ میں اور میرے عہد کی تخلیقی سرگزشت کی اس قسط میں پڑھیے ممتاز شاعرہ ملکہ نسیم کو۔
میں نے اپنی شاعری میں عامیانہ پن نہیں آنے دیا۔عامیانہ پن سے اظہار اپنے وقار کو کھودیتا ہے۔
خواب دیکھنا بہت آسان ہے،لیکن تعبیر میں پڑی گرہیں کھولنا اور سُلجھانا نہایت دقت طلب۔بالکل اسی طرح اپنے بارے میں کچھ لکھنا بھی۔
میں نے مستقبل کے حوالے سے خواب دیکھے اور سوچاتھاکہ یہ خواب خوبصورت تعبیروں سے ہمکنار ہوں گے۔لیکن انسان وقت اور حالات کے ہاتھوں میں کھلونے کی طرح ڈھل جاتا ہے اور اس طرح خواب بکھر بھی جاتے ہیں اور سنور بھی جاتے ہیں۔
جو لوگ گردشِ ایام سے نجات حاصل کرنے میں کامیابی حاصل نہیں کرپاتے ان کے خواب بکھر جاتے ہیں،اور جن کی ہتھیلیاں صاف ستھری ہوتی ہیں ان کے خواب سنور جاتے ہیں۔
مجھے بھی کھلی ہوا میں سانس لینے کی آرزو تھی،لیکن ناکام رہی۔میری پیدائش الہ آباد جو اب پریاگ راج کہلاتا ہے،وہاں ایک مڈل کلاس فیملی میں ہوئی۔لیکن ماں نے اپنی تمام تر کوشش یکجا کرکے اپنے بچوں کو تعلیم سے آراستہ کیا۔
ہمارے دادا سید وصی حیدر رضوی اُس زمانے میں بیرسٹری کرنے لندن گئے تھے، گاندھی گروپ کے ساتھ وہاں سے واپس آکر حیدرآباد کے نظام کے لیگل ایڈوائزر بنے،لیکن تب میں پیدا بھی نہیں ہوئی تھی۔ دادا کے کزن وزیر حسن صاحب بھی حیدرآباد میں تھے،اُن کے علامہ اقبال سے بڑے اچھے مراسم تھے آپس میں خط وکتابت ہوتی تھی۔
دادا کے انتقال کے کافی عرصہ کے بعد میں پیدا ہوئی، گھر کا ماحول ادبی تھا، لیکن پردہ داری اس ماحول پر پوری طرح حاوی تھی، لڑکیوں کا کہیں آناجانا قطعی قابل قبول نہیں تھا۔
میری ابتدائی تعلیم الہٰ آباد میں ہوئی، اس کے بعد میں لکھنؤ اپنے ماموں کے یہاں چلی گئی۔ان کے گھر کا ماحول قدرے بہترتھا۔ میں نے شاعری شروع کی بلکہ تُک بندی کا آغازکیا۔
سابق صدرجمہوریہ ہند ڈاکٹر شنکر دیال شرما کے مبارک ہاتھوں سے یہ کتاب ریلیز ہوئی، جس میں اس وقت کی بڑی بڑی شخصیتیں موجود تھیں۔
انٹرمیڈیٹ کرنے کے بعد شادی ہوگئی۔ بی اے اور ایم اے میں نے پرائیویٹ سے کیااور اس طرح ادب مجھے اپنی آہنی زنجیروں میں جکڑتارہا،اور میرے اندر شاعری کی پرچھائیاں رقص کرنے لگیں۔
حرف و قلم کا شجر ہرا بھرا ہونے لگا اور مجھے احساس ہونے لگا کہ زندگی کا مقصد زندگی کے راستوں تک پہنچنا ہے اور اس طرح وجود میں آئی میری پہلی کتاب ‘دوپہر کا سفر’ جس کا اجراء ہوا دہلی پریزیڈنٹ ہاؤس میں،جب ہندوستان کے صدر شکردیا ل شرما تھے۔
سابق صدرجمہوریہ ہند ڈاکٹر شنکر دیال شرما اور ادبی شخصیات کے ہمراہ ملکہ نسیم۔
ان کے مبارک ہاتھوں سے یہ کتاب ریلیز ہوئی جس میں اس وقت کی بڑی بڑی شخصیتیں جن میں علی سردار جعفری،ڈاکٹر خلیق انجم،مخمور سعیدی،عشرت قادری،موج رامپوری،عابدکرہانی صاحبان وغیرہ وغیرہ موجود تھے۔
کچھ ایسا کہنا چاہتی ہوں جو میری شناخت بن سکے
ہم خواتین کے پاس غموں کے بیش بہا خزانے ہوتے ہیں جنھیں ہم لُٹاتے نہیں بلکہ بٹور بٹورکررکھتے ہیں۔خوشیوں کے لمحوں کو بوجھل بنانے کے لیے، بے محابہ قہقہوں کو شائستہ بنانے کے لیے، بے انتہا لمحوں کو زندگی کے آداب سکھانے کے لیے،لیکن ایسے بے نام غموں کے ہمراہ چلنے کے لیے، ریگزاروں کا سفر درکار ہوتا ہے۔
اُن غموں کی تپش سے اپنے ہی صحن کا پتھر اتنا گرم ہوجاتاہے کہ آگ برساتا ہوا سورج بھی اس کی گرمی کے آگے ماندپڑجاتاہے،اور ہم اس جلتے تپتے آنگن میں پُرزور ہواؤں کی زد میں کھڑے ہوتے ہیں۔
آج مذہب،ر نگ ونسل اور خون کے سوداگر زندگی کو کس سمت لے جارہے ہیں۔
سیاسی رہنما،مذہبی پیشوا،اصطلاحات کے نقیب،اختلافات کے علمبردار سب اپنے اپنے مسائل میں گھرے ہوئے ہیں۔
اس نئے نظام میں اُن تہذیبی قدروں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے جن کے سائے میں امن وعافیت کے خواب پلتے تھے،
جن کی روشنی میں آرزو اور جستجو کے معرکے سَر ہوتے تھے،
جن کا رشتہ کبھی مسکراہٹوں سے تھاتو کبھی آنسوؤں سے،
یہ شاعری وقت کے منقسم لمحوں کو گہرے سماجی وتہذیبی رشتوں کے تناظر میں پہچاننے کی فنکاری ہے۔
ہم نے شاعری کو قدیم وجدید کی خانہ بندیوں سے بالکل آزاد کردیا ہے اور اس طرح میرے ہاتھوں میں آیا’آج کا موسم’۔
’مشرف عالم ذوقی‘فرماتے تھے کہ’سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ غزلیں اچھی کہتی ہیں یا نظمیں۔’
آج کے موسم میں زندگی کے تضادات کو یکجاکرکے اُس معنویت کو اُبھارنے کی کوشش کی ہے جو تہہ درتہہ نقابوں میں گُم کردی جاتی ہے۔ ‘سیپ میں سمندر’ غزلوں اور نظموں کی کتاب بھی آگئی۔
بہرحال میں شاعری کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا چکی تھی، حالانکہ مرحوم’مشرف عالم ذوقی‘فرماتے تھے کہ’سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ غزلیں اچھی کہتی ہیں یا نظمیں۔’لیکن میں ابھی خودکو ایک طالبعلم سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتی تھی اور اب بھی یہی حال ہے۔
کچھ ایسا کہنا چاہتی ہوں جو میری شناخت بن سکے۔میں نے اپنی شاعری میں عامیانہ پن نہیں آنے دیا۔عامیانہ پن سے اظہار اپنے وقار کو کھودیتا ہے۔
میری آنکھیں درد سے کراہتی ہیں لیکن آنسو نہیں نکلتے
فکر کی تہہ پرتو ہمیشہ ہی شعور کارفرما ہوتاہے البتہ زبان محاورے حفظِ مراتب،رشتوں کا احساس بطورخاص شعور کے ایسے تحفے ہیں جو انسان کے اظہارکو وقار سے بھی آراستہ کرتے ہیں اور بلاغت سے بھی نوازتے ہیں۔
میں نے ہمیشہ اساتذہ کے دواوین کا مطالعہ کیا اوراپنے اِردگِرد ہونے والے واقعات کا مشاہدہ بھی۔
میری آنکھیں درد سے کراہتی ہیں لیکن آنسو نہیں نکلتے،اضطراب محسوس ہوتا ہے مگر اُس میں ہیجانی کیفیت نظرنہیں آتی ۔
یہی کیفیت’سیپ میں سمندر’ میں آچکی تھی،جس میں غزلیں اور نظمیں دونوں ہی شامل تھیں۔
میں نے اپنی تخلیقات میں ہمیشہ دھیمے لہجے اور نیچی نظر کو ترجیح دی۔اور مجھے میری سرگزشت میں پیش آنے والے نشیب وفراز سے محظوظ ہونے کے موقع فراہم کیا،اور میں ‘سیپ میں سمندر’ کی جستجو کرتی رہی۔
محترم علی سردار جعفری کا کہناتھا؛
ملکہ نسیم کی شاعری میں نسوانی لطافت اور انسانی مسائل کا وقار پایاجاتاہے…ملکہ نسیم ؔ کے لفظوں کی موسیقی تحت اللفظ میں ادا ہوئی،انھیں ترنم کی ضرورت نہیں رہی۔
محترم مجروحؔ سلطانپوری فرماتے ہیں؛
ملکہ نسیم ؔاپنی انفرادیت کو قائم رکھتے ہوئے روایت کا احترام کرنا جانتی ہیں اور جگہ جگہ نکتہ انگیزی وتازہ کاری سے قاری کو متوجہ کرتی ہیں۔
اس کے بعد ایک کتاب دیوناگری رسم الخط میں ‘شہرکاغذکا’ منظرعام پر آئی،جس کا اجراء پاکستانی شاعر’عباس تابشؔ‘ کے ہاتھوں عمل میں آیا۔اسی طرح کتابوں کا سلسلہ جاری وساری رہا۔
پھرایک کتاب’ملکہ نسیم کی شعری کائنات’ جس کو پروفیسر شاہینہ تبسم نے مرتب کیا،اور اس میں اٹھائیس(28) ناقدین کے مضامین شامل ہیں۔اس کتاب کی بھی پذیرائی ہوئی۔
اس کتاب میں اٹھائیس ناقدین کے مضامین شامل ہیں
تخلیقی سفر ابھی جاری ہے۔منور راناصاحب،انورؔ جلال پوری صاحب،بیکل اُتساہی صاحب،قیصر بنارسی صاحب،لوکیش سنگھ ساحلؔ صاحب،شوبھا چندر صاحبہ اور دیگر شعراء و ادباء کے تعلق سے مضامین بھی تحریر کیے۔
سب سے پہلا مشاعرہ میں نے اُجّین مدھیہ پردیش کا پڑھا
اُردو شاعری میں لفظ خواب پر بے شمار شعری مضامین باندھے گئے ہیں اور فن کاروں نے خوب خوب اپنے جوہردکھائے ہیں۔
ہمارے زمانے میں پروفیسر شہریار کی شاعری کا ایک بڑا حصہ خواب وحقیقت کے تصادم سے عبارت ہے۔دیگرشعراء کی طرح میں نے بھی خواب دیکھے اور ابھی دیکھنے کی آرزوہے۔
جب میں اپنی شاعری میں ماضی کاموازنہ حال کی شام سے کرتی ہوں توحیرت زدہ ہوجاتی ہوں اور ایک نئی دنیا کا خواب آنکھوں میں اُبھرنے لگتاہے اور یہ احساس ہوتا ہے کہ ابھی لذت کے تمام پہلو روشن نہیں ہوئے۔اور اب مجھے زندگی کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے کی کوشش کرنی ہے۔
غزلیں کہنا اور مشاعروں کے ڈائس سے اپنی شناخت قائم کرنا دو الگ باتیں ہیں۔ میں نے مشاعرے بھی بہت پڑھے اور ادب میں اپنا وقار بھی قائم رکھا۔ہندوستان پاکستان کے سبھی معیاری مجلوں میں اپنی جگہ بنائی،جیسے’فنون’ احمدندیم قاسمی صاحب کا رسالہ جو پاکستان سے شائع ہوتا ہے۔
میں نے مشاعرے بھی بہت پڑھے اور ادب میں اپنا وقار بھی قائم رکھا۔
‘افکار’کراچی سے شائع ہوتاہے اور لاہور سے جاوید صاحب کا رسالہ،اور بھی بہت سے رسائل اور جرائد میں شائع ہوتی رہی۔
‘دوپہرکاسفر’ کیسے پاکستان پہنچی مجھے اس کا علم نہیں کیونکہ میں تب تک پاکستان نہیں گئی تھی،لیکن کراچی کے ایک بڑے ناقد محمد علی صدیقی صاحب نے’دوپہرکاسفر’ پرتبصرہ کیا اور ممبئی سے شائع ہونے والے رسالے ‘شاعر’ میں بھیجا۔اتنی محبتیں ملی ہیں کہ جن کا ذکر نہیں کرسکتی۔
اب ہندوستان میں ‘ایوانِ اُردو’ دہلی اُردو کادمی کے سب سے پہلے رسالے میں بھی شائع ہوئی۔’آجکل’میں،’نیا دور’ لکھنؤ میں مسلسل چھپتی رہی۔’سوغات’ میں ایک ساتھ گیارہ گیارہ نظمیں شائع ہوئیں۔
ف س اعجاز صاحب کا رسالہ جو کولکاتا سے شائع ہوتا تھا اس میں بھی چھپی۔
میری سب سے پہلی غزل دہلی کے’بیسویں صدی’ میں شائع ہوئی۔
سب سے پہلا مشاعرہ میں نے اُجّین مدھیہ پردیش کا پڑھا۔جس میں جعفری صاحب،مجروحؔ سلطانپوری صاحب،کرشن بہاری نورؔ،ڈاکٹر بشیربدرؔ وغیرہ وغیرہ شامل تھے۔میراایک مصرعہ بہت پسند کیاگیا؛
زمانہ اور بھی بدلے گا ایک بار ابھی
اس کے بعد ہندوستان کے باہرخلیجی ممالک کے، پاکستان کے،اسٹیٹ کے مشاعرے بھی پڑھے۔
دبئی کا سب سے پہلا عالمی خواتین مشاعرہ جس کا انعقاد سلیم جعفری صاحب نے کیا تھا،شرکت کی جس میں ہندوستان کی کنوینر محترمہ ممتاز مرزا صاحبہ تھیں۔جب ہم لوگ دبئی پہنچے تو سلیم جعفری صاحب ایئرپورٹ پر موجود تھے،اُن کو دیکھتے ہی بیگم ممتازمرزا صاحبہ نے کہا؛
سلیم جعفری ہندوستان سے ایک شاعرہ لائی ہوں باقی سب ایسے ہی ہیں۔
میں بہت شرمندہ ہوئی لیکن اس میں ایک طرح کی طمانیت بھی تھی۔
’سرحد کے اس پار کی ‘پروین شاکر’ ملکہ نسیم
قطر،دوحہ،شارجہ،ابوظہبی کے مشاعرے بھی پڑھے۔پاکستان جانا ہوا۔
سب سے پہلا مشاعرہ لاہور کا تھا جس میں محترمہ پروین شاکر صاحبہ،یاسمین حمید صاحبہ،فہمیدہ ریاض صاحبہ،نوشی گیلانی صاحبہ،کشور ناہید صاحبہ وغیرہ وغیرہ موجود تھیں۔
کچھ یاد نہیں کہ کتنے مشاعرے پڑھے۔
کامیاب مشاعرہ ہوا،دوسرے دن صبح کو’نوائے وقت’ اُردو اخبار نے نیوز لگائی فرنٹ پیج پر اور ہیڈنگ تھی کہ’سرحد کے اس پار کی’پروین شاکر’ ملکہ نسیم۔
پھرمیں نے ملتان،اسلام آباد،فیصل آباد،میاں چنّوں کے مشاعرے پڑھے اور ان اطراف کے شہروں میں۔
جناب احمدندیم قاسمی۔عطاء الحق قاسمی،امجداسلام امجد،مظفر وارثی،خورشید اسلام اور کینیڈا سے تشریف لائے شاعر اشفاق حسین صاحب،چین سے تشریف لائے شاعر’چانگ شی شوان‘ جس کا اُردو میں ترجمہ ہوتا تھا’انتخاب عالم’سفر ابھی جاری تھا۔
ہندوستان میں انبالہ کینٹ میں ایک انڈوپاک مشاعرہ ہواتھا جس میں ہندوستان سے زاہدہ زیدی،ساجدہ زیدی،ثروت جہاں اور میں شریک تھے خواتین میں۔
شعراء حضرات میں علی سردار جعفری صاحب،مجروحؔ صاحب،ڈاکٹر بشیربدر،کرشن بہاری نورؔ،راحتؔ اندوری وغیرہ وغیرہ۔
مشاعرے کے بعد جن لوگوں کو دہلی آناتھا اس میں،میں،اخترؔ گوالیاری،ڈاکٹر بشیربدر اور موجؔ رامپوری ایک بس میں تھے اگلی سیٹ پراخترؔگوالیاری اور میں تھی،پچھلی سیٹ پر ڈاکٹر بشیربدر اور موجؔ رامپوری صاحب تھے۔
اخترؔ گوالیاری صاحب سو رہے تھے اور پیچھے ڈاکٹر صاحب اور موج صاحب محوِ گفتگو تھے،اچانک ڈاکٹر صاحب نے کہا نسیم صاحبہ آپ خاموش بیٹھی ہیں کچھ باتیں کیجیے۔
میں نے کہا ڈاکٹر صاحب آپ لوگ پتہ نہیں کس موضوع پرگفتگو کررہے ہیں،ڈاکٹر صاحب بولے ایک مصرعہ ہے اس پر مصرعہ نہیں لگ رہا،مصرعہ کچھ یوں ہے؛
کوئی چراغ کی لو کو ذراسا کم کردے
آپ بھی کوشش کریں۔میں سمجھ تو گئی کہ میرا امتحان ہے، اس لیے کہ خواتین شاعرات کو یوں بھی مشکوک نگاہوں سے دیکھاجاتاہے، میں نے تھوڑے سے وقفے کے بعد کہا ڈاکٹر صاحب میں اپنی کوشش میں کہاں تک کامیاب ہوں آپ لوگ ملاحظہ فرمائیں،وہ دونوں صاحبان تو جیسے چونک گئے، کہنے لگے ہاں ہاں فرمائیں۔میں نے کہا؛
تاثرات نہ پڑھ لے وہ میرے چہرے کے
کوئی چراغ کی لو کو ذرا سا کم کردے
دونوں حضرات کو مصرعہ بے انتہا پسند آیا۔ڈاکٹر صاحب بولے یہ مصرعہ مجھے دے دیجیے،میں نے کہا میں کیا کروں گی یہ آپ ہی کاہے۔
اس کے بعد لال قلعہ کا مشاعرہ 26جنوری کااور 15اگست کا، یومِ غالب پر،ایوان غالب کا مشاعرہ۔ڈی سی ایم کا مشاعرہ،شام بہارٹرسٹ کا مشاعرہ۔کچھ یاد نہیں کہ کتنے مشاعرے پڑھے۔
میں نے انبالہ کینٹ کے مشاعرے کا اس سے قبل ذکرکیا ہے،ایک واقعہ اور یاد آگیا۔مشاعرہ شروع ہوچکاتھا ڈاکٹر ملک زادہ منظور صاحب کی نظامت تھی۔چونکہ وہ کینٹ ایئریا تھا اس لیے تحفظ کے اقدامات کچھ زیادہ ہی ہوتے تھے۔
اچانک ایک آرمی مین نے آکر ملک زادہ صاحب سے دھیرے سے کہا؛ سر ایک شاعر صاحب آئے ہیں۔ملک زادہ صاحب نے بڑی آہستہ روی سے کہاکہ ان کا نام پوچھ کر آؤ۔
وہ دوبارہ آیا اور کہا سر اُن کا نام موجودہ حالات ہے۔اب ڈاکٹر صاحب بڑے تذبذب میں تھے کہ سامنے سے دوسرے آرمی مین کے ساتھ ’مسعودہ حیات‘ صاحبہ تشریف لارہی تھیں۔
ڈاکٹر صاحب اپنی ہنسی بمشکل روک سکے۔ان واقعات کو کبھی بھلایا نہیں جاسکتا۔
سردار جعفری کا کہناتھا؛ ملکہ نسیم کی شاعری میں نسوانی لطافت اور انسانی مسائل کا وقار پایاجاتا ہے …
آج کی عورت نے اپنی قوت کو پہچان لیاہے
سماج میں عورت کو ہمیشہ کمزوری کی علامت سمجھاگیاہے،لیکن آج کی عورت نے اپنی قوت کو پہچان لیاہے۔یہ قوت آج تحریک نسائیت کا روپ اختیار کرچکی ہے اور خواتین کی شاعری میں یہ جرثومے سر اُبھاررہے ہیں۔
غزل جو کبھی حسن وعشق سے تعبیر تھی،آج اُس کی وسعتوں میں بہت اضافہ ہواہے۔آج کی غزل غمِ جاناں اور غمِ دوراں دونوں کا درد سمیٹے ہوئے ہے۔
غزلوں کے علاوہ میں نے بلینک ورس میں نظمیں بھی کہی ہیں اور نظموں میں زندگی کی حقیقتوں کو بے نقاب کیا ہے۔
ڈاکٹر شاہینہ تبسم کا کہنا ہے ؛
میں نے ملکہ نسیم کی تخلیقات کا بغور مطالعہ کرنے پر یہ اندازہ لگایاکہ فکروفن کے معاملے میں انھوں نے اپنی ہم عصر شاعرات کے اثرات سے خودکو نہ صرف بچایاہے بلکہ اپنے لیے علاحدہ راہ اختیار کی ہے۔
اُن کے اشعار کاگہرائی کے ساتھ مطالعہ کرنے پر،واضح ہوتا ہے کہ انھوں نے عصری زندگی کے تجربات ومشاہدات سے پیداشدہ اپنے جذبات واحساسات کے راست اظہار پر خصوصی توجہ صرف کی ہے۔
میں نے اپنی شاعری میں آج کے اس ٹوٹتے بکھرتے عہد کے پیشِ نظر کربلا کے کرداروں کو عہدِ حاضر کے حوالے سے تازہ کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔
میں فلسطین،افغانستان،عراق،شام،لیبیا کے مظلوموں کو کربلا کے حوالے سے یاد کرتی ہوں۔
مجھے علم ہے کہ ہر دور میں باطل کے خلاف حق پرست آواز اٹھائیں گے،انجام کچھ بھی ہو۔
یہ سچ ہے کہ تانیثی تحریک نے عورتوں کے منھ میں زبان دی اور ایک نئی سمت عطاکی۔یوں سمجھیے کہ فکر کے زاویے بدل کر مردوں کی بالادستی کے خلاف آوازیں اُٹھنے لگیں۔
میں نے اپنی شاعری میں آج کے اس ٹوٹتے بکھرتے عہد کے پیشِ نظر کربلا کے کرداروں کو عہدِ حاضر کے حوالے سے تازہ کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔
مغربی ممالک میں ہونے والے احتجاج کے اثرات مشرقی ممالک میں مرتب ہونے لگے۔یہ تانیثی تحریک کا اثر ہی کہا جائےگا کہ موجودہ عہدمیں شاعرات نے تقلید کی راہ سے الگ ہٹ کر اپنے لیے نئی راہیں استوار کیں ،جہاں اُن کا لہجہ،ڈکشن، اسلوبِ زبان وبیان سبھی کچھ اُن کا اپنا ہے۔
بقول پروفیسر صادق؛
ملکہ نسیم کے ساتھ ایک بہت اچھی بات یہ ہے کہ وہ مشاعروں میں کلام خوانی کے دوران تخلیقات کے معیار اوراپنے ناموس اور وقار کا بطور خاص خیال رکھتی ہیں،محض سامعین کو خوش کرنے کے لیے مشاعروں کے بدمذاق مطالبات کے ساتھ کبھی سمجھوتہ نہیں کرتیں،جس کے نتیجے میں اُن کی شاعری اس لازمی ابتذال سے محفوظ رہتی ہے جو عموماً مشاعرہ باز خواتین کا مقدّر بن جاتا ہے، جس طرح زندگی ایک ہی رنگ کی مقیّد نہیں اسی طرح شاعری میں بھی رنگارنگی کا عالم ہے۔
میاں لائیے میں کُھجاتاہوں،آپ بات کریے
مشاعروں کے کچھ واقعات اچانک پھر یاد آگئے۔پونے کا گنپتی فیسٹول کا مشاعرہ پہلے بہت مخصوص اور معیاری ہوتاتھا۔مشاعرے میں وسیم ؔ بریلوی،خمارؔ بارہ بنکوی،معراجؔ فیض آبادی اور بھی اہم شخصیتیں تھیں اس مشاعرے میں۔
میں بھی تھی،ہم لوگ ایئرپورٹ سے ہوٹل پہنچے اور سب لوگ ہال میں بیٹھ گئے کہ پانی وانی پی کر اپنے اپنے کمرے میں جائیں گے۔اتنی ہی دیر میں باہرسے ایک صاحب تشریف لائے۔
باہرسخت دھوپ تھی وہ پسینے سے شرابور تھے ان کی حالت عجیب تھی،وہ سیدھے خمارؔ صاحب کے پاس گئے اور کہاکہ حضور کل شام کا عشائیہ آپ حضرات ہمارے ساتھ تناول فرمائیں۔
خمارؔ صاحب کوئی جواب دیتے کہ وہ کچھ اور باتیں کرنے لگے۔پوزیشن یہ تھی کہ وہ چونکہ دھوپ سے آئے تھے اس لیے بات کے ساتھ وہ کھجاتے بھی جارہے تھے،اچانک خمارؔ صاحب کرسی سے اُٹھے اور کہنے لگے کہ میاں لائیے میں کُھجاتاہوں،آپ بات کریے۔
اتنا سنتے ہی ایک قہقہہ گونجا اور وہ صاحب خاموش ہوگئے۔
ایسے تھے ہمارے باادب شعراء حضرات۔
مجھے اور بھی کچھ واقعات یاد آرہے ہیں، جن کا تعلق خمارؔ صاحب سے ہے۔ایک مرتبہ ہم لوگ کسی مشاعرے میں گئے جب منزلِ مقصود پر پہنچے تو مشاعرے کے کنوینر ہم لوگوں کو لینے کے لئے تشریف لائے تھے،ہم سب آپس میں محوِ گفتگو تھے کہ ایک فقیر کی صدا آئی’بابا کچھ دے دو’۔لوگوں نے کہا بابا آگے جائیے۔
یہ سن کر وہ فقیر خمارؔ صاحب کے سامنے آکرکھڑا ہوگیا۔خمارؔ صاحب کنوینر سے باتیں کررہے تھے، جیسے ہی اس نے ہاتھ بڑھایا خمارؔ صاحب نے کہا’ارے بھائی ابھی تم کو کہاں سے دوں گا،جب یہ مجھے دیں گے تب تو دوں گا’۔ اور ان کا یہ اشارہ مشاعرے کے کنوینر کی طرف تھا۔محفل قہقہہ زار بن چکی تھی۔
لگے ہاتھ ایک واقعہ اور خمارؔ صاحب کے حوالے سے سناتی ہوں،کسی مشاعرے کے بعدایک صاحب تشریف لائے اور کہا؛آپ حضرات میرے غریب خانے پر دال دلیا تناول فرمائیں۔
تمام لوگ اس شخص کے گھر پہنچے۔جاتے ہی کھانے کا اہتما م شروع ہوگیا،دسترخوان بچھا اور کھانا لگایا جانے لگا۔اتفاق سے پھر بیٹھک کے دروازے کے سامنے ایک فقیر نے صدا بلندکی، اس کو لوگوں نے منع کیا لیکن وہ حسبِ دستورکھڑا رہا۔
صاحبِ خانہ نے بڑی ناراضگی سے فقیر سے کہا؛ جاتا ہے یا بتاؤں تجھ کو۔ادھر دسترخوان پر واقعی دال اور دلیا رکھا جاچکاتھا۔
خمارؔ صاحب نے بڑی سنجیدگی سے دسترخوان پرنظر ڈالی اور پھر اس فقیر سے کہا؛ میاں جاؤ ورنہ یہ شخص جو کہتا ہے وہی کرتا ہے۔یہ تھے خمارؔ صاحب۔
میں تو ویسے ہی سنجیدہ رہتی ہوں لیکن خمار صاحب نے کچھ لمحوں کے لیے ہونٹوں کو تبسم کی اجازت دے دی تھی۔
خمار صاحب کے ساتھ ایک خوشگوار لمحہ
میری غزلوں اور نظموں کی فضا میری ازدواجی زندگی سے عبارت ہے
میں محترم زبیر رضوی صاحب کی بہت عزت کرتی تھی انھوں نے بھی’ملکہ نسیم کی شعری کائنات’ پر ایک مضمون لکھا تھا،جس کا ایک پیراگراف یہاں نقل کرنا چاہتی ہوں؛
ملکہ نسیم ؔ کی شاعری کا کلیدی استعارہ ’خواب‘ ہے۔وہ خواب جو تعبیر کے بغیر رائیگاں ہوئے اور وہ خواب بھی جو نئے رشتوں اور قربتوں کے حوالے سے شرمندہ تعبیر ہوئے،مگر اس تکلف اور اہتمام کے ساتھ کہ وہ خواب وہی ہوں جو اُن کی آنکھوں کوسونپے جانے کے لائق ہوں اور جن کی وہ آرزومند رہی ہوں۔
وہ اصرار کرتی ہیں کہ وہی خواب اُن کی آنکھوں میں آتے جاتے رہیں جو دھوپ کی منڈیروں سے لہورنگ ہوکر اُن کی آنکھوں میں اُتر سکیں،انھیں یہ پسند نہیں کہ کوئی دوسرا اپنی آنکھوں کے خوش نما خواب اُن کے نام کردے،مانگے ہوئے خواب اُن کی آنکھوں کو دیکھنا کبھی پسند نہیں رہا۔خواب دیکھنا ان کا حاصل حیات ہے اور خواب ہی ہیں جو اُن کے نزدیک انسانی رشتوں کی اساس بنتے ہیں ۔متضاد آنکھوں کے متضادخواب اور تعبیر۔
خواب کی کشمکش کو ملکہ نسیم کی اکثر نظموں میں محسوس کیا جاسکتاہے وہ اپنی آنکھوں کو خوابوں کے زیاں کا عادی بناتی ہیں تاکہ جب خواب کرچیاں بنکربکھرنے لگیں تواُن کی کرچیوں کی چبھن پاکر اُن کی آنکھیں نہال ہوجائیں۔
مجھے بڑی حیرت ہوتی ہے کہ میرے کچھ اشعار پڑھ کر زبیر صاحب نے میرے اندر اُٹھنے والے طوفان کو کس طرح پڑھ لیا،شاید تنقید اسی کو کہتے ہیں۔
دوپہر کا سفر، میرا پہلا مجموعہ کلام میرے ہاتھ میں تھا مجھے یقین نہیں آرہاتھا،’دام ِہرموج’ میں ہے کہ زیرِ عنوان استعاراتی زبان میں ایک کمزورلڑکی نے اپنی سرگزشت بیان کرتے ہوئے لکھا ہے ‘وہ کمزورلڑکی یعنی میں ایک ایسے ہی قلعے کے اندر قید تھی(اشارہ سماجی بندشوں کی طرف ہے)اکثر رات کے پُراسرار سنّاٹے میں،کُھلی ہوا میں سانس لینے کی آرزو میں،اس لڑکی نے اپنی انگلیوں سے قلعے کی پتھریلی دیواروں کو ٹٹولا،کُریدا،اس کی انگلیاں تو لہولہان ہوگئیں لیکن نہ پتھر پگھلے اور نہ فرارکاکوئی راستہ مل سکا۔
Click to view slideshow.
لیکن آج جب دوسرا نظموں کا مجموعہ’آج کا موسم’ کی کُھلی فضا تک آتے آتے اب خود یہ احساس ہوچلاہے کہ اس کی کمزور مگر انتھک کوششیں اتنی رائیگاں بھی نہ تھیں۔
سنگین دیواریں پگھلیں اور جانکاہ گُھٹن سے نجات کا راستہ بالآخر مل گیا۔میں نے بڑی خاموشی سے اپنے بکھرے ہوئے وجود کو سمیٹا اور اُمید کے آخری طاق پرایک شمع روشن کی جس کی روشنی کے سہارے ایک نئی سمت اور حوصلے کے ساتھ میں پھر سے عمل کی دنیا میں اُترآئی۔
موسم بدلتے رہے …تجربے جدوجہد کی نئی راہیں کھولتے رہے اور مجھے اپنی اَنا،خودداری اور ذات کی گہرائیوں کا احساس ہوتارہا،اس طرح جنم لیا’آج کے موسم نے’۔
آج کے موسم کا خواب اب خوشی مسرّت،آسودگی،طمانیت اور زندگی کے سکون وراحت کا خواب ہے، جس پر میں نے علامتوں کے دبیز پردے ڈال رکھے ہیں۔
لیکن یہ پردے اتنے دبیز بھی نہیں ہیں کہ مسرّت،آسودگی،طمانیت کی وہ کرنیں ہم تک نہ پہنچنے دیں جو ہمارے فکرواحساس سے پھوٹتی ہیں۔
غزل پرایک زمانہ ایسا بھی گزرا ہے جب نئے الفاظ کو غزل کی کسوٹی پر پَرکھا جاتاتھا اور اگر وہ اس معیار پر پورے نہیں اُترتے تھے تو اُنھیں ٹکسال باہر قراردے دیا جاتاتھا۔
اس کے برعکس پچھلی تین دہائیوں میں شعوری طورپراس بات کی کوشش کی جاتی رہی ہے کہ ان لفظوں اور شعری تراکیب کو’شعربدر’کردیا جائے جن سے غزل کا سروسامان درست کیا جاتاہے۔
یہ دونوں رویّے اپنی جگہ درست نہیں ہیں نہ پرانی لفظیات اور تراکیب گردن زدنی ہیں نہ سارے الفاظ قابل سرفرازی ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ جن لفظوں کے چہرے زرد پڑچکے ہیں،وہ شعر میں زندگی کا خون نہیں دوڑاسکتے،لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیاجاسکتا کہ نئے الفاظ وہی قابلِ قبول ہوتے ہیں جو شعر میں اپنی مکمل معنویت کے ساتھ ہمارے فکرواحساس کے تاروں کو چھولیں۔
غزل کے روایتی لباس پر دست درازی کے باوجود نئی لفظیات سے ابھی تک اپنا پیراہن نہیں تراشا جاسکتا ہے جو غزل کے قدوقامت پرپوری طرح موزوں ہو۔
ہاں اتنا ضرور ہے کہ نیا لب ولہجہ کبھی کبھی ہوا کے خوشگوار جھونکے کی طرح غزل میں ایک لطیف ارتعاش پیدا کردیتا ہے۔
یہی لطیف ارتعاش شاید میری غزلوں میں بھی پایاجاتاہے۔میری غزلوں اور نظموں کی فضا میری ازدواجی زندگی سے عبارت ہے۔
گھروں کے دُکھ سُکھ،سپردگی،خودداری،بدگمانیاں اور تلخیاں،شکوے شکایات،ہجروصل غرض جتنے چراغ ہیں اسی محفل سے آئے ہیں۔
اِن چراغوں کی روشنی میں محبت اور چاہت کے کتنے ہی رنگ آنکھوں کے سامنے آجاتے ہیں۔اتنا ہی نہیں بلکہ ہم اس چراغ کے کارفرما کو بھی آسانی سے پہچان لیتے ہیں۔
غزل جو کبھی حسن وعشق سے تعبیرتھی،آج اس کی وسعتوں میں بہت اضافہ ہواہے۔
آج کی غزل غم جاناں اور غمِ دوراں دونوں کا درد سمیٹے ہوئے ہے، میں نے جس کامیابی سے داخلی کیفیات کی ترجمانی کی ہے وہیں خارجی محرکات نے بھی جھنجھوڑاہے۔
شاعری کی ایک سطح وہ ہے جہاں وہ جذبہ واحساس کی سرحدوں سے گزرتی ہوئی مملکتِ فکر میں داخل ہوجاتی ہے اور زندگی اور اس کے مظاہر کی طر ف مفکّرانہ انداز میں دیکھنے لگتی ہے۔
زندگی کی ازلی اور ابدی سچائیوں اور ان کے گوناگوں مظاہرکی ایسی متحرک علامت بن جاتی ہے جو زمان و مکان کی حدبندیاں توڑ دیتی ہے اور جس کا خوش رنگ سفر موسم بہ موسم منظر بہ منظر جاری رہتا ہے۔
سفرِ شاعری ابھی جاری ہے، اس امید پرکہ شاید میری بھی کوئی شناخت بن سکے۔
اس سیریز کے مضامین پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔