میں موہن داس کرم چند گاندھی اب بابائے قوم نہیں کہلانا چاہتا…

آج ملک کو حقیقی  باپ کی ضرورت ہے، میرے جیسے صرف نام کے باپ سے کام نہیں چلنے والا ہے۔ آج بڑے-بڑے فیصلے ہو رہے ہیں۔ 56انچ کا سینہ دکھانا پڑ رہا ہے۔ ایسا باپ جو پبلک کو کبھی تھپڑ دکھائے تو کبھی لالی پاپ، اوراپنے طے کئے […]

آج ملک کو حقیقی  باپ کی ضرورت ہے، میرے جیسے صرف نام کے باپ سے کام نہیں چلنے والا ہے۔ آج بڑے-بڑے فیصلے ہو رہے ہیں۔ 56انچ کا سینہ دکھانا پڑ رہا ہے۔ ایسا باپ جو پبلک کو کبھی تھپڑ دکھائے تو کبھی لالی پاپ، اوراپنے طے کئے راستے پر ہی ملک کو ٹھیلتا جائے۔ میں ایسے بابائے قوم کی ضرورت کیسے پوری کر سکتا ہوں؟

گجرات کے دانڈی میں مہاتما گاندھی کا مجسمہ ، فوٹو بہ شکریہ : ٹوئٹر/نریندر مودی

گجرات کے دانڈی میں مہاتما گاندھی کا مجسمہ ، فوٹو بہ شکریہ : ٹوئٹر/نریندر مودی

پیارے ہم وطنوں  بھائیوں اور بہنوں،

آج میں ڈیڑھ سو سال کا ہو گیا ہوں۔ اپنے جینے کی خواہش سے بھی ڈیڑھ گنا۔ پیارے ناتھو رام کی گولی کھانے کے بعد بھی بہتر سال اور۔ یہ سب آپ کے پیار اور فیاضی  کا ہی معجزہ ہے۔ اس کے لئے میں آپ کا کتنا احسان مند ہوں، اس کو بتا نہیں سکتا ہوں۔لیکن، اسی لئے میں ایک لمحے کو بھی یہ نہیں بھول سکتا ہوں کہ آپ کے مفاد میں کیا ہے؟ اور جو مجھے آپ کے مفاد میں لگتا ہے، اس کے لئے بولنے سے مجھے کوئی طاقت روک نہیں سکتی ہے، نہ اس دنیا کی اور نہ اس دنیا کی۔

میری ضد کتنی مشہور ہے، وہ تو آپ جانتے ہی ہیں۔ تو میں تو اپنی طرف سے آپ کے مفاد کی بات مان‌کر ہی مانگ رہا ہوں، پر آپ چاہیں تو میری ضد مان لیجئے۔ جنم دن ڈیڑھ سوواں بھی ہو تو کیا، جنم‌کے دن تو انسان بچہ ہی ہوتا ہے۔آپ چاہے اس کو میرے بچپن کی  ضد ہی مان لیجئے۔ پر مان لیجئے اور فوری طور سے’ راشٹرپتا’ کے عہدے سے میرا استعفیٰ قبول‌کر لیجئے۔آج سے، بس ابھی سے، نہ راشٹرپتا، نہ باپو۔ فادر آف انڈیا تو ہرگز نہیں۔ میں تو کہوں‌گا، گاندھی کے آگے جی لگانے کی بھی ضرورت کیا ہے؟ ماں باپ نے نام دیا تھا، موہن داس۔ لینا ہو تو وہی نام لیں، حالانکہ اب اس کی بھی ضرورت کیوں پڑنے لگی؟ نام ہی نہیں ہوگا، تو گاندھی-نہرو خاندان کے چکر میں بدنامی بھی تو نہیں ہوگی۔ اب کم سے کم راشٹرپتا نہیں، پلیز!

اب راشٹرپتا نہیں سے آپ یہ مت سمجھیے گا کہ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ اب سے کوئی راشٹرپتا ہی نہیں ہو۔ میں راشٹرپتا ہو گیا بس، اس کے بعد کوئی راشٹرپتا ہی نہیں ہو، ایسا میری رائے ہرگز نہیں ہے۔ میں اپنے ملک اور عوام کو اب اتنا تو جانتا ہی ہوں کہ یہ سمجھنے میں غلطی نہیں کر سکتا کہ آج ملک کو باپ کی پہلے سے کم نہیں زیادہ ضرورت ہے۔ملک کو آج باپ کی ہی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ پہلے کے ٹائم میں تو پھر بھی چچا، بڑے ابا، ماموں، خالہ، تائی، بہن، بھائی وغیرہ-وغیرہ بھی ہوتے تھے اور باپ سے اتنا کام نہیں پڑتا، پر سنگل فیملی کے اس زمانے میں تو ایک باپ کی اور صرف باپ کی ہی ضرورت ہے۔

سچ پوچھیے تو آج حقیقی  باپ کی ضرورت ہے۔ میرے جیسے صرف نام کے باپ سے کام نہیں چلنے والا ہے۔ آج بڑے-بڑے فیصلے ہونے اور ہو رہے ہیں۔56 انچ کا سینہ دکھاناپڑ رہا ہے۔ عوام کے مفاد کے لئے اس کو ایسے راستوں پر لے جانا پڑ رہا ہے، جن پر چلنے میں اس کو اپنا مفاد دکھائی ہی نہیں دے رہا ہو۔نوٹ بندی کے لئے پورے ملک کو لائن میں کھڑا کرنا پڑتا ہے۔ کشمیر کے بھلے کے لئے کشمیر کو کھلا جیل بنانا پڑتا ہے۔ کسانوں کو زیادہ خودکشی کرنے سے بچانے کے لئے، ان کی خودکشی کے اعداد و شمار کو، عورتوں کے خلاف جرائم کو کم کرنے کے لئے ان کے خلاف جرم کے اعداد و شمار کو، نوجوانوں کی ہمت ٹوٹنے نہ دینے کے لئے بےروزگاری کے اعداد و شمار وغیرہ کو ان سے ہی چھپانا پڑتا ہے۔

اور ہر حال میں ملک کو عظمت کے راستے پر بڑھاتے رہنے کے لئے، اس کی آنکھوں پر بیل کی آنکھوں پر باندھنے والے چشمے کی طرح پاکستان/کشمیر/مسلمان/ گھس پیٹھیے/مندر/گائے وغیرہ کا چشمہ لگائے رکھنا ہوتا ہے۔ پبلک کو ناراض کرنے کی بھی پرواہ نہ کرکے اس کے مفاد میں اتنا سب تو کوئی باپ ہی کر سکتا ہے۔ایسا باپ جو پبلک کو کبھی تھپڑ دکھائے تو کبھی لالی پاپ دلائے، پر اپنے طے کئے راستے پر ہی ملک کو ٹھیلتا جائے۔ میں ایسے راشٹرپتا کی ضرورت کیسے پوری کر سکتا ہوں؟ ایسے ملک کے لئے میرے جیسا باپ کس کام کا؟

میں تو ضد پکڑ بھی لوں تو اپنی بھوک ہڑتال سے لوگوں کو پگھلانے کے سوا مجھے کچھ نہیں آتا ہے۔ مجھے اپنے پیارے ملک کے پاؤں میں زنجیر بن‌کر نہیں پڑے رہنا ہے۔ مہربانی کرکے راشٹرپتا کے عہدے سے میرا استعفیٰ فوراً منظور کریں۔ آج اور ابھی۔مجھے پتہ ہے کہ آپ قانونی دلیلوں کی آڑ میں معاملہ ٹالنے کی کوشش کریں‌گے۔ کہیں‌گے کہ راشٹرپتا کا تو کوئی عہدہ ہی نہیں ہے، نہ ملک کے قانون میں اور نہ آئین میں۔ جیسے شہید بھگت سنگھ وغیرہ، ویسے ہی آپ راشٹرپتا، بنا کسی لکھت-پڑھت کے۔

اور جو عہدہ ہی نہیں ہے، اس سے کیسے تو کسی کا استعفیٰ کیسے منظور کیا جا سکتا ہے اور کیسے کسی کی تقرری کی جا سکتی ہے؟ ہاں! ملک ہی کسی کو باپ کہنے لگے تو کوئی کیا کر سکتا ہے؟ویسے بھی ملک کے کسی کو باپ کہنے سے فرق بھی کیا پڑتا ہے؟ یوم پیدائش، یوم وفات پر مالا-والا چڑھانے، راستوں-عمارتوں کا نام-وام رکھنے یا زیادہ نوٹوں پر فوٹو چھاپنے کی ہی تو بات ہے۔ نہ ملک کے لئے باپ کے راستے پر چلنے کی کوئی مجبوری ہوتی ہے اور نہ ہر چیز کے لئے باپ سے پوچھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

چچا-بڑے ابا والے زمانے کو چھوڑ دیں تو بہتر سال میں اور کسی نے، کسی چیز کے لئے پوچھا تھا؟ پھر چلنے دیجئے جیسا چل رہا ہے۔ ملک کی خوشی کے لئے راشٹرپتا اتنےمیں کیا خوش بھی نہیں رہ سکتا۔ چلتی گاڑی میں ڈنڈا اڑانے کا کیا فائدہ؟ اینٹی-نیشنلوں کے حوصلے کیوں بڑھانا وغیرہ-وغیرہ۔پر میں کوئی دلیل نہیں سنوں‌گا۔ راشٹرپتا کے تمغہ سے اپنا پیچھا چھڑاکر رہوں‌گا۔ راشٹرپتا کی کرسی خالی کرکے رہوں‌گا۔ اب پلیز یہ مت کہیے‌گا کہ اب ہی کیوں؟ بہتر سال بعد ہی کیوں؟ جس ملک نے اتنے سال سے سننا بند کر رکھا تھا، اس کا باپ کہلوانے سے پیچھا چھڑانے کی اب اتنی بے چینی کیوں؟

جھوٹ کیوں کہوں، اس میں میری بھی کچھ کمزوری رہی ہے۔ مجھے کبھی صرف اپنی چلانا آیا ہی نہیں۔ اپنی کم چلائی، دوسروں کی زیادہ سنی۔ اس لئے سمجھ ہی نہیں پایا کہ کب ملک نے مجھ سے پوری طرح پیچھا چھڑا لیا اور راشٹرپتا کو تصویر بناکر دیوار پر ٹانگ دیا۔منابھائی نے خبردار‌کیا، تب مجھے خیال آیا کہ واقعی اب ملک کو میری ضرورت نہیں ہے۔ پھر بھی راشٹرپتا کہلانے کی میری لالچ  نہیں چھوٹی۔ پھر ایک گجراتی نے مجھے واپس گجراتی بنا دیا۔ گوڈسے کے نام کے آگے جی لگا دیا، ساورکر کو سرکاری طور پر ویر بنا دیا اور میرے ہاتھ میں لاٹھی کی جگہ جھاڑو پکڑا دیا۔

پھر بھی پانچ سال اسی مغالطے میں رہا کہ ملک کو صاف  تو کرا رہا ہوں، ملک کے کسی کام تو آ رہا ہوں۔ پر اب وہ کام بھی ختم۔ پاخانہ کرنے کو جگہ ہو نہ ہو، پر ملک کھلے میں پاخانہ کرنے سے آزاد! اب اور کیا دیکھنے کو رکوں؟ اب اور نہیں۔ اب تو جانے دو۔

سابرمتی آشرم میں وزیر اعظم نریندر مودی(فوٹو : پی ٹی آئی)

سابرمتی آشرم میں وزیر اعظم نریندر مودی(فوٹو : پی ٹی آئی)

عمران خان سے لےکر دیسی اپوزیشن  تک میرے استعفیٰ کو حکومت کی مخالفت سے جوڑنے کی کوشش کوئی نہ کرے۔ کشمیر کے لاک ڈاؤن اور گرفتاریوں پر استعفیٰ دینا ہوتا، تو میں نے ایمرجنسی میں ہی دے دیا ہوتا۔ لنچنگ، این آر سی، شہریت ترمیم بل وغیرہ کی مخالفت سے بھی میرے استعفیٰ کا کوئی تعلق نہیں ہے۔اصل میں میرے استعفیٰ کا کسی کی مخالفت سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ انگریزی راج کے بعد کسی حکومت کی مخالفت کرنے میں میں نہیں پڑا۔ میرا استعفیٰ مثبت ہے۔ میں تو کہوں‌گا کہ میرا استعفیٰ ملکی مفاد میں ضروری ہے۔

ہر روز جواہرلال کی غلطیاں درست کی جا رہی ہیں۔ اس سے پہلے کہ میری غلطیاں درست کرنے کا نمبر آئے، میں خودہی راشٹرپتا کے عہدے سے الگ ہو جاتا ہوں۔ حکومت کو راشٹرپتا کی غلطیاں درست کرنے میں ہچک نہیں ہونی چاہیے۔ویسے بھی جب ملک کو سچ مچ دن میں اٹھارہ-اٹھارہ گھنٹے کام کرنے والا باپ مل گیا ہے، اور ایسا-ویسا نہیں ٹرمپ جی کے ذریعے سلیکٹیڈ اور عوام کے ذریعے الیکٹیڈ، اس کے بعد میرے راشٹرپتا بنے رہنے کی کیا تو ضرورت ہے اور کیا جوازہے؟کتابوں میں تو کہا ہی گیا ہے کہ وقت سازگار نہ  ہو تو خاموش ہوکر بیٹھ رہنا ہی اچھا ہوتا ہے۔ قسم سے کہتا ہوں کہ میرا استعفیٰ، مخالفت میں بولنا نہیں، وقت گزر جانے پر خاموش ہوکر بیٹھ رہنا ہے۔ بس میرا استعفیٰ منظور کریں، مجھے سابق-راشٹرپتا ہو جانے دیں اور کم سے کم ڈیڑھ سو سال کے بعد تو لمبی تان‌کر سو جانے دیں۔

شکریہ

آپ کا ہی

 موہن داس

(راجیندر شرما لوک لہر ہفتہ وار کے مدیر ہیں۔)