میں موہن داس کرم چند گاندھی اب بابائے قوم نہیں کہلانا چاہتا…

آج ملک کو حقیقی  باپ کی ضرورت ہے، میرے جیسے صرف نام کے باپ سے کام نہیں چلنے والا ہے۔ آج بڑے-بڑے فیصلے ہو رہے ہیں۔ 56انچ کا سینہ دکھانا پڑ رہا ہے۔ ایسا باپ جو پبلک کو کبھی تھپڑ دکھائے تو کبھی لالی پاپ، اوراپنے طے کئے […]

آج ملک کو حقیقی  باپ کی ضرورت ہے، میرے جیسے صرف نام کے باپ سے کام نہیں چلنے والا ہے۔ آج بڑے-بڑے فیصلے ہو رہے ہیں۔ 56انچ کا سینہ دکھانا پڑ رہا ہے۔ ایسا باپ جو پبلک کو کبھی تھپڑ دکھائے تو کبھی لالی پاپ، اوراپنے طے کئے راستے پر ہی ملک کو ٹھیلتا جائے۔ میں ایسے بابائے قوم کی ضرورت کیسے پوری کر سکتا ہوں؟

گجرات کے دانڈی میں مہاتما گاندھی کا مجسمہ ، فوٹو بہ شکریہ : ٹوئٹر/نریندر مودی

گجرات کے دانڈی میں مہاتما گاندھی کا مجسمہ ، فوٹو بہ شکریہ : ٹوئٹر/نریندر مودی

پیارے ہم وطنوں  بھائیوں اور بہنوں،

آج میں ڈیڑھ سو سال کا ہو گیا ہوں۔ اپنے جینے کی خواہش سے بھی ڈیڑھ گنا۔ پیارے ناتھو رام کی گولی کھانے کے بعد بھی بہتر سال اور۔ یہ سب آپ کے پیار اور فیاضی  کا ہی معجزہ ہے۔ اس کے لئے میں آپ کا کتنا احسان مند ہوں، اس کو بتا نہیں سکتا ہوں۔لیکن، اسی لئے میں ایک لمحے کو بھی یہ نہیں بھول سکتا ہوں کہ آپ کے مفاد میں کیا ہے؟ اور جو مجھے آپ کے مفاد میں لگتا ہے، اس کے لئے بولنے سے مجھے کوئی طاقت روک نہیں سکتی ہے، نہ اس دنیا کی اور نہ اس دنیا کی۔

میری ضد کتنی مشہور ہے، وہ تو آپ جانتے ہی ہیں۔ تو میں تو اپنی طرف سے آپ کے مفاد کی بات مان‌کر ہی مانگ رہا ہوں، پر آپ چاہیں تو میری ضد مان لیجئے۔ جنم دن ڈیڑھ سوواں بھی ہو تو کیا، جنم‌کے دن تو انسان بچہ ہی ہوتا ہے۔آپ چاہے اس کو میرے بچپن کی  ضد ہی مان لیجئے۔ پر مان لیجئے اور فوری طور سے’ راشٹرپتا’ کے عہدے سے میرا استعفیٰ قبول‌کر لیجئے۔آج سے، بس ابھی سے، نہ راشٹرپتا، نہ باپو۔ فادر آف انڈیا تو ہرگز نہیں۔ میں تو کہوں‌گا، گاندھی کے آگے جی لگانے کی بھی ضرورت کیا ہے؟ ماں باپ نے نام دیا تھا، موہن داس۔ لینا ہو تو وہی نام لیں، حالانکہ اب اس کی بھی ضرورت کیوں پڑنے لگی؟ نام ہی نہیں ہوگا، تو گاندھی-نہرو خاندان کے چکر میں بدنامی بھی تو نہیں ہوگی۔ اب کم سے کم راشٹرپتا نہیں، پلیز!

اب راشٹرپتا نہیں سے آپ یہ مت سمجھیے گا کہ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ اب سے کوئی راشٹرپتا ہی نہیں ہو۔ میں راشٹرپتا ہو گیا بس، اس کے بعد کوئی راشٹرپتا ہی نہیں ہو، ایسا میری رائے ہرگز نہیں ہے۔ میں اپنے ملک اور عوام کو اب اتنا تو جانتا ہی ہوں کہ یہ سمجھنے میں غلطی نہیں کر سکتا کہ آج ملک کو باپ کی پہلے سے کم نہیں زیادہ ضرورت ہے۔ملک کو آج باپ کی ہی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ پہلے کے ٹائم میں تو پھر بھی چچا، بڑے ابا، ماموں، خالہ، تائی، بہن، بھائی وغیرہ-وغیرہ بھی ہوتے تھے اور باپ سے اتنا کام نہیں پڑتا، پر سنگل فیملی کے اس زمانے میں تو ایک باپ کی اور صرف باپ کی ہی ضرورت ہے۔

سچ پوچھیے تو آج حقیقی  باپ کی ضرورت ہے۔ میرے جیسے صرف نام کے باپ سے کام نہیں چلنے والا ہے۔ آج بڑے-بڑے فیصلے ہونے اور ہو رہے ہیں۔56 انچ کا سینہ دکھاناپڑ رہا ہے۔ عوام کے مفاد کے لئے اس کو ایسے راستوں پر لے جانا پڑ رہا ہے، جن پر چلنے میں اس کو اپنا مفاد دکھائی ہی نہیں دے رہا ہو۔نوٹ بندی کے لئے پورے ملک کو لائن میں کھڑا کرنا پڑتا ہے۔ کشمیر کے بھلے کے لئے کشمیر کو کھلا جیل بنانا پڑتا ہے۔ کسانوں کو زیادہ خودکشی کرنے سے بچانے کے لئے، ان کی خودکشی کے اعداد و شمار کو، عورتوں کے خلاف جرائم کو کم کرنے کے لئے ان کے خلاف جرم کے اعداد و شمار کو، نوجوانوں کی ہمت ٹوٹنے نہ دینے کے لئے بےروزگاری کے اعداد و شمار وغیرہ کو ان سے ہی چھپانا پڑتا ہے۔

اور ہر حال میں ملک کو عظمت کے راستے پر بڑھاتے رہنے کے لئے، اس کی آنکھوں پر بیل کی آنکھوں پر باندھنے والے چشمے کی طرح پاکستان/کشمیر/مسلمان/ گھس پیٹھیے/مندر/گائے وغیرہ کا چشمہ لگائے رکھنا ہوتا ہے۔ پبلک کو ناراض کرنے کی بھی پرواہ نہ کرکے اس کے مفاد میں اتنا سب تو کوئی باپ ہی کر سکتا ہے۔ایسا باپ جو پبلک کو کبھی تھپڑ دکھائے تو کبھی لالی پاپ دلائے، پر اپنے طے کئے راستے پر ہی ملک کو ٹھیلتا جائے۔ میں ایسے راشٹرپتا کی ضرورت کیسے پوری کر سکتا ہوں؟ ایسے ملک کے لئے میرے جیسا باپ کس کام کا؟

میں تو ضد پکڑ بھی لوں تو اپنی بھوک ہڑتال سے لوگوں کو پگھلانے کے سوا مجھے کچھ نہیں آتا ہے۔ مجھے اپنے پیارے ملک کے پاؤں میں زنجیر بن‌کر نہیں پڑے رہنا ہے۔ مہربانی کرکے راشٹرپتا کے عہدے سے میرا استعفیٰ فوراً منظور کریں۔ آج اور ابھی۔مجھے پتہ ہے کہ آپ قانونی دلیلوں کی آڑ میں معاملہ ٹالنے کی کوشش کریں‌گے۔ کہیں‌گے کہ راشٹرپتا کا تو کوئی عہدہ ہی نہیں ہے، نہ ملک کے قانون میں اور نہ آئین میں۔ جیسے شہید بھگت سنگھ وغیرہ، ویسے ہی آپ راشٹرپتا، بنا کسی لکھت-پڑھت کے۔

اور جو عہدہ ہی نہیں ہے، اس سے کیسے تو کسی کا استعفیٰ کیسے منظور کیا جا سکتا ہے اور کیسے کسی کی تقرری کی جا سکتی ہے؟ ہاں! ملک ہی کسی کو باپ کہنے لگے تو کوئی کیا کر سکتا ہے؟ویسے بھی ملک کے کسی کو باپ کہنے سے فرق بھی کیا پڑتا ہے؟ یوم پیدائش، یوم وفات پر مالا-والا چڑھانے، راستوں-عمارتوں کا نام-وام رکھنے یا زیادہ نوٹوں پر فوٹو چھاپنے کی ہی تو بات ہے۔ نہ ملک کے لئے باپ کے راستے پر چلنے کی کوئی مجبوری ہوتی ہے اور نہ ہر چیز کے لئے باپ سے پوچھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

چچا-بڑے ابا والے زمانے کو چھوڑ دیں تو بہتر سال میں اور کسی نے، کسی چیز کے لئے پوچھا تھا؟ پھر چلنے دیجئے جیسا چل رہا ہے۔ ملک کی خوشی کے لئے راشٹرپتا اتنےمیں کیا خوش بھی نہیں رہ سکتا۔ چلتی گاڑی میں ڈنڈا اڑانے کا کیا فائدہ؟ اینٹی-نیشنلوں کے حوصلے کیوں بڑھانا وغیرہ-وغیرہ۔پر میں کوئی دلیل نہیں سنوں‌گا۔ راشٹرپتا کے تمغہ سے اپنا پیچھا چھڑاکر رہوں‌گا۔ راشٹرپتا کی کرسی خالی کرکے رہوں‌گا۔ اب پلیز یہ مت کہیے‌گا کہ اب ہی کیوں؟ بہتر سال بعد ہی کیوں؟ جس ملک نے اتنے سال سے سننا بند کر رکھا تھا، اس کا باپ کہلوانے سے پیچھا چھڑانے کی اب اتنی بے چینی کیوں؟

جھوٹ کیوں کہوں، اس میں میری بھی کچھ کمزوری رہی ہے۔ مجھے کبھی صرف اپنی چلانا آیا ہی نہیں۔ اپنی کم چلائی، دوسروں کی زیادہ سنی۔ اس لئے سمجھ ہی نہیں پایا کہ کب ملک نے مجھ سے پوری طرح پیچھا چھڑا لیا اور راشٹرپتا کو تصویر بناکر دیوار پر ٹانگ دیا۔منابھائی نے خبردار‌کیا، تب مجھے خیال آیا کہ واقعی اب ملک کو میری ضرورت نہیں ہے۔ پھر بھی راشٹرپتا کہلانے کی میری لالچ  نہیں چھوٹی۔ پھر ایک گجراتی نے مجھے واپس گجراتی بنا دیا۔ گوڈسے کے نام کے آگے جی لگا دیا، ساورکر کو سرکاری طور پر ویر بنا دیا اور میرے ہاتھ میں لاٹھی کی جگہ جھاڑو پکڑا دیا۔

پھر بھی پانچ سال اسی مغالطے میں رہا کہ ملک کو صاف  تو کرا رہا ہوں، ملک کے کسی کام تو آ رہا ہوں۔ پر اب وہ کام بھی ختم۔ پاخانہ کرنے کو جگہ ہو نہ ہو، پر ملک کھلے میں پاخانہ کرنے سے آزاد! اب اور کیا دیکھنے کو رکوں؟ اب اور نہیں۔ اب تو جانے دو۔

سابرمتی آشرم میں وزیر اعظم نریندر مودی(فوٹو : پی ٹی آئی)

سابرمتی آشرم میں وزیر اعظم نریندر مودی(فوٹو : پی ٹی آئی)

عمران خان سے لےکر دیسی اپوزیشن  تک میرے استعفیٰ کو حکومت کی مخالفت سے جوڑنے کی کوشش کوئی نہ کرے۔ کشمیر کے لاک ڈاؤن اور گرفتاریوں پر استعفیٰ دینا ہوتا، تو میں نے ایمرجنسی میں ہی دے دیا ہوتا۔ لنچنگ، این آر سی، شہریت ترمیم بل وغیرہ کی مخالفت سے بھی میرے استعفیٰ کا کوئی تعلق نہیں ہے۔اصل میں میرے استعفیٰ کا کسی کی مخالفت سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ انگریزی راج کے بعد کسی حکومت کی مخالفت کرنے میں میں نہیں پڑا۔ میرا استعفیٰ مثبت ہے۔ میں تو کہوں‌گا کہ میرا استعفیٰ ملکی مفاد میں ضروری ہے۔

ہر روز جواہرلال کی غلطیاں درست کی جا رہی ہیں۔ اس سے پہلے کہ میری غلطیاں درست کرنے کا نمبر آئے، میں خودہی راشٹرپتا کے عہدے سے الگ ہو جاتا ہوں۔ حکومت کو راشٹرپتا کی غلطیاں درست کرنے میں ہچک نہیں ہونی چاہیے۔ویسے بھی جب ملک کو سچ مچ دن میں اٹھارہ-اٹھارہ گھنٹے کام کرنے والا باپ مل گیا ہے، اور ایسا-ویسا نہیں ٹرمپ جی کے ذریعے سلیکٹیڈ اور عوام کے ذریعے الیکٹیڈ، اس کے بعد میرے راشٹرپتا بنے رہنے کی کیا تو ضرورت ہے اور کیا جوازہے؟کتابوں میں تو کہا ہی گیا ہے کہ وقت سازگار نہ  ہو تو خاموش ہوکر بیٹھ رہنا ہی اچھا ہوتا ہے۔ قسم سے کہتا ہوں کہ میرا استعفیٰ، مخالفت میں بولنا نہیں، وقت گزر جانے پر خاموش ہوکر بیٹھ رہنا ہے۔ بس میرا استعفیٰ منظور کریں، مجھے سابق-راشٹرپتا ہو جانے دیں اور کم سے کم ڈیڑھ سو سال کے بعد تو لمبی تان‌کر سو جانے دیں۔

شکریہ

آپ کا ہی

 موہن داس

(راجیندر شرما لوک لہر ہفتہ وار کے مدیر ہیں۔)

Next Article

جموں: اسرائیل مخالف تصویر بنانے پر نابالغ لڑکیوں سے پولیس پوچھ گچھ کے خلاف سری نگر ایم پی کا احتجاج

جموں و کشمیر پولیس نے تین نابالغ لڑکیوں سے اسرائیل مخالف گرافیٹی بنانے پر پوچھ گچھ کرتے ہوئے ان کی کونسلنگ کی تھی۔ سری نگر کے ایم پی آغا روح اللہ مہدی نے لڑکیوں کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ نسل کشی کی مخالفت کرنے والوں کو نہیں، بلکہ انہیں  روکنے والوں کو کونسلنگ کی ضرورت ہے۔

السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر

نئی دہلی: سری نگر کے رکن پارلیامنٹ آغا روح اللہ مہدی نے بدھ کے روز تین نابالغ لڑکیوں کی حمایت میں ایک ریلی نکالی، جن سے پولیس نے مبینہ طور پر اسرائیل مخالف سرگرمیوں کے لیے پوچھ گچھ  اور کونسلنگ کی۔

مہدی نے کہا کہ ان لڑکیوں کو سمجھائے جانے کی ضرورت نہیں ہے ، بلکہ  ان لوگوں کو ہے جوانہیں دبانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

دی ٹیلی گراف کی رپورٹ کے مطابق، منگل کو پولیس نے بتایا کہ انہیں امام باڑہ زادیبل کے مرکزی دروازے کے باہر سڑک پر غیر ملکی پرچم (اسرائیلی) سے مشابہ گرافیٹی پینٹ کیے جانے کی اطلاع ملی تھی۔

ایک بیان میں کہا گیا، ‘فوری کارروائی کرتے ہوئے ایک پولیس ٹیم موقع پر پہنچی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور امن عامہ کو برقرار رکھنے کے لیے  گرافیٹی کو ہٹا دیا۔’

بعد ازاں تحقیقات میں تین مقامی بچیوں کے ملوث ہونے کا انکشاف ہوا۔ ترجمان نے کہا، ‘ان کی عمر اور واقعے کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے ان کے والدین کو پولیس اسٹیشن بلایا گیا اور ان کی موجودگی میں نابالغوں کی کونسلنگ کی گئی۔’ انہوں نے مزید کہا،’انہیں اس طرح کی کارروائیوں کے نتائج اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور ذمہ دارانہ شہری رویے کو برقرار رکھنے کی ضرورت سے آگاہ کیا گیا ۔’

اس کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے مہدی نے ایکس پر لکھا، ‘جب نابالغ لڑکیاں نسل کشی کے خلاف احتجاج کرتی ہیں تو انہیں کونسلنگ کی ضرورت نہیں ہوتی، لیکن جو لوگ انہیں روکنے کی کوشش کرتے ہیں انہیں اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہاں صرف ہماری، ہم کشمیریوں کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی بگڑرہی ہے۔’

دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق،اس سے قبل سوموار (23 جون) کو سری نگر شہر کے مضافات میں واقع بلہامہ میں دو مقامی نوجوانوں کو امریکی اور اسرائیلی پرچم آویزاں کرنے پر حراست میں لیا گیا ۔

پولیس ترجمان کا کہنا تھا کہ دونوں نوجوان رات کے وقت غیر ملکی جھنڈے دکھا رہے تھے جو کہ امن و امان کو خراب کرنے کی واضح کوشش تھی۔

Next Article

مہاراشٹر: دہشت گردی کے ملزم ثاقب ناچن کی جیل میں طبیعت بگڑی، حالت نازک

مہاراشٹر کے بوریولی-پڑگھا گاؤں کے رہنے والے اور دہشت گردی کے  ملزم ثاقب ناچن 2023 کے اواخر سے تہاڑ جیل میں بند ہیں۔ 22 جون کو وہ جیل میں اچانک بے ہوش ہوگئے۔ ان کے وکیل نے کہا کہ اس کے بعد ان کی موت کی ‘جھوٹی’ خبر ان کے گاؤں میں پھیلائی گئی۔

(علامتی تصویر بہ شکریہ: Tum Hufner/Unsplash)

ممبئی: بھیونڈی تعلقہ کے بوریولی-پڑگھا گاؤں کی متنازعہ شخصیت ثاقب ناچن 2023 کے اواخر  سے تہاڑ جیل میں بند ہیں۔ اتوار (22 جون) کو وہ وہیں اچانک گر پڑے۔

ناچن، جن کے خلاف ممبئی میں دہشت گردی کے مختلف واقعات میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے الزام میں کئی مقدمات درج ہیں اور دہشت گردی کے کئی مقدمے چلے اور انہیں قصوروار ٹھہرایا گیا ہے، اس وقت مہاراشٹر میں ممنوعہ آئی ایس آئی ایس ماڈیول کی مبینہ طور پر قیادت کرنے کے لیے قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) کے الزامات کا سامنا  کر رہے ہیں۔

ان  کے اہل خانہ نے بتایا کہ ان کے بے ہوش ہونے کی وجہ سے انہیں برین ہیمرج ہوا اور اس کے بعد سے وہ بے ہوش ہیں۔ ان کے وکیل سمشیر انصاری کے مطابق، ناچن تہاڑ جیل نمبر 1 کے اندر اپنے سیل میں بیہوش ہو گئے۔

انصاری نے دی وائر کو بتایا، ‘بیرک میں ان کےساتھ رہنے والے ایک قیدی نے ان کے خاندان کو اطلاع دی، جو اس کے بعد دہلی پہنچے۔’

انصاری، جو ممبئی اور دہلی دونوں جگہوں پر پریکٹس کرتے ہیں اور طویل عرصے سے ناچن کے کیس کی پیروی کر رہے ہیں، اس بات کو یقینی بنانے کے لیے دہلی پہنچے کہ ناچن کو مناسب طبی دیکھ بھال ملے۔ انصاری نے بتایا کہ گرنے کے بعد سے ناچن بے ہوشی کی حالت میں ہیں۔ انہیں پہلے سرکاری دین دیال اپادھیائے (ڈی ڈی یو) اسپتال لے جایا گیا۔

انصاری نے کہا، ‘ان کے اہل خانہ کی جانب سے میں نے سیشن کورٹ میں درخواست دائر کی کہ انہیں بہتر سہولیات والے اسپتال منتقل کیا جائے۔ تاہم، عدالت کے فیصلے سے پہلے ہی، ڈی ڈی یو اسپتال کے ڈاکٹروں نے ناچن کو صفدر جنگ اسپتال ریفر کردیا۔ ان کی حالت نازک بنی ہوئی ہے۔’

ناچن کی موت کی جھوٹی خبر سے کے گاؤں میں کشیدگی

دریں اثنا، ناچن کی خراب صحت کی خبر پھیلتے ہی کئی نیوز چینلوں نے ان کی موت کی جھوٹی خبر دی۔ اس سے اس کے گاؤں میں تناؤ پیدا ہوگیا، جو پہلے ہی اکثر چھاپوں اور جرائم کی بلند شرح کی وجہ سے سرخیوں  میں رہتا ہے ۔

انصاری نے کہا، ‘ این ڈی ٹی وی سمیت کئی نیوز چینلوں نے دعویٰ کیا کہ ناچن کی موت ہوگئی ہے۔ مجھے گاؤں سے میڈیکل اپڈیٹس کے لیے 100 سے زیادہ فون آئے۔ یہ خبر بالکل جھوٹی ہے اور اس کا مقصد ان کے گاؤں میں کشیدگی پیدا کرنا ہے۔’

دی وائر کو مقامی لوگوں نے بتایا کہ شام سے ہی گاؤں میں پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے۔ ایک رہائشی نے کہا، ’ ہم حیران ہیں کہ حکومت کو گاؤں میں اتنے سارے پولیس اہلکار تعینات کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔’

انصاری نے دعویٰ کیا کہ جھوٹی خبریں اور اس کے بعد پولیس کی تعیناتی ‘جان بوجھ کر’ کی گئی ہیں۔

ناچن، جو تقریباً چار دہائیوں سے ریاستی اور مرکزی حکومت کی پولیس کے ساتھ تنازعات میں ہیں، کبھی اسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا(سیمی) کا حصہ تھے، جس پر 2001 میں پابندی عائد کر دی گئی تھی۔انہیں متنازعہ بیان دینے کے لیے جانا جاتا ہے اور این آئی اے نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے اپنے گاؤں کو ایک آزاد اسٹیٹ قرار دیا ہے – جسے مقامی لوگوں نے خارج کر دیا ہے۔

ان کے گاؤں میں، جہاں کی 80 فیصد سے زیادہ آبادی مسلمان ہے، ان  کی گرفتاری یا حراست کی وجہ سے اکثر پولیس ان کے رشتہ دار یا قریبی نوجوانوں کو پریشان کرتی ہے۔ سال 2023 میں ان کے چھوٹے بیٹے شمیل کو 13 دیگر افراد کے ساتھ گرفتار کیا گیا۔

اس ماہ کے شروع میں دی وائر نے مقامی ضلع پولیس کے ساتھ مشترکہ طور پر مہاراشٹرا انسداد دہشت گردی اسکواڈ (اے ٹی ایس) کے رات گئے چھاپوں کے بعد گاؤں کا دورہ کیا  تھا، جس کے دوران 22 سے زیادہ گھروں کی تلاشی لی گئی تھی۔

اہل خانہ نے پولیس کی جانب سے نوجوانوں اور بوڑھوں کو’ ڈرانے’ والےتجربات بیان کیے، اور دعویٰ کیا کہ پولیس کو کچھ بھی نہیں ملا۔

اگرچہ یہ چھاپہ عدالت کی اجازت سے مارا گیا تھا، لیکن اے ٹی ایس نے ایک ‘تلوار’ اور ایک ‘چاقو’ ضبط کرنے کا دعویٰ کیا ہے، جسے اس نے ‘مہلک ہتھیار’ قرار دیا ہے۔ تاہم، گاؤں والوں کا کہنا تھا کہ تلوار زنگ آلود تھی اور برسوں سے استعمال نہیں ہوئی تھی، اور چاقو باورچی خانے کا ایک عام چاقو تھا۔

ناچن کے گھر پر بھی چھاپہ مارا گیا اور ان کے دوسرے بیٹے عاقب کےنام  وارنٹ جاری کیا گیا۔

جب سے ناچن کی خراب صحت کی خبر ان کے خاندان تک پہنچی ہے، تب سے عاقب دہلی میں اپنے والد کے لیے مناسب طبی دیکھ بھال کی تلاش میں ہیں۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)

Next Article

پی سی آئی سمیت 22 تنظیموں نے صحافیوں کو ڈیٹا پروٹیکشن قانون سے دور رکھنے کا مطالبہ کرتے ہوئے میمورنڈم دیا

پریس کلب آف انڈیا اور 21 دیگر میڈیا تنظیموں نے مرکزی وزیر اشونی ویشنو کو ایک مشترکہ میمورنڈم پیش کیا ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ صحافیوں کے پیشہ ورانہ کام کو ڈیجیٹل پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن (ڈی پی ڈی پی) ایکٹ 2023  کے دائرے سے باہر رکھا جائے۔ اس میمورنڈم کو ایک ہزار سے زیادہ صحافیوں اور فوٹو جرنلسٹ کی حمایت حاصل ہے۔

علامتی تصویر، فوٹو: دی وائر

نئی دہلی: پریس کلب آف انڈیا (پی سی آئی) اور ملک بھر کی 21 دیگر صحافتی اداروں نے مرکزی وزیر اشونی ویشنو کو ایک مشترکہ میمورنڈم پیش کیا ہے، جس میں صحافیوں کے پیشہ ورانہ کام کو ڈیجیٹل پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن (ڈی پی ڈی پی) ایکٹ، 2023 کے دائرے سے باہر رکھنےکی اپیل کی گئی ہے  ۔

پریس کلب نے بدھ (25 جون) کو بتایا کہ میمورنڈم کو ملک بھر کے 1000 سے زیادہ صحافیوں اور فوٹو جرنلسٹ کی حمایت حاصل ہے۔

اپنے بیان میں، پی سی آئی نے کہا،؛قانونی اور ڈیٹا تحفظ کے ماہرین کے ساتھ ایکٹ کی مختلف تعریفوں اور دفعات کے مکمل مطالعہ کے بعد یہ پتہ چلا ہے کہ یہ ایکٹ آئین ہند کے آرٹیکل 19 (1) (اے) اور 19 (1) (جی) کے تحت صحافیوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔’

بیان میں کہا گیا ہے کہ مختلف ریاستوں کی 22 صحافتی تنظیموں نے اس بات پر شدیدتشویش کا اظہار کیا ہے کہ بل کا مسودہ تیار کرتے وقت صحافت کو اس کے دائرہ کار سے باہر رکھا گیا تھا، لیکن اب اسے اس میں شامل کیا جا رہا ہے۔

یہ میمورنڈم پریس انفارمیشن بیورو(پی آئی بی) کے ایک سینئر اہلکار کے ذریعے دیا گیا ہے۔

قابل ذکر ہے کہ یہ بل الکٹرانکس اور انفارمیشن ٹکنالوجی کی وزارت نے پیش کیا تھا۔ اشونی ویشنو مرکزی حکومت میں اطلاعات و نشریات، الکٹرانکس اور انفارمیشن ٹکنالوجی اور ریلوے کی وزارت سنبھال رہے ہیں۔

یہ میمورنڈم پریس کلب آف انڈیا کی طرف سے مئی 2025 میں شروع کی گئی دستخطی مہم کا حصہ ہے۔ اس مہم کے ذریعے وزارت سے کہا گیا ہے کہ وہ اس قانون میں ضروری تبدیلیاں کرے تاکہ پرنٹ، آن لائن اور الکٹرانک میڈیا میں کام کرنے والے صحافیوں اور فوٹو جرنلسٹ کے کام میں کوئی رکاوٹ نہ آئے۔

Next Article

ایمرجنسی کے پچاس سال: مدیران کے نام رام ناتھ گوئنکا کا خط

اگر رام ناتھ گوئنکا زندہ ہوتے اور آج کی ‘غیر اعلانیہ ایمرجنسی’ کے حوالے سے اخبار کے مالکان اور مدیران کو خط لکھتے، تو شاید یہ کہتے کہ وہ پریس  جو آزاد ہونے کی اجازت کا انتظار کرتی ہے، اس نے  اپنی مرضی سے عمر بھر کا قیدی بننے کا انتخاب کیا ہے۔ اور وہ مدیر جو سچائی سے منہ موڑتا ہے، اس کو اس کرسی پر بیٹھنے کا کوئی حق نہیں ہے۔

(بائیں) رام ناتھ گوئنکا۔ (تصویر بہ شکریہ:  پینگوئن انڈیا/پکسابے


پچیس جون، 1975۔ تاریخ کا سیاہ دن۔ ایک ایسا لمحہ جب ہندوستان میں جمہوریت کو نہ صرف خطرہ تھا،  بلکہ اس کاگلا گھونٹ دیا گیا تھا۔ آدھی رات کے سناٹے میں آئین کو بیڑیوں میں جکڑ دیا گیا تھا، اختلاف رائے کو جرم قرار دیا گیا تھا، پریس پر پابندی عائد کر دی گئی تھی اور شہریوں کو موضوع بنا دیا گیا تھا۔

اگر رام ناتھ گوئنکا – انڈین ایکسپریس کےعظیم بانی اور 1975 کی ایمرجنسی کے دوران آمریت کے نڈر اور بے باک نقاد  – آج زندہ ہوتے اور اخبار کے مالکان اور مدیران کو خط لکھتے، جسے کئی لوگ ‘غیر اعلانیہ ایمرجنسی’ تصور کرتے ہیں، تو اس خط کا مضمون کیا ہوتا؟ ان کے الفاظ آج کی صورتحال کے لیےاخلاقی طور پر عمل کی دعوت اور میڈیا کی خوداطمینانی پر شدید الزام دھرتے۔

آئیے تصور کریں کہ وہ شخص جسے بی جی ورگیز نے سماج کے چوتھے ستون کا جنگجو کہا تھا، آج ہندوستانی پریس سے کیا کہتا۔


وطن عزیز کے تمام صحافیوں، مدیران اور میڈیا مالکان،

پچیس جون کیلنڈر میں درج کوئی تاریخ نہیں ہے؛ یہ ان تمام لوگوں کے خون اور سیاہی سے لکھی گئی ہے،جنہوں نے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کر  دیا۔ 1975 میں اسی دن ایمرجنسی کا اعلان کیا گیا تھا اور اس کے ساتھ ہی ہماری جمہوریہ کی تاریخ میں ایک سیاہ باب کا آغاز ہوا۔ ہم، انڈین ایکسپریس میں، اس لیے احتجاج نہیں کر رہے تھے کہ ہم فطری طور پر بہادر تھے، بلکہ اس لیے کر رہے تھے کہ ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔ آج میں اپنی یادداشت سے قطع نظر آپ کواس  لیے لکھ رہا ہوں،تا کہ آپ کو  ایک بار پھر یاد دلاسکوں کہ آج  کی فضا میں بھی ڈر سمایا ہوا ہے۔ آپ کے دروازے پر اقتدارکی دھمک دھیمی ہے، لیکن سنسر شپ زیادہ مہذب انداز میں ہے، دھمکی زیادہ ‘قانونی’ ہے۔

بنیادی اصول ایک ہی ہے؛ اختلاف رائے کو دبانا، سچائی کو دھندلا کرنا، پریس/میڈیا کو پروپیگنڈے کے ٹول کے طور پر استعمال کرنا۔ صحافیوں کو جیل رسید کرنے، چھاپے مارنے اور بدنام کرنے کی متعدد مثالیں ہیں، یہ کام کسی آئینی شق کے تحت نہیں بلکہ انتہائی احتیاط سے کیے جارہے ہیں۔ میڈیا، جو کبھی جمہوریت کا ایک ستون تھا، اب اکثر اقتدار کے سامنے جھک جاتا ہے، سرکاری اشتہارات کو کھونے یا تعزیری تحقیقات کا سامنا کرنے سے ڈرتا ہے۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ کتنی آسانی سےسچ بولنا سیڈیشن کا معاملہ بن گیا ہے، کس طرح عوام کے سوالوں کو ‘ملک کے خلاف’ سازش قرار دیا جاتا ہے، کیسے صحافیوں کو ایجنسیوں کے ذریعے ہراساں کیا جاتا ہے، کس طرح اشتہار دینے والوں  کو نافرمانی کی سزا دینے کے لیے ہتھیار بنایا جاتا ہے؟ 1975 میں ہمارے پاس اقتدار کے ظلم و جبر کی واضح وجہ تھی۔ آج ہم اس تاریک دور کوکیا نام دیں گے؟

ہمیں یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ایک پریس جو آزاد ہونے کا انتظار کرتی ہے، اس نے اپنی مرضی سے عمر بھر قیدی بننے کا انتخاب کیا ہے۔ اور  وہ مدیر جو سچائی سے منہ موڑتا ہے اس کو اس  کرسی پر بیٹھنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ یہ صرف ایک  حکومت یا ایک لیڈر کے بارے میں نہیں ہے۔ یہ اس جمہوریہ کی روح سے متعلق ہے اور یہ ہم سے سوال کرتا ہے کہ کیا ہم چند سرکاری اشتہارات کے لیے اپنے ضمیر کا سودا کرلیں گے؟ ادارتی آزادی کا سودا  اقتدار تک رسائی کے لیے کیا جانا چاہیے کیا؟

میں آپ سے پوچھتا ہوں، اور آپ کو اپنے آپ سے یہ بار بار پوچھنا چاہیے؛ کیا ہم اسٹیٹ کے اسٹینو گرافر یاٹائپسٹ ہیں یا  پھر جمہوریت کے مستقل نگراں؟ کیا آپ کی میراث حوصلے کی ہوگی یا ملی بھگت کی؟


آج ہم اقتدار کی تعریف وتوصیف میں جو سیاہی ضائع کر رہے ہیں وہ ایک دن ایسا داغ بن جائے گا جسے ہم کبھی مٹانہیں پائیں گے۔ ہماری موجودہ نسل کے مدیروں کے بارے میں کوئی یہ نہ کہے کہ جب جمہوریت پر حملہ ہوا تو انہوں نے آنکھیں بند کر لیں۔ اور اس لیے ہمارے پاس سچ بتانے اور دکھانے اور چھاپنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ اس لیے میں آپ سے گزارش کروں گا کہ آپ سچائی کے ساتھ کھڑے رہیں چاہے اس کے لیے آپ کو کوئی بھی خطرہ کیوں نہ اٹھانا پڑے۔


آئیے ہم اپنے نیوز روم میں ایک بڑی تختی پر لکھ دیں کہ اگر آج کے دور میں جمہوریت اندھیرے میں دم توڑ گئی تو میڈیا کو اس کی قبر کھودنے والے کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ ہم سب کو اس بات کی فکر ہونی چاہیے کہ پارلیامنٹ جیسے عظیم ادارے کو سائیڈ لائن کر دیا جاتا ہے اور اس میں ہونے والی بحث کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ اپوزیشن کو نہ صرف سیاسی بلکہ اخلاقی طور پر بھی شیطانی شکل میں پیش کیا جاتا ہے۔ وہ ایجنسیاں جو کبھی قانون کی حفاظت کرتی تھیں وہ سیاسی انتقام کا آلہ بن چکی ہیں۔

یہ سب کچھ 1975 کی سفاکانہ طاقت سے نہیں، بلکہ ایک خوفناک تبسم کے ساتھ ہوتا ہے – قانونی جواز میں لپیٹ کر، اورقوم پرستی کے نام پر اس کاجواز فراہم کیا جاتا ہے، استحکام کے طور پر فروخت کیا جاتا ہے۔ سب سے بڑا المیہ یہ نہیں ہے کہ حکمران شہنشاہوں جیسا سلوک کرتے ہیں۔ اقتدار ہمیشہ پرکشش ہوتا ہے۔

المیہ یہ ہے کہ ہم، عوام اور پریس یہ بھول گئے ہیں کہ احتجاج کرنا ہمارا فرض ہے۔ اور اس لیے میں چاہتا ہوں کہ آپ ایمرجنسی کو ماتم کرنے کے لیے نہیں بلکہ یاد دلانے کے لیے یاد کریں۔ یہ صرف مسز گاندھی کے بارے میں نہیں ہے۔ یہ ہر اس دورکے بارے میں ہے جہاں سچائی کو خاموش کر دیا جاتا ہے اور خوف کو انعام  سے نوازا  جاتا ہے۔ آپ سب اپنے دل کی گہرائیوں سے جانتے ہیں کہ جمہوریت صرف باقاعدہ انتخابات سے نہیں چل سکتی۔ یہ ہمت سے زندہ رہتی ہے، خصوصی طور پر بولنے کی ہمت سے، جب خاموشی محفوظ ہو اور انعام و اکرام  کا باعث ہو۔

اگر ہم ایمرجنسی کو ایک انتباہ کے طور پر یاد نہیں کرتے ہیں، تو ہم کسی دن اسے ایک پیشن گوئی کے طور پر یاد کریں گے جوپوری ہوئی ۔ ہمارے سامنے سوال یہ نہیں ہے کہ ہم ایمرجنسی میں ہیں یا نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم اسے وہ کہنے کی ہمت کھو چکے ہیں جو یہ ہے؟ آج ہندوستانی پریس کو دیکھ کر میرا دل ٹوٹ گیا ہے۔ ہم ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس 2024 میں 180 ممالک میں 151 ویں نمبر پر آ گئے ہیں، یہ ایک شرمناک درجہ بندی ہے جس نے ہمارے مجاہدین آزادی کو افسردہ کر دیا ہو گا۔

جس پیشے کے لیے میں نے اپنی زندگی وقف کی، وہ ہنسی مذاق  کا موضوع بن گیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ نوجوان فیکٹ چیکر ، فری لانس صحافی اور یوٹیوبرز وہی  کر رہے ہیں جو ہم بھی کرتے تھے، اقتدارکے سامنے سچ بولنا۔ وہ مین اسٹریم میڈیا کو اس کی بزدلی سے روبرو کرانے والا آئینہ بن گئے ہیں۔جس چوتھے ستون کی حفاظت کے لیے میں نے جدوجہد کی تھی، اب اسے خود سے ہی بچانے کی ضرورت ہے۔

امید کے ساتھ،

رام ناتھ گوئنکا

منوج کمار جھاراشٹریہ جنتا دل کے راجیہ سبھا ممبر ہیں۔

Next Article

پچاس سال بعد: ایمرجنسی سے زیادہ خطرناک ہے یہ غیر اعلانیہ ایمرجنسی …  

سال 1975کی ایمرجنسی تاریخ میں ایک  سیاہ باب کے طور پر درج ہے۔ لیکن آج کی غیر اعلانیہ ایمرجنسی کہیں زیادہ سنگین ہے، کیونکہ یہ جمہوریت کے لبادے میں جمہوریت کا گلا گھونٹ رہی ہے۔ انتخابات اب صرف ووٹ ڈالنے کے عمل تک محدود ہیں اور یہ عمل بھی کئی سطحوں پر داغدار ہے۔

نریندر مودی نے اندرا گاندھی کی طرح ایمرجنسی کا اعلان نہیں کیا، لیکن موجودہ ہندوستانی حکومت ایمرجنسی کا ہی ایک ورژن ہے۔ (فائل فوٹو)

سال 1975میں ہندوستان نے اپنی جمہوری تاریخ کے سیاہ ترین دور کا مشاہدہ کیا تھا۔دراصل، 25  جون 1975 کو، اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے ایمرجنسی کا اعلان کیا تھا- شہری آزادیوں کو معطل کر دیا گیا تھا، پریس سنسر شپ نافذ کر دی گئی تھی، سیاسی مخالفین کو جیلوں میں ڈال دیا گیا تھا اور آئین میں من مانی تبدیلیاں کی گئی تھیں۔ لیکن کم از کم یہ سب ایک سرکاری اعلان کے ساتھ ہوا تھا۔

اب ذرا ٹھہر کر ہم   موجودہ صورتحال کا مشاہدہ کرتے ہیں؛

بھلے ہی آج ایمرجنسی کا کوئی باضابطہ اعلان نہیں ہوا ہے، لیکن اس کی علامات اور نتائج بے حد ملتے جلتے ہیں۔ کئی حوالوں سے یہ دور اور بھی خطرناک معلوم ہوتا ہے۔ 1975 میں سنسر شپ کھلے طور پرنافذ کی گئی تھی۔ مدیران کو حکومت کی جانب سے احکامات صادر کیے جاتےتھے، اور اخبارات احتجاج کے طور پر خالی کالم شائع کرتے تھے۔ آج ایسا کوئی فرمان نہیں ہے، لیکن خوف اور دباؤ پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ صحافی سیلف سنسر شپ پر مجبور ہیں۔ حکومت پر تنقید کرنے والے میڈیا اداروں پر انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کےچھاپے، سرکاری اشتہارات میں کمی یا قانونی دباؤ عام سا واقعہ  ہے۔ یہ ایک ‘غیر اعلانیہ سنسرشپ’ ہے – خاموشی کی سازش۔

سال 1975میں جمہوری ادارے اقتدار کے ماتحت ہو گئےتھے، لیکن آج وہ زیادہ خطرناک انداز میں اقتدار کی کٹھ پتلیاں بن چکے ہیں۔ ای ڈی، سی بی آئی، این آئی اے جیسی ایجنسیاں قانون کے محافظ بننے کے بجائے حکومت پر تنقید کرنے والوں کو ڈرانے اور خاموش کرنے کا ذریعہ بن گئی ہیں۔ اپوزیشن لیڈروں سے لے کر طلباء، کسانوں، ادیبوں اور فنکاروں تک – ہر کوئی اسٹیٹ  کے  نشانے پر ہے۔

آئین اقتدار کا ہتھیار بن گیا ہے

آج اسٹیبلشمنٹ کو آئین کی شقوں کو معطل کرنے کی ضرورت نہیں۔ آج اسٹیبلشمنٹ آسانی سے آئین کی دفعات کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر سکتی ہے۔یو اے پی اے،سیڈیشن اور دہشت گردی سے متعلق قوانین کا استعمال کرتے ہوئے، حکومت اپنے ناقدین کو جیل میں ڈال سکتی ہے – وہ بھی بغیر کسی مقدمے کے اوربغیر سماعت کے۔ یہ نئی ایمرجنسی قانون اور جمہوریت کی نئی تشریح کی آڑ میں چھپی ہوئی ہے۔

سال 1975میں میڈیا یعنی اخبارات پر حکومت کا براہ راست کنٹرول تھا۔ آج، یہ کنٹرول میڈیا اداروں کی خریدو فروخت، کارپوریٹ اتحادوں اور سوشل میڈیا کی حکمت عملیوں کی سے ہوتا ہے۔ مکالمے کی جگہ شور نے لے لی ہے، اوربحث کی جگہ نفرت اور ٹرولنگ نے ۔

سال 1975کی ایمرجنسی کا سب سے بدنما چہرہ عدلیہ کی خودسپردگی میں نظر آتا تھا۔ آج عدالتیں سرکاری طور پر خاموش نہیں ہیں، لیکن بنیادی حقوق کی خلاف ورزی پر ان کی بے عملی اور سماعت میں تاخیر باعث تشویش ہے۔

ملک پر حاوی حکومت

حکومت اور ملک کے بیچ کا ایک  بڑا فرق  جو جمہوریت کو توانائی فراہم کرتا ہے، اس کو مکمل طور پر ختم کر دیا گیا ہے۔ حکومت چلانے والے کو فرد کو ملک کا مترادف قرار دے دیا گیا ہے اور یہ ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جا رہی۔ اس فرد خاص کے کام کرنے کے انداز پر تنقید کو بھی ملک کی تنقید قرار دیا جا رہا ہے۔ ناقدین کو ‘غدار’ بتایا جا رہا ہے۔

سال1975کی ایمرجنسی آمریت کی بازگشت تھی۔ آج کا دور آمریت پسندی کا ہے جس میں اکثریتی قوم پرستی کا رنگ چڑھا ہوا ہے جو مذہبی پولرائزیشن کے ذریعے معاشرے کو تقسیم کرنے اور احتجاج کی آواز کو ‘غداری’ قرار دے خارج کرنے والی  پالیسی کو حکومتی پالیسی بنا کر کام کر رہا ہے۔ یہ صورتحال جمہوریت کے لیے اور بھی خطرناک ہے۔

ایمرجنسی اس وقت زیادہ خطرناک ہوتی ہے جب وہ خود کو ایمرجنسی کہتی ہی نہیں۔ جب انتخابات ہوتے ہیں تو پارلیامنٹ کام کرتی ہے، نعرے لگائے جاتے ہیں اور یہ وہم پیدا کیا جاتا ہے کہ جمہوریت زندہ ہے۔ لیکن اس ‘زندہ ہونے’ کی حقیقت یہ ہے کہ جن اقدار پر ہمیں بحیثیت قوم فخر تھا وہ ایک ایک کر کے تباہ کی جارہی ہیں۔

ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جو اپنے جمہوری تنوع، تکثیریت اور آئینی اقدار سے پہچانا جاتا ہے۔ لیکن گزشتہ دہائی میں حکومت جمہوریت کی روح کو تباہ کر رہی ہے جس پر آزاد ہندوستان کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ کیا یہ بالکل واضح نہیں ہے کہ حکومت کی پالیسیاں اور اعلیٰ لیڈروں کی تقریریں اکثر اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف پولرائزیشن پیدا کرتی ہیں۔ پسماندہ گروہوں، خاص طور پر دلت اور پسماندہ طبقات کو دوئم درجے کا سمجھاجاتا ہے۔ سی اے اے-این آر سی، لو جہاد قانون، مساجد پر تنازعات اور بلڈوزر کی سیاست – یہ سب ایک خاص نظریہ کو فروغ دیتے ہیں، جو آئین کی مساوات اور سیکولر فطرت کے خلاف ہے۔

سال 1975کی ایمرجنسی تاریخ کے ایک سیاہ باب کے طور پر درج ہے۔ لیکن آج کی غیر اعلانیہ ایمرجنسی اس سے بھی زیادہ سنگین ہے کیونکہ یہ جمہوریت کا لبادہ اوڑھ کر جمہوریت کا گلا گھونٹ رہی ہے۔ انتخابات اب صرف ووٹ ڈالنے کے عمل تک محدود ہیں اور یہ عمل بھی کئی سطحوں پر داغدار ہے۔ یہ اس کا سب سے بڑا المیہ ہے۔

آج، جب ہم اعلانیہ ایمرجنسی کے 50 سال مکمل ہونے پر اس دور کو یادکر رہے ہیں، تو ہمیں آزاد ہندوستان کی پیدائش سے پہلے کے اس عزم کا  اعادہ کرنا چاہیے کہ ہم جمہوریت اور آزادی کی حفاظت کریں گے – خواہ اس کے لیے کوئی بھی قیمت کیوں نہ ادا کرنی پڑے۔ یہ عزم محض ایک جذبہ نہیں  بلکہ ایک پرعزم معاشرے کا مشترکہ عہد ہے۔

سچ کہوں تو یہ ایک تنبیہ کے ساتھ ساتھ اپیل بھی ہے کیونکہ جمہوریت ہمیں اسٹیبلشمنٹ کا تحفہ نہیں بلکہ ایک ایسا حق ہے جو جدوجہد، قربانیوں اور بے مثال حوصلے سے حاصل کیا گیا ہے اور جس کے لیے شہریوں کو لگاتار اور مسلسل بیدار رہنے کی ضرورت ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی آمریت نے اپنی جڑیں جمانے کی کوشش کی ہے تو کبھی ترقی کی آڑ میں، کبھی قوم پرستی کی آڑ میں اور کبھی مذہب کی آڑ میں۔ لیکن ہم یہ بخوبی جانتے ہیں – جہاں سوال پوچھنا جرم بن جائے، جہاں اختلاف رائے کو گناہ سمجھا جائے، اور جہاں سچ بولنے پر جیل رسید کیا جائے – وہاں جمہوریت خطرے میں ہے۔

ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ آزادی نازک ہوتی ہے۔ اور ظلم کے سامنے خاموشی بذات خود ظلم ہے۔ ہم زبان، ذات پات، نظریے میں مختلف ہو سکتے ہیں، لیکن جو چیز ہمیں متحد کرتی ہے وہ ہمارا آئین، ہماری جمہوریہ اور آزادی سے ہماری محبت ہے۔

پچیس جون 1975کے جمہوریت کےاس سیاہ باب کو یاد کرتے ہوئے ہمیں موجودہ جمہوریت پر چھائے ہوئے سیاہ بادلوں سے جوجھنا ہو گا اور عہد کرنا ہو گا کہ ہر ظلم کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہونے والوں میں ہمارا نام لکھا جائے۔

منوج کمار جھاراشٹریہ جنتا دل کے راجیہ سبھا ممبر ہیں۔